مئی ۲۰۰۱

فہرست مضامین

مغرب اور اسلام --- تہذیبوں کا تصادم ؟

پروفیسر عبدالقدیرسلیم | مئی ۲۰۰۱ | بحث و نظر

Responsive image Responsive image

اسلام اور مغرب کے درمیان پہلی مڈبھیڑ اُن صلیبی جنگوں ہی سے شروع ہو گئی تھی‘ جو یورپ کے عیسائی حکمرانوں اور اہل کلیسا نے فلسطین میں اپنے مذہبی مقامات کو ’’آزاد کرانے‘‘ کے لیے شروع کیں‘ اور جن میں اقصاے مغرب سے لشکر کے لشکر سیلابوں کی صورت میں وسط ایشیا میں مقاماتِ مقدسہ کی بازیابی کے لیے حملہ آور ہوتے رہے۔ لیکن حال میں مغرب اور اسلام کا یہ ’’رابطہ‘‘ عہدِ نوآبادیات سے شروع ہوا‘ جب انگلستان‘ فرانس‘ ہالینڈ‘ جرمنی‘ اٹلی اور بعض دوسرے ملکوں کے مہم جو جہازرانوں ‘حوصلہ مند تجارتی خانوادوں اور تاجروں نے مشرق کی طرف رُخ کیا‘ اپنے مضبوط بحری بیڑوں‘ آہن و بارود اور منظم اداروں کی مدد سے افریقہ‘ سواحل عرب‘ شرق اوسط‘ برعظیم پاک و ہند اور موجودہ انڈونیشیا اور ملائیشیا تک چھاتے چلے گئے۔

دوسری جنگ عظیم (۴۵-۱۹۳۹ء) کے بعدان مغربی اقوام نے محسوس کیا کہ براہِ راست نوآبادیاتی طریق حکمرانی اب بے ثمر اور دافعِ منفعت (counter productive)ہوتا جا رہا ہے‘ اور بہتر طریقہ یہ ہے کہ ان نوآبادیات کو مقامی باشندوں ہی کے حوالے کر دیا جائے۔ ان سے فائدہ اٹھانے کے لیے براہِ راست لوٹ کھسوٹ کے علاوہ کئی طریقے اور بھی ہیں۔

بیسویں صدی کے وسط سے یہ دَور شروع ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ہی سابق محکومین اور مستغلبین یعنی سابق غلاموں اور ان کے آقائوں کے درمیان کچھ نئے رشتے بھی استوار ہوتے ہیں۔ اب بہت بڑی تعداد میں نوآبادیات کے حال اور مستقبل کے حکمران‘ اُن کے بچے اور لواحقین اور حوصلہ مند اور جرأت آزما نوجوان اُن ملکوں کی طرف رخ کرتے ہیں‘ جو پہلے ان کی سرزمین کے غاصب اور حکمران تھے۔ وجوہ :تعلیم و تربیت‘ روزگار کے بہتر مواقع‘ ملازمت‘ تجارت اور پھر صنعت وغیرہ میں سرمایہ کاری بھی (اپنے وطن کی لوٹی ہوئی

دولت کی اِن ’’آزاد‘‘ ملکوں میں تخم ریزی سے بہتر امکانات اور کہاں میسر آسکتے تھے!) ۔پھر یہ بھی ہوا کہ آقائوں نے ’’غائبانہ حکمرانی‘‘ کے لیے اپنی سابقہ نوآبادیات سے نوجوان منتخب کیے تاکہ انھیں تعلیم و تربیت دے کر واپس بھیجا جائے اور وہ ان کے لیے کارآمد ثابت ہوں۔ اس کے لیے وظائف اور سہولتیں فراہم کی گئیں۔

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ شمالی اور وسطی افریقہ‘ شام‘ عراق‘ عرب ریاستوں‘ ایران‘ پاکستان‘ بھارت‘ انڈونیشیا‘ ملائیشیا‘ فلپائن‘ تھائی لینڈ اور بلقان کی ریاستوں کے لاکھوں نوجوان ‘بچے‘ بوڑھے‘ مرد‘ عورت‘ یورپ اور شمالی امریکہ کا رخ کر رہے ہیں (شمالی  امریکہ--- ریاست ہاے متحدہ اور کینیڈا کی براہِ راست نوآبادیاں گو قابل ذکر نہ تھیں‘ لیکن ان ملکوں نے بھی محسوس کر لیا تھا کہ ایک نئے اور مختلف نوآبادیاتی نظام کا دَور شروع ہونے والا ہے‘ جس میں ’’بہت نفع‘‘ ہے)۔ مغرب کی طرف رخ کرنے والے ان افراد میں بعض عارضی اور وقتی ضروریات (تعلیم‘ تربیت‘ تفریح) کے لیے جا رہے تھے‘ اور بعض کی نیت مستقل قیام کی تھی۔ ان مظاہر نے ایک نئے موضوع کے مطالعہ کو جنم دیا ہے‘ اور وہ ہے ’’مطالعہء مغرب اور اسلام‘‘۔

چند سال پہلے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (اسلام آباد) نے اس مطالعے کی اہمیت و ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے ایک نہایت معیاری مجلہ ’’مغرب اور اسلام‘‘ (سہ ماہی) کا اجرا کیا‘ جو بلاشبہ اس موضوع پر اُردو میں ایک منفرد اور نہایت مستحسن کوشش ہے۔ مجلے کے ایک حالیہ شمارے (جولائی‘ دسمبر ۲۰۰۰ء) میں ایک جرمن نومسلم ڈاکٹر مراد ولفرڈ ہوف مین کے چار خطبات شائع ہوئے ہیں۔ تین خطبات وہ ہیں‘ جو انھوں نے انسٹی ٹیوٹ کی دعوت پر ’’خرم مراد یادگاری خطبات‘‘ کے طور پر لاہور‘ کراچی اور اسلام آباد میں دیے۔ ان خطبات کے موضوعات، ’’تہذیبوں کا تصادم--- اکیسویں صدی میں‘‘، ’’اسلام: مغرب کے اندیشے اور مسلم ردِّعمل‘‘ اور ’’اسلام اور دَورحاضر کا نظریاتی بحران‘‘ تھے۔ چوتھا خطبہ انھوں نے بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد میں دیا تھا‘ جس کا عنوان تھا: ’’تہذیب اسلامی کو درپیش علم و دانش کا چیلنج‘‘۔ ساتھ ہی اس مجلے میں پروفیسر خورشید احمد‘ چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے اختتامی کلمات‘ ڈاکٹر رفیق احمد‘ ڈاکٹر ظفراسحق انصاری اور شریف الدین پیرزادہ کے صدارتی خطاب‘ نیز تقاریر پر کچھ سوال و جواب بھی شامل اشاعت ہیں۔ اس طرح یہ مجلہ اسلام اور مغرب کے مابین روابط اور مکالمے کے بارے میں ایک نومسلم ’’مغربی مفکر‘‘ کے خیالات کو سمجھنے کے لیے ایک وقیع دستاویز بن گیا ہے‘ جو بقول پروفیسر خورشید ’’ان موضوعات اور ان کے مختلف پہلوئوں پر بات کرنے کے لیے بہت موزوں اور اہل دانش ور ہیں‘‘۔ (ص ۶)

پروفیسر خورشید نے موضوع کا تعارف کراتے ہوئے بجا ارشاد فرمایا ہے کہ ’’یہ محض اسلام اور مغرب کے درمیان ربط و تعامل اور کش مکش کا کوئی مسئلہ نہیں ہے‘ بلکہ دو تہذیبوں کے درمیان تعلقات کی نوعیت کا ایسا سوال ہے ‘ جس سے پوری نوع انسانی کا مستقبل وابستہ ہے‘‘۔ (ص ۷)


مسئلے کی اہمیت اور مقرر کی اہلیت پران مختصر گزارشات کے بعد آیئے اُن کے خیالات کا ایک جائزہ لیتے ہیں‘ جن سے نہ صرف آج کی دنیا کے ایک اہم پہلو‘ بلکہ مسلمان اہل دانش کے ایک نمایندہ گروہ کے زاویۂ فکر کو سمجھنے میں بھی کچھ آسانی ہو سکتی ہے۔

اپنے پہلے خطبے ’’تہذیبوں کا تصادم--- اکیسویں صدی میں‘‘ کی ابتدا وہ فرانسس فوکویاما کے مضمون ’’تاریخ کا اختتام‘‘ (The End of History)  اور سیموئیل  ہنٹنگٹن کے ’’تہذیبوں کا تصادم‘‘ (The Clash of Civilizations) کے نظریے کے ایک جائزے سے کرتے ہیں۔ یہ دونوں نظریے ‘ نہ صرف مغربی دنیا میں مشہور ہو چکے ہیں‘ اور اُن پر بڑی بحث و تمحیص ہو چکی ہے‘ بلکہ تیسری دنیا کے بھی سبھی خواندہ حضرات ان سے واقف ہو چکے ہیں۔ فوکویاما کا کہنا تھا کہ انسانی تاریخ اپنے ارتقا کے سارے مراحل طے کر چکی۔ اس کا آخری ثمر‘ مغرب کا سیکولر جمہوری نظام اور منڈی کی معیشت ہے۔ اب کوئی نیا نظام نہیں آئے گا۔ جب کہ ہنٹنگٹن کا کہنا تھا کہ مغربی تہذیب‘ جو اس وقت غالب تہذیب ہے‘ اور ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے کر پوری دنیا کو یک رنگ بنانے کے چکر میں ہے‘ اس کا دوسری تہذیبوں سے تصادم ناگزیر ہے‘ بلکہ یہ تصادم شروع بھی ہو چکا ہے۔ دوسری تہذیبیں اپنا کلچر برقرار رکھتے ہوئے بھی پیداوار کے جدید  طریقے اختیار کر سکتی ہیں‘ اور اس جنگ میں انھیں‘ اور مغرب کے سارے نئے ہتھیاروں کو استعمال کر سکتی ہیں۔ ’’روایت اور جدیدیت‘ لازمی طور پر معاشرے اور کلچر کی متعارض صورتیں نہیں ہیں‘‘۔ (ص ۲۴)

ہوف مین --- اور ایک مسلمان --- کی دل چسپی بنیادی طور پر اس سوال سے ہے کہ کیا اسلامی تہذیب‘ دوسری تہذیبوں --- خصوصاً مغربی تہذیب ---سے مختلف کوئی شے ہے؟ اور اگر اس سوال کا جواب اثبات میں ہے‘ تو کیا یہ دونوں ایک ساتھ پرامن بقاے باہمی کے اصول کے ساتھ پروان چڑھ سکتی ہیں؟

میرے خیال میں ان دونوں سوالوں کے بارے میں ہمارے نومسلم دانش ور کا ذہن صاف نہیں‘ اور وہ اپنے تمام خطبات میں ’’تکثیریت‘‘ ]کثرتیت: [pluralism کی جو وکالت کرتے ہیں‘ اور بعض جگہ تہذیب کے فرق ہی کو ماننے سے انکار کرتے ہیں‘ وہ ان کے ذہنی الجھائو کی غمازی کرتا ہے۔ پھر اُن کے خیال میں تمام اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ شانہ بشانہ ترقی ممکن ہے۔ اس طرح گویا ’’توافق للبقا‘‘ ہی مستحسن ہے۔ ساتھ ہی وہ ’’اسلامی تہذیب‘‘ کے کسی منفرد تشخص سے بھی انکار کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں ’’ساری مسلم دنیا کے خصوصی مشترک خدوخال سے انکار‘‘ تو نہیں کرتا‘ تاہم ان کا خیال ہے کہ یہ تہذیب ایک ’’مفرد اور غیر مرکب‘‘ تہذیب نہیں ہے‘ بلکہ متنوع ہے۔ مختلف ملکوں میں ’’مسلم اقوام نے کس قدر کامیابی سے سابقہ تہذیبوں کا   بیشتر حصہ ]تاکید راقم الحروف کی [ اپنے اندر سمو لیا ہے‘ اور اس طرح ان کا اپنا اپنا اسلامی کلچروجود میں آیا ہے۔ ...یہی وہ حقیقت ہے کہ جس کی بنا پر میں سمجھتا ہوں کہ اس اَمر کا امکان زیادہ ہے کہ تصادم ایک خاص اسلامی تہذیب سے ہوتوہو‘ بحیثیت مجموعی اسلامی تہذیب سے ہرگز نہیں ہو سکتا‘‘ (ص۲۵)۔ وہ ’’اس مفروضے کو سختی سے مسترد‘‘ کرتے ہیں کہ مسلم ثقافت جوہری اعتبار سے دوسری ثقافتوں سے مختلف ہے۔ (ص ۲۵)

اِن بیانات میں کئی فکری مغالطے پوشیدہ ہیں۔ اگر ہم اس بات کے قائل ہیں کہ ہر تہذیب اپنی ایک منفرد فکری اساس رکھتی ہے‘ اور کچھ بنیادی عقائد (ایمانیات) ہی پر اس کا ڈھانچا استوار ہوتا ہے‘ تو پھر یہ کوئی قابل بحث اَمر نہیں رہتا کہ اسلامی تہذیب مغربی تہذیب‘ ہندو تہذیب‘ قدیم یونانی تہذیب یا رُومی تہذیب سے مختلف کوئی تہذیب ہے یا نہیں۔ ایک قوم (گروہ‘ جماعت‘ اُمت) جو ایک ہمہ مقتدر‘ خالق و مالک اللہ‘ آخرت اور انسان کے لیے آخری حوالے کے طور پر الہامی ہدایت پر یقین رکھتی ہے‘ اپنی فکر اور عمل میں یقینا اس ’’امت‘‘ سے مختلف ہوگی‘ جس کے نزدیک ان کا کوئی وجود نہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ان تمام تہذیبوں کے اپنے اپنے منفرد ظہور ہیں‘ جن سے یہ پہچانی جا سکتی ہیں۔

ہوف مین کا دوسرا ذہنی اُلجھائو ’’تہذیب‘‘ اور ’’ثقافت‘‘ کے تصورات میں اُن کا التباس ہے۔ یہ بات تو درست ہے کہ ’’ارب پتی‘ بم دھماکے کرنے والے اور بیلے ڈانسر‘‘ نہ اسلامی تہذیب کی نمایندگی کرتے ہیں‘ نہ اس کی ثقافت کی‘ تاہم اُن کا یہ کہنا محل نظر ہے کہ اسلامی تہذیب ’’ایک مفرد اور غیر مرکب وجود کی حامل نہیں‘ بلکہ متنوع ہے۔ ہندستان‘ ملائیشیا‘ انڈونیشیا‘ مراکش‘ ترکی اور مصر میں یہ مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ مسلم اقوام نے کس طرح کامیابی سے سابقہ تہذیبوں کا بیشتر حصہ اپنے اندر سمو لیا ہے‘‘ (ص ۲۵)۔ اِس سلسلے میں وہ غذا‘ لباس‘ معاشرتی اقدار اور زبانوں کے تنوع کی طرف اشارہ کرتے ہیں (ص ۲۵)۔ ہمارا معروضہ یہ ہے کہ مسلم ملکوں میں لباس‘ غذا اور زبان کے اختلاف ان کی ثقافتوں کی رنگا رنگی اور تنوع کو ظاہر کرتے ہیں‘ نہ کہ ’’تہذیب‘‘ کے اختلاف کو۔ انھیں مسلمانوں کی تہذیب کا اختلاف یا ’’تکثیر‘‘ ]کثرتیت[ نہیں کہہ سکتے۔ مسلمان کی تہذیب‘ لباس میں ستر کی پابندی‘ غیر ضروری آرایش‘ نمایش‘ تکلف اور اسراف و تبذیر سے اجتناب‘ زبان کی پاکیزگی اور غذا میں حلال و حرام کی تمیز ہیں۔ یہ اسلامی تہذیب کا خاصہ ہیں‘ اور دوسری تہذیبیں (خصوصاً ’’مغربی تہذیب‘‘ جس کے ساتھ اسلامی تہذیب کے تصادم سے وہ بچنا چاہتے ہیں) اس طرح کے تصورات سے عاری ہیں۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ جس تہذیب یا جن ثقافتوں کو بالفعل ’’مسلمان‘‘ اپنائے ہوئے ہیں‘ ان سب کو ’’اسلامی تہذیب‘‘ نہیں کہا جا سکتا۔ گانا بجانا‘ بھنگڑا ڈالنا‘ ترکی کے درویشوں کا رقص‘ نوٹنکی‘ قوالیاں‘ حشیش اور بادام کے آمیزے کے آدابِ شرب‘ حتیٰ کہ حقّہ اور کباب بھی ’’اسلامی تہذیب‘‘ کے نمونے نہیں۔ یہ جائز و ناجائز اعمال اور وظائف‘ سب کے سب‘ کیا اس لیے اسلامی تہذیب کے عنوان کے تحت جمع کر دیے جائیں گے کہ جن ملکوں میں یہ مروج ہیں/ پائے جاتے ہیں‘ وہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے؟

ہوف مین یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ مستقبل میں عالمی تصادم قومی سرحدوں پر ہوں گے یا سیاسی سرحدوں پر۔ وہ کہتے ہیں کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ تصادم ثقافتی سرحدوں پر ہوں گے‘ مگر انھیں یہ ’’مفروضہ مشکوک لگتا ہے‘‘ (ص ۲۷)۔ کیوں کہ بقول اُن کے گلوبلائزیشن ہی مختلف ملکوںکی قومی اقتصادی پالیسیوں کو کنٹرول کرتی ہے‘ جن میں ’’مالیاتی پالیسی‘ شرح سود‘ ٹیکسوں‘ کم از کم معاوضوں‘‘ وغیرہ کو رکھا جا سکتا ہے (ص ۲۷)۔ اور چونکہ گلوبلائزیشن ایک ایسا عمل ہے جس سے مفر کی کوئی راہ نہیں‘ اس لیے جو مالیاتی بندوبست اور معاشی انتظام اس کے نتیجے میں ترقی یافتہ مغرب کی طرف سے آئے گا‘ تیسری دنیا اور ’’اسلامی دنیا‘‘ اُسے چار و ناچار تسلیم کرنے اور خود کو اس سے وابستہ اور ہم آہنگ کرنے پر مجبور ہو گی۔ کیا خوب! آپ نہ صرف یہ کہ سود لینے یا نہ لینے میں خودمختار نہیں‘ بلکہ اس کی شرح متعین کرنے میں بھی آزاد نہیں۔ اب غیر سودی مالیاتی نظام کس طرح قائم کیا جا سکتا ہے؟ اور اقتصاد کی گلوبلائزیشن کے باوصف ایک منفرد تہذیب کیوں کر باقی رکھی جا سکتی ہے؟ کیا اس فکر میں یہ ہدایت اور مخفی پیغام نہیں کہ نہ صرف مالیاتی انتظام میں ہمیں اسلام کے فرسودہ اصولوں کو تج دینا ہی ہوگا‘ بلکہ کسی ’’متصادم انفرادیت‘‘ سے بھی دست بردار ہونا ہوگا کہ ان کے ساتھ ہم اکیسویں صدی میں گزارا نہیں کر سکتے۔

لیکن اس کے فوراً بعد اگلے نکتے میں وہ کہتے ہیں کہ ’’تاریخ کے ہر دَور میں فوجی تصادم‘ تہذیبی امتیازات یا مختلف ثقافتوں کی باہم ٹکراتی اقدار کی بنیاد پر ہی پیش آئے۔ جنگ عظیم اوّل و دوم صرف برطانوی‘ فرانسیسی اور جرمن قوموں کے درمیان ہی نہ لڑی گئیں‘ بلکہ یہ برطانوی‘ فرانسیسی اور جرمن ثقافتوں کے درمیان بھی تھیں‘ جو آج کے مقابلے میں اُس وقت نمایاں طور پر ایک دوسرے سے مختلف تھیں‘‘۔ (ص ۲۷)

مگر یہ نکتہ چونکہ اُن کے اُس بنیادی مفروضے / دعوے (مختلف تہذیبیں بغیر تصادم کے ہم آہنگی کے ساتھ رہ سکتی ہیں) کے خلاف پڑتا ہے‘ جو ان کے سارے خطبات میں بار بار مختلف زاویوں سے پیش کیا گیا ہے‘ اس لیے وہ پھر ’’تہذیبوں کے تصادم‘‘ کے نظریے کو ’’چیلنج‘‘ کرتے ہیں (ص ۲۸)‘ اور ایک نسبتاً طویل اور غیر متعلق داستان‘ اسلام اور عیسائیت‘ مشرق اور مغرب کے درمیان مشارکت اور فیض رسانی کی چھیڑ دیتے ہیں کہ بارہویں / تیرہویں صدی میں عیسائی مشنری کس طرح مسلم دنیا میں تبلیغ کے لیے آئے‘ ایک اندلسی مسلمان پوپ کا مشیر بنا،’’کلیلہ ودمنہ‘‘ اور ’’الف لیلہ‘‘ کس طرح یورپ میں مقبول ہوئیں‘ دانتے کی ’’ڈیوائن کامیڈی‘‘ کس طرح واقعۂ معراج کی ایک تشکیل ہے‘ ابن طفیل کے فلسفیانہ ناول ’’حی الیقزان‘‘ ]’’حی بن الیقظان‘‘[ کی ’’رابنسن کروسو‘‘ کیسی نقل ہے‘ وغیرہ وغیرہ۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ’’موجودہ مغربی تہذیب‘ صرف یہود و نصاریٰ کی تہذیب ہرگز نہیں۔ یہ یہودیت‘ مسیحیت اور اسلام کا آمیزہ ہے‘‘۔ (ص ۲۹)

اس میں شک نہیں کہ مغرب (یورپ) نے مسلمانوں سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ چیزوں کو دیکھنے اور سمجھنے کا عقلی رویہ (جس کی بنیادیں یونانی فلسفے میں بھی ملتی ہیں ‘  اور ’’الحکمۃ ضالۃ المؤمن‘‘: حکمت‘ مومن کی اپنی متاع ہے‘ جہاں سے پائے لے لے‘ تو حدیث نبویؐ کے تحت مسلمانوں کے لیے حکم کا درجہ رکھتی ہے!)‘ مشاہدے اور تجربے کے ذریعے استقراء‘ روایت اور درایت کے اصول اور ضابطے‘ توہمّات اور اصنام پرستی کا استرداد اور تفکر اور تدبر پر زور--- لیکن یہ کہنا کہ موجودہ مغربی تہذیب یہودیت‘ مسیحیت اور اسلام کا ’’آمیزہ‘‘ ہے‘ میرے خیال میں زیادتی ہے۔ اپنی تمام خوبیوں کے ساتھ مغرب اور مغربی تہذیب‘ اپنی اصل کے اعتبار سے ایک ’’بے خدا‘‘ تہذیب ہے۔ اس کی اصل جڑیں مشرک و ملحد (pagan) اور آزاد روش (لبرل) یونان اور ظالم و جابر روم میں پیوست ہیں۔ بقول اقبال:

شفق نہیں مغربی افق پر‘ یہ جوئے خوں ہے یہ جوئے خوں ہے

یہ سفّاک تہذیب‘ جس کے پاس ماورائے انساں‘ کوئی باز پرس کرنے والا نہیں ‘ ’’لا الٰہ‘‘ پر آکر رک جاتی ہے‘ جس کے ہاں نفی ہے‘ اثبات نہیں۔ اور اس کے مطابق چونکہ اس کائنات کا کوئی خالق و مالک نہیں اور نہ آخرت ہے اور نہ انسان (یا انسانی اداروں) کے ماسوا کسی کے آگے جواب دہی کا تصور‘ اس لیے انسان اپنے رویے متعین کرنے میں بالکل آزاد ہے۔ یہ بات تسلیم کرنا دشوار ہے کہ اس تہذیب کو اسلامی تہذیب کے ساتھ کس طرح بقائے باہمی اور پرامن پیش روی کے ساتھ جوڑا جا سکتا ہے۔ ۱۳‘ ۱۴ سو سال میں مسلمانوں اور غیر مسلم اقوام میں جو آویزشیں ہوئیں‘ اُن کے بارے میں حتمیّت کے ساتھ یہ کہہ دینا کہ ’’اس سارے عرصے میں جو جنگیں اور تصادم ہوئے‘ اُن کا سبب مفادات کا ٹکرائو تھا یا معاشی اور علاقائی تنازعے‘‘ (ص ۳۰)‘ نیز یہ سوال کرنا کہ’’کیا اس دوران میں ثقافتی ]تہذیبی؟[ تصادم پیش آئے؟ سوال یہ ہے کہ تاریخ کے اس طویل دور میں مسیحی اور اسلامی تہذیبوں کا آپس میں تصادم کب ہوا؟‘‘ (ص ۳۰)--- قابل تعجبّ ہے۔ ایک مسلم (یا کسی بھی غیر مسلم) دانش ور کا یہ انکشاف واقعی حیرت انگیز ہے کہ اس طویل دور میں مسیحی اور اسلامی تہذیبوں کا آپس میں تصادم کب ہوا؟ مسلمانوں اور غیر مسلم اقوام کی ’’ساری جنگیں‘‘ اور مزاحمت‘ مفادات کے ٹکرائو کا نتیجہ تھیں۔ کیا یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ اسلام کو پھیلانے کی پہلی دوسری صدی کی تمام کوششیں‘ اٹھارویں‘ انیسویں اور بیسویں صدی میں مغربی استعمار کے خلاف مسلمانوں کی مزاحمت اور جدوجہد‘ برصغیر کی تقسیم‘ کشمیر‘ شیشان‘ کوسووا اور افغانستان میں ساری کشاکش‘ محض ’’معاشی اورعلاقائی تنازعے‘‘ ہیں؟ کیا ہم کہہ دیں کہ ابتدائی مسلم فتوحات /جہاد تو مفاد‘ معاش اور علاقائی تنازعوں کا نتیجہ تھے‘ لیکن دو عالم گیر جنگیں‘ مختلف ثقافتوں اور تہذیبوں کی مقدس آویزش کا نتیجہ تھیں؟

ہوف مین کہتے ہیں کہ اسلام کا دوسرے مذاہب (تہذیبوں) کے ساتھ تصادم اگرچہ فی الوقت ہوا نہیں ہے‘ مگر وہ دیکھ رہے ہیں کہ جس طرح ’’مسلمانوں کی بڑے پیمانے پر مغربی یورپ اور امریکہ کی طرف نقل مکانی ہوئی‘‘ اور اس کے نتیجے میں ’’اسلام جو ہمیشہ سے عالم گیر آدرش رکھتا ہے‘ دنیا میں پہلی بار [!]بیسویں صدی میں فی الواقع عالم گیر بن گیا۔ اس وقت یورپ میں ۳ کروڑ مسلمان آباد ہیں۔ لاس اینجلس‘ نیویارک‘ لندن‘ پیرس‘ برسلز‘ ویانا‘ روم اور زغرب جیسے مقامات پر بڑی بڑی مسجدیں تعمیر کی جا چکی ہیں‘ اور انٹرنیٹ پر اسلام پوری طرح موجود ہے‘ ]اس سے پتا چلتا ہے کہ[  ... ہنٹنگٹنکا یہ خدشہ درست ہے کہ مغرب میں اس ثقافتی دھچکے کا ناخوش گوار ردِّعمل ہوگا‘ اور اس لیے وہ مطالبہ کرتا ہے کہ مسلمانوں کی نقل مکانی کو محدود کیا جانا چاہیے‘‘۔ (ص ۳۲)

تاہم ہوف مین اس تجویز کے خلاف ہیں‘ اور پروفیسر رالف بریبانتی کے خیال سے متفق ہیں کہ ’’کیتھولک چرچ سمیت‘ مسیحی چرچوں اور اسلام کے درمیان یقینا مفاہمت اور قربت پیدا ہوگی… ایک مشترکہ مسیحی مسلم پلیٹ فارم… نہ صرف اختلافات کو حل کرنے کا ذریعہ بنے گا‘ بلکہ مغربی دنیا کا تحفظ بھی کرے گا‘‘ (تاکید راقم الحروف کی)۔ (ص ۳۳)

’’مغربی دنیا‘‘ کیا ہے؟ ایک فکر اور تہذیب کی تجسیم‘ اس کی عملی تفسیر‘ اُس کی چلتی پھرتی صورت۔ اب کیا کسی مفاہمت کے ذریعے اس کے تحفظ مطلوب ہے؟ کیا اس کے ترکش میں ’’مفاہمت‘‘ کے علاوہ دوسرے تیر نہیں بچے ہیں؟ میرے خیال میں ایسا نہیں ہے۔ بات یہ ہے کہ جنھیں قند و نبات پیش کر کے فنا کے گھاٹ اُتارا جا سکتا ہو‘ اُن پر زہر ہلاہل کیوں آزمایا جائے؟

’’اے ایمان والو! تم یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست (ساتھی‘ مددگار) نہ بنائو۔ یہ تو خود ایک دوسرے کے دوست (ساتھی‘ مددگار) ہیں۔ تم میں سے جو بھی اُن میں سے کسی کو دوست (ساتھی‘ مددگار) بنائے گا‘ تو بلاکسی شک کے وہ انھی میں سے ہوگا۔ ظالموں کو اللہ راہِ راست نہیں دکھاتا۔ آپ دیکھیں گے کہ جن کے دلوں میں بیماری ہے‘ وہ دوڑ دوڑ کر اُن میں گھسے جا رہے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ ہمیں خطرہ ہے‘ ایسا نہ ہو کہ ہم کسی گردش ]اور مصیبت[کا شکار ہو جائیں‘‘۔ (المائدہ ۵:۵۱-۵۲)