نومبر۲۰۰۶

فہرست مضامین

رسائل و مسائل

| نومبر۲۰۰۶ | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

اسلامی بنک کاری: چند ذہنی الجھنیں

سوال: آج کل ملک میں اسلامی بنک کاری کا بہت چرچا ہے اور ایک خاص مکتبۂ فکر کے ماہرین اسلامی بنک کاری کے لیے خوب محنت کر رہے ہیں‘ جب کہ جماعت اسلامی سے وابستہ لوگ اس سلسلے میں زیادہ سرگرم نہیں ہیں۔ میں نے ایک بنک میں اسلامی بنک کاری کی وجہ سے ملازمت کی ہے مگر اب تھوڑے بہت مطالعے کے بعد دل مطمئن نہیں۔ اس لیے آپ کی خدمت میں چند سوالات پیش ہیں:

۱- کیا اسلام میں بنک کاری کا کوئی وجود ہے؟ میرے خیال میں بیت المال‘ قرض حسنہ‘ زکوٰۃ‘ صدقہ‘ خیرات کے واضح تصورات کی موجودگی میں لوگوں کی معاشی ضروریات پوری کرنے کے لیے کیا بنک کاری ضروری ہے۔ بالخصوص موجودہ اسلامی بنک کاری کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟

۲- کیا کچھ افراد نفع و نقصان کی بنیاد پر ضرورت مندوں کو قرض فراہم کرنے کا کام کرسکتے ہیں؟ کیا باقاعدہ کوئی ادارہ بنا کر ایسا کام ہوسکتا ہے؟

۳- موجودہ اسلامی بنکوں کی پراڈکٹس جن کے متعلق خود ان کے بنانے والوں کی راے ہے کہ یہ مکمل اسلامی نہیں ہیں بلکہ اسلامی بنک کاری کی جانب ایک پیش رفت ہیں‘ کیا ان بنکوں میں ملازمت کرنا جائز ہے‘ جب کہ مجھے یہ بھی یقین ہے کہ اسی کے   ہم پلّہ مجھے دوسری ملازمت بھی مل سکتی ہے؟

جواب: آج کی دنیا میں معاشی مسائل غیرمعمولی اہمیت اختیارکرگئے ہیں اور خصوصاً  بنک کاری سے متعلقہ مسائل اہلِ علم کی خصوصی توجہ کے محتاج ہیں۔ آپ نے تین بنیادی سوالات اٹھائے ہیں اور آغاز میں ایک تبصرہ بھی کیا ہے کہ جماعت اسلامی سے متعلقہ افراد نے بنک کاری میں کوئی خاص سرگرمی نہیں دکھائی۔ حقیقت اس سے بہت مختلف ہے۔ جماعت اسلامی سے وابستہ  دو قائدین پروفیسر خورشیداحمد اور ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کو اسلامک ڈویلپمنٹ بنک کی طرف سے اسلامی معاشیات اور بنکنگ میں نئی فکر پیش کرنے پر ایوارڈ دیا گیا اور پروفیسر خورشید صاحب کو   شاہ فیصل ایوارڈ بھی دیا گیا۔ جماعت سے وابستہ افراد نے نہ صرف نظری کام کیا ہے بلکہ عملاً خیبربنک نے صوبہ سرحد میںاسلامی بنک کاری کا آغاز کیا ہے اور اس کام میں جماعت اسلامی کے ذمہ داران براہِ راست حصہ لے رہے ہیں۔ پروفیسر خورشیدصاحب اس کے شریعہ بورڈ کے   سربراہ ہیں۔

آپ کے پہلے سوال کے سلسلے میں گزارش ہے کہ قرآن کریم ’قرض حسن‘ کی اصطلاح جس معنی میں استعمال کرتا ہے وہ غیرسودی قرض ہی ہے۔ یہ قرض اگر ایک فرد دے یا ایک ادارہ‘ دونوں میں اس لحاظ سے کوئی فرق نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت سے قبل تجارتی سامان پر منافع میں شرکت اور منافع سے کمیشن کے اصول پر سیدہ خدیجہؓ کے کاروباری معاملات میں خود حصہ لیا اور بعد کے ادوار میں بھی اُمت میں  اس پر عمل ہوتا رہا۔ ایک غیرسودی بنک بھی اسی طرح تجارتی سامان کی فراہمی پر اپنا ایک مقررہ کمیشن لیتا ہے جو اس کی خدمات کا معاوضہ تصورکیا جائے گا۔

موجودہ اسلامی بنک کاری کے لیے ہر معروف بنک نے اپنا ایک شریعہ بورڈ بنایا ہے جس میں ملکی اور بین الاقوامی شہرت کے ماہرین فقہ بنک کی پراڈکٹس کا مطالعہ کرنے کے بعد ان کے اسلامی ہونے پر اپنی رائے دیتے ہیں‘ اور صرف وہ پراڈکٹس جاری کی جاتی ہیں جن کو بورڈ جائز قرار دیتا ہے۔

باہمی شراکت اور امداد باہمی کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے افراد بھی مل کر ایسے ادارے بنا سکتے ہیں جو ضرورت مند افراد کو قرض فراہم کریں۔ ایسے ادارے اپنے شرکا کی رضامندی سے  جمع شدہ رقم کے ایک حصے کو غیرسودی کاروبار میں بھی لگاسکتے ہیں اور اُس سے حاصل ہونے والے   نفعے سے اداراتی ضروریات پوری کرنے کے بعد رقم کو متناسب طور پر شرکا میں تقسیم کرسکتے ہیں۔

موجودہ اسلامی بنک کاری پر یہ اعتراض عموماً کیا جاتاہے کہ یہ مکمل طور پر اسلامی نہیں ہے بلکہ اس جانب ایک قدم کی حیثیت رکھتی ہے۔ جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اولاً: ایسے بنک موجود ہیں جو اپنے بارے میں مکمل طور پر اسلامی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور ان کے معاملات کو باقاعدگی سے فقہی ماہر جانچتے رہتے ہیں۔ لیکن فرض کرلیا جائے کہ دعوے کے باوجود یہ بنک مکمل طور پر اسلامی اصولوں پر عمل نہیں کر پا رہے تو کیا ایسی صورت میں ایسے ادارے بند کر دیے جائیں‘ اور اس وقت تک انھیں دوبارہ نہ کھولا جائے جب تک وہ ہر ہرمعاملے میں مکمل طور پر شریعت کے اصولوں پر عمل کرنے کا ثبوت نہ پیش کر دیں؟

میرے خیال میں یہ کہنا تو بہت آسان ہے لیکن ایسے مثالی بنک کے وجود میں آنے تک جو لوگ حرام سے بچنا اور حلال پر عمل چاہتے ہیں وہ کیا کریں؟ اس لیے اس عبوری مدت (transitory period ) میں جس حد تک اسلامی پراڈکٹس کو متعارف کرایا جا سکے اس کی کوشش کرنا چاہیے۔

رہا ملازمت کا معاملہ‘ تو اگر آپ کی تحقیق کی حد تک ایک بنک میں اسلامی اصول کارفرما ہیں تو محض گمان کی بنا پر اس سے علیحدگی کا کوئی جواز نہیں پیش کیا جاسکتا۔ اسلامی احکام کی بنیاد ظاہر پر ہے اور جب تک وہ خرابی جس سے آپ پریشان ہیں واضح طور پر حرام نہ ہو‘ محض گمان کی بنا پر اسے حرام قرار دے لینا مناسب نہیں۔ اگر کسی ایسے اسلامی بنک کی ملازمت کے مقابلے میں ایک ایسی ملازمت مل سکتی ہے جس میں آپ کو حالیہ ملازمت سے زیادہ اطمینان ہو‘ تو اطمینان کی بنا پر آپ دوسری ملازمت شوق سے اختیار کرلیں تاکہ ذہنی خلجان سے نجات ملے‘ گو ایسا کرنا ضروری نہیں ہے۔

کسی بھی مروجہ نظام کی جگہ ایک ایسا نظام لانا جو مکمل طور پر اسلامی اصولوں پر مبنی ہو    ایک طویل‘ منظم اور مسلسل جدوجہد کے بعد ہی ممکن ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھیے کہ مغرب کی   سیکولر ڈیموکریسی اسلامی نقطۂ نظر سے غیراسلامی ہے کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کواعلیٰ مقام حاصل نہیں ہوتا لیکن اس غیراسلامی جمہوریت کو تبدیل کرنے کے لیے جو ذرائع ممکن ہیں ان میں فوجی انقلاب‘ خونی انقلاب اور جمہوری عمل کے ذریعے اسلامی نظام کا قیام‘ تین معروف طریقے ہیں۔ اگر جمہوری عمل کو اختیار کیا جائے تو ظاہر ہے اس عمل کے دوران کچھ عرصے کے لیے جمہوری اداروں میں شرکت کرنا ہوگی‘ جب کہ وہ اصولی طور پر لادینی نظام پر چل رہے ہوں گے۔      اس عبوری عرصے کے لیے اس برائی کو گوارا کیے بغیر تبدیلی کا عمل ممکن نہیں ہوگا‘ الا یہ کہ ایک ایسا غیرخونی انقلاب برپا ہو جو ان اداروں کو راتوں رات تبدیل کردے۔

اسلامی انقلاب کے لیے جہاں ایسے افراد کار کی تیاری بنیادی شرط ہے جو مکمل طور پر اللہ کی بندگی اختیار کرچکے ہوں‘ وہاں ان افرادکا سیاسی‘ معاشی‘ معاشرتی اور ثقافتی میدانوں میں آگے بڑھ کر شرکت کرنا اور عبوری دور میں بھی اپنے کردار و عمل سے اعلیٰ سیرت کا مظاہرہ کرنا اس عمل کا لازمی حصہ ہے۔ یہ کام معاشرے اور اداروں سے کٹ کر اور باہر بیٹھ کر نہیں کیا جاسکتا۔ تبدیلی کا راستہ بعض اوقات ایسے مقامات سے بھی گزرتا ہے جہاں بعض ناگوار حالات ہوں لیکن جب تک منزل‘ مقصد اور سمت درست ہو‘ ایسا کرنا ناگزیر ہوگا۔ واللّٰہ اعلم بالصواب (ڈاکٹر انیس احمد)


مسئلۂ تقدیر

س: ایک شخص نے ایک عجیب اعتراض پیدا کیا ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ مذہب کی تعلیمات کے مطابق ہرشخص کی موت کا وقت معیّن ہے۔ اس میں کسی قسم کی تاخیر و تقدیم نہیں ہوسکتی۔ لیکن دوسری طرف ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اقوامِ مغرب نے حفظانِ صحت کے اصولوں کی پابندی اور بیماریوں کی روک تھام کر کے اپنی عمروں کے اوسط میں اضافہ اور شرحِ اموات میں کمی کرلی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عمر کا بڑھانا گھٹانا اور موت کو ٹالنا انسان کے بس میں ہے۔ اس بات کو واضح کریں کہ ان دونوں باتوں میں سے کون سی بات صحیح ہے۔ آیا زندگی کی مدت اور موت کی گھڑی مقرر ہے یا اس میں ردّ و بدل انسان کے بس میں ہے؟

ج: آپ نے جو سوال کیا ہے وہ دراصل ایک بڑے اور بنیادی سوال کا جز ہے۔ وہ بنیادی سوال یہ ہے کہ انسان کس حد تک تقدیر اور مشیت ِالٰہی کے تحت مجبور اور بے بس ہے اور کس حد تک اُسے ارادہ و عمل کی آزادی دی گئی ہے‘ اور کوشش سے نتائج مطلوب پیدا کرنا کس حد تک اس کے امکان میں ہیں؟ یہ سوال ایسا نہیں ہے جس کا جواب آسانی اور اختصار کے ساتھ اثبات یا نفی کی صورت میں دیا جاسکے۔ اگر جواب میں یہ کہا جائے کہ انسان اپنی تقدیر کا خالق خود ہے اور کوئی بالاتر طاقت اس کے افعال اور نتائجِ افعال پر حاوی و مؤثر نہیں ہے تو یہ بات بالبداہت غلط ہے۔   انسان جب اپنے آپ کو وجود میں نہیں لاسکتا تو جو اعمال اس کے وجود سے صادر ہوتے ہیں‘ ان کا فاعلِ مختار آخر وہ کیسے ہوسکتا ہے؟ پھر اگر یہ کہا جائے کہ انسان مجبور محض ہے اور اختیار و آزادی سے قطعی محروم ہے تو یہ بات بھی صریحاً غلط اور خلافِ عقل و مشاہدہ ہے اور یہ دین کی تعلیمات کے بھی خلاف ہے۔

حقیقت اِن دونوں انتہائوں کے بین بین ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک خاص پہلو سے اور ایک خاص دائرے کے اندر انسانوں کو ایک حد تک آزادی حاصل ہے اور یہ آزادی انسان اور پوری کائنات کے خالق ہی کی عطا کردہ ہے۔ لیکن اس دائرے سے باہرجاکر انسان کی آزادی ختم ہوجاتی ہے اور اس کے سارے اعمال اور ان کے نتائج آخرکار مشیت ِالٰہی کے تابع ہوکر رہ جاتے ہیں۔ انسان کا کام یہ نہیں ہے کہ وہ اپنی آزادی یا مجبوری کے حدود کو ناپنے کی کوشش کرے‘ یا یہ مسئلہ حل کرنے میں اپنا دماغ لڑائے کہ یہ جبرواختیار ایک دوسرے کے ساتھ کیسے جمع ہوسکتے ہیں؟ انسان جب تک انسانی حدود میں مقید ہے اور جب تک وہ مخلوق کے بجاے خالق نہیں بن جاتا‘ اس وقت تک وہ اس پیچیدہ مسئلے کی تہہ اور کنہ تک نہیں پہنچ سکتا۔ انسان کا کام یہ ہے کہ جس حد تک اُسے آزادی دی گئی ہے اس حد تک اُسے خالق کی رضا اور منشا کے مطابق استعمال کرے اور جن حدود سے آگے اُسے آزادی حاصل نہیں‘ وہاں وہ آزاد اور خودمختار ہونے کا ادّعا نہ کرے۔

اس اصولی بات کو سمجھ لینے کے بعد آپ عمر کے گھٹنے اور بڑھنے کے سوال پر خود غور کریں۔ یہ بات آخر کس کو معلوم ہے کہ خدا نے کس شخص کی موت کے لیے کون سا وقت مقرر کیا تھا‘ اور کسی خاص دور یا عہد میں کسی خاص قوم کی عمر کا اوسط اس نے کیا متعین فرمایا تھا؟ اگر اس کا علم کسی کو  نہیں ہے تو پھر یہ دعویٰ خودبخود بے معنی ہوجاتا ہے کہ خدا کے مقرر کیے ہوئے وقت پر فلاں شخص نہ مرسکا اور اس نے یا کسی دوسرے نے اس کی عمر میں اضافہ کردیا۔ یہ سب دراصل بے عقلی کی باتیں ہیں جو بہت سے لوگ بے سمجھے بوجھے کرتے رہتے ہیں۔ ہمارا کام صرف یہ ہونا چاہیے کہ ہم کو خدا نے علم اورعقل کی جو طاقتیں دی ہیں‘ انھیں استعمال کرکے ہم امراض کے علاج اور صحت کی حفاظت کے زیادہ سے زیادہ بہتر ذرائع مہیا کریں اور ان کے مہیا ہوجانے پر خدا کا شکر بجالائیں۔ اس سے آگے بڑھ کر کوئی چیز ہمارے اختیار میں نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ہم نہ کسی کو بیمار پڑنے دیتے اور نہ کسی کو مرنے دیتے۔ لیکن مرض یا موت کو بالکل روک دینے پر نہ کبھی قدیم زمانے کا انسان قادر تھا‘ نہ آج کے زمانے کا کوئی بڑے سے بڑا معالج یا سائن ٹسٹ قادر ہوسکا ہے۔ (جسٹس ملک غلام علی‘ ترجمان القرآن‘ ستمبر ۱۹۶۴ئ‘ ص ۶۲-۶۴)