نومبر۲۰۰۶

فہرست مضامین

غیرمسلموں میں دعوت: چند تجربات

صوفی محمد اکرم | نومبر۲۰۰۶ | دعوت و تحریک

Responsive image Responsive image

عام طور پر دعوتِ دین کے حوالے سے ہم مسلمانوں کا سوچتے ہیں‘ غیرمسلموں کا نہیں۔ روزمرہ زندگی میں بارہا ایسے مواقع سامنے آتے ہیں جوغیرمسلموں میں دعوت کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ پاکستان میں ہندو اور عیسائی ایک بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ شہادتِ حق اور    دعوتِ دین کا تقاضا ہے کہ مسلمان ان غیرمسلموں میں دعوت کا فریضہ احسن انداز میں انجام دیں تاکہ اپنی ذمہ داری سے بھی عہدہ برآ ہوسکیں اور کل خدا کے ہاں بھی سرخرو ہوں۔

غیرمسلموں میںدعوت کے ضمن میں‘ میں نے کچھ کام کیا‘ اس حوالے سے چند تجربات غوروفکر اور تحریک و عمل کے لیے پیش ہیں۔

  • روز مرہ زندگی میں سفر سے ہر ایک کو کسی نہ کسی طرح واسطہ رہتا ہے۔ دورانِ سفر  فریضۂ دعوت کی ادایگی کے مواقع بھی میسرآتے ہیں۔ مجھے بھی ایک ایسا موقع میسر آیا۔ ایک مرتبہ مجھے اسلام آباد سے لاہور بذریعہ بس آنا تھا۔ میرے ساتھ بس میں ایک ہندو فیملی بھی سوار ہوئی۔ میں نے موقع غنیمت جانتے ہوئے اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے نوجوان سے بات چیت شروع کی‘ معلوم ہوا کہ وہ نواب شاہ سے تعلق رکھتے ہیں اور لاہور سیر کی غرض سے جا رہے ہیں۔ نوجوان کا نام راج کمار تھا۔ میں نے اس سے کہا کہ آپ لاہور کی سیر کے لیے جا رہے ہیں تو ہمارے گھر بھی ٹھیریں۔ اتفاق سے ہماری بس علی الصبح چاربجے لاہور پہنچی۔ میں نے اس کے والد صاحب کو  دعوت دی کہ رات گئے آپ کہاں جائیں گے‘ آپ میرے شہر کی سیر کرنا چاہتے ہیں‘ میرے مہمان ہیں‘ لہٰذا میرے ہاں ٹھیریں۔ انھوں نے پہلے تو پس و پیش کی‘ پھر کہنے لگے کہ اگر بچے راضی ہیں تو ٹھیک ہے۔ میں نے وہیں سے آواز دی: راج کمار بیٹا‘ آپ ہمارے گھر ٹھیریں گے؟ اس نے ہامی بھرلی۔ چنانچہ مرد و خواتین تمام فیملی سمیت رات گئے ہم گھر پہنچ گئے۔

ہم نے ان کی خوب خاطر مدارت کی۔ میرے  پیش نظر یہ بات بھی تھی کہ غیرمسلموں کی دل جوئی اور تالیفِ قلب کا بھی حکم ہے تاکہ ان کے دل میں اسلام کے لیے نرم گوشہ پیدا ہوسکے۔ پھر انھیں گھر کے قریب واقع ماڈل ٹائون پارک کی سیر کروائی۔ انھوں نے شاہی قلعے کے نزدیک گوردوارہ جانے کی خواہش کا اظہار بھی کیا۔ میں نے کہا کہ وہ تو سکھوں کا ہے۔ اس پر انھوں نے کہا کہ ہندو بھی وہاں جاتے ہیں۔ چنانچہ میں نے وہاں جانے کا انتظام بھی کر دیا۔

بات چیت کے دوران میں نے راج کمار سے پوچھا کہ بیٹا تمھارا مستقبل کے بارے میں کیا ارادہ ہے؟ اس نے کہا کہ ابھی تو پڑھ رہا ہوں‘ بعد میں دیکھوں گا۔ پھر میں نے پوچھا کہ بیٹا! زندگی کے بارے میں کیا سوچا ہے؟ کبھی مقصد زندگی پر بھی تم نے غور کیا؟ تو اس نے کہا کہ اس طرح تو میں نے نہیں سوچا۔ تب میں نے اُس کو بتایا کہ اس کائنات کا مالک خدا تعالیٰ ہے جسے تم بھگوان کہتے ہو۔ ہم سب اس کے بندے ہیں اور اپنی زندگی گزارنے کے لیے ہمیں اس سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔ نبی اور اُوتار اور الہامی کتابیں اس نے اسی غرض سے بھیجی ہیں۔ میری گفتگو سن کر اس کے والد صاحب نے بھی کہا کہ آپ نے اچھی توجہ دلائی ہے۔ ہم نے تو اس طرح سے نہیں سوچا تھا۔ اس وقت میرے پاس سید مودودیؒ کی کتاب خطبات موجود تھی۔ میں نے کہا کہ ان باتوں کو مزید اچھے انداز میں جاننے کے لیے آپ اس کا مطالعہ کریں۔ پھر ہم نے مل کر خطبات کے چند اوراق کا اجتماعی طور پر مطالعہ بھی کیا اور انھوں نے اسے پسند بھی کیا۔

میری کوشش رہی کہ کسی نہ کسی طرح ان سے قربت حاصل کی جائے‘ اور جب وہ متوجہ ہوں تو انھیں اسلام کی دعوت دی جائے۔اس طرح ایک ہندو خاندان کو جو محض اتفاق سے میرے قریب ہوا‘ میں نے دین کی دعوت پہنچانے کی کوشش کی اور انھیں مطالعے کے لیے کتب بھی دیں‘ لیکن ایسی کتب کی کمی محسوس ہوئی جو غیرمسلموں کے لیے دعوت کے پیش نظر لکھی گئی ہوں۔

  • ایک بار چند رفقا نے ایک درس قرآن میں شرکت کی دعوت دی۔ جب میں درس میں شرکت کے لیے پہنچا تو باہر کھڑے چند لوگوں پر میری نظر پڑی جو مجھے عیسائی لگے۔ میں نے سوچا کہ انھیں بھی درس قرآن کی دعوت دینی چاہیے۔ چنانچہ ان کے قریب گیا‘ ان سے ہاتھ ملایا‘ ان کو گلے لگایا اور کہا کہ تم میرے باپ کے بیٹے ہو (میری مراد حضرت آدمؑ تھے جن کی تمام انسان   اولاد ہیں)‘ میرے بھائی ہو۔ آئو تمھارے اور ہمارے خدا کا کلام سنیں کہ خدا نے ہمارے لیے  کیا رہنمائی دی ہے۔ وہ بہت متاثر ہوئے اور چلنے پر راضی ہوگئے۔

جب ہم درس قرآن میں شرکت کے لیے گھر میں داخل ہونے لگے تو میزبان نے آہستگی سے مجھے کہا کہ آپ کن لوگوں کو ساتھ لے آئے ہیں؟ یہ تو عیسائی ہیں۔ میں نے اسے کہا کہ کیا یہ خدا کے بندے نہیں؟ کیا ان کا حق نہیں کہ ان تک دین کی دعوت پہنچائی جائے؟ وہ میری بات سمجھ گئے۔

آخرت کے موضوع پر درس قرآن ہو رہا تھا۔ آخر میں‘ میں نے اعلان بھی کیا کہ آج ہمارے مسیحی بھائی بھی درس قرآن میں شریک ہیں اور یہ بات بڑی خوش آیند ہے۔ پھر ان سے بھی کہا کہ آپ بھی اپنے تاثرات بیان کریں کہ آپ نے اسے کیسا پایا؟ انھوں نے کہا کہ ہم نے اسے بہت مفید پایا۔ آخرت کا تصور اسلام اور عیسائیت دونوں میں پایا جاتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا کبھی ہم نے اس حوالے سے غور کیا کہ عیسائی جو اہلِ کتاب ہیں‘ ان تک ہمیں دعوتِ دین پہنچانا ہے؟ انھیں جہنم کی آگ سے بچانے کے لیے ہم تڑپیں اور ان تک مؤثر انداز میں اسلام کی دعوت پہنچانے کی بھرپور کوشش کریں۔ پاکستان میں ایک بڑی تعداد میں عیسائی بلدیاتی سطح پر صفائی اور سیوریج کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ گھروں میں کام کرنے والی بہت سی خواتین کا تعلق بھی عیسائیت سے ہے۔ لیکن ہمارا ان کے ساتھ کیسا رویہ ہوتا ہے۔ اگر خدا نے کسی بہانے انھیں ہمارے قریب کر ہی دیا ہے تو بجاے اس کے کہ ہم ان سے حسنِ سلوک سے پیش آتے‘ ان کو عزت و احترام دیتے‘ ان کی تالیف قلب کا سامان کرتے اور ان کو کسی نہ کسی بہانے دعوتِ دین دیتے___ ہم نے ان کو اپنے سے کاٹ کر رکھ دیا ہے‘ یا ہندوؤں کی طرح انھیں شودر بناکر رکھ دیا ہے‘ جیسے وہ نیچ ذات کے ہوں۔ کیا ہماری یہ روش اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے؟کیا ہم خدا کے ہاں جواب دے سکیں گے کہ ہم نے ان تک تیرا پیغام پہنچا دیا ہے؟

  • ایک بار میں اپنی کار میں سوار سڑک سے گزر رہا تھا کہ مجھے چند سکھ نوجوان نظر آئے۔ میں نے سوچا کہ ان سے بات چیت کی جائے۔ چنانچہ میں نے ان کے نزدیک جاکر گاڑی روک دی اور ان سے کہا کہ آپ میرے شہر میں آئے ہیں‘ لہٰذا میرے مہمان ہیں۔ گاڑی میں تشریف رکھیں۔ میں آپ کو وہاں چھوڑ دیتا ہوں جہاں آپ کو جانا ہے۔ پہلے تو انھوں نے انکار کیا اور جب میں نے بہت اصرار کیا تو کہنے لگے کہ ہمیں توقریب ہی جانا ہے‘ آپ زحمت نہ کریں‘ آپ کا شکریہ! میں نے کہا کہ چلیے قریب ہی سہی‘ بالآخر وہ میرے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گئے۔

میں نے ان سے پوچھا کہ لاہور اور بھارت میں آپ کو کچھ فرق نظر آیا تو وہ کہنے لگے کہ ایسا کوئی خاص فرق تو نہیں دیکھا۔ مجھے خیال آیا کہ ایک مسلمان ملک میں اور ایک کافر ملک میں کچھ تو فرق ہونا چاہیے۔ پھر میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کس لیے آئے ہیں؟ وہ کہنے لگے کہ ہم تو سیر کے لیے آئے ہیں۔ میں نے کہا کہ آپ نے یہ نہیں سنا: جنے لاہور نئیں ویکھیا او جمیا ای نئیں (جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا)۔ انھیں حیرت ہوئی۔ چنانچہ میں نے انھیں کہاکہ میں آپ کو لاہور کی سیر کرواتا ہوں۔ اس پر وہ راضی ہوگئے۔ میں نے انھیں مختلف جگہوں پر  گھمایا پھرایا اور حسب توفیق خاطر تواضع بھی کی۔ اسی دوران میں نے انھیں مقصدِ زندگی کی طرف توجہ دلائی اور بابا گرونانک کی تعلیمات کے حوالے سے خداے واحد کی بندگی کی دعوت بھی دی۔

جب وہ رخصت ہونے لگے تو میں نے ان سے پوچھا کہ کیا اب آپ نے لاہور اور بھارت میں کچھ فرق محسوس کیا؟ انھوں نے کہا کہ ہاں‘ اب فرق محسوس ہوا ہے۔ زندگی میں پہلی بار کسی نے اس اپنائیت اور محبت کے ساتھ ہمیں مقصدِ زندگی سے آشنا کیا اور ایک خدا پر ایمان لانے کی دعوت دی ہے۔ یہی پاکستان اور بھارت میں فرق ہے۔ مجھے کچھ اطمینان ہوا کہ چلو پاکستان کے حوالے سے کچھ تو فرق انھیں محسوس ہوا۔

  • ایک روز برانڈرتھ روڈ سے گزرتے ہوئے ایک نوجوان نے مجھ سے رام گلی کا پتا پوچھا۔ میں نے اس سے کہا کہ یہاں تو کئی رام گلیاں ہیں‘ تمھیں کہاں جانا ہے؟ کچھ پس وپیش کے بعد اس نے بتایا کہ اسے احمدی مرکز جانا ہے۔ وہ قادیانی تھا۔ میں نے اسے پتا بتایا اوراس کا سامان اُٹھا کر سر پر رکھا اور اس کے ساتھ چل پڑا۔ اس نے مجھے منع کیا تو میں نے کہا کہ یہ میرے رسولؐ کی سنت ہے۔ انھوں نے ایک بوڑھی عورت کا سامان اُٹھا کر اس کے گھر پہنچایا تھا‘ اب مجھے یہ سنت پوری کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ چلتے چلتے میں نے اس سے پوچھا کہ تم پتا پوچھنے میں کیوں جھجک رہے تھے؟ اس نے کہا کہ لوگ ہمیں بری نظر سے دیکھتے ہیں‘ اس لیے ہمیں جھوٹ بولنا پڑتا ہے۔ میں نے کہا کہ اگر تمھارا عقیدہ سچا ہے تو پھر جھوٹ کیوں بولتے ہو۔ پورے اعتماد اور یقین کے ساتھ رہو۔ پھر میں نے پوچھا کہ تم احمدی کب ہوئے؟ اس نے کہا کہ میں تو پیدایشی احمدی ہوں۔ میں نے کہا کہ مرزا غلام احمد بھی پیدایشی قادیانی نہیںتھا‘ تم کیسے ہوگئے؟ اپنے مذہب کو سوچ سمجھ کر  قبول کرو۔ اس کے غوروفکر کے لیے میں نے چند اور باتیں بھی اس کے سامنے رکھیں۔ اتنی دیر میں احمدی مرکز آگیا تو میں نے اس کا سامان سر سے اُتارا اور اسے کہا کہ وہ سامنے مرکز ہے۔ وہ مجھ سے بڑے تپاک سے ملااور کہا کہ آپ جس محبت سے میرے ساتھ پیش آئے ہیں اور جس طرح   میری رہنمائی کی ہے‘ آج تک کوئی مسلمان ایسا نہیں ملا۔ اس نے مجھ سے میرا پتا بھی لیا۔

چند روز بعد وہ میرے گھر آیا اور اس نے بتایا کہ میں نے جب اپنے بزرگوں سے قادیانیت کے بارے میں اطمینان کرنا چاہا تو وہ مجھے مطمئن نہ کرسکے۔ لہٰذا میں نے توبہ کرنے اور مسلمان ہونے کافیصلہ کیا ہے۔ میں بہت خوش ہوا اور اسے قریبی مسجد کے امام صاحب کے پاس لے گیا اوراس نے کلمہ پڑھ کر اسلام قبول کرلیا۔ پھر اسے مولانا مودودیؒ کی چند کتب بھی مطالعے کے لیے دیں کہ اسلام کا مطالعہ کرو تاکہ پورے اطمینان کے ساتھ اسلام کی راہ پر چل سکو۔ میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ اس کے فضل و کرم سے مجھے یہ سعادت نصیب ہوئی۔

  • مجھے ایک تلخ تجربہ بھی ہوا۔ ایک عیسائی کو میں نے دعوت دی کہ حضرت عیسٰی ؑنے اپنے حواریوں کو ہدایت کی تھی کہ میرے بعد ایک نبی آئے گا‘ تم اس کی پیروی کرنا اور اس پر ایمان لے آنا۔ لہٰذا اگر تم سچے عیسائی ہو تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائو کہ یہی وہ نبیؐ ہیں جن کی آمد کی خبر حضرت عیسٰی ؑنے دی تھی۔ اس نے کہا کہ آپ کی بات صحیح ہے اور میں اسلام قبول بھی کرلوں مگر جب میں عیسائیوں کے مقابلے میں مسلمانوں کا کردار دیکھتا ہوں تو سچ پوچھو تو مجھے اپنے عیسائی بھائی ہی بہتر لگتے ہیں۔ وہ تو یہ بات کہہ کر چلا گیا‘ مگر میں سوچتا رہ گیا کہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ آج ایک شخص مسلمانوں کے کردار کی وجہ سے اسلام قبول کرنے پر آمادہ نہیں۔(ترتیب: امجد عباسی)