مشہور مقولہ ہے: ’’خدا شرے بر انگیز کہ خیرے مادر آں باشد‘‘ (کبھی شر سے بھی خیر رونما ہوتا ہے)۔ ایسا ہی ایک خیر حدود آرڈی ننس میں ’تحفظ نسواں‘ کے نام پر ترمیمی بل کے سلسلے کی بحث اور پارلیمانی پارٹیوں کے قائدین کی تحریک پر ایک علما کمیٹی کے قیام کی شکل میں رونما ہوا ہے۔ اس ضمن میں اسلامی نظریاتی کونسل کے ایک فاضل رکن نے استعفا دے دیا اور پھر خبر آئی کہ کونسل کے کے صدر‘ جنرل پرویز مشرف سے ملاقات کر کے پوری کونسل کی طرف سے اجتماعی استعفے کا اقدام کرنے والے ہیں۔ مستعفی ہونے والے رکن نے اپنے استعفے کے خط میں لکھا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل ایک دستوری ادارہ ہے اور اسے نظرانداز کرکے بالا ہی بالا ایک علما کمیٹی کے قیام اور اس کے مشورے سے کونسل کا استحقاق مجروح ہوا ہے اور اس طرح گویا اس کی بے توقیری کا پیغام دیا گیا ہے۔ تقریباً یہی موقف کونسل کے صدر اور باقی ارکان کا سامنے آرہا ہے اور ملک کے انگریزی کے سیکولر اور لبرل پریس نے اس کو خوب خوب اُچھالا ہے اور کونسل کو بانس پرچڑھا کر اس کے اس اقدام کو حدود آرڈی ننس کے خلاف کام کرنے والی سیکولر اور غیرملکی این جی اوز کی لابی کی مہم میں کامیابی کے چند پروں کے اضافے کا رنگ دیا ہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں غوروفکر کے چند ضروری نکات پر گفتگو کی جائے۔
نظریاتی کونسل کے جن ارکان نے اس موقع پر اپنی غیرت ایمانی اور ذاتی اور علمی عزوشرف پر ہونے والی دراندازی پر جن جذبات کا اظہار کیا ہے وہ اس پہلو سے تو بڑے قیمتی ہیں کہ اس دستوری ادارے کو شاید اپنی تاریخ میں پہلی بار اپنے مقام‘ کردار اور استحقاق کا احساس ہوا۔ یہ اور بات ہے کہ اس وقت اس کی آواز جن دوسری آوازوں میں مل گئی ہے وہ اسلامی قوانین کے خلاف مہم چلانے والی سیکولر اور عالمی استعماری گروہ (lobbies) ہیں۔ اگر اس سے صرفِ نظربھی کرلیا جائے تو اسے قابلِ قدر ہی کہا جائے گا کہ اس ادارے اور اس کے ارکان کو اب یہ ہوش تو آیا کہ ان کا دستور اور قانون سازی کے نظام میں بھی ایک کردار ہے اور اگر ان کے اس کردار پر کوئی حرف آتا ہے تو اس پر احتجاج کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کو ایک دستوری ادارہ ہوتے ہوئے بھی عملاً ایک عضو معطل ہی کا مقام دے دیا گیاہے‘ یااس نے یہ مقام اپنے لیے قبول کرلیا ہے۔دستور کی دفعہ ۲۲۸کونسل کی تشکیل ‘ دفعہ ۲۲۹ صدر‘ گورنر‘ پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلیوں کی طرف سے مشورہ کے لیے بھیجے جانے والے ریفرنس کے بارے میں ہیں‘ اور دفعہ ۲۳۰ میں اس کونسل کے وظائف اور ذمہ داریاں بیان کی گئی ہیں۔ کونسل کی رپورٹوں کا پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں پیش کیا جانا اور ان پر بحث ایک دستوری ذمہ داری ہے لیکن ہمارے علم کی حد تک‘ گو ۱۹۷۳ء کے دستور کے تحت قائم کیے جانے کے بعد سے اب تک‘ کونسل ۵۰ سے زیادہ رپورٹیں تیار کرچکی ہے لیکن ان میں سے کسی ایک پر بھی پارلیمنٹ میں بحث نہیں ہوئی اور نہ ان کی روشنی میں کوئی قانون سازی یا پالیسی سازی ہوئی ہے۔ حیرت کا مقام ہے کہ کونسل یا اس کے ارکان کو اس بے توقیری پر کبھی احتجاج کی توفیق نہیں ہوئی۔
اس پورے عرصے میں پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں نے دسیوں ایسے قانون بنائے ہیں جن کا بلاواسطہ یا بالواسطہ شریعت کے احکام سے تعلق ہے۔ چند قوانین تو شریعت کے نام پر بنائے گئے ہیں‘ مثلاً نوازشریف صاحب کے پہلے دورِحکومت میں منظور کیا جانے والا قانون نفاذ شریعت۔ نیز ان کے دوسرے دور حکومت میں دستور کا پندرھواں ترمیمی بل جسے قومی اسمبلی نے منظور بھی کرلیا تھا مگر وہ سینیٹ سے منظور نہ ہوسکا اور اس میں شریعت اورامربالمعروف اور نہی عن المنکر کے نام پر وزیراعظم کے لیے غیرمعمولی اختیارات حاصل کیے گئے تھے۔ ہمیں یاد نہیں کہ ان دونوں اور دوسرے متعلقہ قوانین کے باب میں کونسل کی رگ حمیت کبھی پھڑکی ہو اور اسے اپنا دستوری کردار یاد آیا ہو۔
دستور کی دفعہ (1-d) ۲۳۰ کی رو سے یہ کونسل کی ذمہ داری تھی کہ ملک کے تمام قوانین کو اسلامی احکام سے ہم آہنگ کرنے اور مزید قانون سازی کے لیے شریعت کے متعلقہ احکام و ہدایات کو ایک جامع رپورٹ کی شکل میں پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کو پیش کرے گی اور یہ کام اپنے قیام کے سات سال کے اندر اندر مکمل کرے گی۔ ہماری اطلاع کی حد تک تمام قوانین کے بارے میں جامع رپورٹ آج تک مرتب نہیں ہوئی ہے۔ جسٹس تنزیل الرحمن کی صدارت کے دوران اسی سلسلے میں کئی سو قوانین کے بارے میں شق وار تبصرہ تیار ہواتھا مگر یہ کام مکمل نہیں ہوا‘ اور ملک کے۴ہزار سے زیادہ انگریز کے زمانے میں نافذ ہونے والے اور گذشتہ ۶۰ سال میں کتابِ قانون کا حصہ بننے والے چند سو قوانین کا مکمل جائزہ اور شریعت سے ہم آہنگ کرنے کے لیے متعین ترامیم کی تیاری کا کام ہنوز کونسل کی توجہ کا منتظر ہے۔ اسلامی احکام کے مجموعے پر مرتب ایک رپورٹ ضرور تیار کی گئی ہے لیکن آج تک اس پر بھی مرکزی یا صوبائی اسمبلی اور سینیٹ میں کوئی بحث نہیں ہوئی۔ ہمیں علم نہیں کہ اس سلسلے میں کونسل نے کبھی حکومت کو اپنی دستوری ذمہ داریاں ادا کرنے پر متوجہ کرنے کی زحمت فرمائی ہو۔
دستور کی متعلقہ دفعات کے مطالعے سے یہ بات ظاہر نہیں ہوتی کہ اسلامی احکام کے بارے میں مشورہ حاصل کرنے کے پارلیمان کے حق کو اسلامی نظریاتی کونسل کے ساتھ محصور اور محدود کیا گیا ہے۔ بلاشبہہ کونسل کے قیام کا مقصد ہی قوانین اور پالیسیوں کو اسلام سے ہم آہنگ کرکے اس سے استفادہ کرنا ہے۔ لیکن ریفرنس کا اختیار صدر‘ گورنر‘ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کو حاصل ہے۔ کونسل کو suo motto کوئی اختیار حاصل نہیں‘جیساکہ سپریم کورٹ یا وفاقی شرعی عدالت کو حاصل ہے۔ اسی طرح کوئی قدغن پارلیمنٹ کے اختیارات پر نہیں کہ وہ کونسل کے علاوہ کسی اور فرد‘ ادارے یا مشکل میں اپنی رہنمائی اور اعانت کے لیے کوئی اقدام نہیں کرسکتی۔ پارلیمنٹ کو تو یہ بھی اختیار حاصل ہے کہ کونسل کو کسی معاملے کو ریفر کرنے کے باوجود قانون سازی کرلے اور کونسل کی سفارشات پر بعد میں غور کرے (دفعہ (۳) ۲۳۰)۔ ہمیں علم نہیں کہ دستور یا خود اس کے اپنے رولز آف بزنس کی کون سی دفعہ کے تحت کونسل کو یہ اختیار یا استحقاق حاصل ہے کہ پارلیمنٹ‘ صدر‘ گورنر‘ پارلیمانی پارٹیوں کے قائدین کونسل کے علاوہ کسی اور سے نہ مشورہ کرسکتے ہیں اور نہ کوئی اور مشاورتی نظام بنانے کا اختیار رکھتے ہیں۔ اگر کونسل کے فاضل ارکان اس سلسلے میں دستور یا ضوابط کار کے متعلقہ اندراجات کی وضاحت کردیتے تو معاملے کو سمجھنے میں سہولت ہوتی۔
ہم خود اسلامی نظریاتی کونسل کو بااختیار دیکھناچاہتے ہیں اور اس کے کردار کو زیادہ مؤثر بنانے کے حق میں ہیں لیکن کونسل کو بھی قوم کو یہ اعتماد دینا ہوگا کہ وہ شریعت کے احکام کی محافظ اور امین ہے اور محض بااثر گروہوں کے ایجنڈے کی شعوری یا غیرشعوری تکمیل کے راستے پر گامزن نہیں۔ سرحداسمبلی میں حسبہ بل کے باب میں جو کردار اس کونسل نے ادا کیا وہ اس کی عزت کو بڑھانے والا قرار نہیں دیا جاسکتا۔ کونسل کے فاضل ارکان کو علم ہوگا کہ حسبہ بل کا اصل مسودہ خود اسلامی نظریاتی کونسل نے ۲۰‘ ۲۵ سال پہلے بنایا تھا۔ اسی مسودے کی روشنی میں صوبائی اسمبلی نے ایک بل تیار کیا۔ اسی پر سیکولر لابی آتش زیرپا تھی۔ اس بل پر جو تبصرہ کونسل نے کیا‘ وہ نہ شریعت کے ساتھ انصاف تھا اور نہ کونسل کے حدودِکار کے ساتھ۔ دستوری بقراطیت کا جو مظاہرہ اس میں کیا گیا‘ اسے کونسل کے دائرہ کار سے متعلق قرار دینے کے لیے خاصی ذہنی عیاشی کی ضرورت ہے۔
موجودہ کونسل کی تشکیل جس طرح کی گئی‘ اس سے اس کے وقار اورکردار کے بارے میں بہت سے حلقوں کو تشویش ہے اور کونسل کی اب تک کی کارکردگی نے ان خدشات کو دُور کرنے میں کوئی خدمت انجام نہیں دی۔ حدود آرڈی ننس کے سلسلے کی بحث میں جس طرح کونسل ُکودی ہے‘ اس نے ان خدشات کو مزید تقویت دی ہے۔ شاید کونسل کے موجودہ ارکان یہ بھول گئے کہ اصل حدود آرڈی ننس جسٹس افضل چیمہ صاحب کی صدارت میں قائم اسلامی نظریاتی کونسل کے تیار کردہ مسودے ہی پر مبنی ہے‘ اور جن امور میں اس میں اس کی تجاویز سے انحراف کیا گیا تھا ان کے بارے میں جسٹس تنزیل الرحمن کے دورِ صدارت میں قائم کونسل نے کئی بار متوجہ کیا تھا جو ریکارڈ کا حصہ ہے۔ ہمیں توقع ہے کہ کونسل کے موجودہ ارکان اسی کونسل کے ماضی کے فیصلوں اور سفارشات سے واقف ہوں گے۔ بلاشبہہ ایک قانونی ادارے کو اپنی یا اپنے سابقین کی آرا پر نظرثانی کا حق ہے جس طرح عدالتی ادارے کرتے رہتے ہیں۔ لیکن یہ کام ایک ضابطے اور طریقے کے مطابق ہوتا ہے اور آرا سے اگر رجوع بھی کیا جائے تو ماقبل کی آرا پر بحث و تنقید اور نئے دلائل کی بنیاد پر کسی نئے موقف کا اظہار کیا جاتا ہے۔ ہمارے علم میں نہیں کہ کونسل نے ایسی کوئی مشق (exercise) کی ہے یا نہیں اور اگر کی ہے تو اس کا حاصل کیا ہے۔
حدود آرڈی ننس میں ترمیم کی بحث کے موقع پر اسلامی نظریاتی کونسل نے جس سرگرمی (activism ) کا اظہار کیا ہے‘ اس میں judical activismکے رویے سے کچھ مماثلت ضرور ہے لیکن اس میں ان آداب اورتقاضوں کو ملحوظ نہیں رکھا گیا جو اس activismکا حصہ ہیں۔ ہمیں توقع ہے کہ کونسل نے اپنے استحقاق اور کردار کے بارے میں جس بیداری کا اظہار کیا ہے وہ اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کی بھی فکر کرے گی۔