اللہ تعالیٰ نے ہم پر کوئی عبادت ایسی فرض نہیں فرمائی ہے جس میں بے شمار روحانی‘ اخلاقی‘ اجتماعی‘ تمدنی اور مادی فوائد نہ ہوں۔ ظاہر بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنی ذات کے لیے تو کسی کی عبادت کی کوئی حاجت نہیں ہے۔ اس نے جو عبادت بھی بندوں پر فرض کی ہے وہ خود بندوں ہی کی بھلائی کے لیے ہے۔ اللہ کی ذات ہر احتیاج سے بالاتر اور ہر نفع اور فائدے کی ضرورت سے بلند تر ہے…
تمام عبادتوں کا مقصودِ اصلی تو اللہ تعالیٰ کے حضور میں اپنی بندگی پیش کرنا ہے‘ اس کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ اگر بندے کو اللہ کی رضا حاصل ہو جائے تو اس کی عبادت کا اصل مقصد پُورا ہو گیا۔ لیکن اگر وہ عبادات میں اپنی ساری دَوڑ دُھوپ کے باوجود اللہ کی رضا پانے سے محروم رہ گیا تو حقیقت میں اس کی ساری محنت ہی اکارت گئی۔ اس نے عبادت کے حقیقی مقصد اور اصلی فائدے کو ضائع کر دیا…
آپ یہاں حج کے لیے آئے ہیں تو آپ کا سب سے پہلا کام یہ ہے کہ آپ میں سے ہرشخص حج‘ اپنی نیت کو خالص اور پاک کر کے صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کو مقصود سمجھتے ہوئے انجام دے۔ اگر کسی شخص نے نیت کے اخلاص اور ارادے کی درستی کے ساتھ حج کیا اور کوئی بڑا اجر نہیں‘ صرف اپنی مغفرت ہی حاصل کر لے گیا تو حقیقت میں وہ کامیاب ہے۔ اس کے آگے یہ سراسر اللہ کا فضل اور احسان ہے کہ وہ کسی آدمی کو اس پر مزید اجر اور بلند مراتب سے بھی نواز دے۔ بہرحال ایک آدمی کا حج کے ذریعے سے اللہ کی رضا اور خوشنودی حاصل کر لینا ہی بہت بڑی کامیابی ہے۔ اس لیے میں آپ کو سب سے پہلی نصیحت یہ کرتا ہوں کہ اپنے ذہن کو ہر طرح کے بے اصل افکار اور غیر حقیقی تصورات سے صاف کر لیجیے اور حج کے مقصودِ حقیقی کو ذہن نشین کرنے کی کوشش کیجیے…
اس کے ساتھ جو دوسری بات میں آپ کے ذہن نشین کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اللہ کے حضور بندگی پیش کرنے کی دُنیا میں جتنی شکلیں بھی ممکن ہیں وہ ساری کی ساری اللہ تعالیٰ نے حج میں جمع کر دی ہیں۔ ذرا غور کیجیے کہ ایک آدمی جس وقت حج کا ارادہ کرتا ہے اگر وہ خالصتًا اللہ کی رضا چاہنے کے لیے یہ ارادہ کر رہا ہے تو اس کا یہ عزمِ سفر بجاے خود یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ کوئی دنیوی مقصد لے کر گھر سے نہیں نکل رہا ہے۔ اس کے پیش نظر کوئی تجارتی غرض نہیں ہے اور نہ اسے سیروسیاحت ہی کا شوق چرایا ہے۔ اس نے ہزاروں میل کا سفر کرنے کا ارادہ صرف اس لیے کیا ہے کہ اللہ کی عبادت کرے اور اس کی رضا جوئی کے لیے تگ و دَو کرے۔
پھر آپ دیکھیے کہ ایک آدمی جب حج کے لیے نکلتا ہے تو اپنے بال بچوں کو چھوڑتا ہے۔ اپنا گھر بار‘ اپنا کاروبار‘ اپنے اعزہ و اقربا اور اپنے دوست‘ احباب‘ غرض بے شمار علائق و روابط کو توڑ کر نکلتا ہے۔ کیوں؟ صرف اس لیے کہ اللہ کی عبادت انجام دے اور اس کی خوشنودی تلاش کرے۔ اس طرح ہجرت کا اجر اس کو آپ سے آپ مل جاتا ہے۔ ہجرت کے جو اخلاقی اور روحانی فوائد اور منافع ہیں وہ سارے کے سارے اس کو حاصل ہو جاتے ہیں‘ کیونکہ اس کی حیثیت اس شخص کی سی ہے جو محض اللہ کی خاطر اپنا گھر بار چھوڑ دیتا ہے۔
اس کے بعد دیکھیے کہ ایک شخص جب مکّہ معظمہ پہنچتا ہے تو اس جگہ وہ بے شمار مختلف عبادات انجام دیتا ہے۔ پانچوں اوقات کی نمازیں تو بہرحال وہ آپ سے آپ پڑھتا ہی ہے‘ لیکن اس کے علاوہ وہ بیت اللہ کا طواف بھی کرتا ہے جس سے اس کو اللہ تعالیٰ پر قربان ہونے اور اپنے آپ کو صدقہ کرنے کا اجر نصیب ہوتا ہے۔ وہ حجراسود کو بھی چومتا ہے اور اس طرح اسے اللہ تعالیٰ کی آستانہ بوسی کا شرف حاصل ہوتا ہے۔ وہ ملتزم سے بھی چمٹتا ہے‘ گویا اللہ تعالیٰ کی چوکھٹ سے چمٹ رہا ہے اور اس سے دُعائیں مانگ رہا ہے۔ اس کے علاوہ وہ صفا و مروہ کے درمیان سعی کرتا ہے۔ اِس سے اُس کو اللہ کی راہ میں دَوڑ دُھوپ کرنے کا اجر ملتا ہے۔ اس طریقے سے اس کو اللہ سے دُعا کرنے‘ اس کے گھر کے گرد طواف کرنے اور اس کی راہ میں سعی و جہد کرنے کا اجر حاصل ہوتا ہے۔ پھر ان عبادات کے علاوہ حج کے دوران میں وہ منٰی سے عرفات اور عرفات سے مُزدَلِفَہ آتا ہے۔ مزدلفہ سے پھر منٰی جاتا ہے۔ یہ ساری دَوڑ دُھوپ جہاد سے مشابہت رکھتی ہے۔ جس طرح ایک آدمی جہاد کے لیے گھر سے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر نکلتا ہے‘ راستے کی تکلیفیں اور صعوبتیں برداشت کرتا ہے‘ میدان جنگ کی سختیاں جھیلتا ہے‘ قریب قریب اسی طرح کی صعوبتیں اور محنتیں اور مشقتیں آدمی کو اِس تمام دَوران میں انگیز کرنی ہوتی ہیں۔ اس طریقے سے وہ گویا جہاد فی سبیل اللہ کے اجر کا مستحق بنتا ہے۔ پھر وہ یوم النحر کو (قربانی کے روز) قربانی کرتا ہے۔ اس طرح اس کو قربانی کا اجر بھی حاصل ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے کہا گیا ہے کہ حج جامع عبادات ہے۔ دُنیا میں آج تک جتنی ممکن قسم کی عبادتیں انسانوں نے کسی معبود کو پیش کی ہیں وہ ساری کی ساری یہاں ایک بندئہ مومن صرف اللہ تعالیٰ کے لیے خاص کرتے ہُوئے انجام دیتا ہے۔ اسی بنا پر حج کو سب سے بڑی عبادت بھی قرار دیا گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اگر یہ عبادت انجام دے کر کوئی شخص اپنے گناہوں کی مغفرت ہی حاصل کر لے تو درحقیقت یہ اس کی بہت بڑی کامیابی ہے۔
مغفرت کی حد تک حج کا فائدہ حاصل کرنے کے لیے یہ بات نہایت ضروری ہے کہ آپ بے عیب حج کریں۔ بے عیب حج سے مراد یہ ہے کہ آدمی حج کے دوران میں ہر قسم کی برائیوں سے بچنے کی پُوری پُوری کوشش کرے۔ غیبت سے پرہیز کرے۔ گالی دینے سے اور باہم جھگڑا کرنے سے بچے۔ حج میں انسان کو جو سب سے بڑی مشقت پیش آتی ہے وہ یہ ہے کہ اسے مناسک حج کی ادایگی میں قدم قدم پر رکاوٹوں اور مشکلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ ایک ہی وقت میں لاکھوں آدمیوں کو یہ مناسک ادا کرنے ہوتے ہیں۔ اب چونکہ اس موقع پر لوگوں کا غیر معمولی ہجوم ہوتا ہے اور ہر کوئی ایک تگ و دَو میں لگا ہوتا ہے‘ اس لیے اس عالم میں ہر وقت اس بات کا امکان ہوتا ہے کہ ایک انسان کو دوسرے انسان سے دانستہ یا نادانستہ کوئی تکلیف پہنچ جائے‘ یا کسی کو اپنا کوئی کام انجام دینے میں زحمت پیش آئے۔ ایسے تمام مواقع پر ہر شخص کو نہایت ضبط و تحمل سے کام لینا چاہیے اور کسی صورت میں بھی تنگ دلی اور تنک مزاجی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ اس عالم میں اس بات کی سخت ضرورت ہوتی ہے کہ آدمی اپنے نفس پر ضبط کرے۔ باہم گالم گلوچ اور دنگے فساد سے پُوری طرح بچے اور اس امر کی کوشش کرے کہ اس کی ذات سے کسی کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ اور اگر کسی کی ذات سے اس کو کوئی تکلیف پہنچ جائے تو وہ اس کو صبر کے ساتھ برداشت کرے۔ یہ کم سے کم وہ چیز ہے جو آدمی کے حج کو بے عیب بناتی ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ:
فَمَنْ فَرَضَ فِیْھِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوْقَ لا وَلَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ ط (البقرۃ ۲:۱۹۷) جو شخص ان مقرر کے مہینوں میں حج کی نیت کرے‘ اُسے خبردار رہنا چاہیے کہ حج کے دَوران میں اُس سے کوئی شہوانی فعل‘ کوئی بدعملی‘ کوئی لڑائی جھگڑے کی بات سرزد نہ ہو۔
حج کے دوران میں آدمی کا سب سے بڑا امتحان اسی معاملے میں ہوتا ہے اور جو آدمی حج میں لڑائی جھگڑا کرتا ہے‘ دوسروں کے لیے تکلیف کا باعث بنتا ہے اور دوسروں سے پہنچنے والی تکالیف پر صبر نہیں کرتا‘ وہ اپنے حج کے اجر کو بہت بڑی حد تک ضائع کر دیتا ہے۔
اس کے آگے اگر کوئی شخص خوبیوں والا حج کرنا چاہتا ہو تو اس کو چاہیے کہ اپنے وقت کا زیادہ سے زیادہ حصہ اللہ کا ذکر کرنے میں صَرف کرے۔ بیٹھا ہُوا فضول گپّیں نہ ہانکے۔ بے کار قصہ گوئی نہ کرے۔ کسی کی برائی کرنا تو بڑی چیز ہے‘ محض دُنیاوی معاملات پر ہر وقت باتیں کرتے رہنا بھی حج کے اجر و ثواب کو کم کر دیتا ہے۔ اُونچے درجے کا خوبیوں والا حج اگر آپ کو مطلوب ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنے اوقات کا زیادہ سے زیادہ حصہ اللہ کا ذکر کرنے میں‘ نمازیں پڑھنے میں‘ قرآن مجید کی تلاوت کرنے میں‘ نیکی اور بھلائی کی باتیں کرنے میں‘ لوگوں کو اللہ کا دین سمجھانے میں اور ان کو منکرات اور فواحش سے روکنے میں صرف کریں۔ اگر آپ ان کاموں میں اپنے اوقات صرف کرتے ہوئے حج کریں گے تو ان شاء اللہ وہ حج خوبیوں والا حج ہوگا اور اس پر آپ بہت بڑے اجر کے مستحق ہو سکیں گے۔(خطباتِ حرم‘ ص ۳۷-۴۳)