مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اپنی پہلی نظربندی کے دوران ۶ اکتوبر ۱۹۴۹ء کو ایک خط اپنی اہلیہ محترمہ کو لکھا۔ یہ خط سنسر میں روک لیا گیا۔ اب ایک کرم فرما کے توسط سے دستیاب ہوا ہے۔ ہم یہ خط قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ (ادارہ)
ایک مدتِ دراز کے بعد آپ کا خط ملا۔ مگر اس کی کچھ شکایت نہیں۔ میں خود بھی زیر نگرانی خط و کتابت سے بیزار ہوں۔ گھر کا حال بچوں کے خطوں سے معلوم ہوتا رہتا ہے۔ بس یہی کافی ہے۔
آپ کا یہ خیال صحیح ہے کہ دستور ساز اسمبلی میں قرار داد مقاصد پاس ہو جانے کے بعد اصولی حیثیت سے‘ ہماری یہ ریاست ایک اسلامی ریاست ہو گئی ہے، اور آپ کا یہ کہنا بھی صحیح ہے کہ میں بھی یہی چاہتا تھا، لیکن آپ کے اس سوال کا جواب میرے پاس نہیں ہے کہ پھر حکومت نے مجھے اور میرے ساتھیوں کو کیوں نظر بند کررکھا ہے۔ میں اس کے وجوہ سے پہلے بھی لا علم تھا اور اب بھی لاعلم ہوں۔ قرار داد مقاصد کے بعد تو خیر معاملہ ہی دوسرا ہو گیا ہے کہ اب اس ریاست کی وفاداری و خیر خواہی ہمارے ایمان کا تقاضا ہو گئی ہے، لیکن میں نے تو اُس سے پہلے بھی یہ بات اچھی طرح واضح کر دی تھی کہ اس ریاست کو مسلمان بنانے کے لیے ہم جو کچھ بھی کوشش کریں گے، پر امن جمہوری طریقوں سے ہی کریں گے اور کوئی ایسا طریق کار ہرگزا ختیار نہیں کریں گے جس سے پاکستان کے وجود کو کوئی نقصان پہنچ جائے، آخر کون مسلمان یہ سوچ سکتا ہے کہ ہندستان میں ہم پر جو تباہی آ چکی ہے، وہی اب پاکستان میں بھی ہم پر اور ہمارے بال بچوں پر نازل ہو جائے۔ واقعہ یہ ہے کہ ہم نہ تو اپنی گرفتاری ہی کے راز کو جانتے تھے اور نہ اس معمے ہی کو کچھ سمجھ سکے ہیں کہ قرار داد مقاصد کے بعد ہماری نظر بندی میں پہلی توسیع کیوں ہوئی تھی اور اب یہ دوسری توسیع کیوں ہوئی ہے۔ ممکن ہے حکومت ہمارے متعلق کچھ ایسی باتیں جانتی ہو جو ہم خود اپنے متعلق نہیں جانتے۔ میں نے براہِ راست مغربی پنجاب کی حکومت کو بھی اس بارے میں ایک چٹھی لکھی ہے۔
یہ معلوم کر کے افسوس ہوا کہ آپ کی صحت برابر گرتی جا رہی ہے۔ میں آپ کی تکلیف کم کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں کر سکتا، سواے اس کے کہ رضا بقضا اور توکل علی اللہ کی نصیحت کروں۔ یہ چیز جس قدر زیادہ آدمی میں موجود ہو گی، اتنا ہی زیادہ وہ ہر حال میں مگن اور مطمئن رہے گا۔ اس میں سے میں نے تھوڑا ہی حصہ پایا ہے اور اس کا فیض یہ ہے کہ میرے اطمینان قلب میں ذرا فرق نہیں آنے پایا ہے۔ ایک سال کی قید کے بعد‘ اس وقت میری صحت اتنی اچھی ہے کہ پچھلے ۱۵سال میں کبھی ایسی اچھی نہیں رہی۔
آدمی اپنی جہالت سے سمجھتا ہے کہ اس دنیا میں کچھ انسانی منصوبے پورے ہو رہے ہیں، حالاں کہ یہاں دراصل ایک ہی منصوبہ پورا ہوا کرتا ہے اور وہ خدا کا منصوبہ ہے۔ دانش مند انسان خدائی منصوبے کے اچھے پہلوؤں میں کام کرنا پسند کرتے ہیں اور سرخ رو ہوتے ہیں۔ نادان اس کے برے پہلوؤں میں کام کرنا انتخاب کرتے ہیں اور سیہ روئی مول لیتے ہیں۔یوسف کے حق میں جو کچھ مقدر تھا، وہی ہو کر رہا۔ بردران یوسف اور زلیخا اور عزیز ِمصر جو جو کچھ کرتے گئے، خدا اسی کو اپنے منصوبے کی تکمیل ]کا[ ذریعہ بناتا گیا اور خود اُن کے حصے میں ندامت کے سوا کچھ نہ آیا۔ انسان کی دانائی کا سارا امتحان بس ا س میں ہے کہ وہ خدائی منصوبے کے کون سے پہلو میں کام کرنا اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ اگر خدا کے دیے ہوئے علم و عقل سے کام لے کر اچھے پہلو کو پہچان لیا ہے اور اسے اختیار کر لیا ہے تو انجام بہر حال بہتر ہے خواہ بیچ میں کتنی ہی برائیوں سے اس کو سابقہ پیش آئے۔ آخر دنیا میںکسی انسان کے ساتھ اس سے زیادہ کیا برائی ہوسکتی ہے جو حسین ابن علی، ابو حنیفہ، امام احمد، ابن تیمیہ، مجدد سرہندی اور سید احمد بریلوی کے ساتھ ہوچکی ہے۔ لیکن کسی کو ان کے انجام کا ہزارواں حصہ بھی میسر آجائے تو یقینا وہ خوش قسمت ہے۔
میری طرف سے گھر میں سب کو سلام اور بچوں کو بہت بہت پیار۔
(ابوالاعلٰی مودودی‘ علمی و فکری مطالعہ‘ مرتبین: رفیع الدین ہاشمی/سلیم منصورخالد‘ ادارہ معارف اسلامی‘ لاہور۔ صفحات: ۶۴۸)