نومبر۲۰۰۶

فہرست مضامین

دہشت گردی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ

پروفیسر خورشید احمد | نومبر۲۰۰۶ | اسلام اور مغرب

Responsive image Responsive image

۱۱ ستمبر کی ستم کاریوں کی کوئی انتہانہیں ہے‘ اور امریکا کی موجودہ قیادت اقتدار اور قوت کے نشے میں عالمی قانون اور روایات‘ اور اخلاق اور تہذیب کے تمام مسلّمہ ضابطوں کو پارہ پارہ کرکے دنیا میں ظلم‘ تشدد اور دہشت گردی کا ایک طوفان برپاکر رہی ہے لیکن اس کا ایک نہایت مکروہ اور خطرناک پہلو یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر دہشت گردی کی کسی متعین تعریف سے مکمل صرف نظر کرکے دنیا کو ایک نہ ختم ہونے والے تصادم، بے یقینی اور قتل وغارت گری کی جہنم میں دھکیل دیا گیا ہے اورہر اختلاف، اور ظلم، ناانصافی اور سامراجی تسلط کے خلاف احتجاج، آزادی اور حقوق کی ہر جدوجہد پر دہشت گردی کا لیبل لگانے کا گھنائونا کھیل کھیلا جارہا ہے۔

وہ کارروائیاں جنھیں دہشت گردی کی معروف تعریف کے تحت دہشت گردی قرار دیا جاسکے وہ ہر اعتبار سے قابل مذمت ہیں اور ان کے لیے جواز تلاش کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دہشت گردی کی تاریخ پیدایش ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء نہیں اور اس بات کی ضرورت ہے کہ دہشت گردی کی اصطلاح کے غلط استعمال کی مذمت کے ساتھ اس امر کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ یہ کوئی نیا عمل نہیں ہے۔

ایک افسوس ناک حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ تاریخ کے تمام ادوار میں اور عملاً دنیا کے تقریباً تمام حصوں میں دہشت گردی یا ایسی ارادی اور مبنی برتشدد کارروائیاں جن کو دہشت گردی کے زمرے میں شامل کیا جاسکتا ہے ہمیشہ سے ہوتی رہی ہیں۔ دہشت گردی کا یہ عمل کسی معاشرے‘ تہذیب‘ مذہب‘ یا سیاسی امتیاز‘اور یا پھرکسی قدیم تاریخی‘ وسطی یا جدید عہد کے ساتھ بطور خاص وابستہ نہیں ہے اور نہ دہشت گردی کے فعل کی کوئی واحد‘ متعین اور یکساں صورت و شکل ہی ہے بلکہ دہشت گردی کے اظہار کے متعدد طریقے اوراسالیب ہیں۔ اسی طرح خودکش اقدام بھی کوئی     نئی ایجاد نہیں ہے۔ بہرحال‘ یہی وجہ ہے کہ میری نگاہ میں دہشت گردی (Terrorism) واحد صیغے میں نہیں بلکہ جمع کے صیغے میں یعنی بہ الفاظ صحیح تر ’دہشت گردانہ کارروائیاں‘ (Terrorisms) کا استعمال ضروری ہے۔

ایسی ٹھوس تاریخی شہادتیں موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ دہشت گردی کا یہ عمل اور فعل ایک امر واقعہ کے طور پر ایک حقیقت رہا ہے اور پھر اس کی مختلف اشکال اور احوال بھی موجود رہے ہیں۔ یہ حقیقت بھی الم نشرح کرنا ضروری ہے کہ دہشت گردی اور دہشت گرد گروہوں کی تاریخی حیثیت و اہمیت کم از کم یورپ میں قرون وسطیٰ کی ہولی رومن ایمپائر کی ابتدا سے منسلک ہے۔۱؎

لہٰذا ‘ محض القاعدہ کو دہشت گردی کی علامت کے طورپر پیش کرنا اور دہشت گردی کی پوری تاریخ اور اس کے تمام انواع و اقسام کو نظرانداز کرنا تاریخ کے ساتھ ایک مذاق ہے۔ اس بات کا اعتراف ضروری ہے کہ دہشت گردی کی اصطلاح‘ ایک وسیع تر سیاسی حقیقت ہے جس کی موجودگی تمام ادوار اور تمام ممالک میں دیکھی جا سکتی ہے۔اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر دہشت گردی کو کسی ایک ہی مرتکب کے بارے میں ہمہ وقت سوچا اور استعمال کیا جائے تو ہرقسم کے تصور‘ تجزیہ‘ تشخیص اور علاج کی پوری تصویر ہی مغالطہ آمیز ہوجاتی ہے۔ اگر ہم محض اپنی پسند کے امیدوار کے بارے میں نہیں‘ بلکہ دہشت گردی کے پیچیدہ اور مختلف الجہت عمل کے متعلق واقعی کچھ جاننے کے خواہاں ہیں تو پھر ضروری ہے کہ اس کے وسیع پس منظر کو زیرغور لا کر اس کے مفہوم اور تقاضوں کا صحیح ادراک کیا جاسکے۔

۲-            اگرچہ دہشت گردی‘ ایک خوفناک حقیقت ہے لیکن مجموعی طور پر اس کا تصور نہایت ہی مبہم اور دھندلا ہے۔ Dictionary of International Affairs پینگوئن ۱۹۹۸ء (’لغت براے بین الاقوامی معاملات‘) میں اس صورت حال کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:

’دہشت گردی کی روک تھام کے لیے کوئی معاہدہ اس لیے طے نہیں پاسکا کہ سیاسی ترجیحات کے باعث اس کی تعریف مسائل کا شکار رہی۔ اگر ایک نقطہ نگاہ کے مطابق ایک شخص ’دہشت گرد‘ ہے تو دوسرے نقطۂ نگاہ کے مطابق یہ شخص ’آزادی کی خاطر لڑنے والا‘ ہے، اور یہی وجہ ہے بین الاقوامی قانون کے مطابق اس عمل کا احاطہ نہیں کیا جاسکا ہے۔

شمڈ نے اس اصطلاح کی ایک سو سے زائد مختلف تعریفیں بیان کی ہیں۔۲؎

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی ابھی تک اس اصطلاح کی کوئی متفقہ تعریف متعین نہیں کرسکی۔ ایک عمومی متفقہ رائے کے مطابق: ’’مخصوص سیاسی مقاصد اور مفادات کے حصول کی خاطر بے گناہ اور معصوم شہریوں اور دیگر غیرمتعلقہ افراد کے خلاف دانستہ پُرتشدد کارروائی ’دہشت گردی‘ کہلاتی ہے‘‘۔

جب سیاسی تنازعات کا پُرامن حل سامنے نہیں آتا اور لوگوں کو ظلم و ستم‘ غاصبانہ تسلط یا جارحیت کے خلاف جدوجہد پر مجبور کر دیا جاتا ہے تو ان حالات میں مزاحمتی تحریک پُرتشدد کارروائیوں کی طرف جانے پر مجبور ہوتی ہے اور اس جہت کے بارے میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غیرملکی تسلط کے خلاف محکوم عوام کی جدوجہد‘ خواہ اس میں تشدد کا عنصر شامل ہو‘ کو کسی بھی متفقہ دستاویز کے ذریعے‘ دہشت گردی سے منسلک نہیں کیا جا سکا بلکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کثرت رائے سے اور غیر جانبدار تحریک کے اعلانات میں متفقہ طور پر یہ استثنیٰ کھلے الفاظ میںبیان کیا گیا ہے۔

’ریاستی دہشت گردی‘ کا معاملہ بھی ابھی تک بظاہر وجۂ تنازع ہے۔ یہ امر ناقابلِ فہم ہے کہ اس دہشت گردی کو صرف انفرادی اور گروہی رویوں اور اقدامات تک ہی محدود کردیا جائے اور دیگر اقوام اور حکومتوں کے اپنے ہی ملک کے عوام کے خلاف ریاست کی مطلق العنان طاقت کا استعمال اس میں شامل نہ کیا جائے۔اس مسلمّہ اصول کا اعادہ ضروری ہے کہ ریاست کی طرف سے طاقت کے استعمال کا اختیار ان کارروائیوں کی قانونی حیثیت سے مشروط ہے‘ لہٰذا فطری طور پر‘ ریاستی دہشت گردی کو ’دہشت گردی‘ کے کسی بھی ممکنہ تصور سے خارج نہیں کیا جاسکتا۔ جب ایک غیرملکی طاقت کسی ملک پر غاصبانہ تسلط جما لیتی ہے تو ان حالات میں محکوم افراد کی حق خود ارادیت اور حق آزادی کی خاطر کی جانے والی جدوجہد کی قانونی حیثیت کو کسی بھی صورت میں سیاسی تشدد کی دیگر اقسام کے مترادف قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ان حالات میں ریاستی حکام کی طرف سے مسلح افواج کا استعمال دہشت گردی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اسی طرح ریاست کی جانب سے  اس کے اپنے عوام کے خلاف ’جنگی جرائم‘ یا ’نسل کشی کے اقدامات‘ اور یا پھر شہروں اور دیہاتوں پر بم باری‘ا جتماعی سزا اور مخصوص شخصیات کی ہلاکت اور قاتلانہ حملوں پر مشتمل ‘ شہریوں پر بلاامتیاز تشدد کو کسی طرح بھی ریاستی طاقت کا جائز اور قانونی استعمال قرار نہیں دیا جاسکتا اور نتیجتاً اس ریاستی دہشت گردی کو دہشت گردی سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔

اسی طرح ایک ملک یا قوم کا دیگر ممالک اور اقوام کے خلاف جارحیت (وہ اقدامات جو اقوام متحدہ کے منشورکے مطابق نہیں ہیں) کو بھی دہشت گرد کارروائیوں کے زمرے میں لازمی طور پر شامل کرنا چاہیے۔  نیور مبرگ ٹرائلز (Nuremberg Trials) کے وضع کردہ اصول اور اقوام متحدہ کے منشور کے احترام کے ذریعے ہی ریاست کے قانونی اور جائز رویے کا ثبوت ملتاہے۔ اقوام متحدہ کے ایک پینل نے ۲۰۰۴ء میں اقوام متحدہ کے منشور کی شق نمبر ۵۱ کی غیرضروری مزید تشریح کے خلاف اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔

شق ۵۱ کے طویل عرصے سے سمجھے جانے والے مفہوم میں نہ کسی توسیع کی ضرورت ہے‘ نہ کسی تحدید کی … جس پر وہ قائم ہے‘ یک طرفہ من مانے اقدامات کی‘ اجتماعی طور پر اٹھائے جانے والے جائز اور متفقہ اقدامات کے مقابلے میں‘ قانونی حیثیت تسلیم کی جائے۔تو اس دنیا میں‘ جو ممکنہ خطرات سے ہر وقت گھری ہوئی ہے‘ عالمی نظام اور اصول عدمِ مداخلت کو خدشات لاحق ہو جائیں گے۔ کسی ایک فرد یا افراد کو اس قسم کے فعل کی اجازت دینے کا مطلب یہ ہے کہ ہر کسی کو ان کاموں کی کھلی چھٹی حاصل ہو گی۔

نیورمبرگ ٹریبونل (Nuremberg Tribunal) نے واضح الفاظ میں ’جارحیت‘ کی یوں تعریف کی:

ایک انتہائی وسیع پیمانے پر کیا جانے والا عالم گیر جرم، ’جنگی جرم‘ سے اس بنا پر مختلف ہے کہ اس میں بدی کی تمام قوتوں کی مشترکہ خواہش شامل ہوتی ہے۔

اس ٹریبونل میں امریکا کی طرف سے پیش ہونے والے وکیل رابرٹ جیکس (Robert Jackson) نے جو‘ اس وقت امریکی سپریم کورٹ میں جج ہے‘ اپنے دلائل پیش کرتے ہوئے کہا:

کسی معاہدے کی خلاف ورزی جرم ہے‘ اور یہ فعل ہر حال میں ’جرم‘ ہی کہلائے گا خواہ اس کا مرتکب امریکا ہو یا جرمنی۔ ہم دوسروں کے لیے مجرمانہ طرزِعمل کے لیے کوئی اصول طے کرنے کے لیے تیار نہیں جس کا نفاذ ہم خود اپنے لیے پسند نہیں کرتے۔ ہمیں یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ جس پس منظر کی بنیاد پر ہم مدعا علیہان کے خلاف فیصلہ دیتے ہیں‘ اسی پس منظر کی بنیاد پر تاریخ کل ہمارے متعلق فیصلہ کرے گی۔ اگر ہم ان مدعاعلیہان کو زہر کا پیالہ پینے پر مجبور کریں گے تو پھر کسی وقت ہمیں بھی اس زہر کے پیالے سے ایک گھونٹ پینا ہی پڑے گا۔۳؎

نیورمبرگ ٹریبونل کے متعین کردہ اصولوں کے مطابق ریاستی حکام کے لیے یہ انتہائی لازمی اور ضروری ہے کہ وہ انسانیت کے خلاف جرائم‘ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی اور دیگر ممالک کے خلاف جارحیت سے گریز اور اجتناب کریں۔ یہ وہ اصول ہیں جن کی اہمیت و افادیت اور ان پر عمل درآمد کی ضرورت‘ وسط بیسویں صدی کی نسبت‘ آج بہت زیادہ ہے۔ دہشت گردی کے عمل کو کسی ایک فرد یا گروہ کی کارروائیوں تک محدود نہیں کیا جاسکتا‘ بلکہ ریاستی دہشت گردی کی کارروائیوں کو بھی اسی معیار پر پرکھنا چاہیے۔

۳- تاریخ سے یہ سبق حاصل کرنا بھی مشکل نہیں ہے کہ دہشت گردی کا عمل محدود مدت کے لیے ہوتا ہے۔ تمام ادوار اور تمام علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات ہوئے ہیں لیکن یہ عمل حالات کے بدلنے اور تصادم کے اسباب کے ختم ہوجانے کے بعد آپ سے آپ ختم ہو جاتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گردی کا عمل محدود بھی رکھا جا سکتا ہے اوراس کی روک تھام بھی کی جاسکتی ہے لیکن یہ محض قوت کے بے محابا استعمال سے ممکن نہیں، بلکہ دہشت گردی کی ہر مختلف نوعیت کو اس کے سماجی اور تاریخی پس منظر میں دیکھنا چاہیے اور اس کو محدود کرنے‘ اس کی روک تھام کرنے یا اس کو ختم کرنے کے لیے مناسب اور بہتر تدابیر اختیار کرنی چاہییں۔ اکثروبیش تر‘ جب معاشرے میں بحرانوں کو دُور کرنے اور تنازعات حل کرنے کے سیاسی اور افہام و تفہیم کے عمل میں ناکامی ہوتی ہے تو بالآخر دہشت گردی کسی نہ کسی شکل میں سامنے آتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ انتقامی رویہ اور محض قوت کے ذریعے اسے ختم کرنے کی حکمت عملی زیادہ کارگر نہیں ہوسکتی ‘ بلکہ حقیقتاً ‘ اس کے نقصانات کہیں زیادہ ہیں۔ اپنی تمام تر پیچیدگیوں کے باوجود‘ دہشت گردی کا یہ مسئلہ صرف اور صرف مؤثر‘ سیاسی اور کم سے کم نقصانات کی حامل تدابیر کے ذریعے ہی حل کیا جاسکتا ہے، جس میں اصل اہمیت تشدد کے اسباب کو دور کرنے کو دی جائے۔ دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے انتقامی جذبے قتل و غارت‘ طاقت کے غرور اور یک طرفہ طرزعمل پر مبنی طریقوں کے ذریعے ناکامی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ بلکہ بعض اوقات تویہ اقدام معکوس نتائج دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دانش ور‘ تجزیہ نگار اور منصوبہ ساز ادارے امریکا کی طرف سے شروع کی گئی موجودہ عالم گیر ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے متعلق اپنے تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں‘ جو ۱۱ ستمبر کے حادثے کے بعد شروع کی گئی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ حساب لگایا جائے کہ اس حکمت عملی کے ذریعے کیا کچھ حاصل ہوا اور اس کے لیے امریکا اور دنیا کی دیگر اقوام کو کیا قیمت اداکرنی پڑی۔ اگر اس جنگ کے پانچ سال ہو جانے پر یہ جو تبصرے عالمی پریس میں آتے ہیں ان کا جائزہ لیا جائے تو ۹۰ فی صدی تجزیوں کا حاصل یہ ہے کہ امریکا کی دہشت گردی کے خلاف اس نام نہاد جنگ کے نتیجے کے طورپر دنیا کے لیے زیادہ غیر محفوظ، تشدد کے استعمال میں غیرمعمولی اضافہ اور انسانی جان اور مال کے زیاں میں محیرالعقول اضافہ ہوا ہے یعنی ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے حادثے میں   جان بحق ہونے والے ۳ہزار افرادکے مقابلے میں ان پانچ سالوں میں ردعمل میں کی جانے والی جنگ میں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ انسان موت کے گھاٹ اتارے جاچکے ہیں اور ابھی اس تباہی کے ختم ہونے کے کوئی آثار نہیں۔

ایک فرانسیسی دانش ور ایمینیول ٹاڈ (Emmanuel Todd)کے دل چسپ تبصرے پر سنجیدگی سے غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے جو ۲۰۰۴ء میں میڈرڈ سانحے کے بعد اسپین کی پالیسی میں تبدیلی کے تناظر میں کیا گیا: ’’میں اپنی بات ایک خوش گوار نکتے پر ختم کروں گا۔ اسپینی افواج کا عراق سے انخلا امید کا پیغام ہے۔ بش کی جنگی مہم کا نتیجہ یہ نکل سکتا تھا‘ یا یہ نکلنا مقصود تھا کہ تشدد کا مسلسل بڑھتا ہوا اور پھیلتا ہوا منحوس چکر شروع ہوجائے۔ اگر اسپینی‘ اطالوی‘ جاپانی‘ برطانوی اور دیگر اقوام پر ایک بار بھی حملہ ہو‘ تو ان کی آبادیاں نہ ختم ہونے والی جنگ کی منطق کے آگے شکست تسلیم کرلیں گی۔ جب حملہ آوروں نے ۱۱مارچ ۲۰۰۴ء کو میڈرڈ پر حملہ کیا تو کوئی نہیں جانتا تھا کہ اسپینی عوام کا ردعمل کیا ہوگا۔ اسپینی عوام عظیم جھوٹ کو تسلیم کرسکتے تھے‘ یعنی یہ تصور کہ عراق پر حملے کا مقصد دراصل دہشت گردی کے خطرے کو کم کرنا تھا۔ اسپین کا دہشت گردی کے خلاف ردعمل نسلی تعصب پر مبنی نفرت کی ایک لہر اور امریکا کے ساتھ زیادہ قریبی تعلقات بھی ہوسکتا تھا۔ جنگ کے ابتدائی سبب کو بھول جانا (خاص طور پر‘ سبب نہ ہونے کی موجودہ صورت میں)‘ اور قدیم جنگوں کی طرح کے منحوس چکر میں پھنس جانا بہت آسان ہوتا ہے۔ غالباً پہلی جنگ عظیم اس کی بہترین مثال ہے۔ یہ قومی مفادات کے حصول کے لیے معقول کوشش سے آگے بڑھی لیکن جلد ہی یہ ایک بے مقصد خونی غسل میں تبدیل ہوگئی۔ مغربی اقوام سب کچھ کھونے کے بعد بھی برسوں جنگ لڑتی رہیں۔ اسپین میں اس کے برعکس ہوا۔ اسپینی ووٹرز نے اپنے وزیراعظم ازنار (Aznar) سے نجات حاصل کی۔ زیپٹیرو (Zapatero) نے عراق سے اسپینی افواج واپس بلالیں۔ بڑھتا ہوا تشدد‘جس کی بہت سے لوگوں کو توقع تھی‘ اور کچھ اس کی امید لگائے بیٹھے تھے‘ اس کا چکر توڑنے کے لیے اسپین کا یہ قدم شاید کافی ہو‘ اور غالباً ہم اسپین کے عوام کے اس سے زیادہ رہینِ منت ہیں جتنا کہ ہم سمجھتے ہیں‘ بش کے الفاظ استعمال کیے جائیں تو ان کا ووٹ‘ ان کا فیصلہ یقینا نیکی کی بدی پر فتح ہے‘‘۔ (After the Empire: The Breakdown of the American Order, Emmanuel Todd, Constable and Robinson, U.K., 2004, p 210-211))

۴- یہ حقیقت تو سب کو معلوم ہونی چاہیے کہ عام مسلمان شہریوں نے بالعموم اور سرکردہ مسلم علما اور اسلامی تحریکوں کے قائدین نے بالخصوص ابتدا ہی سے ایک آواز ہوکر‘ ۱۱ ستمبر کے اندوہناک واقعے سمیت‘ انسانیت کے خلاف حقیقی دہشت گردی کی تمام کارروائیوں کی مذمت کی ہے لیکن مسلمانوں کے علاوہ بھی اس دنیا میں بسنے والے دیگر افراد کو بشمول امریکی اور یورپی شہریوں کے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر کھیلے جانے والے ڈرامے کے متعلق شدید خدشات لاحق ہیں۔ ان کے نزدیک امریکا اور اس کے اتحادیوں کی یہ تمام کارروائی بھی کسی مجرمانہ فعل سے کم نہیں ہے اس لیے کہ اس کی بدولت لاکھوں معصوم اور بے گناہ مرد و زن موت کی نیند سو چکے ہیں۔ وہ سرعام یہ پوچھتے ہیں کہ کیا دہشت گردی کے خلاف جنگ اس طرح لڑی جاتی ہے جس طرح امریکا کی موجودہ قیادت لڑ رہی ہے؟ کیا دہشت گردی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے بہت ہی مختلف اور کثیرالجہتی حکمت عملی کی ضرورت نہیں ہے؟ کیا دہشت گردی کا واضح پس منظر اور وجوہات جانے بغیر اس کے خلاف اقدامات درست ہیں؟ یقینا‘ یہ حقیقت تو کسی سے پوشیدہ نہیں کہ مقصد کے واضح تعین کے بغیر‘ دہشت گردی کے خلاف اقدامات نہیں اٹھائے جاسکتے ہیں‘ بصورت دیگر‘ یہ تمام عمل‘ یہ تمام اقدامات‘ یہ جنگ ہوا میں تلوارچلانے اور سایوں کا تعاقب کرنے کے مترادف ہے‘ جس کے باعث فکری تنازعات کے علاوہ سیاسی ابتری اور اندھے کشت و خون میں بھی اضافہ ہوتا ہے‘ اور پھر بالآخر عدمِ استحکام، سیاسی انتقام اور فساد فی الارض میں اضافے کے مناظر سامنے آجاتے ہیں۔

اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ دہشت گردی اور افراد کی جانب سے طاقت کے استعمال مثلاً بین الاقوامی قانون کے مطابق جنگ یا آزادی کے لیے حقیقی جدوجہد کے مابین تفریق کی جائے۔ ان کارروائیوں کو بلاامتیاز‘ دہشت گردی قرار دینے کا عمل‘ جیساکہ فلسطینی تحریک مزاحمت (بطور ایک مثال کے) کے سلسلے میں کیا جا رہا ہے‘ وہ نہایت ہی غلط بلکہ ضرررساں ہے۔ درحقیقت‘ آزادی کی ایسی ہی تحریکوں کو اگر ’دہشت گردی قرار دینے کی اجازت دے دی جائے تو پھر تاریخ کو ازسرنو تحریر کرنا پڑے گا جس کے مطابق جارج واشنگٹن اور نیلسن منڈیلا جیسے انسانیت کے محسن بھی دہشت گردقرار پائیں گے۔

اسی طرح‘ دہشت گردی کی تمام کارروائیوں کو یکساں قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ کارروائیاں‘ اپنی نوعیت‘ پس منظر‘ مقاصد اور محرکات کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہیں۔ ان حالات کو ٹھیک کیے بغیر جن کی وجہ سے دہشت گردی کا ظہور ہوا ہے‘ ان اسباب کو دُور کیے بغیر جو ان کو مخصوص آہنگ دیتے ہیں‘ اور ناانصافیوں اور ظلم و ستم کو ختم کیے بغیر جس نے کمزوروں کو اٹھ کھڑے ہونے پر آمادہ کیا ہے‘ دہشت گردی کو نشانہ بنانا فاش غلطی ہوگی۔ طاقت کی عدم مساوات اور تنازعات کے تصفیے کے لیے معقول طریقے کا انکار وہ حقائق ہیں جن کو نظرانداز کرنا ہمارے اور یورپی دنیا کے لیے خطرے سے خالی نہیں۔ اس المیے، کہ اس کے باعث لوگ بغاوت پر آمادہ ہوجاتے ہیں‘ کی نوعیت اور حدود کے متعلق آگہی اور سیاسی مقاصد کے لیے پُرتشدد ذرائع استعمال کرنے کے رجحان کی وجوہات اور حقائق کی چھان بین‘ لازمی ہے۔

یہ حقیقت تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ’دہشت گردی‘ ایک پیچیدہ عمل ہے اور اس کے حل کے لیے کسی یک رخی حکمت عملی کے لیے ناکامی مقدر ہے۔ اس سے صورت حال مزید سنگین ہوسکتی ہے جیسا کہ ہماری موجودہ صورت حال بتا رہی ہے۔

۵- دہشت گردی کسی مسئلے کے حل کی ضامن نہیںہے بلکہ اس مسئلے کے حل کے لیے ایک تدبیر اور سیاسی عمل کی طرف رجوع ضروری ہے، خود دہشت گردی کو اگر ایک نظریے کی حیثیت دے دی جائے جیساکہ بعض حلقوں میں کہا جا رہا ہے‘ تو پھر یہ معاملہ انتہائی خطرناک حد تک الجھ جاتا ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دہشت گردانہ کارروائیوں کو منصفانہ قرار دینے کے دلائل خود مغرب کی فلسفیانہ سیاسی اور  حتیٰ کہ اخلاقی اور مذہبی پس منظر کی پیداوار ہیں۔

سائسرو (Cicero) سے لے کر جس نے کہا تھا: ’’قتل کرنا ایک نیکی ہے‘‘، یورپ میں ابتری پھیلانے والوں‘ روس میں بائیں بازو کے انقلابیوں (John Most's Revolutionary War Science, 1885)‘ مقدس مائیکل برے کے A Time to Kill (USA, 1980) تک‘اس نوعیت کے لٹریچر کی کوئی کمی نہیں۔ گو حتمی تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے دفاع میں یہ لٹریچر بھی اسے فی الحقیقت ایک تدبیر سے زیادہ مقام نہیں دیتا۔ یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ ان سارے علمی اور فلسفیانہ مباحث کا حاصل بھی اس سے مختلف نہیں۔ دہشت گردی بہ نفس نفیس نہ کسی مسئلے کا حتمی حل ہے اور نہ یہ کوئی مستقل نظریہ ہے۔

دہشت گردی کی تشریح کے ضمن میں ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے مرتکب افراد   اس کوشش میں ہیں کہ دہشت گردی کو محض ایک تدبیر کے بجاے ایک نظریے یا اصول کے طور پر پیش کرکے اس مسئلے کو الجھا دیا جائے تاکہ دنیا کے سامنے اس کا کوئی واضح تصور نہ پیش کیا جاسکے۔  وہ دہشت گردی کی جڑیں مسخ شدہ مذہبی رجحانات میں تلاش کرنے کی کوششیں کرتے ہیں۔ اس کے سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں کیونکہ اس کے سبب دہشت گردی کی حقیقی وجوہات اور اس کے وقوع اور بڑھاوے کا باعث بننے والے فیصلہ کُن پالیسی امور کے بجاے اس کا رُخ اقدار کے مابین تنازعہ اور تہذیبوں کے ٹکرائو کے خیالی تصورات کی طرف موڑا جا سکتا ہے۔۴؎  اس سلسلہ میں امریکا کے نوقدامت پسند (Neo-cons) ازخود صدر بش جو گل افشانیاں کر رہے ہیں وہ بڑی خطرناک اور دنیا کو نہ ختم ہونے والے تصادم اور تباہی کی طرف لے جانے والی ہیں۔ اس سلسلے میں بش اور بلیر کی "evil ideology" اور Islamo-fascism کی لن ترانی بڑے خطرناک نتائج کی حامل ہوسکتی ہے۔

شکاگو یونی ورسٹی کے ایک پروفیسر رابرٹ اے پیپ (Robert A Pape) نے اپنے ایک تحقیقی جائزے میں دہشت گردی کی ایک ذیلی صِنف ’خودکش بم دھماکوں پر انتہائی چشم کشا تحقیقی و تجزیاتی روشنی ڈالی ہے۔ اس تحقیقی جائزے کا عنوان Dying to Win (موت کے ذریعے جیت) ہے اوراس کا لوازمہ ۱۹۸۰ء سے ۲۰۰۳ء تک ہونے والے ’خودکش حملوں‘ کے متعلق معلومات و اعداد و شمار پر مشتمل ہے جسے کتابی شکل میں حال ہی میں خود امریکا سے شائع کیا گیا ہے۔ مصنف کہتا ہے کہ: ’خودکش حملوں کے ذریعے دہشت گردی اور اسلامی بنیاد پرستی کے مابین قائم کیے جانے والا فرضی تعلق گمراہ کن ہے۔ پروفیسر رابرٹ پیپ کے مطابق:

معلوماتی مواد اور اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ خودکش حملوں کے ذریعے دہشت گردی اور اسلامی بنیاد پرستی‘ یا کسی دیگر مذہب کے مابین براے نام تعلق ہے۔ درحقیقت‘ خودکش حملوں کے بانی سری لنکا کے تامل ٹائیگرز ہیں۔ یہ گروپ مارکس اور لینن کے افکار کا پیرو ہے اور گو اس کے ارکان کا تعلق ہندو گھرانوں سے ہے لیکن یہ لوگ مذہب کے سخت مخالف ہیں۔ یہ گروپ خودکش حملوں کے مجموعی ۳۱۵ واقعات میں سے ۷۶واقعات میں ملوث ہے‘ جب کہ حماس کا نام اس فہرست میں بہت نیچے ہے… البتہ ان تمام خودکش حملوں میں جو عنصر مشترک نظر آتا ہے‘ وہ مخصوص غیرمذہبی اور سیاسی اہدافی مقاصد ہیں‘ تاکہ جدید جمہوری حکومتوں کو اپنے علاقوں سے مسلح فوج واپس بلانے پر مجبور کیا جائے جو بقول ان کے‘ ان کا وطن ہے۔ اگرچہ دہشت گرد تنظیمیں اپنے وسیع مقاصد و اہداف حاصل کرنے کے لیے‘ مذہب کو اکثر ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں‘ لیکن مذہب‘ خودکش حملوں کی بنیادی وجہ نہیں ہے۔۵؎

ایک طرف دہشت گردی کے اس عمل کے نفسیاتی پہلو‘ حتیٰ کہ اس کے انفرادی کرداروں کے ممکنہ ذہنی رجحانات سمیت‘ تمام پہلوئوں کا تحقیقی اور تجزیاتی مطالعہ نہایت مفید ہے‘ تو دوسری طرف اس کے سیاسی‘ ترکیبی اور پس پردہ منظرنامے کو مدنظر نہ رکھا جائے تو یہ غیرحقیقت پسندانہ ہوگا۔ یہ تو درست ہے کہ تحریکی اور بنیادی عناصر کا لازمی طور پر مطالعہ اور تجزیہ کیا جانا چاہیے لیکن ہرچیز کو چھوڑ کر‘ صرف اس کی ’ہیئت ترکیبی‘ اور ’سیاسی‘ صورت حال ہی کو پیش نظر رکھنا‘ ایک غلط‘ فریب کن اور غیرمفید رجحان ہے۔ تشدد پر اُبھارنے والی بنیادی اوراہم وجوہات سے اگر صرفِ نظر کیا جائے تو یہ رویہ دہشت گردی کے تصور سے حقیقی آگہی اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے مناسب اور بہتر حکمتِ عملی اختیار کرنے میں سدِّراہ ہوگا۔

ہمیں حقیقی مسائل کا سامنا کرنا چاہیے۔ یہ مسائل سیاسی ناانصافیوں اور ان رویوں اور پالیسیوں سے تعلق رکھتے ہیں کہ جن کے باعث عوام اتنے غضب ناک ہوجاتے ہیں کہ وہ بے بسی‘ رسوائی اور مظلومیت کی زندگی پر موت کو ترجیح دینے لگتے ہیں۔ جب تک ظلم کی یہ صورت نہیں بدلتی اور طاقت ور عناصر و اقوام کا یہ غلط رویہ اور رجحان تبدیل نہیں ہوتا‘ حالات تو یہی ظاہر کرتے ہیں کہ ’دہشت گردانہ کارروائیاں‘ اور ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کا عمل متوازی طور پر جاری رہے گا اور امن و سکون کا حصول محال ہوگا۔

جہاد کے متعلق مختلف نظریات اور پھر تصور شہادت‘اور اس کے ساتھ ساتھ مساجد اور مدرسے بطور اداروںکے‘ ہمیشہ ہی سے موجود ہیں۔ ’انتہا پسند‘ اور ’مسخ شدہ‘ تعبیرات تاریخ میںنادر نہیں ہیں۔ ہر مذہب‘ ہر نظریاتی جماعت اور ہر سیاسی و سماجی نظام میں یہ سر اٹھاتی رہی ہیں۔    آج جن مقدس آیات اور اداروں پر دہشت گردی کا الزام لگایا جاتا ہے‘ ان کی موجودگی کے   باوجود‘ کرۂ ارض پر ایک عرصے سے امن و امان اور باہمی ہم آہنگی کی فضا قائم رہی ہے‘ اس لیے دہشت گردی کی تنظیم اور قوت میں جو اضافہ ہو رہا ہے‘ اس کی وجوہ لازمی طور پر کہیں اور موجود ہیں اور وقت کا تقاضا ہے کہ ان کو تلاش کیا جائے اور منظرعام پر لایا جائے اور کسی خاص مذہب یا چند مذہبی تصورات میں ان کا سراغ لگانے کی غیر حقیقت پسندانہ اور شرانگیز مساعی سے اجتناب کیا جائے۔

۶- اس وقت امریکا کی طرف سے جاری ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے باعث ہونے والے تصوراتی/ ادراکی‘ سیاسی اور انسانی نقصانات کے متعلق غوروفکر اور ان کا تجزیہ‘ نہایت ہی اہم ہے۔ کتنے بے گناہ شہری ان دہشت گردانہ کارروائیوں کا شکار ہوئے ہیں اور ’دہشت گردی کے خلاف اس جنگ‘ کے باعث کتنے افراد ہلاک ہوئے ہیں؟ کیا یہ جنگ ’دہشت گردوں کو ختم کرنے میں کامیاب رہی ہے؟ یا اس جنگ کے باعث ’دہشت گردوں‘ کی تعداد پہلے سے بہت زیادہ بڑھ چکی ہے؟ امریکا ان ممالک میں کن نظروں سے دیکھا جاتا ہے جن کو بزعم خود فائدہ پہنچانے کے لیے اس نے ان ممالک پر حملے کیے تاکہ ملزم دہشت گردوں کو تباہ و ہلاک کیا جاسکے اور پھر عوام کو ’حکومت کی تبدیلی‘ اور’قومی تعمیر‘ کا تحفہ پیش کیا جائے؟ کیا امریکا نے دنیا کے عوام کی نظروں میں اعتماد‘ محبت اور عزت حاصل کی؟ یا امریکا نے اپنے انسانیت دشمن اقدامات کے باعث نہایت تیزی سے تمام دنیا کے افراد کی نفرت و عداوت سمیٹ لی ہے؟ اور دنیا کو ایک ایسی      خون آشام حالت کی طرف دھکیل دیا ہے جہاں سلامتی اور تحفظ کے ساتھ زندگی بسر کرنا ممکن ہی نہیں رہا؟ اس حقیقت کو تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ دنیا کے وسیع خطے جو اس ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے پہلے سیاسی طور پر نہایت پُرامن تھے‘ اب وہی خطے دہشت گردی اور مسلسل تصادم،   خون ریزی اور جنگ و جدل کی خونی آماجگاہ بن چکے ہیں۔ جو بے اطمینانی چند علاقوں تک محدود تھی‘ اس نے تمام دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور جس ایک اسامہ بن لادن کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے لیے عالمی یورش کی گئی تھی اس کے نتیجے میں ہزاروں اسامہ وجود میں آگئے ہیں اور دہشت کسی ایک علاقے تک محدود رہنے کے بجاے زمین کے طول وعرض میں پھیلتی جارہی ہے۔

۷- متذکرہ بالا مسائل و معاملات کے علاوہ دیگر کچھ ایسے بنیادی معاملات و مسائل ہیں جو تمام دنیا کے عوام‘ خصوصاً امریکی عوام کو دعوتِ فکر دے رہے ہیں۔ وسیع پیمانے پر بنیادی حقوق کی خلاف ورزیاں‘ خاص طور پر تخلیہ کا حق‘ قانونی عمل کے بغیر گرفتاری سے آزادی کا حق‘ جب تک مجرم ثابت نہ ہو‘ بے گناہ تصور کیے جانے کا حق‘ مدعا علیہان کا اپنی پسندکے مطابق وکیل کے ذریعے اپنی صفائی پیش کرنے کا حق‘ ان حقوق کی کھلی خلاف ورزیاں ہوش اُڑا دینے والی ہیں۔ ۱۱ستمبرکے بعد سے بہت سے افراد کو کسی مقدمے کے بغیر ہی گرفتار کرکے قیدوبند میں ڈال دیا گیا ہے۔ کسی بھی قانونی عدالت سے سزا پانے والے افراد کی شرح‘ بُش انتظامیہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے ایک اوردھچکا ہے۔ ۳ ہزار سے زیادہ صرف شبہے کی بنیاد پر گرفتار ہونے والوں میں سے صرف چند ایک کو رسمی طور پر ہی فردِ جرم سنائی گئی ہے۔ ان حقوق کی خلاف ورزی کے ذریعے قانون کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں اور کئی ممالک بشمول امریکا میں آئین کی بالادستی ایک حد تک عملاً ختم ہوکر رہ گئی ہے۔ امریکا اور اس کے ’اتحادی‘ ممالک میں ’حب وطن‘ اور ’قومی تحفظ‘ کی آڑ میں عام مرد و زن کی شہری آزادیوں کے ساتھ بالعموم اور مخصوص مذہبی شخصیات اور اقلیتی جماعتوں کے ساتھ بالخصوص‘ کس قسم کا کھیل کھیلا جا رہا ہے؟ انسانی عظمت کی اقدار‘ تمام بنی نوع انسان کے برابر حقوق‘ مہذب رویے کو اپناتے ہوئے ہر ایک کے ساتھ ایک قانون کے مطابق سلوک اختیار کرنے کا حق‘ یہ سب حقوق نئے نئے خطرات کی زد میں آچکے ہیں اور مسلسل پامال ہو رہے ہیں۔اور کیا صرف گوانتاناموبے‘ ابوغریب اور بگرام ہی رستے ہوئے ناسور ہیں؟ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ’مجرموں‘ کی حوالگی اور ’زبردستی تفتیش‘ جیسے غیرمہذب افعال نے اس مہذب دنیا کے کئی ممالک کو آلودہ کردیا ہے؟Huxley's Brave, Orwell's 1984, New World اورSolzhenitsyn's Gulagکے روح فرسا واقعات ’آزاد دنیا‘کی جنت کے خوش کن تصور کو ہوا میں تحلیل کر رہے ہیں۔

امریکا اور اس کے اتحادیوں کی ہوس ملک گیری اور معصوم و بے گناہ انسانوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے باعث‘ اس کرۂ ارض پر صدیوں سے مروج بین الاقوامی قانون اور پھر جنگ اور امن کے ادوار میں مہذب اخلاقیات کا نظام‘ اب خطرناک حد تک اپنی موت کی طرف رواں دواں ہے۔

بین الاقوامی قانون اور جنگ اور امن میں مہذب رویے کے بارے میں جو کچھ اتفاق راے صدیوں میں حاصل ہوا تھا‘ وہ سب خطرے میں ہے۔ مقامی اور بین الاقوامی قوانین کے  نت نئے اور ناتراشیدہ تصورات کا یک طرفہ اور من مانے طور پر تعین بھی کیا جا رہا ہے اور عملاً انھیں لاگو بھی کردیا گیا ہے۔ طاقت ور ممالک، دوسرے ممالک اور اقوام کو اپنی دھونس کے ذریعے صرف اس لیے کچلنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ کمزور ہیں۔ ایک بار پھر اس کرئہ ارض کے اُفق پر سامراجی اور غاصبانہ تسلط اور بالادستی کے منحوس سائے لہرا رہے ہیں۔ قومی خودمختاری کا تقدس ختم ہونے کو ہے اور بین الاقوامی حدود کی پابندی اب گئے وقتوں کی بات ہے۔ اقوام متحدہ روز بروز بے معنی ہوتی جارہی ہے۔ اقوام متحدہ میں متعین امریکی نمایندے مسٹر بولٹن نے یہ کہنے کی جسارت کی ہے کہ اقوام متحدہ اجازت دے نہ دے‘ امریکا ایران پر حملہ کرنے کا حق رکھتا ہے۔ دیگر ممالک میں یک طرفہ مداخلتیں اور زبردستی حکومتی تبدیلی‘ جائز قرار دے دی گئی ہے۔ طاقت ور اقوام کے مفادات کو تحفظ دینے کے لیے ’اپنے دفاع‘ (self defence) کے تصور کو نئے معنی پہنائے جا رہے ہیں۔ امن اور بین الاقوامی طاقتی توازن کے لیے خطرہ دن بدن بڑھتا جا رہا ہے اور زیادہ سے زیادہ پُرتشدد تنازعات کے امکانات روزافزوں ہیں۔

ان تمام حالات کا اثر مختلف ممالک کے اندر بھی محسوس کیا جا رہا ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں عوام اور مختلف گروہ حکومتی ظلم و ستم کا شکار ہیں۔ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کو کئی ایک ممالک اپنے ہی عوام کو کچلنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ بلاشک و شبہہ‘ اس ’جنگ‘ کے ’ضمنی‘ (collateral) نقصانات خوفناک تناسب سے بڑھتے ہی جارہے ہیں اور اب انہیں محض ضمنی سمجھنا خوفناک غیر حقیقت پسندی ہو گی!!

۸-  ایک بنیادی سوال جس کا ہر پہلو سے جائزہ بہت ہی ضروری ہے‘ دہشت گردی کے خلاف مبینہ جنگ میں فوجی حکمت عملی کی حدود سے متعلق ہے۔ کیا صرف فوجی طاقت اور بندوق کے بل بوتے پرہی دہشت گردی کو ختم کیا جا سکتا ہے؟ کیااس ’ بے نام و نشان دشمن‘ سے صرف اسی طریقے سے نمٹاجاسکتا ہے؟کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ دہشت گردی کے اس عمل کے رونما ہونے کی وجوہات اور ذمہ دار عناصر کو سمجھنے اور ان کو دُور کرنے کے لیے متبادل طریقے استعمال کیے جائیں؟ ہم کب تک کسی مسئلے کی جڑوں تک پہنچنے کے بجاے اس کی شاخوں سے الجھتے رہیں گے؟ اصل مسئلہ تسلط‘ ظلم و ستم اور ناانصافی کے خلاف مزاحمت نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ تو بذاتِ خود تسلط‘ ظلم وستم اور ناانصافی ہے جس کے باعث مزاحمت پیدا ہوتی ہے۔ اگرہم مزاحمت کی وجوہ جانے بغیر اس کو نشانہ بناتے ہیں تو ہم کیوں کر کامیاب ہوسکتے ہیں؟ جب صرف مزاحمت اور مبنی برحق مزاحمت ہی کوختم کرنے پر کمر باندھ لی جائے اور اصل، حقیقی اور خوفناک حقائق کو نظرانداز کردیا جائے جن کے باعث آزادی اور انصاف کے حصول کے لیے کوشش میں اضافہ ہوجاتا ہے‘ تو یہ عمل بے سود ثابت ہونے کے سوا کیا ہو سکتا ہے۔ درحقیقت یہ تمام عمل‘ دہشت گردی اور نفرتوں کو مزید فروغ دینے کا مجرب نسخہ ہے  ع

مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی

وقت کا تقاضا یہ ہے کہ اس مسئلے کے حل کے لیے روایتی نقطۂ نظر کو تبدیل کیا جائے اور براے نام تبدیلیوں کے بجاے اصل مسائل کے حل کی طرف توجہ مرکوز کی جائے۔ کھوکھلے الفاظ کے بجاے ہماری حکمت عملیاں منطق اور استدلال پر مبنی ہونا چاہییں۔ صرف یہی ایک طریقہ ہے جس کے ذریعے یہ دنیا ہم سب کے لیے امن و امان کا گہوارہ بن سکتی ہے۔

۹- متذکرہ بالا تفصیلی تحقیق و تجزیے کے بعد ہمارے لیے اس بنیادی سوال کونظرانداز کرنا ممکن نہیں ہے جس کا تعلق قانون کی حکمرانی اور ایسے عالمگیر نظام کے قیام سے ہے جس کے ذریعے ہر فرد، گروہ اور قوم کو انصاف اور یکساں مواقع حاصل ہوسکیں۔ تسلیم شدہ اور متفقہ بین الاقوامی طریقہ کار کے مطابق تنازعات کا پُرامن حل‘ عالمی امن اور ہم آہنگی کے لیے پیشگی شرط ہے۔ اس تناظر میں عالم گیریت کے پیدا کردہ اہم مسائل اور تہذیبوں کے تصادم کے نظریات اور کارروائیوں سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔ عقائد و نظریات اور تہذیب و تمدن کا تعدّد (plurality) ایک حقیقت ہیں۔ یہ حقیقت اتنی ہی قدیم ہے جتنی تاریخ۔ باہمی بقا‘ تعاون اور خیالات‘ نظریات اور تہذیبوں کے درمیان مسابقت ایک قدرتی بلکہ صحت مند عمل ہے جس کی وجہ سے انسان کی ترقی میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ جب حقیقی تکثیریت کو مسلّمہ حیثیت نہیں دی جاتی تو پھر یہ نااتفاقی‘ تنازعہ‘ ٹکرائو اور جنگ کا ذریعہ بن جاتی ہے پر ایک مخصوص اور یک طرفہ نظریہ اور عقیدہ یا سیاسی اور معاشی نظام دوسروں پر مسلط کیا جاتا ہے۔ اگر بزورِ طاقت‘ دیگر اقوام پر اقدار مسلط کردی جائیں‘ استحصال‘ قبضے یا مداخلت کے ذریعے ان کے وسائل ان سے چھین لیے جائیں تو پھر فساد‘ جھگڑا اورتلخی کا رونما ہونا  ناگزیر ہے۔ جب بالادستی پر مبنی ایک نظام دیگر اقوام کے سر منڈھ دیا جاتا ہے اور ان ممالک اور عوام کو محکوم بنا لیا جاتاہے تو بغاوت کے جذبات کا پیدا ہونا فطری امر ہے‘ جس کی بدولت عدم تحفظ‘ عدم استحکام‘ تلخیاں اورجھگڑے‘ جنگ‘ لاتعداد دہشت گرد کارروائیاں اور انتقامی جذبات اُبل پڑتے ہیں۔

وسیع تر تناظر میں امن، سلامتی اور حق پرستی کا جذبہ رکھنے والے تمام افراد کو یہ محسوس کرنا چاہیے کہ عالم گیریت کے موجودہ مرحلے میں ایک دوسرے کا بے لوث احترام‘ مختلف اقوام کے نظام حیات‘ مذاہب اور ثقافت کی توقیر‘ اور پھر ہرقسم کے بالادستی اور نوآبادیاتی مہم جوئی سے تحفظ ہی کے ذریعے اس کرۂ ارض پر تحفظ و سلامتی اور امن قائم کیا جا سکتا ہے۔

اس بحث کے تناظر میں ’تہذیبوں کے تصادم‘ کے متعلق موجودہ بحث کا کریڈٹ سیموئیل ہن ٹنگٹن کو جاتا ہے۔ اس کی کتاب اس طرح کے تصادم کے لیے ایک دعوت کی حیثیت بھی رکھتی ہے۔ بہرحال‘ اس کتاب میں چند ایک واضح نکات ایسے بھی ہیں جن پر نہایت سنجیدگی سے غوروفکر کی ضرورت ہے۔ وہ لکھتا ہے:

تاریخی لحاظ سے دہشت گردی کمزور (افراد /اقوام) کا ہتھیار ہے‘ یعنی وہ افراد یا اقوام جو روایتی مسلح طاقت سے محروم ہوتے ہیں۔۶؎

مطلب صاف ظاہر ہے‘ اگر طاقت ور قانون کی حکمرانی‘ انصاف اور مذاکرات کے ذریعے مسائل کے حل کا راستہ اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں‘ تو پھر دہشت گردی کو اُبھرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

اسی طرح اسلام اور مغرب کے درمیان مبینہ تصادم کے بارے میں ہن ٹنگن کہتا ہے:

مغرب کا اصل مسئلہ اسلامی بنیاد پرستی نہیں ہے بلکہ مغرب کے لیے اصل مسئلہ ’اسلام‘ ہے جس کے پیروکار اپنی تہذیب کی عظمت پر فخر کرتے ہیں اور طاقت کے لحاظ سے اپنی کم تری کے احساس کا شکار ہیں۔ اسی طرح سلام کے لیے سی آئی اے (CIA)یا امریکی محکمہ دفاع مسئلہ نہیں ہے بلکہ خود ’مغرب‘ اصل مسئلہ ہے، جہاں کی تہذیب مختلف ہے‘اور لوگ اپنی ثقافت کے عالم گیر ہونے پرنہ صرف یہ کہ یقین رکھتے ہیں بلکہ ان کا خیال یہ ہے کہ ان کی بالاتر طاقت‘ خواہ روبہ زوال ہی کیوں نہ ہو‘ ان پر یہ فرض عائد کرتی ہے کہ اپنی تہذیب و ثقافت کو تمام دنیا میں پھیلا دیں۔ یہ وہ بنیادی عناصر ہیں جو اسلام اور مغرب کے درمیان تنازعے کو ایندھن فراہم کرتے ہیں۔۷؎

ہن ٹنگٹن کے نظریے میں صرف ادھوری حقیقت بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ بلاشبہہ اسلام اور مغرب دو مختلف تہذیبوں کی نمایندگی کرتے ہیں لیکن اس کی یہ بات انتہائی غلط اور گمراہ کن ہے کہ دونوں کو ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے اور ایک دوسرے کو نیست و نابود کرنے کے لیے آپس میں جنگ کرنی چاہیے۔ ایک دوسرے سے مختلف ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ ایک دوسرے سے ضرور جنگ کی جائے۔ جھگڑا اور فساد تب پیدا ہوتا ہے جب زیادہ طاقت ور فرد یا قوم‘ اپنی بالادست قوت کے ذریعے دوسروں پر اپنی اقدار اور حکمرانی مسلط کرنے کا حق جتاتی ہے۔ یہ صرف ’اپنی ثقافت کو تمام دنیا میں پھیلانے کے اسی مبینہ فرض‘ کا شاخسانہ ہے جس کے باعث جھگڑا اور فساد پیدا ہوتا ہے ورنہ محض تنوع اور تکثیریت اس کا قطعاً باعث نہیں۔ اور یہ قوت کے ذریعے ایک ملک کی دوسروں پر بالادستی اور ایک تہذیب کے دوسری تہذیبوں پر غلبے کا فلسفہ اور پالیسی ہے جسے ہم’تہذیبی دہشت گردی‘ ہی کہہ سکتے ہیں جو موجودہ تصادم، بحران اورجھگڑے کی بنیاد ہے‘ جس کے باعث افراد و اقوام جنگ‘ دہشت گرد کارروائیوں اور قتل عام کی طرف دھکیلی جا رہی ہیں۔ اگر دیگر افراد واقوام کی روایات و عقائد کا احترام ایک اصول اور ضابطے کی شکل اختیار کرلے‘ تو پھر اقوام کے درمیان معاہدہ براے باہمی بقا‘ تعاون اور صحت مندانہ مسابقت پیدا ہوجائے گی اور انسانیت پھر دوبارہ سے زندہ ہوجائے گی۔ اگر اس نظریے پر عمل کیا جائے‘ یعنی دیگر افراد/ اقوام کے عقائد کا احترام نہ کہ بالادستی‘ تو پھر یہ دنیا یقینی طور پر امن و امان اور انصاف کی بستی بن سکتی ہے۔ پھر تہذیبوں کے مابین تصادم کے خدشات تحلیل ہوسکتے ہیں اور دہشت گردی کا پُراسرار خوف زمین میںدفن ہوسکتا ہے۔ صرف اسی صورت میں امن و امان‘ تحفظ وسلامتی اور خوش حالی کا راستہ بخوبی ہموار کیا جا سکتا ہے۔ کیا اب بھی وہ لمحہ اور وہ وقت نہیں آیا کہ جب دہشت گردی سے آگے کا سوچا اور اس کے لیے کوشش کی جائے؟ کیا انسان اس متبادل حل کو نظرانداز کرنے کا متحمل ہوسکتا ہے؟

آخر میں سوچنے کے لیے ایک مزید نکتہ کی طرف بھی اشارہ ضروری ہے۔ آج ’عالمی کمیونٹی‘  (World Community) کی اصطلاح بھی ’دہشت گردی‘ کی اصطلاح کی طرح بڑی بے دردی سے استعمال کی جارہی ہے اور یہ باور کرایا جارہا ہے کہ امریکا اور اس کے چند حواری عالمی کمیونٹی کے مترادف ہیں حالانکہ اصل عالمی کمیونٹی وہ ساڑھے چھے ارب عوام ہیں جو ان استعماری قوتوں کے ہاتھوں خوار و پریشان ہیں اور جو سڑکوں پر آکر احتجاج کر رہے ہیں۔ جب تک اس اصل عالمی کمیونٹی کی آواز اور اس کی تمنائوں اور خواہشوں کو اہمیت اور مرکزیت حاصل نہیں ہوتی جمہوریت اور انسانیت کی بالادستی ایک خواب پریشان ہی رہے گی۔


حواشی

  • اس ضمن میں بیسویں صدی کے آغاز سے قبل کی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیے:
  •    پہلی صدی عیسوی میں رومی قبضے سے جودیا (Judia) کو آزاد کروانے کے لیے زیلٹس (Zealots) اور سکارٹس (Sicarits) کی جدوجہد۔
  •  گیارھویں اور بارھویں صدیوں میں خون آشام قتلِ عام کرنے والا گروہ ہے جسے Assassinکہا جاتا ہے۔
  • اٹھارھویں صدی میں جیکوبٹ (Jacobits) کی طرف سے قتلِ عام.
  • انیسویں صدی میں روسی حکومت کی طرف سے (People's Will) Narodnays Volyel اور
  •  یورپی اقوام کی انیسویں صدی کی تہلکہ خیز تحریک انارکسٹ

دہشت گردی کے ضمن میں بیسویں صدی کی بھی چند مثالیں ملاحظہ فرمایئے:

                ۱-            آرمینیا کی آزادی ASALA یعنی Secret Army for the liberation of Armenia اور اس کا بہیمانہ تشدد اور قتلِ عام۔

                ۲-            یہودیوں پر مشتمل اِرگون‘ سٹرن اور ہگانہ کے مسلح دہشت گرد دستے جو بعد میں اسرائیلی فوج کا حصہ بنے۔

                ۳-            قبرص کے یونانیوں کی مسلح تنظیم EOKA یعنی Ethnic's Organization Kyprion Agoniston

                ۴-            کینیا میں: مائومائو یا لینڈ اینڈ فریڈم آرمی۔

                ۵-            جرمنی میں: (i) Bader Meinhof, (ii) Red Army Factors and (iii) the 2nd June Movement of Germany.

                ۶-            اسپین میں: Euzkadi tes Akantasone (ETA)

                ۷-            اٹلی میں: Strategy of Tension and Red Brigades

                ۸-            برازیل میں: Marighda

                ۹-            آئرلینڈ میں:(i) IRA and (ii) Protestant Volunter Force Ireland

                ۱۰- یونان کی مسلح تحریک:November 17

                امریکا میں:             (i) Ku Klux Klan (KKK), (ii) Free Speech Movement of Berkly

                                                (iii) Christian Identity (Elohim City, Oklahoma

                                                (iv) Anti Abortionists (Rev. Michael Bray)

                ۱۱-         یوگنڈا میں: (i) Lord's Resistance Army (ii) Holy Spirit Mobile Force (HSMF)

                ۱۲-         پیرو میں: Sendero Luminose

                ۱۳-         کولمبیا میں: FARC

                ۱۴-         سری لنکا میں: LTTE

                ۱۵-         ترکی میں: PKK

                ۱۶-         فلسطین میں جارج حباش کی (i) Popular Front for the Liberation of Palestine‘     (ii)پی ایل او (PLO)‘ (iii) Islamic Jehad of Palestineاور حماس

                ۱۷- ایران میں:       (i)Fidayeen اور اشتراکی تنظیم جسے امریکا کی حمایت حاصل ہے مجاہدین خلق۔

                ۱۸-         بھارت میں: Nexalities اور دیگر گروپ۔

                یہ فہرست بطور مثال ہے ورنہ ایسی تنظیموں کی جنھوں نے سیاسی اہداف کے حصول کے لیے قوت کا استعمال کیا ہے بڑی لمبی ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو:

(i) Terrorisn in Context, ed. by Martha Crenshow, Pensylvania State University  Press, 1955

(ii) Origions of Terrorism: Psychologies, Ideologies, Theologies, States of Mind, ed by Walter Reich, Woodrow Wilson Centre, Washington, 1998.

(iii) Violences, Terrorism and Justice, ed. by R.G. Frey, Cambridge University Press, 1991.

(iv) Global Terrorism: The Complete References Guide, by Harry Henduson  Checkmark Books, New York, 2001.

(v) The Terrorism Reader, ed. by David J. Whiterlu , Rutbdgi, London 2001.

۲-            Political Terrorism: A reseach Guide to Concepts, Theories, data bases and Literature, by A.P. Schmid, North Holland Publishing, Amsterdam, 1983.

                (اے پی شمڈ ‘ سیاسی دہشت گردی: تصورات‘ نظریات‘ معلوماتی مواد اور ادبیات پر ایک تحقیقی رہنما کتاب‘ نارتھ ہالینڈ پبلشنگ کمپنی‘ ایمسٹرڈم‘۱۹۸۳ئ)

۳-            نوم چومسکی کے مضمون : A Just War? Hardly کا ایک اقتباس خلیج ٹائمز میں شائع ہوا اور دی ڈیلی ٹائمز (لاہور‘ ۱۰ مئی ‘ ۲۰۰۶ئ) میں دوبارہ شائع ہوا۔

۴-            ملاحظہ فرمایئے جوزف ای بی لمبارڈ کی مرتب کردہ کتاب: Islam, Fundamentalism and the Betrayal of Tradition (Indiano: World Wisdom 2004)۔ باب ۶ میں اٹھائے گئے مسائل پر سنجیدہ بحث و مباحثہ‘ مضمون نگار ولید الانصری The Economics of Terrorism, How Bin Laden is Changing  the Rules of the Game ‘ ص ۱۹۱- ۲۳۶ ضرور مطالعہ کیجیے۔

۵-            رابرٹ اے پیپ (Robert A Pape) Dying to Win: The Stragic Logic of Suicide Terrorism, New York: Random House, p 4.

۶-            سیموئیل ہن ٹنگٹن ‘ پی (۱۹۹۷ئ) The Clash of Civilization and The Remaking of World Order: Samuel and Schuster, London. ‘ ص ۱۸۷۔

۷-            ایضاً ، ص ۲۱۷-۲۱۸