عام طور پر دعوتِ دین کے حوالے سے ہم مسلمانوں کا سوچتے ہیں‘ غیرمسلموں کا نہیں۔ روزمرہ زندگی میں بارہا ایسے مواقع سامنے آتے ہیں جوغیرمسلموں میں دعوت کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ پاکستان میں ہندو اور عیسائی ایک بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ شہادتِ حق اور دعوتِ دین کا تقاضا ہے کہ مسلمان ان غیرمسلموں میں دعوت کا فریضہ احسن انداز میں انجام دیں تاکہ اپنی ذمہ داری سے بھی عہدہ برآ ہوسکیں اور کل خدا کے ہاں بھی سرخرو ہوں۔
ہم نے ان کی خوب خاطر مدارت کی۔ میرے پیش نظر یہ بات بھی تھی کہ غیرمسلموں کی دل جوئی اور تالیفِ قلب کا بھی حکم ہے تاکہ ان کے دل میں اسلام کے لیے نرم گوشہ پیدا ہوسکے۔ پھر انھیں گھر کے قریب واقع ماڈل ٹائون پارک کی سیر کروائی۔ انھوں نے شاہی قلعے کے نزدیک گوردوارہ جانے کی خواہش کا اظہار بھی کیا۔ میں نے کہا کہ وہ تو سکھوں کا ہے۔ اس پر انھوں نے کہا کہ ہندو بھی وہاں جاتے ہیں۔ چنانچہ میں نے وہاں جانے کا انتظام بھی کر دیا۔
بات چیت کے دوران میں نے راج کمار سے پوچھا کہ بیٹا تمھارا مستقبل کے بارے میں کیا ارادہ ہے؟ اس نے کہا کہ ابھی تو پڑھ رہا ہوں‘ بعد میں دیکھوں گا۔ پھر میں نے پوچھا کہ بیٹا! زندگی کے بارے میں کیا سوچا ہے؟ کبھی مقصد زندگی پر بھی تم نے غور کیا؟ تو اس نے کہا کہ اس طرح تو میں نے نہیں سوچا۔ تب میں نے اُس کو بتایا کہ اس کائنات کا مالک خدا تعالیٰ ہے جسے تم بھگوان کہتے ہو۔ ہم سب اس کے بندے ہیں اور اپنی زندگی گزارنے کے لیے ہمیں اس سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔ نبی اور اُوتار اور الہامی کتابیں اس نے اسی غرض سے بھیجی ہیں۔ میری گفتگو سن کر اس کے والد صاحب نے بھی کہا کہ آپ نے اچھی توجہ دلائی ہے۔ ہم نے تو اس طرح سے نہیں سوچا تھا۔ اس وقت میرے پاس سید مودودیؒ کی کتاب خطبات موجود تھی۔ میں نے کہا کہ ان باتوں کو مزید اچھے انداز میں جاننے کے لیے آپ اس کا مطالعہ کریں۔ پھر ہم نے مل کر خطبات کے چند اوراق کا اجتماعی طور پر مطالعہ بھی کیا اور انھوں نے اسے پسند بھی کیا۔
میری کوشش رہی کہ کسی نہ کسی طرح ان سے قربت حاصل کی جائے‘ اور جب وہ متوجہ ہوں تو انھیں اسلام کی دعوت دی جائے۔اس طرح ایک ہندو خاندان کو جو محض اتفاق سے میرے قریب ہوا‘ میں نے دین کی دعوت پہنچانے کی کوشش کی اور انھیں مطالعے کے لیے کتب بھی دیں‘ لیکن ایسی کتب کی کمی محسوس ہوئی جو غیرمسلموں کے لیے دعوت کے پیش نظر لکھی گئی ہوں۔
جب ہم درس قرآن میں شرکت کے لیے گھر میں داخل ہونے لگے تو میزبان نے آہستگی سے مجھے کہا کہ آپ کن لوگوں کو ساتھ لے آئے ہیں؟ یہ تو عیسائی ہیں۔ میں نے اسے کہا کہ کیا یہ خدا کے بندے نہیں؟ کیا ان کا حق نہیں کہ ان تک دین کی دعوت پہنچائی جائے؟ وہ میری بات سمجھ گئے۔
آخرت کے موضوع پر درس قرآن ہو رہا تھا۔ آخر میں‘ میں نے اعلان بھی کیا کہ آج ہمارے مسیحی بھائی بھی درس قرآن میں شریک ہیں اور یہ بات بڑی خوش آیند ہے۔ پھر ان سے بھی کہا کہ آپ بھی اپنے تاثرات بیان کریں کہ آپ نے اسے کیسا پایا؟ انھوں نے کہا کہ ہم نے اسے بہت مفید پایا۔ آخرت کا تصور اسلام اور عیسائیت دونوں میں پایا جاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا کبھی ہم نے اس حوالے سے غور کیا کہ عیسائی جو اہلِ کتاب ہیں‘ ان تک ہمیں دعوتِ دین پہنچانا ہے؟ انھیں جہنم کی آگ سے بچانے کے لیے ہم تڑپیں اور ان تک مؤثر انداز میں اسلام کی دعوت پہنچانے کی بھرپور کوشش کریں۔ پاکستان میں ایک بڑی تعداد میں عیسائی بلدیاتی سطح پر صفائی اور سیوریج کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ گھروں میں کام کرنے والی بہت سی خواتین کا تعلق بھی عیسائیت سے ہے۔ لیکن ہمارا ان کے ساتھ کیسا رویہ ہوتا ہے۔ اگر خدا نے کسی بہانے انھیں ہمارے قریب کر ہی دیا ہے تو بجاے اس کے کہ ہم ان سے حسنِ سلوک سے پیش آتے‘ ان کو عزت و احترام دیتے‘ ان کی تالیف قلب کا سامان کرتے اور ان کو کسی نہ کسی بہانے دعوتِ دین دیتے___ ہم نے ان کو اپنے سے کاٹ کر رکھ دیا ہے‘ یا ہندوؤں کی طرح انھیں شودر بناکر رکھ دیا ہے‘ جیسے وہ نیچ ذات کے ہوں۔ کیا ہماری یہ روش اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے؟کیا ہم خدا کے ہاں جواب دے سکیں گے کہ ہم نے ان تک تیرا پیغام پہنچا دیا ہے؟
میں نے ان سے پوچھا کہ لاہور اور بھارت میں آپ کو کچھ فرق نظر آیا تو وہ کہنے لگے کہ ایسا کوئی خاص فرق تو نہیں دیکھا۔ مجھے خیال آیا کہ ایک مسلمان ملک میں اور ایک کافر ملک میں کچھ تو فرق ہونا چاہیے۔ پھر میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کس لیے آئے ہیں؟ وہ کہنے لگے کہ ہم تو سیر کے لیے آئے ہیں۔ میں نے کہا کہ آپ نے یہ نہیں سنا: جنے لاہور نئیں ویکھیا او جمیا ای نئیں (جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا)۔ انھیں حیرت ہوئی۔ چنانچہ میں نے انھیں کہاکہ میں آپ کو لاہور کی سیر کرواتا ہوں۔ اس پر وہ راضی ہوگئے۔ میں نے انھیں مختلف جگہوں پر گھمایا پھرایا اور حسب توفیق خاطر تواضع بھی کی۔ اسی دوران میں نے انھیں مقصدِ زندگی کی طرف توجہ دلائی اور بابا گرونانک کی تعلیمات کے حوالے سے خداے واحد کی بندگی کی دعوت بھی دی۔
جب وہ رخصت ہونے لگے تو میں نے ان سے پوچھا کہ کیا اب آپ نے لاہور اور بھارت میں کچھ فرق محسوس کیا؟ انھوں نے کہا کہ ہاں‘ اب فرق محسوس ہوا ہے۔ زندگی میں پہلی بار کسی نے اس اپنائیت اور محبت کے ساتھ ہمیں مقصدِ زندگی سے آشنا کیا اور ایک خدا پر ایمان لانے کی دعوت دی ہے۔ یہی پاکستان اور بھارت میں فرق ہے۔ مجھے کچھ اطمینان ہوا کہ چلو پاکستان کے حوالے سے کچھ تو فرق انھیں محسوس ہوا۔
چند روز بعد وہ میرے گھر آیا اور اس نے بتایا کہ میں نے جب اپنے بزرگوں سے قادیانیت کے بارے میں اطمینان کرنا چاہا تو وہ مجھے مطمئن نہ کرسکے۔ لہٰذا میں نے توبہ کرنے اور مسلمان ہونے کافیصلہ کیا ہے۔ میں بہت خوش ہوا اور اسے قریبی مسجد کے امام صاحب کے پاس لے گیا اوراس نے کلمہ پڑھ کر اسلام قبول کرلیا۔ پھر اسے مولانا مودودیؒ کی چند کتب بھی مطالعے کے لیے دیں کہ اسلام کا مطالعہ کرو تاکہ پورے اطمینان کے ساتھ اسلام کی راہ پر چل سکو۔ میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ اس کے فضل و کرم سے مجھے یہ سعادت نصیب ہوئی۔