آج مغرب‘ کرئہ ارض پر کسی جغرافیائی خطے کا نام نہیں‘ بلکہ ایک فکروفلسفے‘ ایک رویّے اور ایک استحصالی عفریت کا نام ہے‘ جو بقیہ ساری دنیا کو اپنی چراگاہ اور شکارگاہ تصور کرتا ہے۔ پیش نظر کتاب مغرب اور عالمِ اسلام کے مصنف خرم مراد کا مغرب سے تعلق بالواسطہ بھی تھا اور بلاواسطہ بھی۔ پاکستان میں انجینیرنگ کی تعلیم کے بعد بغرض مزید تعلیم وہ امریکا گئے اور اسلام کی نشرواشاعت کے لیے عرصے تک انھوں نے انگلستان میں بھی قیام کیا۔ اس طرح انھوں نے مغرب اور مغربی تہذیب کا صرف دُور ہی سے جلوہ نہیں دیکھا‘ بلکہ اس کے قلب و دماغ میں داخل ہوکر اس کا مشاہدہ کیا۔ لیکن وہ اس سے مرعوب نہیں ہوئے‘ بلکہ اپنے اسلامی ذہن سے اس کا مطالعہ کر کے اپنی گہری ایمانی وابستگی کی روشنی میں انھوں نے اس کا تجزیہ کیا۔
مغرب اور عالمِ اسلام اُن کے ۱۶ مضامین کا مجموعہ ہے‘ جن میں سے بیش تر ماہنامہ ترجمان القرآن لاہور میں شائع ہوچکے ہیں۔ پروفیسر سلیم منصور خالد نے انھیں بڑے سلیقے سے مرتب کیا ہے اوربعض مقامات پر تصریحات اور حواشی لکھے ہیں۔ کتاب کے آخر میں تفصیلی اشاریے سے قاری کو موضوعات تک رسائی میں بڑی آسانی ہوجاتی ہے۔
خرم مراد کا نقطۂ نظر (thesis) یہ ہے کہ اپنی تمام روشن خیالی اور ’معروضی‘ اندازِ تحقیق و تحریر کے باوجود یورپ (مغرب) کا ذہن آج بھی ازمنۂ وسطیٰ کے متعصب اور جاہل عیسائیوں سے مختلف نہیں‘ جنھوں نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم اوراسلام کے بارے میں جھوٹ اور مکر کے ہرہتھیار کو استعمال کر کے ہرزہ سرائی کی ایک طویل داستان رقم کی تھی۔ آج کے مغربی محققین‘ معروضیت اور متانت اور سائنسی طریق تجزیہ و تحقیق کا لبادہ اُوڑھ کر اسلام کی ایک ایسی تصویر پیش کررہے ہیں‘ جو نہ صرف غیرمسلموں کے ذہن میں اسلام سے ایک تعصب اور نفرت پیدا کرنے میں فعال ہے‘ بلکہ نسلی مسلمانوں کی نژادِ نو کے دل میں بھی اپنے آبائی دین سے برگشتگی کا باعث بن رہی ہے۔
عالمِ اسلام کے خلاف مغرب کی یہ جنگ‘ سیاسی اور معاشی بھی ہے‘ اور تہذیبی اور علمی بھی۔ خرم مرحوم کو اس کا واضح شعور تھا۔ ’قانونِ توہینِ رسالت‘ کے عنوان سے وہ کہتے ہیں کہ اس مسئلے پر مسلمانوں کے سخت ردِّعمل پر مغرب کا شوروغوغا اس امر کا غماز ہے کہ اُسے ہمارے احساسات کی کوئی پروا نہیں‘ یا وہ جانتا ہے کہ آں حضوؐر کی ذاتِ مبارکہ ہی ہماری قوت کا [سرچشمہ]… ہماری وحدت کا راز ہے (ص ۳۲)۔ بقولِ اقبال‘ ہمارے جسد میں رسالت ہی کی وجہ سے جان ہے۔ دنیا میں ہمارا وجود‘ ہمارا تشخص‘ ہمارا دین و آئین ذاتِ رسالت مآبؐ کی بنا پر ہے‘ اور حضورِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مُطّہرہ پر حملہ کرکے اور پھر اس پر ہمارے ردِّعمل پر ہمیں مداہنت کی تلقین کرکے دراصل مغرب اس تعلق کو کمزور کرنا چاہتا ہے۔
’نئی صلیبی جنگ اور دینی مدارس‘ کے عنوان سے انھوں نے یہ چشم کشا انکشاف کیے کہ برعظیم ہندوپاکستان میں ۹۵-۱۹۹۴ء میں تقریباً ایک ساتھ دینی مدارس کے خلاف کارروائیوں کا آغاز ہوا۔ یہ محض اتفاق نہیں‘ بلکہ اس کے ڈانڈے کہیں دُور جاکر ملتے ہیں۔ ہندستان میں ندوہ (لکھنؤ)‘ دارالعلوم (دیوبند) اور دوسری درس گاہیں اس کا ہدف بنیں‘ اور پاکستان میں بھی اہلِ مغرب اور اُن کے حلیف حکمرانوں نے ان مدرسوں کو فرقہ واریت اور دہشت گردی کا گڑھ قرار دیا۔ ’مغرب کے باج گزار حکمراں کیوں یہ کارروائیاں کر رہے ہیں؟ اس لیے کہ اُنھیں یہ احساس ہے کہ یہی ادارے‘ مسلمانوں کے تشخص کو باقی رکھنے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں‘ اوراسلام سے سرشار یہی ’بنیاد پرستی‘ اُن کے لیے خطرہ ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ مغرب‘ جو انسانی حقوق‘ قانون کی بالادستی‘ مہذب معاشرے اور ’سول سوسائٹی‘ کی بات کرتا ہے‘ خود اپنے اندر خوف ناک دہشت گردوں کو پالتا ہے۔ ۱۹۹۵ء میں اوکلاہوما کے بم دھماکے میں‘ جس میں ۱۹۰ سے زیادہ جانوں کا اتلاف ہوا‘ اور شہر کے وسط میں بڑی تباہی پھیلی‘ شروع میں الزام مسلمانوں ہی پر لگایا گیا۔ مگر مجرم ایک ’سفیدفام، اصلی، نسلی امریکی‘ نکلا‘ جو اپنے جیسے ہزاروں امریکیوں پر مشتمل ایک منظم گروہ کا رُکن ہے۔ خرم کہتے ہیں کہ اب ’’اسلام، فنڈامنٹل ازم اور دہشت گردی‘‘ کی یہ خودساختہ تکون ختم ہونی چاہیے۔ مغرب اور اسلام کے درمیان اس طرح کی محاذ آرائی سے کسی کو فائدہ نہیں ہوگا۔
مگر یہ محاذ آرائی نئی نہیں۔ اکتوبر ۱۹۹۱ء میں میڈرڈ (اسپین) میں نام نہاد ’مشرقِ وسطیٰ امن کانفرنس‘ میں عرب ممالک کو اسرائیل کے آگے گھٹنے ٹیکنے اور نام نہاد ’معاہدۂ امن‘ پر مجبور کیا گیا۔ اس طرح امریکا کی ’نیوورلڈ ڈپلومیسی‘ نے مسلمانوں کو ذلّت کا ایک اور جام پینے پر مجبور کردیا۔ اس ’معاہدے‘ کے لیے اس مخصوص شہر اور ملک کا انتخاب کیوں کیا گیا؟ خرم بتاتے ہیں کہ اس حادثے سے ٹھیک ۵۰۰ سال قبل نومبر ۱۴۹۱ء میں اسپین کی آخری عرب مسلم ریاست غرناطہ کے حکمراں ابوعبداللہ محمد نے عیسائی فاتح فرڈی نینڈ چہارم اور ملکہ ازابیلا کے آگے اسی طرح گھٹنے ٹیک دیے تھے‘ اور اس طرح حصولِ امن کے نام پر اسپین سے مسلم اقتدار کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ اندلس تا فلسطین‘ عبرت کے سفر میں وہ فلسطین‘ لبنان (صابرہ‘ شاتیلا‘ قانا ۱۹۹۶ئ) میں لاکھوں بے گناہوں کے قتل کی اندوہناک داستانیں سناتے ہیں۔
دنیا کی ترقی یافتہ ان ’مہذب‘ اقوام کے نزدیک جو ’اُن‘ کے گروہ سے نہیں‘ وہ انسان ہی نہیں۔ امریکی صدر جارج واشنگٹن کے بقول: ’’[ریڈ] انڈینوں میں کوئی چیز انسانی نہیں‘ سواے انسانی شکل کے‘‘۔ مہذب سفیدفام امریکیوں نے چند ہی سالوں میں ۲۰لاکھ سرخ ہندیوں کی آبادی گھٹاکر ۲ لاکھ کردی‘ اورانھیں بھی جنگلوں اور صحرائوں میں دھکیل دیا گیا۔ پھر بیسیویں صدی کے اواخر میں عین یورپ کے قلب میں بوسنیا کے مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہوا‘ وہ آج کے مغرب کی غیرجانب دار‘ مہذب پالیسی کا بھانڈا پھوڑ دینے کے لیے کافی ہے۔ کمیونزم کے زوال کے بعد یوگوسلاویہ منہدم ہوا اور اس کی ’خودمختار‘ ریاستیں آزاد ہوئیں۔ سربیا‘ کروشیا اورسلووینیا تو اقوام متحدہ اور یورپی برادری کی سرپرستی اور تحفظ میں آزاد ہوئیں‘ لیکن بوسنیا نے جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی اعلانِ آزادی کیا تو سربیا کے یونانی آرتھوڈوکس چرچ حکمرانوں اورعوام نے وہاں قتل و غارت اور تاراج کا وہ بازار گرم کیا‘ جس کی مثال حالیہ تاریخ میں کم ہی نظر آتی ہے۔ مسلمان آبادیوں کا محاصرہ کر کے شہریوں کو جانوروں کی طرح‘ بلکہ بدتر انداز میں باڑوں میں قید کرکے ذبح کیا گیا‘ لاشوں کا مُثلہ کیا گیا اور خواتین کی بے حرمتی۔ مدرسے‘ کتب خانے اور ثقافتی مرکز تباہ کردیے گئے اور صدیوں کا قیمتی ورثہ‘ جو دراصل ساری انسانیت کی میراث تھا‘ راکھ کا ڈھیر بنا دیا گیا۔ یہ سب کرئہ ارض کے کسی دُورافتادہ‘ بعید گوشے میں نہیں‘ یورپ اور اقوامِ متحدہ کی آنکھوں کے سامنے ہوا۔ خرم مراد یہ ہولناک داستانیں سنانے کے بعد کہتے ہیں: ’’ہم گڑے مُردے اُکھاڑ کر نفرت کا الائو نہیں سلگانا چاہتے۔ ہم چاہتے ہیں کہ انسانوں کے درمیان امن و آشتی اور محبت عام ہو… سارے انسان ایک خدا کے بندے بن کر‘ اس کا خاندان بن کر ساتھ رہیں‘‘۔(ص ۱۶۶)
بدقسمتی سے بیش تر مسلم ممالک اور ان کے حکمرانوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ یورپ/مغرب سے تعلق (اور وہ بھی زبردستی کا فدویانہ تعلق) قائم کیے بغیر ہم گزارا نہیں کرسکتے۔ اس کی ایک مثال خود پاکستان ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’پاکستان کو بنے ہوئے مشکل سے دوماہ ہوئے تھے کہ حکومت نے میرلائق علی کو پاکستان کے ایلچی کے طور پر امداد کے لیے امریکا بھیجا۔ اور اس طرح پاک امریکی تعلقات کی وہ بنیاد پڑی جس کے نتیجے میں پاکستان امریکا کی ایک باج گزار ریاست بن کر رہ گیا۔ فاضل مصنف کے اس خیال سے تواختلاف کیا جاسکتاہے کہ ’’پاکستان… بنا ہی ایسی کس مپرسی کے عالم میں تھا کہ اس کے لیے شاید کسی بڑے ملک کی مدد حاصل کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا…‘‘ (ص ۱۸۱)۔ ۲ ارب ڈالر کے سوال کوا مریکی حکومت نے جس طرح رَد کیا‘ اس کے بعد بھی پاکستان زندہ رہا‘ اور کسی طرح کی شکست و ریخت سے دوچار نہ ہوا۔ لیکن ان کی یہ رائے بالکل درست ہے کہ جس ناعاقبت اندیشی‘ ملک و ملّت کے مفادات سے لاپروائی اور بے مثال فدویانہ خودسپردگی کے ساتھ پاکستان کوامریکا کے ساتھ فوجی معاہدوں میںباندھنے اور اقتصادی امداد کی بھیک حاصل کرنے کی حکمت عملی اختیار کی گئی‘ بہرحال اس کی چنداں ضرورت نہ تھی‘‘(ص ۱۸۱)۔ دفاع‘ معاش اور ثقافت و تہذیب‘ سبھی شعبوں میں خودکفالت کے بغیر ہم عزت کی زندگی نہیں گزار سکتے۔
مغرب کے ساتھ ہمارے تعامل میں ایک مسئلہ، ’مسلم مسیحی تعلقات‘ کا بھی ہے۔ اس مسئلے پر یورپ کے پروٹسٹنٹ اور کیتھولک چرچوں نے جو رپورٹ تیار کی تھی‘ اُس میں ’برابرکے بدلے کی بنیاد‘ پر یہ کہا گیا تھا کہ اگر ایک عیسائی‘ مسلمان بن سکتا ہے‘ تو ایک مسلمان کیوں عیسائی نہیں بن سکتا؟ اسی طرح یہ کہا گیا کہ توہینِ رسالتؐ پر مسلمان جو شور مچاتے ہیں‘ وہ آزادیِ اظہار کے منافی ہے۔ خرم کہتے ہیں کہ ہرمذہب اور معاشرے کے کچھ اپنے بنیادی مزعومات ہوتے ہیں‘ جن کی خلاف ورزی گوارا نہیں کی جاتی۔ مثلاً یورپ میں یہودیت یا ’سامیّت‘ کے خلاف کچھ کہنا برداشت نہیں کیا جاتا۔ وہاں بہت سے ملکوں میں خواتین کو حجاب کا حق‘ ذبیحہ‘ نمازِ جمعہ کا وقفہ قابلِ قبول نہیں ہے۔ وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ بوسنیا ہرذی گووینیا میں مسلمانوں کے اجتماعی قتل‘ خواتین کی اجتماعی بے حُرمتی اور ان کی اقتصادی بربادی کے جو واقعات ہوئے‘ اُن پر ’عیسائی یورپ‘ کا ردِّعمل کیا رہا؟ کیا یہ برابری کی بنیاد پرانصاف ہے؟
مغرب نے مسلم دنیا پر جو کاری زخم لگائے ہیں‘ اور جس طرح اُسے تاراج کیا ہے‘ اور کر رہا ہے‘ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے کیا حکمت ِ عملی اختیار کی جائے؟ کیا عسکری مقابلہ اس کا حل ہے؟ خرم کا جواب نفی میں ہے۔ دوسرا حل بقاے باہمی اور کسی تصادم کے بغیر اپنے ملکوں/معاشروں میں اسلام کے مطابق اداروں کی تشکیل ہے۔ لیکن وہ محسوس کرتے ہیں کہ خود مغرب اس بقاے باہمی کے لیے تیار نہیں‘ اور مسلم ملکوں کی اکثریت میں جو برسرِاقتدار طبقے ہیں‘ وہ خود بھی مغرب کے مُطیع مُہرے ہیں۔ مسلمانوں کو اس صورت حال کے پیش نظر مغرب کے ساتھ مشترک اُمور تلاش کرکے ایک داعیانہ روش اختیار کرنی چاہیے‘ اور اجتہاد فکرونظر کے ذریعے خود اپنی اصلاح کے لیے ایک لائحۂ عمل مرتب کرنا چاہیے۔
مسلمان یہ یقین رکھتا ہے کہ اس نے اللہ سے ایک ’ عہدِ وفا‘ کیا ہے۔ اس عہد کی تکمیل ہی میں ہماری بقا اور ترقی ہے۔ ’’دین جس راستے پر لے جاتا ہے‘ معاشی انصاف اور خوش حالی اس کے لازمی نشان ہاے منزل ہیں‘‘۔ لیکن یہ فی نفسہٖ نصب العین نہیں۔ ہماری آرزوئیں کیا ہیں؟ ’’ہم اُن جیسے بن جائیں‘ ہمیں اُن کا قرب حاصل ہو‘ ہم اُن کی داد و تحسین کے مستحق ٹھیریں‘ جو ترقی یافتہ اورمہذب کہلاتے ہیں___ حالاں کہ انھوں نے ہی زمین کو فساد اور ظلم و جور سے بھردیا ہے…‘‘
خرم کہتے ہیں کہ ’’آج اُمت کے لیے عصرِحاضر کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کاایک ہی طریقہ ہے… وہ اللہ تعالیٰ کی… اُس پکار پر… لبیک کہے: ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو‘ اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہو‘ جب کہ رسولؐ تمھیں اس چیز کی طرف بلائیں جو تمھیں زندگی بخشنے والی ہے‘‘۔ (ص ۳۰۲)
خرم‘ نامساعد حالات میں بھی اُمید اور روشن مستقبل دیکھ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’آج اُمت میں اللہ اور رسولؐ کی پکار ہر طرف اُٹھ رہی ہے۔ مرد‘ عورت‘ بوڑھے‘ نوجوان‘ بچے سب اس پر لبیک کہہ رہے ہیں۔ اسلامی تحریکات نے جدوجہد کا دِیا جلا دیا ہے…‘‘ (ص ۲۰۳)۔ دنیا کا مستقبل اسلام ہے‘ لیکن مغربی ذہن کا خودساختہ خوف اسلام اور مسلمانوں ہی کو سب سے بڑا خطرہ قرار دیتا ہے۔ اس کے نزدیک: ’’[مسلمان] وہ روز بروز بڑھتی ہوئی سماجی اور سیاسی قوت ہیں جو مغرب کے مسلّمہ تصورات پر حملہ آور ہیں…‘‘۔ (ص ۳۱۱)
وہ سوال اٹھاتے ہیں کہ جب آج اُمت مسلمہ کی حالت ِزار یہ ہے کہ ہم ’اُن‘ کے قرضوں کے بغیر گزارا نہیں کرسکتے‘ ہمارا دفاع‘ اسکول‘ کالج‘ یونی ورسٹیاں‘ پارلیمنٹ‘ بنک‘ مارکیٹ‘ کارخانے اور تمام ادارے اُنھی کے نقشے اور تصورات کے مطابق کام کر رہے ہیں‘ ہمیں کہیں سیاسی استحکام نصیب نہیں‘ اقتصاد‘ تعلیم‘ ثقافت‘ سیاست‘ ہر لحاظ سے ہم پستی کی انتہائوں تک پہنچ چکے ہیں‘ تو پھر اس ’’کمزور اُمت سے انھیں اتنا خوف کیوں ہے؟‘‘ بات دراصل یہ ہے کہ مغرب کے کارفرمائوں کو یقین ہے کہ مستقبل کا ’فتنہ‘، فتنۂ اسلام ہے۔ آج دنیا کا ہر پانچواں انسان مسلمان ہے‘ اوردنیا کے گوشے گوشے میںاسلامی تحریکیں سراُٹھارہی ہیں ۔ لیکن اس تاریخی موقع پر مسلمانوں کو جوش سے نہیں‘ بلکہ ہوش سے کام لینا ہوگا۔ تحریروتقریر کے بجاے اسلامی زندگی کے عملی مظاہر‘ اور نفرت کے بجاے محبت سے دل جیتنے ہوں گے۔ اسلام کا پیغام دلوں کو مسخر کرنے والا ہونا چاہیے‘ نہ کہ تعصب اور نفرت کو اُبھارنے والا۔
مغربی ملکوں میں حکمرانوں اور عوام میں امتیاز کرنا ہوگا۔ حکمرانوں کی پالیسی اور ترجیحات اور ہوسکتی ہیں۔ ہمیں عوام تک رسائی حاصل کرنی ہوگی۔ ’’خود اُن ممالک کی راے عامہ کو اپنے حکمرانوں کے خلاف کھڑا کیا جائے۔ جب تک ہم معرکہ جیتنے کی پوزیشن میں نہ ہوں‘ معرکہ برپا نہ کیا جائے‘ نہ مقابلے میں غیرمطلوب شدت پیدا کی جائے…‘‘ (ص ۳۲۲)۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’جنت اگر مطلوب ہے‘ تو جنت کی وسعت کے لحاظ ہی سے‘ دلوں میںوسعت‘ خیالات میں وسعت‘ مقاصد میں وسعت‘ رویوں میںوسعت‘ اور اللہ کے لیے زیادہ سے زیادہ لٹانے اور مٹانے میں وسعت… ناگزیر ہے‘‘۔ (ص ۳۲۴)
خرم کے نزدیک ہماری حکمت عملی یہ ہونی چاہیے کہ جس طرح آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایک ملک میں اپنے ترجمان اور نمایندے بھیجے تھے‘ آج ایک ارب سے زائد مسلمان دنیاکے گوشے گوشے میں آپؐ کے ترجمان اور نمایندے ہیں۔ اُن کے ہاتھ میں آپؐ کا خط ہے۔ جس کو بھی اپنی اس پوزیشن اور ذمہ داری کا احساس ہو‘ اُسے تڑپ کر کھڑا ہوجانا چاہیے۔ سلیقے سے‘ حکمت سے‘ موعظۂ حسنہ سے‘ انسانوں کو حضوؐر سے قریب لانا چاہیے۔ جتنا زور ہم آپؐ کا دین پیش کرنے پر لگاتے ہیں‘ اتنا ہی اہتمام ہمیں آپؐ کی ذات‘ شخصیت‘ کردار‘ اُسوۂ حسنہ اور زندگی کو پیش کرنے پر لگانا چاہیے۔ جو سراجِ منیرسے جتنا قریب آئے گا‘ اس کا دل کھلا ہوگا‘ وہ حضوؐر کی روشنی اور حرارت میں سے حصہ پائے گا۔ جتنے لوگ حضوؐر کی رسالت پر ایمان لاتے جائیں گے‘ آپؐ کے آستانے سے وابستہ ہوتے جائیں گے‘ اتنا ہی تہذیبی جنگ میں حضوؐر کے پیغام کی فتح کے امکانات بڑھتے جائیں گے‘‘ (ص ۲۸)۔ بقول اقبال ؎
بے خبر! ُتو جوہرِ آئینۂ ایّام ہے
ُتو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے
(خرم مراد: مغرب اور عالمِ اسلام (تدوین و ترتیب: سلیم منصورخالد)‘ منشورات‘ منصورہ‘ لاہور‘ ۲۰۰۶)