نومبر۲۰۰۶

فہرست مضامین

کتاب نما

| نومبر۲۰۰۶ | کتاب نما

Responsive image Responsive image

مطالعات قرآن، ڈاکٹر ابوسفیان اصلاحی۔ ناشر: اپنا ادارہ‘ منظور منزل‘ ۴۲- اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۲۵۶۔ قیمت: ۱۸۰ روپے۔

زیرنظر کتاب قرآنیات سے متعلق ۱۰ مقالات اور ایک مقدمے پر مشتمل ہے۔ اس مجموعے کو موضوعات کے لحاظ سے چار حصوں میںتقسیم کیا جاسکتاہے۔ پہلا حصہ: ’قرآن کے چند خصائص اور ان سے استفادہ‘ ، ’قرآن کریم میں زمین کا ذکر‘ ، ’قرآنی اصطلاح فساد فی الارض کا ایک جائزہ‘ ، ’پانی، قرآن کریم اور سائنس کی رو سے‘ پر مشتمل ہے۔ دوسرے حصے میں دو مقالے سرسید کی تفسیر سے متعلق ہیں۔ مصنف نے سرسید کی لغوی تحقیق اور کلامِ عرب پر عبور کو سراہا ہے لیکن اس بات پر افسوس کااظہار کیا ہے کہ تفسیر قرآن میں سرسید نے اپنے عمومی رویے کے برعکس متانت اور بردباری کا دامن چھوڑدیا ہے اور مفسرین کو پاگل اور احمق تک کہا ہے۔

تیسرا حصہ ’تفسیر تـدبر قرآن اور تـفسیر مـاجدی کا موازنہ‘ اور ’تـدبر قرآن اور تفہیم القرآن سے چند تراجم آیات کے موازنے‘ پر مشتمل ہے۔ مصنف نے تمام مقالے علمی اور معروضی انداز میں پیش کیے لیکن جہاں تدبر قرآن کی کسی دوسری تفسیر سے موازنے کی بات آئی وہاں فکرِاصلاحی سے تعلق کا غلبہ نمایاں ہے۔ اسی وجہ سے مولانا مودودیؒ کی ترجمانی پر بھی مصنف کو اعتراض ہے۔

چوتھے حصے میں مشہور محقق اور ماہر اسلامیات ڈاکٹر محمد حمیداللہ کی قرآنی خدمات کا جائزہ لیا گیا ہے اور ڈاکٹر صاحب کی خدمات کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔ عمدہ کاغذ‘ مناسب طباعت کے ساتھ اچھی پیش کش ہے۔ (حمیداللّٰہ خٹک)


الروح والریحان‘ محمد وقاص۔ ناشر: البدر پبلی کیشنز‘ راحت مارکیٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔  صفحات: ۲۸۶۔ قیمت: ۱۲۰ روپے۔

سیرت النبیؐ مسلم معاشروں میں ہمیشہ سے ایک سدابہار موضوع رہا ہے۔ اُردو زبان میں بھی کسی ایک موضوع پر اس قدر عظیم الشان ذخیرئہ علمی موجود نہیں ہے۔ لیکن سیرت پر ایسی کتابیں کم ہی سامنے آتی ہیں جو رسمی اور روایتی انداز سے ہٹ کر قاری کو اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہوں۔ زیرنظر کتاب انھی کم کتابوں میں شمار ہونی چاہیے۔

بنیادی طور پر یہ مصنف کے لیکچر ہیں جنھیں کتابی صورت میں ڈھالنے اور سامنے لانے میں پانچ برس صرف ہوگئے۔ ’’ایک ایک صفحہ مجھے کئی کئی بار لکھنا پڑا‘‘۔ مصنف نے کس ذہن‘       کن احساسات اور کن کیفیات میں یہ کتاب لکھی: ’’اس کتاب کی تصنیف گویا ایک سفر ہے۔ میں نے اس سیرتؐ کی کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے رسولؐ اللہ کی پیدایش سے لے کر آپؐ کی رحلت تک کے مراحل کو روحانی طور پر محسوس کرنے کی کوشش کی ہے۔ اپنے آپ کو وہاں موجود رکھ کر اپنی حیثیت متعین کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ جاننے کی برابر کوشش کی ہے کہ میں فلاں موقع پر موجود ہوتا تو میرا کیا ردِّعمل ہوتا۔ اس طرح گویا میں ایسا مسافر تھا جو تمام وادیوں میں گھومتا رہا‘ محسوس کرتا رہا‘ خوشی کے مقامات پر خوش ہوتا رہا‘ خوف کے مقامات پر خوف کا شکار ہوتا رہا اور غم کے مقامات پر دل کی کیفیت بوجھل رہی۔ دورانِ تصنیف میری کوشش رہی کہ دل رسولؐ اللہ کی محبت سے سرشار رہے‘‘۔(ص ۱۹)

سیرتِ طیبہؐ کے مختلف واقعات و مراحل کے بیان میں‘ مصنف کا انداز بظاہر عالمانہ نہیں‘ مگر صحت‘ استناد اور احتیاط کا بہراعتبار خیال رکھا گیا ہے۔ آیاتِ قرآنی اور حدیث کا متن‘ ترجمہ اور روایات کے حوالے مصنف کی احتیاط کا پتا دیتے ہیں۔ مصنف نے سیرت پاک کو مرحلہ وار عنوان دے کر مختلف ادوار قائم کیے ہیں‘ اور پھر ضمنی سرخیوں کی مدد سے ایک ایک واقعے اور شخصیت کے ایک ایک پہلو کو عام فہم انداز میں بیان کرتے اور نکھارتے چلے گئے ہیں۔ موضوع کی تفصیلات اور جزئیات میں مطالعہ‘ تحقیق اور مشاورت کے بغیر کوئی بات نہیں لکھی۔ کہیں کہیں بعض مفاہیم پر سیرت کی دوسری کتابوں سے بعض مفاہیم اخذ کیے ہیں (یہاں کتابوں کے نام کے ساتھ اڈیشن اور صفحہ نمبر کا حوالہ دینا ضروری تھا)۔ ہمیں امید ہے کہ اس کتاب کو پڑھتے ہوئے نبی کریمؐ کی شخصیت سے   ایک قربت بھی محسوس ہوگی‘ آپؐ کی دعوت کا اسلوب بھی نکھر کر سامنے آئے گا‘ اور یوں سیرت کا قاری ایک لطف و انبساط اور سر خوشی کی کیفیت سے دوچار ہوگا۔ (رفیع الدین ہاشمی)


اقبال اور قادیانیت ، بشیراحمد۔ ناشر: مجلس علم و دانش‘ پوسٹ بکس ۶۳۹‘ راولپنڈی۔ صفحات: ۲۸۳۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

ختم نبوتؐ دین اسلام کا بنیادی ستون ہے۔ مغرب نے اپنے نوآبادیاتی عزائم کی تکمیل کے لیے جہاں مسلم دنیا کے مادی وسائل پر قبضہ جمایا اور ان کی تہذیب و ثقافت کو اپنی مرضی کے مطابق تہہ و بالا کیا‘ وہاں اسلامی عقائد‘ دینی شعائر اور دینی علوم کو بھی اپنے دست شرانگیز کا      نشانہ بنایا۔ اسی روایت کا ایک پہلو‘ برعظیم پاک و ہند میں مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوت کاذبہ کی تشکیل و تعمیر ہے۔ قادیانیت کا فتنہ محض مذہبی تخریب تک نہیں رکا‘ بلکہ مغربی سامراج کی سیاسی  کاسہ لیسی اور وکالت کے ساتھ‘ مقامی اقوام کی حق تلفی کے لیے بھی پیش پیش رہا ہے۔ علماے کرام نے بجاطور پر‘ مرزاے قادیاں کے عقائد کے تاروپود بکھیر دیے تھے‘ لیکن ان کا یہ استدلال     عوام الناس اور بالخصوص پڑھے لکھے مسلمانوں میں اسی وقت راسخ ہوا‘ جب علامہ اقبال نے دوٹوک الفاظ میں جواہر لعل نہرو کو لکھا:’’میںاس بات میں کوئی شک و شبہہ اپنے دل میں نہیں رکھتا کہ احمدی‘ اسلام اور ہندستان دونوں کے غدار ہیں‘‘۔

قادیانیت کے بارے میں پہلے پہل خود اقبال کے ہاں سادگی پر مبنی تاثر اور بعدازاں شفاف حقیقت بیانی کو جناب بشیراحمد نے علمی دیانت‘ باوقار استدلال اور گہری تجزیہ کاری کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اس ضمن میں ۱۸۰ مآخذ سے نظائر کو چنا اور سلاست سے پیش کیا ہے۔ اس حقیقت کو سمجھنا چاہیے کہ قادیانیت کسی فرقہ وارانہ مذہبی بحث کا موضوع نہیں ہے‘ بلکہ اہلِ مغرب کے اسٹرے ٹیجک مفادات کی تکمیل میں یہ ایک سرگرم گماشتہ گروہ بھی ہے۔ خاص طور پر موجودہ حالات میں‘ جب کہ پاکستان کے ایوان ہاے اقتدار اور فیصلہ ساز اداروں میں اس گروہ کا اثرونفوذ گہرے خطرات کو نمایاں کر رہا ہے‘ بعض دینی عناصر بھی اسے نظرانداز کرنے کی غیردانش مندانہ روش کو اختیار کیے ہوئے ہیں۔

کتاب پر جناب ڈاکٹر سفیراختر کی تقدیم‘ جناب شکیل عثمانی کے دیباچے اور ڈاکٹر ظفراللہ بیگ کے تعارف نے موضوع کی داخلی پرتوں کو مزید نمایاں کیا ہے۔ سنجیدہ تحقیق اور مقصدی اسلوب نے اس کتاب کو ۲۰۰۶ء میں اقبالیات پر ایک قیمتی اضافے میں ڈھال دیا ہے۔ (سلیم منصورخالد)


پروفیسر محمد منور بطور اقبال شناس، زبیدہ جبین۔ ناشر: اقبال اکادمی‘ ۱۱۶-میکلوڈ روڈ‘ لاہور۔ صفحات: ۲۴۰۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔

یوں تو ہر فرد اپنی قدروقیمت کا ثانی نہیں رکھتا‘ لیکن وہ لوگ جو خیر کے پیامی‘ عمل کے داعی اور اعلیٰ مقصد زندگی کے حامل ہوتے ہیں‘ ان کا مقام و مرتبہ بہت بلند اور بعض صورتوں میں قابلِ رشک ہوتا ہے۔ پروفیسر محمد منور مرحوم (المعروف پروفیسر مرزا منور) ایسے قیمتی افراد میں سے تھے۔

عام طور پر یونی ورسٹی سطح کے مقالات ایک فارمولے کے اسیر ہوتے ہیں لیکن زیرتبصرہ کتاب اظہاروبیان اور موضوع کے بنیادی عناصر کے حوالے سے ایک منفرد حیثیت کی حامل ہے۔ اس کتاب میں پروفیسر صاحب مرحوم کے غیر متزلزل ایمان‘ حصولِ علم کے لیے سخت محنت اور زندگی بھر خیروصداقت کے لیے سرگرم کار رہنے کی مناسبت سے مطالعے کے لیے ایسی بنیادی معلومات ملتی ہیں کہ رشک اور احترام کے جذبات کے ساتھ دل سے بے ساختہ دعاے مغفرت نکلتی ہے۔

پروفیسر منور عربی‘ فارسی‘ اُردو اور انگریزی میں تحریر و تقریر پر قدرت رکھتے تھے‘ جب کہ مادری زبان پنجابی تھی۔ بحیثیت استاد اُن کے ہونہار شاگرد صدقہ جاریہ ہیں۔ اور حضرت علامہ سے ان کی عقیدت و محبت‘ درحقیقت اسلام سے عقیدت و محبت کا مظہر تھی۔ انھوں نے ادب‘ فلسفہ‘  اسلامی تاریخ‘ بالخصوص ہندو ذہن کا بڑی عرق ریزی سے مطالعہ کیا تھا‘ جب کہ اقبال کے شعری اور نثری اثاثے کو علوم اسلامیہ اور اسلامی تاریخ کے فہم کا ذریعہ بنایا۔

ایم فل اقبالیات کے لیے لکھے گئے اس مقالے میں مصنفہ نے احوال کے تذکرے کے ساتھ‘ پروفیسر محمد منور مرحوم کی خدماتِ اقبالیات کا بھی اختصار مگر جامعیت سے احاطہ کیا ہے۔ تصانیف کا مفصّل تعارف‘ اقبالیاتی دورے اور دیگر کاوشیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ مرزا صاحب نے اقبالیات کو ایک تحریک بنا دیا۔ مقالہ بڑے سلیقے سے مرتب کیا گیا ہے۔ (س - م - خ)


Sex and Sexuality in Islam [اسلام میں جنس اور جنسیت]‘ ڈاکٹر محمدآفتاب خان۔ ناشر: نشریات‘ ۴۰-اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات:۷۷۰۔ قیمت (مجلد): ۶۵۰ روپے۔

قرآن و سنت کا یہ امتیاز ہے کہ وہ بعض ایسے معاملات میں بھی جہاں زبان بات کرتے ہوئے ہچکچاتی ہے‘ ایک ایسا اسلوب اختیار کرتے ہیں کہ خاندان کا ہر فرد اس کا مطالعہ کرسکے اور  معنی و مفہوم کو سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہ آئے۔ یہ بات فرما کر کہ بچہ اس کا ہے جس کے بستر پر ہو‘ ہادی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام معاملات کا احاطہ فرما لیا جن کا تعلق معاشرت‘ ازدواجی تعلق اور قانون و ادب کے ساتھ تلاش کیا جاسکتا ہے۔ اس نقطۂ نظر سے ہر وہ انسانی کاوش جو بعض ایسے موضوعات پر اختیار کی جائے گی جو حسّاس سمجھے جاتے ہیں اور میرے خیال میں ان کے حسّاس رہنے میں نہ صرف حرج نہیں بلکہ شاید زیادہ خوبی ہے‘ہمیشہ ایک کوشش ناتمام رہے گی۔

اس انسانی مشکل کے باوجود ڈاکٹر آفتاب خان نے ایک ایسے موضوع پر قلم اٹھایا ہے جو عرصے سے حسّاس رہا ہے۔ گو گذشتہ سات برسوں میں اس ملک عزیز کے نام نہاد آزاد میڈیا نے اپنی مقدوربھر کوشش کرلی ہے کہ وہ شرم و حیا کے تمام پیمانوں کو توڑتے ہوئے ایسی اصطلاحات کو جو بحالتِ مجبوری عدلیہ میں ایک جج ملزم سے جرح کے دوران استعمال کرتا تھا‘ اتنا عام کردے کہ ایک ۱۰سال کی بچی بھی والدین سے پوچھنے پر مجبور ہو کہ یہ ’زنا‘ کیا ہوتا ہے اور کیسے کیا جاتا ہے!

یہ کتاب ایک علمی کاوش ہے جس میں اس موضوع سے متعلق کثیر معلومات کو یکجا کردیا گیا ہے اور کوشش کی گئی ہے کہ بڑی حد تک جو ضمنی اور ذیلی موضوعات اس دائرے میں آتے ہوں ان پر بھی اپنی رائے کا اظہار کردیا جائے۔ اس لحاظ سے یہ ایک جرأت مندانہ کاوش ہے۔

تاہم‘ بعض ایسے پہلو ہیں جن کی وضاحت اگر اتنی مفصل نہ ہوتی تو شاید مناسب ہوتا۔  موجودہ صورت حال میں یہ کتاب ایک بالغ نظر علوم عمران کے طالب علم کے لیے تو مفید ہے   لیکن ایک عام قاری کے لیے بعض معلومات غیرضروری ہیں۔

کتاب سات حصوں اور ۲۳ ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے میں جنس اور جنسی تعلیم سے بحث کی گئی ہے اور قدیم یورپی تصورات اور اسلام کے تصورات کا موازنہ کیا گیا ہے۔ دوسرے حصے میں اسلام کا عمومی تعارف ہے۔ اس میں اسلام میں عورت کا مقام و مرتبہ‘ اسلام کا تصورِ حجاب وغیرہ سے بحث کی گئی ہے۔ چوتھے حصے میں تعدد ازواج اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اس حوالے سے اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے۔ پانچویں حصے میں زنا اور قحبہ گری سے بحث کی گئی ہے۔ چھٹے حصے میں جنسی بے راہ روی کا بیان ہے اور آخری حصے میں جنس اور تشدد کے موضوع سے بحث کی گئی ہے۔ مغرب میں مروجہ بعض جنسی طریقوں کے حوالے سے بحث میں دورِ جدید کے بعض فقہا کی آرا اور معروف مسلک سے اختلاف نظر آتا ہے جو شاید کم عمر نوجوانوں اور اسکول کے طلبہ و طالبات کے لیے ضرر کا باعث ہو۔ اگر کتاب کے دوسرے ایڈیشن میںان حسّاس مقامات پر نظرثانی کرلی جائے تو اس ممکنہ ضرر کو دُور کیا جاسکتا ہے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)


خواب منزل، تحفہ عروسِ نو، ڈاکٹر شگفتہ نقوی۔ ناشر: مکتبہ خواتین میگزین‘ نزدمنصورہ‘ ملتان روڈ‘ لاہور۔ صفحات: ۲۱۶۔ قیمت: ۱۶۵ روپے۔

ایک نئے خاندان کی داغ بیل ڈالنے اور اس سفر کو شاہراہِ حیات پر خوب صورتی اور کامیابی سے رواں دواں رکھنے کے لیے جس محبت‘ صبر‘ ایثار اور سمجھ داری کی ضرورت ہوتی ہے‘ اس کو ڈاکٹر شگفتہ نقوی نے اپنی نئی تصنیف خواب منزل میں ایک نئے طرز کے ساتھ اجاگر کیا ہے۔ اختصار کتاب کا حُسن ہے‘ اس کے باوجود انھوں نے انتہائی جامعیت کے ساتھ تمام اہم پہلوئوں پر بھرپور طریقے سے روشنی ڈالی ہے۔ شادی سے پہلے اور بعد میں پیش آنے والے سلگتے مسائل اور پوشیدہ الجھنوں کا نہ صرف احاطہ کیا بلکہ نہایت کھرے اور بے لاگ انداز میں اس کا حل بھی پیش کردیا۔ اگرچہ موضوع کی گہرائی قلم کوبے باک کردیتی ہے جس سے حیا کا تاثر مجروح ہوتا نظر آتا ہے۔

یوں تو کتاب بنیادی طور پر نئے شادی شدہ جوڑوں کی رہنمائی کے لیے لکھی گئی ہے مگر اس میں صنفِ نازک کے سدھارے سے زیادہ صنفِ مخالف اورسسرالی قبیلے کے سدھار پر مقابلتاً زیادہ توجہ دی گئی ہے۔بہرحال اس کتاب میںمعاشرتی زندگی کے تناظر میں نئے شادی شدہ جوڑے کے لیے اپنی ازدواجی زندگی کو کامیاب بنانے کے گُر‘ ایک مضبوط اور مستحکم خاندان کی بنیاد رکھنے کے اصول‘ اور ایک مثالی اور خوش گوار زندگی سے روشناس کرنے کے لیے فکرانگیز معلومات مہیا کی گئی ہیں۔ (ربیعہ رحمٰن)


تعارفِ کتب

  •  حج وعمرہ کی کتاب، تالیف و تخریج: حافظ عمران ایوب لاہوری۔ ملنے کا پتا: نعمانی کتب خانہ‘ حق سٹریٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ فون:۷۳۲۱۸۶۵-۰۴۲۔ صفحات: ۳۱۶۔ قیمت: درج نہیں۔ [حج و عمرے کے لیے راہنما کتابوں کے سلسلے میں یہ ایک اچھا اور مفید اضافہ ہے۔ حج کے مسنون آداب‘ مناسک اور مسائل مستند روایات اور صحیح احادیث کی روشنی میں ترتیب دیے گئے ہیں۔]
  • Highway to Success ‘ محمدبشیرجمعہ‘ ترجمہ: صبیح محسن۔ ملنے کا پتا: فضلی بک‘ سپرمارکیٹ‘ اُردو بازار‘ کراچی۔ کتاب سرائے‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۳۲۰۔ قیمت (مجلد): ۲۵۰ روپے۔ [مصنف کی مشہور کتاب شاہراہ زندگی پر کامیابی کا سفر کا انگریزی ترجمہ ہے۔ اُردو میں اپنی نوعیت کی منفرد اور جامع کتاب ہے۔ اچھا ہے کہ اب یہ انگریزی جاننے والوں کے لیے بھی فراہم ہوگئی ہے۔ اس لیے بھی کہ   اب پاکستان میں کامیابی کی شاہراہ انگریزی سے ہوکر ہی جاتی ہے‘ بلکہ انگریزی میں مہارت ہی کامیابی کی    شاہِ کلید ہے۔]
  • تذکرہ سوانح حضرت مولانا سیداسعد مدنی‘ اشاعت خاص ماہنامہ القاسم‘ مرتب: مولانا عبدالقیوم حقانی۔ ناشر: القاسم اکیڈمی‘ جامعہ ابوہریرہ‘ برانچ پوسٹ آفس خالق آباد‘ ضلع نوشہرہ۔ صفحات: ۵۱۲۔ قیمت:درج نہیں۔ [جمعیت علماے ہند کے صدر مولانا سید اسعد مدنی کا انتقال فروری ۲۰۰۶ء میں ہوا۔ چھے ماہ میں ان کے حالاتِ زندگی‘ خدمات اور کارناموں پراتنی ضخیم اشاعت مرتب کرنے پر القاسم اکیڈمی مبارک باد کی مستحق ہے۔ ایک پورا دور نظروں کے سامنے آجاتا ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کی تصویر بھی اس آئینے میں موجود ہے۔]
  • فہم ودراسہ (الفاتحہ‘ البقرہ)‘ مرتب: راجا محمد قاضی۔ ناشر: ادارہ ترجمان القرآن‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۴۷۶۔ قیمت: درج نہیں۔ [تفہیم القرآن کے مضامین کو طالب علموں کے ذہن نشین کرنے کے لیے   سوالاً جواباً مرتب کیا گیا ہے۔ عربی متن اور ترجمے کے ساتھ اہم الفاظ کے معنی بھی دیے گئے ہیں۔   ایک اچھی اور مفید کاوش۔]
  • مسجد اسلامی معاشرے میں، ڈاکٹر محمد مسعود عالم قاسمی۔ناشر: دفتر ناظم سنّی دینیات‘ مسلم یونی ورسٹی‘   علی گڑھ‘ بھارت۔ صفحات:۶۴۔ قیمت: درج نہیں۔[۲۵ سے زیادہ عنوانات کے تحت اسلامی معاشرے میں مسجد کا مقام اور کردار بیان کیا گیا ہے۔امام‘ موذن‘ صف بندی‘ خواتین وغیرہ کے ساتھ ساتھ روحانی‘ تعلیمی‘ ثقافتی‘ سماجی اور سیاسی کردار بھی زیربحث آئے ہیں۔]
  • مسلمانوں کی حقیقی تصویر ، مولانا محمد جرجیس کریمی۔ ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی‘ڈی-۳۰۷‘ ابوالفضل انکلیو‘ جامعہ نگر‘اوکھلا‘ نئی دہلی‘ بھارت۔ صفحات: ۱۶۴۔ قیمت: ۵۵ روپے۔[مسلمانوں کے بارے میں جو غلط فہمیاں پھیلائی جارہی ہیں‘ اس پس منظر میں‘ مصنف نے مسلمان کی حقیقی تصویر قرآن اور سنت کی روشنی میں پیش کی ہے۔ اگر کہیں عمل نہیں کیا جاتا تو ذمہ داری اسلام کی نہیں‘ مسلمانوں کی ہے‘ مثلاً خواندگی کی کم شرح وغیرہ۔]
  • رحمت ہی رحمت، الشیخ عطاء اللہ بن عبدالغفار فیض کوریجہ۔ ترجمہ: مولانا امیرالدین مہر۔ ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈمی‘ ڈی-۳۵‘ فیڈرل بی ایریا‘ کراچی۔ صفحات: ۱۵۲۔ قیمت: درج نہیں۔[ان تمام روایات کو  جمع کردیا گیا ہے جن سے آپؐ کے رحمت کے پہلو کا اظہار ہوتا ہے۔ ترجمے کے ساتھ قابلِ توجہ امور کو بطور تشریح نکات واردرج کردیا گیا ہے۔ بچوں کے ساتھ‘ خواتین کے ساتھ‘ اہل و عیال کے ساتھ‘ اُمت کے ساتھ‘ غرض ہرلحاظ سے رحمت کے سلوک کے واقعات یک جا ہوگئے ہیں۔]
  • ماہنامہ ہمدرد (خاص نمبر) مدیراعلیٰ: مسعود احمد برکاتی۔ ناشر: ہمدرد فائونڈیشن‘ ناظم آباد نمبر۳‘ کراچی ۷۴۶۰۰۔ صفحات: ۲۸۸۔ قیمت: ۳۰ روپے۔ [ہمدرد نونہال نے اپنی ۵۴ سالہ زندگی میں ادب‘ نونہالوں اور پاکستان کی بڑی خدمت انجام دی ہے اور کوشش کی ہے کہ عہدحاضر کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے نئی نسل کے لیے اخلاق اور علم کا پیغام عام کرتارہے۔ زیرنظر خاص نمبر اسی کا تسلسل ہے‘ نیز ایک کہانی بطور تحفہ بھی۔]
  • سیرتؐ کا پیغام ، مرتب: ڈاکٹر ممتاز عمر۔ ملنے کا پتا: ۴۴۵-T‘کورنگی نمبر۲‘ کراچی ۷۴۹۰۰۔ صفحات: ۶۴۔ قیمت :۶روپے کے ڈاک ٹکٹ۔[حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر مختصر اور متنوع مضامین کا مجموعہ اور عقیدت سے لبریز اشعار کا گلدستہ۔ علمی سے زیادہ عمل پر اُبھارنے والی مؤثر تحریریں۔]
  • اسلام میںخواتین کے حقوق‘ جدید یا فرسودہ ، ڈاکٹرذاکر نائیک۔ ترجمہ: سید امتیاز احمد۔ ناشر: دارالنوادر‘ الحمدمارکیٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۱۰۴۔ قیمت: ۵۰ روپے۔[معروف اسکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک کا اپنے مخصوص انداز میں عورت کے حقوق پر اظہار خیال۔ موضوع کے حوالے سے جدید ذہن میں اٹھنے والے سوالات اور شبہات کا مدلل جواب۔ مفید‘ معلوماتی اور مبسوط استدلال۔]