نومبر۲۰۰۶

فہرست مضامین

جنت‘ صرف جنت

سید قطب | نومبر۲۰۰۶ | فہم قرآن

Responsive image Responsive image

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

لَا یَغُرَّنَّکَ تَقَلُّبُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِی الْبِلَادِ o مَتَاعٌ قَلِیْلٌ قف ثُمَّ مَاْوٰئھُمْ جَھَنَّمُط وَبِئْسَ الْمِھَادُ o لٰکِنِ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّھُمْ لَھُمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا نُزُلًا مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِط وَمَا عِنْدَ اللّٰہِ خَیْرٌ لِّلْاَبْرَارِ o (اٰل عمرٰن ۳:۱۹۶-۱۹۸)

شہروں میں اہلِ کفر کی چلت پھرت سے دھوکے میں نہ آنا۔ یہ بس تھوڑا ہی فائدہ ہے۔ پھر اُن کا ٹھکانا جہنم ہے اور بہت بڑا گہوارہ ہے وہ۔ برعکس اِس کے‘ جن لوگوں نے اپنے رب کی نافرمانی سے بچتے ہوئے زندگی گزاری‘ اُن کے لیے باغات ہیں‘ جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی‘ وہ اُن میں ہمیشہ رہیں گے‘ سامانِ ضیافت اُن کے رب کے پاس سے۔ اور جو اللہ کے پاس ہے‘ وہ (لذائذِ دنیا سے) کہیں بہتر‘ حق شناسوں کے لیے ہے۔

شہروں اور ملکوں میں اہلِ کفر کی چلت پھرت اِس بات کی مظہر ہے کہ وہ نعمتوں سے مالامال اور صاحب ِ مرتبت و اقتدار ہیں۔ یہ ایسی صورتِ حال ہے جس سے دلوں میں لامحالہ خلش محسوس ہوتی ہے‘ خصوصاً اہلِ ایمان کے دلوں میں‘ جو تنگ دستی اور محرومی کی مشقت جھیل رہے اور اذیت‘ ظلم و ستم اور جہاد کی زحمتیں اُٹھا رہے ہیں۔ اِس صورت حال سے غافل اور بے خبر عوام کے دل بھی متاثر ہوتے ہیں۔ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ حق اور اہلِ حق زحمتوں اور مشقتوں سے دوچار ہیں اور اہلِ باطل نہ صرف یہ کہ اِن زحمتوں سے نجات پائے ہوئے ہیں‘ بلکہ خوش حالی کی زندگی گزار رہے ہیں (یہ صورتِ حال ان کے لیے فتنہ بن سکتی ہے)۔ پھر اِس صورتِ حال کا اثر خود گمراہ اہلِ باطل کے دلوں پر پڑتا ہے اور وہ ضلالت‘ کبروعناد اور شر اور فساد میں بڑھتے چلے جاتے ہیں۔

  • جاودانی نعمتیں اور اللّٰہ کا اعزاز: تب دلوں کو چھونے والی یہ آیت آتی ہے:  لَا یَغُرَّنَّکَ تَقَلُّبُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِی الْبِلَادِ o مَتَاعٌ قَلِیْلٌ قف ثُمَّ مَاْوٰئھُمْ جَھَنَّمُط وَبِئْسَ الْمِھَادُ o (اٰل عمرٰن ۳:۱۹۶-۱۹۷)’’شہروں میں اہلِ کفر کی چلت پھرت سے دھوکے میں نہ آنا۔ یہ بس تھوڑا ہی فائدہ ہے۔پھر اُن کا ٹھکانا جہنم ہے اور بہت بُرا گہوارہ ہے وہ‘‘۔

تھوڑا سا سامان یا تھوڑا سا فائدہ جو جلد ختم ہوجائے گا‘ اِس کے بعد اُن کا دائمی و ابدی ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بہت بُرا گہوارہ ہے (’مہاد‘ کے معنی بچھونے‘ گہوارے اور آرام کی جگہ کے ہیں۔ اِس میں شدید طنز ہے کہ اُن کے لیے اگر کوئی آرام کی جگہ ہے تو وہ دوزخ ہے۔ مترجم)۔

اس قلیل اور فانی و ناپایدار متاع کے مقابلے میں جنتیں (باغات)‘ ہمیشگی اور اللہ کی جانب سے اعزاز و اکرام ہے: جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا نُزُلًا مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِط وَمَا عِنْدَ اللّٰہِ خَیْرٌ لِّلْاَبْرَارِ o (۳:۱۹۸)’’باغات‘ جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی‘ وہ اُن میں ہمیشہ رہیں گے‘ سامانِ ضیافت اُن کے رب کی طرف سے۔ اور جو اللہ کے پاس ہے‘ وہ (لذائذِ دنیا سے) کہیں بہتر‘ حق شناسوں کے لیے ہے‘‘۔

جو شخص اُس حصے (متاعِ دنیا) کو ایک پلڑے میں رکھے گا اور اِس حصے (جزاے اُخروی) کو دوسرے پلڑے میںرکھے گا‘ اُسے اِس امر میں کوئی شک نہ رہے گا کہ جو اللہ کے پاس ہے وہ متاعِ دنیا سے کہیں بہتر ہے اور وہ ’اَبرار‘ کے لیے ہے اور اس کے دل میں کوئی شبہہ نہ رہے گا کہ متقین کا پلڑا کفار کے مقابلے میں کہیں جھکا ہواہے۔ ہر صاحب ِ عقل اُسی حصے کو اپنا ناپسندکرے گا‘ جسے ’اولی الالباب‘ اپنے لیے پسند کرتے ہیں۔

  • صرف اُخروی وعدہ: تربیت اور اسلامی فکر کی بنیادی قدروں کو بیان کرنے کے موقع پر اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان سے فتح و نصرت کا وعدہ نہیں کر رہا‘ نہ یہ وعدہ کر رہا ہے کہ اُن کے دشمن مغلوب ہوں گے‘ نہ یہ وعدہ کہ انھیں زمین میں غلبہ حاصل ہوگا۔ وہ اِس دنیا کی اشیا میں سے___ جن کا دوسرے بہت سے مواقع پر وہ اُن سے وعدہ فرماتا ہے اور جنھیں وہ اپنے دوستوں کے لیے‘ اُن کے دشمنوں سے جنگ کے مواقع پر مقدر اور لازم قرار دیتا ہے___  کسی بھی شے کا وعدہ نہیں کرتا۔

وہ یہاں اُن سے صرف ایک شے کا وعدہ کرتا ہے، ’’اُس اجر کا جواللہ کے پاس ہے‘‘۔ یہی اِس دعوت کی اصل اور بنیاد ہے اور اِس عقیدے کی راہ پر چلنے کا‘ اِسی پر انحصار ہے۔ ہر ہدف‘ ہر غایت اور ہرطمع سے کٹ کر صرف اجرِآخرت کے لیے یکسوئی! یہاں تک کہ مومن کو یہ خواہش بھی نہ رہے کہ اِس عقیدے کو غلبہ‘ اللہ کے کلمے کو سربلندی اور اللہ کے دشمنوں کو مغلوبیت نصیب ہو۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ اِس خواہش سے بھی خود کو یکسو کرلیں‘ اپنے معاملے کو بالکلیّہ اللہ کے حوالے کردیں اوراپنے دلوں کو اِس خواہش سے پاک کرلیں (بلاشبہہ مومن سب کچھ رضاے الٰہی اور اجرِآخرت کے لیے کرتا ہے‘ خواہ دنیا میں کچھ بھی نہ پاسکے۔ لیکن حق کے غلبے‘ باطل کی مغلوبیت اور اللہ کے کلمے کی سربلندی کی خواہش فطری ہے‘ اِس سے دل کو پاک نہیں کیاجاسکتا اور نہ یہ مطلوب ہے۔مترجم)۔

  • اسلام ھرچیز کی قربانی کا نام: یہ عقیدہ سب کچھ قربان کرنے‘ عہد کو پورا کرنے اور ذمہ داریوں کو ادا کرنے کا نام ہے۔ بغیر اِس کے کہ اِس کے معاوضے میں دنیا کا کوئی سازوسامان مطلوب ہو اور بغیر اس کے کہ اُس کے عوض فتح و نصرت‘ غلبہ‘ تمکن فی الارض اور سربلندی چاہیے ہو___ ان سب کے بجاے ہرچیز صرف آخرت میں چاہنا ہے اور اس کا انتظار کرنا ہے۔

عقیدے کی ذمہ داریوں کو اِس طرح ادا کرنے کے بعد فتح و نصرت حاصل ہوتی ہے اور  تمکن فی الارض اور سربلندی بھی نصیب ہوتی ہے‘ مگر یہ اللہ سے معاہدے میں داخل نہیں ہے‘ اور نہ اُس سے کی ہوئی بیعت کا کوئی جز ہے۔ معاہدہ اور بیعت میں دنیا کی کوئی چیز شامل نہیں ہے‘ یہاں تو  ذمہ داریوں کو ادا کرنا‘ عہد کو پورا کرنا‘ سب کچھ قربان کرنا اورآزمایشوں سے گزرناہے‘ اور بس!

مکہ معظمہ میں اِسی پر بیعت اور دعوت کی بنیاد تھی اور اِسی پر اللہ سے بیع و شرا کا معاملہ ہوا تھا اور اللہ نے مسلمانوں کو نصرت‘ تمکن فی الارض اور سربلندی سے اُسی وقت سرفراز کیا اور انھیں زمین کی کنجیاں اور انسانیت کی قیادت اُسی وقت بخشی‘ جب وہ آخرت کے لیے بالکل یکسو ہوگئے اور انھوں نے پوری طرح ایفاے عہد کیا۔

محمد بن کعب قرظی اور دوسرے اصحاب نے کہا کہ عبداللہ بن رواحہ ؓنے بیعت ِعقبہ کی رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا‘ آپ اپنے رب اوراپنی ذات کے لیے ہم سے جو چاہے عہد لے لیجیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جب کہ اوس اور خزرج کے نمایندے  نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آپؐ کی ہجرت کے لیے بیعت کر رہے تھے) میں اپنے رب کے لیے اِس بات کا عہد لیتا ہوں کہ تم اس کی بندگی کرو گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو گے‘ اور اپنے لیے یہ عہد لیتا ہوں کہ جس طرح تم اپنی جان اور مال کی حفاظت کرو گے‘ اسی طرح میری حفاظت    کرو گے۔ عبداللہ بن رواحہؓ نے کہا‘ ہم یہ سب کچھ کردیں تو ہمیں کیا ملے گا؟ رسول اللہ صلی اللہ  علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جنت‘‘___ انھوں (انصارکے ذمہ داروں) نے کہا‘ سودا نفع بخش ہے۔ ہم نہ اِس معاہدے کو خود فسخ کریں گے اور نہ اُسے فسخ کرنے کا مطالبہ کریں گے۔

جی ہاں‘ جنت‘ اور صرف جنت! فتح و نصرت‘ عزت وحدت‘ قوت‘ تمکن فی الارض‘ قیادت‘ دولت اور خوش حالی‘ یہ سب چیزیں جو اللہ نے انھیں بخشیں اوران کے ہاتھوں میں دیں‘ اُن کا    اللہ تعالیٰ نے تذکرہ نہیں کیا کیونکہ یہ چیزیں معاہدے سے خارج تھیں۔

یہی بات تھی جو اوس اور خزرج کے نقبا نے کہی: ’’سودا نفع بخش ہے‘ ہم اُسے نہ خود فسخ کریں گے‘ نہ آپؐ سے اسے فسخ کرنے کا مطالبہ کریں گے‘‘۔

  • اُمت کی تربیت: اللہ تعالیٰ نے اِس طرح اُس جماعت کی تربیت کی جس کے سلسلے میں اُس نے طے کر رکھا تھا کہ زمین کی کنجیاں اور قیادت کی زمام اُس کے ہاتھ میں دے گا اور عظیم امانت اُس کے سپرد کرے گا‘ بعد اِس کے کہ وہ اپنی تمام خواہشات و مفادات سے کٹ گئے ہوں۔ یہاں تک کہ اُن خواہشات سے بھی‘ جو اُس دعوت سے متعلق تھیں‘ جس کے وہ حامل تھے‘ اُس نظام سے متعلق تھیں‘ جسے وہ برپا کر رہے تھے‘ اُس عقیدے سے متعلق تھیں‘ جس کے لیے وہ جان دے رہے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس امانت کبریٰ کے حامل وہی لوگ ہوسکتے ہیں‘ جن کی‘ اپنی ذات کے لیے کوئی خواہش باقی نہ رہی ہو۔ اِس صورت میں وہ اللہ کی اطاعت (سِلْم) میں پوری طرح داخل ہوسکتے ہیں۔ (فی ظلال القرآن‘ ج ۲‘ ترجمہ: سیدحامد علی‘ ص ۴۹۶-۵۰۰)