نومبر۲۰۰۶

فہرست مضامین

صبر اور نفسیاتی کیفیات

خرم مراد | نومبر۲۰۰۶ | تزکیہ و تربیت

Responsive image Responsive image

(آخری قسط)

روزمرہ زندگی میں انسان کو جو بھی رکاوٹیں پیش آسکتی ہیں ان کو ہم بنیادی طورپر دو حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ ایک مادی رکاوٹیں‘ اور دوسری نفسیاتی رکاوٹیں ۔

مادی رکاوٹوں کے کئی پہلو ہیں۔ کوئی مشکل پڑ جائے‘ کوئی نقصان ہوجائے‘ کوئی بڑی خواہش پوری نہ ہو‘ اور کوئی لالچ بھی ہو سکتاہے۔ جب ہم رکاوٹ کا لفظ بولتے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس میں کسی قسم کی مزاحمت ہوگی۔ کوئی بھی شے اپنی طرف کھینچ سکتی ہے۔ کسی بھی چیز کی کشش ہو سکتی ہے۔ یہ وہ مادی رکاوٹیں ہیں جن کا تعلق آدمی کے جسم وجان اور مال سے ہے۔

دوسری قسم کی رکاوٹیں نفسیاتی ہیں۔ ان کی جڑ آدمی کے اپنے اندر‘ اس کے نفس کے اندر اور اس کے دل و دماغ کے اندر ہوتی ہے۔ یہاں جو چیزیں اٹھتی ہیں وہ اس کو راستے سے ہٹاتی ہیں۔ اس کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں‘ اس کو ترغیب دیتی ہیں‘ اس کے اندر خواہشات پیداکرتی ہیں اور وسوسہ ڈالتی ہیں۔ یہ رکاوٹیں اس طرح کی ہوسکتی ہیں کہ: ایسا کرو گے تو یہ ہوجائے گا‘ جیب سے پیسہ نکالو گے تو تمھارے پاس کچھ نہیں بچے گا اور تم فقیر اور نادار ہو جائو گے‘ لہٰذا جیب مت کھولو۔   یہ سارے وسوسے جو اندر سے پیدا ہوتے ہیں‘ یہ نفسیاتی رکاوٹیں ہیں۔

اگر غور کیا جائے تو فی الواقع اصل چیز وہی ہے جو آدمی کے اندر پیدا ہوتی ہے‘ لہٰذا    اصل رکاوٹیں نفسیاتی رکاوٹیں ہیں۔ مادی مصائب‘ مادی ترغیبات اور مادی رکاوٹوں کی بھی اصل جڑ آدمی کے نفس کے اندر ہوتی ہے۔ اگر کسی کوڈھیر سامال مل جائے‘ اس کی نظر میں اس مال کی قیمت پتھر کے چند ریزوں سے زیادہ نہیں ہوگی‘ اگر اس کا نقطۂ نظر صحیح ہو۔ اگر اس کو موت کے منہ میں جانا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ یہ موت نہیں ہے بلکہ یہ تو جنت او راللہ تعالیٰ سے ملاقات کا نام ہے‘ تو موت کا خوف اس کے دل میں نہ رہے گا۔ بڑی سے بڑی چوٹ آدمی کو لگتی ہے مگر اپنے اندر کے حوصلے سے‘ اپنے اندر کی نفسیاتی کیفیات سے وہ اسے سہار جاتاہے۔ دوسری طرف ذرا سی مصیبت پڑتی ہے تو آدمی ہمت ہار دیتاہے اوررونا دھونا شروع کردیتاہے۔ اس کا تعلق مصیبت کی مقدار یا آزمایش کی نوعیت سے نہیں ہے کہ آدمی کو کس چیزکا مقابلہ کرنا ہے بلکہ اس کا تعلق اس کے ذہن سے ہے۔ دراصل طاقت کا سرچشمہ انسانی ذہن کے اندر پوشیدہ ہے۔

یہ انسانی سوچ اور جذبہ یا نفسیاتی کیفیت ہی ہے جو اسے دلیر‘ نڈر اور بے باک بنا دیتی ہے‘ یا خوف اور ڈر سے پست ہمت یا بزدل۔ ایک کیفیت کے تحت وہ بڑا طاقت ور بن جاتا ہے۔ ایک ایک سپاہی سو سو سپاہیوں کے مقابلے میں ڈٹ جاتا ہے‘ اگرچہ مادی و عسکری لحاظ سے وہ مقابلتاً کمزور ہوتاہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ اس کے پاس زیادہ مادی طاقت ہے بلکہ اس کی نفسیاتی کیفیت ہوتی ہے جو اسے نڈر اور بے باک بنادیتی ہے۔ دوسری طرف یہ احساس کہ ہمارے اوپر مصیبت پڑسکتی ہے‘ یہ ایک دوسری نفسیاتی کیفیت ہے جو ایک فرد کی طاقت کو ختم کرکے رکھ دیتی ہے۔ وہ بہت سے وسائل رکھنے کے باوجود اور بہت کچھ کرگزرنے کی صلاحیت کا متحمل ہونے کے باوجود‘ حوصلہ و ہمت ہار دیتاہے اور عملاً ناکامی وشکست سے دو چار ہوکر رہتاہے۔

خوف اور حزن

اگر غور کریں تو ہم ان تمام نفسیاتی کیفیات کا دو حوالوں سے جائزہ لے سکتے ہیں: ایک خوف اور دوسرا حزن۔

خوف کے معنی ہیں ڈر یا اندیشہ کہ کچھ ہو جائے گا‘ جو ملنے والا ہے وہ نہیں ملے گا‘ یا کوئی ایسی چیز مل جائے گی جو ناخوش گوار اور ناقابل برداشت ہو گی اور نقصان کا باعث ہوگی۔

حزن سے مراد اس بات کا غم کہ کچھ چھن گیا یا نقصان ہو گیا‘ کوئی ضرب پڑگئی‘ کوئی چیز ملنا چاہیے تھی نہ ملی اور جو چیز نہ ملنا چاہیے تھی وہ مل گئی۔ غم کی اس کیفیت کو حزن وملال کہا جاتاہے۔

دراصل نفس کے اندر کی یہ وہ کیفیات ہیں جن سے اصل رکاوٹیں پیداہوتی ہیں۔ اگر آدمی خوف اور اندیشوں پر پہلے سے قابو نہ پائے تو جن چیزوں کا خوف و اندیشہ اس کو لاحق رہتاہے وہ اس پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ یہ خدشات کہ اگر میں نے ایسا کیا تو یہ ہوجائے گا‘ ایک چیز جو ہاتھ لگنے والی ہے اگر ہاتھ نہ لگی تو یہ بڑا نقصان ہو جائے گا‘ میری عزت کو‘ میری دولت کو‘ معاشرے میں میرے مقام ومرتبے کونقصان پہنچ سکتاہے ‘ سیاسی‘ مادی‘ مالی یا جو کچھ بھی حیثیت ہے‘ ہاتھ سے نکل جائے گی ___یہ خوف وخدشات جب آدمی کے اوپر طاری ہوتے ہیں‘ تو پھر بالآخر وہ ان کے ڈر سے ہتھیار ڈال دیتاہے۔

دوسرا پہلو غم اور حزن کا ہے‘ یعنی یہ کہ جو چیز حاصل تھی وہ ہاتھ سے نکل گئی‘ کوئی مرگیا یا مال کا نقصان ہوگیا‘ یاکسی نے عزت کے اوپر حملہ کردیا‘ گالی دے دی وغیرہ۔ جب کوئی نقصان ہوجاتاہے یا عزت تک ہاتھ سے نکل جاتی ہے تو آدمی کو اس کا غم ہوتاہے۔ غم ہو تو پھر غصہ بھی آتاہے۔ غم وغصہ کا لفظ تو ہماری زبان میں‘ اردو ادب میں استعمال ہوتاہے۔ جہاں غم پیدا ہوتا ہے وہاں غصہ بھی لازماً آتاہے‘ کہ یہ چیز کیوں ہمارے ہاتھ سے نکل گئی‘ میری عزت پہ یہ حملہ کیوں ہو گیا‘ جو چیز مجھے ملنے والی تھی وہ کیوں کوئی چھین کے لے گیا۔ اس طرح ایک طرف تو غم ہوتاہے جو غصے کے اندر تبدیل ہو جاتاہے‘ اور پھر غصہ بالآخر اشتعال دلاتاہے اور اس اقدام پر مجبور کرتاہے جو صبر کے منافی ہو۔

یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں جہاں نیک بندوں کا ذکر کیا گیا ہے وہاں ان کی اس صفت کا بھی ذکر کیا ہے کہ وہ نہ خوف اور اندیشے کا شکار ہوں گے اور نہ کسی غم کے اندر مبتلا ہوں گے۔   جنت کے بارے میں بھی یہی کہا گیا ہے کہ فَلا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنَوْنَo (البقرۃ ۲:۳۸)‘ یعنی جنت کی زندگی کی بھی یہی خصوصیت ہے کہ وہاں نہ مستقبل کا اندیشہ ہو گا اور نہ کسی چیز کے چھننے کا خدشہ ہوگا۔ کوئی مصیبت پڑنے کا خوف بھی دل کے اوپر طاری نہیں ہوگا‘ اور نہ کوئی چیز ہاتھ سے نکل جانے کا غم وغصہ ہو گا بلکہ اطمینان ہوگا کہ صحیح زندگی گزار آئے اور صلہ پالیا۔      کوئی حسرت نہیں ہوگی کہ یہ کام کیوں نہیں کیا او راگر یہ کرتے تو یہ پیش نہ آتا۔ اگر غور کیا جائے تو دراصل یہی دو چیزیں ہیں جو صبر کے سرچشمے کو اپنے اندر سمیٹ لیتی ہیں‘ اور صبر کے راستے میں جو چیزیں رکاوٹ بنتی ہیں ان کا اظہار بھی انھی دو باتوں سے ہوتاہے‘ یعنی خوف اور حزن۔

مختلف نفسیاتی کیفیات

اگر اس بات کو مزیدواضح کیا جائے تو یہ بات بھی سامنے آئے گی کہ جو نفسیاتی کیفیات انسان کے اوپر طاری ہوتی ہیں‘ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی طاری ہوا کرتی تھیں۔ یہ مسلمانوں کے اُوپر بھی طاری ہوا کرتی تھیں۔ ان کیفیات کو قرآن مجید نے کھول کر بیان کردیا ہے کہ اگر ہم ان میں سے ایک ایک چیز کو دیکھیں تو اس کے اندر ہمارے لیے سبق اور نصیحت کا بہت بڑا خزانہ پوشیدہ ہے۔ میں جسمانی و مادی مصائب کا ذکر نہیں کر رہا‘ یعنی جو مار پیٹ ہوئی‘ جو جانیں دینا پڑیں‘ جو محنت کرناپڑی‘ اور جان و مال کا جو نقصان ہوا‘ اس لیے کہ اس کی جڑ بھی نفسیاتی رکاوٹوں کے اندر ہے۔ دراصل آدمی اپنے اندر سے اٹھے والی کیفیات اور جذبات کا شکار ہو جاتاہے۔ نبی کریمؐجو دعوت لے کر آئے‘ جو پیغام آپؐنے اپنی قوم کے سامنے پیش کیا‘ یہ دعوت او ریہ پیغام آپؐ کے لیے اتنا کھلا‘ واضح اور روشن تھا کہ جیسے عام آدمی کے لیے دن میں آسمان پر چمکتا ہوا سورج ہوتاہے۔ اللہ تعالیٰ‘ آخرت‘ اور جنت و دوزخ‘ یہ ساری چیزیں ہماری نظروں سے محو ہیں لیکن نبیؐ کے لیے   یہ ساری چیزیں غیب سے تعلق نہیں رکھتی تھیں۔

نبی کو تو اللہ تعالیٰ براہ راست علم دیتاہے۔ جس طرح دن کی روشنی میں ایک عام آدمی دیکھ سکتاہے کہ سورج نکلاہوا ہے اور یہ اس کے لیے ایک کھلی حقیقت ہوتی ہے‘ یہی کیفیت نبی کی اللہ اور آخرت کے بارے میں ہوتی ہے۔ اب اگر آدمی دن کے اجالے میں کھڑا ہو کریہ کہے کہ لوگو‘ سورج نکلا ہوا ہے لیکن لوگ اس کھلی حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیں‘ اس کے برعکس اس کو ملامت کریں‘ طعنے دیں کہ تم اندھے ہوگئے ہو‘ تم پر جادو کر دیا گیا ہے‘ تم شاعری کر رہے ہو‘ تم پر جنون ہوگیا ہے‘ اسی لیے تمھیں رات کے وقت سورج نظر آرہا ہے‘ یا سورج نہیں نکلا ہوا اور تم کہہ رہے ہو کہ نکلا ہوا ہے۔ کسی نے تم کو چکمہ دے دیا ہے‘ یا باہر سے کوئی چیز تمھارے اوپر آگئی ہے‘ کوئی تمھارا استاد ہے جو تمھیں باتیں گھڑ گھڑ کر دیتا ہے وغیرہ۔ گویا نبی جو چیز اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے‘    دنیا اس کو جھٹلانے پر تلی ہوئی ہے۔ اس موقع پر انسان جن کیفیات سے دو چار ہوتاہے‘ یا گزرتاہے وہ نفسیاتی کیفیات کہلاتی ہیں۔

دعوت حق قبول نہ کرنے پر اضطراب

ایک نبی بھی اس نفسیاتی کیفیت سے دوچار ہوتاہے۔نبی کے لیے سب سے پہلی آزمایش یہی ہوتی ہے کہ جس حق کی دعوت لے کر وہ اٹھا ہے اس کو جھٹلایا جائے۔ یہ جھٹلانا معمولی جھٹلانا نہیںہوتا۔ جو آدمی جانتا ہو کہ یہ بات جو میں کہہ رہا ہوں سچی اوربر حق ہے‘ مگر اسے جھٹلایا جاتاہے او رکہا جاتاہے کہ تم بے وقوف ہو‘ تم جھوٹے ہو‘ تم کو دھوکا ہوگیا ہے‘ تم پر کسی نے جادوکردیا ہے‘ اس وقت جو کیفیت ہوتی ہے وہ شدید غم اور حزن کی کیفیت ہوتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا غم ہوتا تھا کہ لوگ سچی بات کیوں نہیں مانتے‘ اور نہ صرف یہ کہ کھلی حقیقت کو جھٹلاتے ہیں بلکہ مذاق بھی اڑاتے ہیں اور طرح طرح سے اذیتیں پہنچاتے ہیں۔قرآن مجید نے اس کیفیت کو اس طرح بیان کیا ہے : لَا یَحْزُنْکَ قَوْلُھُمْ (یونس ۱۰:۶۵)’’ اے نبیؐ، جو باتیں یہ لوگ تجھ پر بناتے ہیں وہ تجھے رنجیدہ نہ کریں‘‘۔

قرآن مجید میں کئی جگہ کہا گیا ہے: وَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ (المزمل ۷۳:۱۰) ’’جوکچھ لوگ کہتے ہیں اس پر صبر کرو‘‘۔ اس لیے کہ سب سے بڑا فتنہ اور آزمایش تو لوگوں کی باتیں ہی ہوتی ہیں۔ یہ باتیں جو لوگوں کی زبان سے نکلتی ہیں‘ خواہ لوگ کان میں آکر کہیں‘ مجلس میں   بیٹھ کر کہیں‘ کتابوں میں لکھ کر چھپوائیں یا اخبار میں شائع کریں‘ یہ بڑی سخت آزمایش ہوتی ہے۔ کوڑے کی مار‘ پتھرکی چوٹ اور ریت پر گھسیٹا جانا شاید اتنی سخت آزمایش نہ ہوتی ہوگی جتنی سخت آزمایش طنز‘ طعن و تشنیع اور مذاق و استہزا سے ہوتی ہے۔ یہ اندرونی چوٹ زخم کاری کی مانند    ہوتی ہے۔ اس کی زد آدمی کی عزت نفس‘ اس کی سچائی‘ اس کے کردار اور مقام ومرتبے پر بھی پڑتی ہے۔یہ جسمانی چوٹ سے زیادہ گہری چوٹ ہوتی ہے ۔ اسی پر قرآن نے کہا:

وَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ (المزمل ۷۳:۱۰) جوکچھ لوگ کہتے ہیں اس پر صبر  کرو۔

مایوسی و ناامیدی

اس غم اور حزن کو برداشت کرنا صبر ہے۔ اس سے آدمی مایوس بھی ہوتاہے۔ اس مایوسی کا ذکر قرآن مجید میں بھی کیا گیا ہے۔ جو آدمی بات نہ مانے‘ بار بار کہنے کے باوجود نہ مانے‘ ہر قسم کی دلیل سننے کے باوجود بھی نہ مانے‘ نشانیاں دیکھنے کے بعد بھی تسلیم نہ کرے‘ او رپھر پہلی قوموں کا بھی ذکر ہوا ہے کہ برسوں دعوت کا کام ہو الیکن ان لوگوں نے مان کے نہیں دیا‘ تو پھر آدمی کے اوپر مایوسی طاری ہوتی ہے۔ مایوسی اندورنی کیفیت ہے اور غم کے نتیجے میں ظاہر ہوتی ہے اور آدمی کے اوپر طاری ہوجاتی ہے۔ جب لوگ نہیں مانتے اور سچی بات کو جھٹلاتے ہیں تو آدمی کو اس سے دکھ ہوتا ہے جو مایوسی کا باعث بنتاہے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حزن کا لفظ کئی جگہ استعمال کیا ہے۔ اسی حزن سے مایوسی پیدا ہوتی ہے۔ مایوسی کا قرآن پاک نے بار بار علاج کیا اور اس کے لیے مختلف طرح سے تسلی دی اور حوصلہ دیا کہ اگر یہ لوگ نہیں مانتے ہیں تو یہ ان کی اپنی غلطی اور اپنا قصور ہے۔ آپؐ کا کام تو بس اتنا ہے کہ آپؐ لو گوں تک خدا کا پیغام پہنچا دیں۔ زبردستی منوانا آپؐ کا کام نہیں ہے۔ ہم نے آپؐ کو داروغہ بنا کر نہیں بھیجا ہے اورنہ ان کے سرپر مسلط کیا ہے۔ ماننا یا نہ ماننا‘ ان کا اپنا اختیار ہے۔ آپ ؐ ان کے سامنے حق پیش کرتے رہیں‘ جو قبول کرے گا وہ اپنی آزاد مرضی سے قبول کرے گا اور جو انکار کرے گا وہ اپنی آزاد مرضی سے انکار کرے گا۔ ان کا فیصلہ ہم نے آپ ؐ کے ہاتھ میں نہیں دیا ہے۔ اگر انھیں زبردستی مسلمان بنانا ہوتا تو کیا اللہ تعالیٰ کے پاس خود کم طاقت تھی۔ وہ یہ سب کام کیوں کرتا کہ نبیؐ کو بھیجتا‘ دعوت کا کام کرواتا‘ کتاب اتارتا‘ اس کے لیے تو وہ ایک کلمہ کن کہتا اور سارے لوگ ایک ہی راستے پر آجاتے: وَلَوْ شَآئَ رَبُّکَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً (ھود۱۱:۱۱۸)’’ بے شک تیرا رب اگر چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک گروہ بنا سکتا تھا‘‘۔سب اس کی بندگی کرتے‘ سب فرشتوں کی طرح ہو جاتے۔ لیکن فرشتے  تو پہلے سے موجود تھے۔ انسان کو تو اس لیے پیدا کیا گیا ہے کہ اس کے اختیار کے استعمال کی آزمایش ہو۔ وہ اپنے ارادے سے اور اپنے فیصلے سے راہ حق پر آئے۔ اس کے لازمی معنی ہیں کہ جو آدمی چاہے گا مانے گا اور جونہیں چاہے گا نہیں مانے گا۔ لہٰذا تمھیں مایوسی کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔

اس طرح قرآن مجید نے اس حقیقت کو باور کیا کہ اگر ایک داعی اس بات کو بخوبی جانتا ہو کہ اس کا کام تو احسن انداز میں لوگوں تک پہنچانا ہے اور اس کا ماننا نہ ماننا‘ قبول کرنا یا رد کرنا‘ لوگوں کا اپنا اختیار ہے‘ اور وہ اس بات کا مکلف نہیں کہ لازماً لوگ حق بات کو تسلیم کریں‘ تو پھر مایوسی کی کوئی وجہ نہیں رہتی۔

عجلت پسندی

ایک کیفیت آدمی پر یہ طاری ہوتی ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ معاملہ جلدی سے نپٹ جائے‘ جب کہ یہ جدو جہد ایک طویل جدوجہد ہے۔ یہ تو یقین ہوتا ہے کہ اللہ کا وعدہ پورا ہو کر رہے گا اور اس کا دین غالب آئے گا۔ یہ اللہ کا اپنے رسولؐ سے بالکل حتمی و یقینی وعدہ ہے کہ تمھارا کام ضرور مکمل ہو کر رہے گا‘ خواہ یہ تمھاری زندگی میں ہو یا موت کے بعد۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو یہ یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ اس دین کو ضرور غالب کرکے رہے گا۔ یہی وعدہ نبی کریمؐکے ساتھ تھا اور آپؐکی جانشین اُمت‘ مسلمانوں سے بھی ہے‘ لیکن آدمی کی طبیعت میں عجلت پسندی ہے ۔ وہ چاہتا ہے کہ ہر کام جلد سے جلد ہوجائے۔ کافروں کے بارے میں عذاب کی جو دھمکی ہے وہ بھی ذرا جلد آجائے‘ اور جس منزل کا وعدہ ہے کہ دین غالب ہوگا‘ وہ بھی جلدسر ہو جائے۔ بسا اوقات نبی کریمؐ بھی پریشان ہو کر اس طرح سوچنے لگتے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جلدی مت کرو۔ فَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ وَلَا تَکُنْ کَصَاحِبِ الْحُوْتِ (القلم ۶۸:۴۸) ’’اپنے رب کا فیصلہ صادر ہونے تک صبر کرو او رمچھلی والے کی طرح نہ ہو جائو۔ ‘‘ یہاں حضرت یونسؑ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جب ان کی قوم نے برسوں دعوت کے کام کے بعد مان کے نہیں دیا‘ تو وہ مایوس ہوگئے اور اسی جلد بازی کی وجہ سے بستی چھوڑ کر چلے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کی طرح نہ ہوجائو بلکہ اولوالعزم پیغمبروں کی طرح صبر کے ساتھ دعوت کا کام کیے چلے جائو۔ فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِلْ لَّھُمْ (الاحقاف۴۶:۳۵) ’’پس اے نبیؐ ، صبر کرو جس طرح اولوالعزم رسولوں نے صبر کیاہے‘ اور ان کے معاملے میں جلدی نہ کرو‘‘۔

جلد بازی صبر کے منافی ہے۔ جلد بازی مایوسی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ حزن سے مایوسی پیدا ہوتی ہے اور پھر مایوسی سے جلد بازی ۔اگر آدمی کو امید بندھی رہے کہ میرا کام ہو جائے گا اور ہو کر رہے گا اور اس کاوقت مقرر ہے تو پھر وہ اتنی جلد بازی نہیں کرے گا۔ جلد بازی آدمی تب کرتا ہے جب اس کو خود پر یقین نہ ہواورمایوسی ہو۔ پھر یہ خیال آتا ہے کہ یہ کام اس طرح تو نہیں ہوگا‘ کچھ اور کرنا چاہیے یاکوئی اور راہ نکالنی چاہیے۔ اسی کے نتیجے میں عجلت پسندی یا جلد بازی پیدا ہوتی ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:  فَلاَ تَسْتَعْجِلُوْہُ ط (النحل ۱۶:۱) ’’ ان کے بارے میں جلد بازی نہ کرو‘‘۔ اس لیے کہ ہم نے معاملات کو اپنے ہاتھ میںرکھا ہے‘ تمھارے ہاتھ میں نہیں دیا۔

خدا کی مدد اور وعدوں پر شک

اسی حزن و غم کے نتیجے میں جو اگلی کیفیت پیدا ہوتی ہے وہ یہ کہ وہ وعدے بھی مشکوک نظر آنے لگتے ہیںجو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے کیے ہیں۔ اللہ کے نبی تو اس کیفیت میں مبتلا نہیں ہو سکتے‘ لیکن یہ ضرور پکار اٹھتے ہیں: مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ (البقرۃ ۲:۲۱۴) ’’ اللہ کی مدد کب آئے گی‘‘؟ ان کو شک تو نہیں ہوتا لیکن اس بارے میں شبہہ ہو نے لگتا ہے کہ کبھی ہم منزل پر پہنچ بھی پائیں گے یا نہیں۔ اس بارے میں ہدایت یہ ہے فَاصْبِرْ اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ (الروم۳۰:۲۰)‘یعنی صبر کرو‘ راہ خدا پر جمے رہو‘ او راللہ نے جو وعدہ کیا ہے وہ پورا ہو کر رہے گا۔ اس کا وعدہ باکل سچا ہے۔

انسان کے لیے آخری خطرہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی راہ کو چھوڑ کر دوسری راہ پر چلا جائے‘اور مخالفین کے ساتھ ملنے کی کوشش کرے کہ وہ چھائے ہوئے ہیں‘ غالب ہیں‘ اور انھی کا سکہ چل رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو نبیؐ کے بارے میں یہ خدشہ تو نہیں ہو سکتا تھا کہ وہ ایسا کریں گے‘ مگر نبیؐ کومخاطب کرکے نبیؐ کے ماننے والوں کو ہدایت دینا مقصود ہے۔ اس لیے اللہ تعالی نے فرمایا: فَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ وَلَا تُطِعْ مِنْھُمْ اٰثِماً اَوْ کَفُوْرًا o (الدھر۷۶:۲۴) ’’تم اپنے رب کے حکم پر صبر کرو‘ اور ان میں سے کسی بدعمل یا منکرحق کی بات نہ مانو‘‘۔ گویا اللہ کے فیصلے کا انتظار کرو اور اس کے لیے صبر کرو۔ یہاں انتظار کا لفظ استعمال نہیں ہوا‘ میں نے ترجمہ کیا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ صبر کرو یہاں تک کہ اللہ کا حکم آ جائے۔ اس کام میں لگے رہو اور جو غلط کاروں کا گروہ ہے‘ ان کے ساتھ ملنے کا مت سوچو۔ یہ کسی بے صبری کا نتیجہ ہو سکتا ہے اور اس طرف اشارہ بھی کیا گیا ہے کہ یہ چیز صبر کے منافی ہے۔

خوف اور حزن کاعلاج

اگر غور کیا جائے تو یہ سب نفسیاتی کیفیات حزن سے پیدا ہو رہی ہیں۔ ایک چیز جو ہم چاہتے ہیں کہ وہ نہ ہو‘ مگر ہو جاتی ہے تو ہمیں اس کاغم ہوتاہے۔ اسی طرح جو چیز ہم چاہتے ہیں کہ وہ ہو جائے اور نہ ہو تو ہمیں اس کا غم ہوتاہے۔ اس غم سے مایوسی‘ کم حوصلگی اورپست ہمتی اور بہت ساری کیفیات پیدا ہوتی ہیں۔ جلد بازی اور بے یقینی کی ساری کیفیات بھی اسی سے پیدا ہوتی ہیں۔ ہر ایک کے علاج کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے ‘ کہ اِصْبِرُوْا‘ اِصْبِرُوْا ،  یعنی صبرکرو اور اپنے کام پر جمے رہو اور صبر سے مدد چاہو‘ اپنے آپ کو اس سے باندھ کر رکھو‘ اپنے آپ کو ایک مقام پر روکے رکھو۔ اس لیے کہ یہی ان چیزوں کا علاج ہے۔

دوسری کیفیت خوف کی ہے۔ اس بات کا خوف کہ کل نہ جانے کیا ہو جائے۔ اسی طرح جان کا خوف ہوتاہے‘ مال کے ضائع ہونے کا خوف ہوتاہے‘ اور دنیا کے اندر جو عزت اوروقار ہے اس کے چھن جانے کا خوف بھی ہو سکتاہے۔ یہ تمام خوف اور اندیشے انسان کے اوپر حاوی ہیں۔ زندگی آدھی تو حسرت کی نذر ہو جاتی ہے کہ کیا نہیں ہو سکا‘ اور آدھی خوف کی نذر ہوجاتی ہے کہ نہ جانے کیا ہو جائے گا۔ اس کا علاج بھی صبر ہے۔ چناں چہ جہاں اللہ تعالیٰ نے ابتلا و آزمایش کا ذکر کیا‘ وہاں سب سے پہلے خوف کا ذکر کیا ہے۔ وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیئٍ مِّنَ الْخَوْفِ (البقرۃ  ۲:۱۵۵)۔ اسی طرح دشمن کے حملہ آور ہو جانے اور مسلط ہو جانے کا خوف ہوتاہے۔ دیگر ہزاروں اندیشے اور خطرات ہوتے ہیں جو آدمی پر طاری ہوتے ہیں۔ وہ لرزتا ہے‘ کانپتاہے اور ڈرتا رہتاہے کہ پتا نہیں کیا ہو جائے‘ رشتہ دار ساتھ چھوڑ دیں گے‘ دوست ساتھ نہ دیں گے‘ اور پتا نہیں کیا کیا نقصان ہو جائے۔ فرمایا کہ اس خوف سے ہم آزمائیں گے۔ اس خوف کا علاج بھی صبر ہے۔ خوف کے مقابلے میں جمے رہنا اور پیچھے نہ ہٹنا بھی صبر ہے۔

اللہ تعالیٰ نے دین کے راستے پر جمنے اور ہر طرح کی قربانی دینے کی بھی ہدایت کی ہے۔ حضرت اسماعیل ؑ کو باپ کے ذریعے حکم ملا کہ تمھاری جان مطلوب ہے تو انھوں نے کہا کہ میں حاضر ہوں۔ قَالَ یٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِیْٓ اِنْ شَآئَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ (الصّٰفّٰت ۳۷:۱۰۲) ’’اس نے کہا ‘ ابا جان ، جو کچھ آپ کو حکم دیاجار ہا ہے اسے کرڈالیے‘ آپ ان شا ء اللہ مجھے صابروں میں سے پائیں گے‘‘۔ یہ صبر عام قسم کا نہیں تھا بلکہ بڑے عزم اور حوصلے کا صبر تھا کہ میری جان حاضر ہے۔ اس کے لیے تیار ہوں۔ یہ اللہ پر توکل تھا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے دین کے دوسرے احکام نماز‘ روزہ‘ زکوٰۃ‘ حج اور جہاد سب کے ساتھ صبر کا ذکر کیا ہے۔ کیوں کہ صبر کے بغیر اللہ تعالیٰ کے کسی حکم پر عمل نہیں ہو سکتا۔

مخالفت پر رویہ

دعوت کی راہ میں بہت سی مخالفتوں سے سابقہ پڑتاہے۔ جو چیزیں سہی اور برداشت کی جاتی ہیں‘ ان پر آدمی کو صدمہ اور غم ہوتاہے۔ اس میں مخالفین کے ساتھ روش کے حوالے سے بھی صبرکی تاکید ہے۔ صبر کے کچھ ایسے پہلو ہیں جو عموماً نگاہوں سے محو ہو جاتے ہیں۔ یہ کہا گیا ہے کہ اگر تم پر کوئی سختی کرے‘ کوئی نقصان پہنچائے‘ تو تمھیں بھی اس کی اجازت ہے کہ جتنا اور جس  طرح تم کو نقصان پہنچایا گیاہے‘ تم بھی اس کو پہنچائو لیکن اس کے ساتھ یہ بھی فرمایا:

وَلَئِنْ صَبَرْ تُمْ لَھُوَ خَیْرٌّ لِّلصّٰبِرِیْنَ o (النحل۱۶:۱۲۶)

لیکن اگر تم صبرکرو تو یقینا یہ صبر کرنے والوں ہی کے حق میں بہترہے۔

وَلَمَنْ صَبَرَ وَ غَفَرَ اِنَّ ذٰلِکَ لَمِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ o (الشورٰی ۴۲:۴۳)

البتہ جو شخص صبر سے کام لے اور در گزر کرے، تویہ بڑی اولوالعزمی کے کاموں میں سے ہے۔

جہاں اللہ تعالیٰ نے متقین کی صفات بیان کی ہیں‘ ان کے لیے جنت کا وعدہ کیا ہے جس کی وسعت میں زمین و آسمان سما جائیں‘ وہاں اس نے جن صفات کا ذکر کیا وہ یہ ہیں:

الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآئِ وَالضَّرَّآئِ وَالْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ ط (اٰل عمرٰن۳:۱۳۴) جو ہرحال میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں خواہ بد حال ہوں یا خوش حال‘ جو غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کردیتے ہیں۔

خرچ کرنے کے لیے بھی حوصلے اور صبر کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ایک پہلو ہے۔ پھر اس سے آگے بڑھ کر یہ خوبیاں ہیں کہ برائی کو بھلائی سے دفع کرو۔ برائی کا جواب بھلائی سے دو۔ ایک جگہ ان لوگوں کا جو اللہ کی جنت میں جائیں گے یوں ذکر کیا : وَالَّذِیْنَ صَبَرُوا ابْتِغَآئَ وَجْہِ ربِّھِمْ وَ اَقَامُوالصَّلٰوۃَ وَاَنْفَقُوْا مِمَّا رَزقْنٰھُمْ سِرًّا وَّعَلَانِیَۃً وََّیَدْرَئُ وْنَ بِالْحَسَنَۃِ السَّیِّئَۃَ (الرعد۱۳:۲۲) ’’ان کا حال یہ ہوتاہے کہ اپنے رب کی رضا کے لیے صبر سے کام لیتے ہیں‘ نماز قائم کرتے ہیں‘ ہمارے دیے ہوئے رزق میں سے علانیہ اور پوشیدہ خرچ کرتے ہیں اور برائی کو بھلائی سے دفع کرتے ہیں‘‘۔ ایک دوسری جگہ فرمایا: وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّئَۃُ ط اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَ بَیْنَہُ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌo وَمَا یُلَقّٰھَآ اِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا ج وَمَا یُلَقّٰھَآ اِلَّا ذُوحَظٍّ عَظِیْمٍo (حٓم السجدۃ ۴۱:۳۴-۳۵) ’’نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو۔ تم دیکھو گے کہ تمھارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے۔ یہ صفت نصیب نہیں ہوتی مگر ان لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں‘ اور یہ مقام حاصل نہیں ہوتا مگر ان لوگوں کو جو بڑے نصیبے والے ہیں‘‘۔گویا اخلاق کے اعلیٰ مقام تک وہی پہنچتے ہیں جو برائی کا جواب بھی بھلائی سے دیتے ہیں۔ برائی کو تو وہی چیز مٹاسکتی ہے جو بھلی اور اچھی ہو۔

جسمانی مصائب اور موت کا خوف

یہ وہ مختلف نفسیاتی کیفیات ہیں جو صبر کا تقاضا کرتی ہیں۔ اس کے بعد پھر جسمانی مصائب اور جسمانی تکالیف ہیں۔ اگر اس حوالے سے بھی آدمی کا تصور واضح ہو تو وہ ہر طرح کے ظلم و جبر کو برداشت کرسکتاہے‘ حتیٰ کہ جان بھی دینا پڑے تو بے خوف جان دے گا۔ جب یہ بات واضح ہے کہ موت کا وقت مقرر ہے‘ لہٰذا موت کوئی ڈرنے کی چیز نہیں ہے۔ اس چیز سے کیا ڈرنا جس کا نہ تو وقت معلوم ہو‘ نہ جسے روکا جا سکتا ہو‘ نہ اس سے بچا جا سکتاہو‘ نہ اس کو ٹالا جا سکتاہو اور نہ اس سے چھپ کر کہیں جایا جا سکتا ہو‘ اور نہ ایک گھڑی آگے کی جاسکتی ہو اور نہ پیچھے۔ بہت بے وقوفی ہے کہ آدمی اس سے ڈرے۔ ڈرنا تو اس چیز سے چاہیے کہ جو اس کے بعد پیش آنے والی ہے‘ جسے ٹالا جاسکتا ہے‘ جس سے بچا جا سکتاہے اور کچھ کرکے اس پر قابو پایا جا سکتاہے‘ یعنی آخرت۔ لہٰذا جس کو یہ معلوم ہو کہ موت کا وقت مقرر ہے تو پھر اس کو کبھی بھی موت کا خوف لاحق نہیں ہو سکتا۔

حضرت علیؓ کا مشہور قول ہے کہ دد دن ایسے ہیں کہ جب میں موت سے نہیں ڈرتا۔ ایک دن تو وہ ہے کہ جس روز موت کو نہیں آنا۔ اس دن موت سے ڈرنے کی کیا ضرورت‘ اس لیے کہ اس روز تو اس کو نہیں آنا۔ دوسرا دن وہ ہے جس دن موت کو آنا ہے۔ اس دن بھی موت سے کیا ڈرنا کہ اس دن ڈرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ انھوں نے بڑے خوب صورت انداز میں یہ بات کہی ہے کہ یا تو آج کے دن موت کو آنا ہے‘ یا آج کے دن موت کو نہیں آنا۔ اگر آج کے دن موت کو آنا ہے تو ٹل نہیں سکتی‘ لہٰذا ڈرنے سے کچھ حاصل نہیں۔ اگرموت کو اس روز نہیں آنا تو خواہ مخواہ آدمی کیوں ڈرے‘ ۔ یہ تصور موت سے بے خوف کردیتاہے اور آدمی کے اندر صبروہمت پیدا کردیتاہے۔ پھر وہ عزم اور حوصلے کے ساتھ جما رہتاہے۔

صبر کے بہت سے پہلو ہیں۔ میں نے ان میں سے صرف چند پہلو سامنے رکھے ہیں۔ قرآن مجید اسے کہیں صبر کے نام سے اور کہیں نام لیے بغیر صبرکے مختلف پہلوئوں کو اجاگر کرتاہے۔ کہیں اپنے نبی ؐ سے خطاب کرتاہے تو اس میں کوئی نہ کوئی صبر کا سامان ہوتا ہے اور کسی نہ کسی خزانے کا منہ کھولتاہے‘ جہاں سے دعوت کا کام کرنے والا صبر کاخزانہ حاصل کرتاہے۔ کوئی چشمہ ایسا بہتا ہے کہ جہاں سے کوئی فیض ملے۔ نبی کریمؐ اور آپؐ کے ساتھی جس طرح اپنے مقام پر ‘ اپنے موقف پر‘ اپنے کام اور اپنے مقصد کے اوپر جمے رہے‘ وہ اسی صبر کا نتیجہ تھا اور بالآخر ساری دنیا کے وارث بن گئے۔ بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے صرف فلسطین عطا کیا تھا‘ لیکن حضوؐر کی امت کو اللہ تعالیٰ نے مشرق سے لے کر مغرب تک‘ شمال سے لے کر جنوب تک پوری دنیا صبر کی وجہ سے عطا کردی۔   یہ صبر کا نتیجہ تھا اور وہ صبر کے مقابلے میں کسی چیز کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔

صبر اور ذرائع قوت

صبر کا سرچشمہ دراصل یہ احساس ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے ہر چیز قائم ہے‘ اور ہم ہر وقت اللہ کی نگاہوں کے سامنے ہیں۔اسی لیے قرآن مجید میں سورۂ مدثر میں سورۂ اقرأ کے بعد دوسری یا تیسری وحی میںیہی ہدایت فرمائی : وَلِرَبِّکَ فَاصْبِرْ o (المدثر۷۴:۷) ’’اور اپنے رب کی خاطر صبر کرو‘‘۔ گویا اپنے رب کی خاطر اور اپنے رب کے لیے جم جائو‘ اور یہ سمجھو کہ میں اپنے رب کے لیے کام کر رہا ہوں‘ رب کا کام کر رہا ہوں اور رب کی راہ میں ہوں۔ اس کی آنکھوں کے سامنے ہوں۔ قرآن پاک نے اس طرح بار بار صبر کی تلقین کی ہے۔ ایک مقام پر فرمایا:

وَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ فَاِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ حِیْنَ تَقُوْمُ o (الطور۵۲:۴۸) اے نبیؐ،اپنے رب کا فیصلہ آنے تک صبر کرو‘ تم ہماری نگاہ میں ہو۔ تم جب اٹھو تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو۔

حضرت موسٰی ؑ کو جب فرعون کے دربار میں بھیجا تو انھوں نے کہا کہ ہم فرعون کے دربار میں جائیں گے لیکن میرے اوپر خون کا دعویٰ بھی ہے اور مجھے ڈر اور خوف بھی ہے۔ اس پر فرمایا : اِنَّنِیْ مَعَکُمَآ اَسْمَعُ وَاَرٰی (طٰہٰ ۲۰:۴۶) ’’ڈرو مت ‘ میں تمھارے ساتھ ہوں‘ سب کچھ سن رہا ہوں اور دیکھ رہاہوں‘‘۔ گویا تم جس حال میں بھی ہوگے‘ میں سن بھی رہا ہوں گا اور دیکھ بھی رہا ہوں گا۔

دراصل اللہ تعالیٰ کی ذات صبر کا سرچشمہ ہے۔ جب آدمی کو یقین ہو جائے کہ جو کچھ بھی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے‘ کوئی چیز بھی میری اپنی نہیں ہے۔ یہ دین بھی میرا اپنا نہیں ہے۔ لوگوں کو دین کی راہ پر لانا‘ ان کے دلوں کو حق کی طرف موڑنا‘یہ میرے بس میں نہیں ہے۔ اگر وہ  چاہے گا تو ہو گا‘ اور اگر نہیں چاہے گا تو نہیں ہوگا۔ سب کچھ اس کے ہاتھ میں ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّـآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ (البقرۃ۲:۱۵۶) ’’ہم اللہ ہی کے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے‘ ‘ میں اسی بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ یہ دراصل وہ چھوٹاسا کلمہ ہے جس کے اندر صبر کی ساری دنیا پنہاں ہے۔ اسی لیے حادثے اور صدمے پر اسی کو پڑھا کرتے ہیں۔ اس لیے کہ اس کے اندر وہ سب کچھ موجود ہے جس سے آدمی صبر حاصل کرسکتاہے۔ گویا کوئی چیز میری اپنی نہیں ہے‘ اللہ کی ہے۔ سب چیزوں کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے اور اس کا انجام وہیں پر ہونا ہے۔

اسی طرح نماز کو صبر کے ساتھ اس لیے جوڑا گیا ہے کہ نماز میں بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق ہوتا ہے۔ حضرت موسٰی ؑ کے الفاظ ہیں‘ وَاسْتَعِینُوْا بِاللّٰہِ ،’’اللہ سے مدد مانگو‘‘۔ اور وہی الفاظ پھر ہیں کہ یٰٓایُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ کہ اے ایمان والو! صبر اور نماز سے مدد مانگو۔ صبر کا لفظ انھوں نے خود کہا۔ اللہ کی مدد کے لیے صلوٰۃ کا لفظ آیا ہے۔ اس لیے کہ صلوٰۃ تو اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا نام ہے۔ اللہ کے سامنے حاضر ہونے ‘ اللہ سے بات چیت اور اللہ سے قرب کا نام ہے۔ سجدہ کرتے وقت آدمی اللہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ قریب ہوتاہے۔ جب اس کے آگے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوتاہے تو اس کے دربار میںحاضر ہوجاتاہے۔ اسی لیے تو نماز اللہ کی یاد اور اللہ کے قرب کا نام ہے‘ نیز نماز صبر کا سامان فراہم کرتی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے دونوں کا ذکر ساتھ ساتھ کیا ہے:

اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ (البقرۃ ۲:۱۵۳) صبراور نماز سے مدد لو۔

فَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغَرُوْبِ o وَمِنَ الَّیْلِ فَسَبِّحْہُ وَاَدْبَارَ السُّجُوْدِ o (قٓ۵۰:۳۹-۴۰) پس اے نبیؐ، جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں ان پر صبر کرو اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے رہو۔ طلوع آفتاب اورغروب آفتاب سے پہلے اور رات کے وقت پھر اس کی تسبیح کرو اور سجدہ ریزیوں سے فارغ ہونے کے بعد بھی۔

وَاذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ بُکْرَۃً وَّاَصِیْلاًo وَمِنَ الَّیْلِ فَاسْجُدْ لَہٗ وَسَبِّحْہُ لَیْلاً طَوِیْلاًo (الدھر ۷۶:۲۵-۲۶) اپنے رب کا نام صبح و شام یاد کرو‘ رات کو بھی اس کے حضور سجدہ ریز ہو‘ اور رات کے طویل اوقات میں اس کی تسبیح کرتے رہو۔

جہاں بھی صبر کا ذکر آئے گا وہاں سے کسی نہ کسی پہلو سے اللہ کا‘ اس کی حمد کا اور نماز کا ذکر آئے گا۔ اس لیے کہ صبر کی پوری استعداد اسی تعلق سے حاصل ہوتی ہے۔ جتنا یہ تعلق مضبوط ہوگا‘ یقین مضبوط ہوگا‘ اتنا ہی آدمی بے خوف اور اللہ سے ملاقات کا شائق ہوگا۔ کوئی چیز جو اللہ کی ہے اگر اس نے لے لی‘ تو اس پر کوئی گلہ نہیں ہوگا‘ کوئی صدمہ نہیں ہوگا۔ اللہ کی عزت اس کی عزت ہے‘اور اس کی عزت اللہ کی عزت ہے۔ اسی کی خاطر وہ جما رہے گا۔ لہٰذا اس کو کسی بات کا صدمہ نہیں ہوسکتا۔ بڑے سے بڑا صدمہ تو جان کے ضیاع کا ہوتاہے‘ اگر جان کا ضیاع بھی ہو جائے تو یہ ہمارے ہاں بہت معروف ہے اور کہا جاتا ہے: لِلّٰہِ مَا اَخَذَ وَلِلّٰہِ مَاعَطَا ‘ جو لے لیا وہ بھی اسی کا تھا‘ جو دیا ہے وہ بھی اللہ کا ہے۔ کوئی چیز ہماری نہیں ہے‘ سب کچھ اسی کا ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّـآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ اس کی بھر پور عکاسی کرتاہے۔ گویا سب کچھ اسی کا دیا ہوا ہے‘ سب اسی کی ملکیت ہے‘ ہمارے پاس تو ایک امانت ہے۔

جب نماز سے اللہ تعالیٰ کی یاد تازہ ہوتی ہے‘ اللہ کی یاد دل میں بستی ہے‘ ڈیرے ڈالتی ہے‘ تو پھر صبر پیدا ہوتاہے۔ اللہ کا ذکر ساتھ ساتھ ہے۔ یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ نماز کو خشوع کے ساتھ پڑھنے کے لیے بڑے صبر کی ضرورت ہے۔ اس لیے بھی دونوں کا ذکر ساتھ ساتھ ہے۔ دونوں ایک دوسرے کو تقویت پہنچاتے ہیں۔ نماز ٹھیک ہو تو صبر پیدا ہوتاہے‘ اور نماز ٹھیک سے پڑھنے کے لیے صبر کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہزاروں خیالات آتے ہیں‘ ہزاروں وسوسے پریشان کرتے ہیں‘ ان کے اوپر قابو پانا اور ان کے مقابلے میں اللہ کو یاد رکھنا‘ اس کے لیے بڑے ضبط اور بڑے صبرکی ضرورت ہے۔ حصول صبر کے لیے ایک جامع نسخہ ذیل کی آیات میں بیان کیا گیاہے:

وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ ط وَاِنَّھَا لَکَبِیْرَۃٌ اِلَّا عَلَی الْخٰشِعِیْنَ o الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّھُمْ مُّلٰـقُوْا رَبِّھِمْ وَاَنَّھُمْ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَo (البقرۃ ۲:۴۵-۴۶) صبر اور نماز سے مدد لو‘ بے شک نماز ایک سخت مشکل کام ہے‘ مگر ان فرماں برداروں کے لیے مشکل نہیں ہے جو سمجھتے ہیں کہ آخر کار انھیں اپنے رب سے ملنا اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔

گویا صبر اور نماز سے مدد مانگی جائے اور یہ مدد مانگنا بڑا مشکل ہے‘ سوائے ان کے جو خشوع کی کیفیت رکھتے ہیں‘ جن کے دل اللہ کے آگے پست ہیں‘ یا جن کے دل اللہ کے ذکر سے پگھل جاتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اس بات پر یقین رکھتے ہیں‘ جن کو اس کا دھڑکا لگا رہتاہے‘ کہ اللہ سے ملاقات کرنی ہے اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّـآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ، یعنی ہم اللہ کے ہیں اور ہمیں اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے‘ کے اندر پورے صبر کا نسخہ آگیا ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اس اعلیٰ اخلاقی مقام پر پہنچائے‘ اور اس کو حاصل کرنے کی توفیق عطافرمائے۔ (کیسٹ سے تدوین: امجد عباسی)