ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسجد میں بیٹھے ہوتے تھے‘ جب آپ ؐکھڑے ہوتے تو ہم بھی ساتھ کھڑے ہو جاتے تھے۔ چنانچہ ایک دن آپؐ کھڑے ہوئے تو ہم بھی ساتھ کھڑے ہو گئے۔ جب آپؐ مسجد کے درمیان میں پہنچے تو ایک دیہاتی آپؐ کے پاس آپہنچا‘ اور آپؐ کی چادر پکڑ کر کھینچی۔ آپؐ کی چادر سخت تھی‘ اس سے آپ ؐکی گردن سرخ ہو گئی۔ وہ بولا: محمدؐ! یہ میرے دو اونٹ ہیں۔ میرے اخراجات کے لیے ان دونوں پر سازوسامان باندھ دیں۔ آپ نہ اپنے مال سے دیں گے نہ اپنے والد کے مال سے دیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ مجھے معاف کرے! نہیں! اس وقت تک نہیں دوں گا جب تک تو مجھے میری گردن کے کھینچنے کا قصاص نہ دے دے۔ دیہاتی نے کہا: اللہ کی قسم! میں آپ ؐ کو قصاص نہ دوں گا۔ ہم نے جب دیہاتی کی آواز سنی تو دوڑ کر آپؐ کے پاس آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: تم میں سے جو میری بات سن رہا ہے اس پر لازم ہے کہ اس وقت تک اپنی جگہ پر کھڑا رہے جب تک میں اسے آگے آنے کی اجازت نہ دوں۔اس پر ہم اپنی جگہ دم بخود کھڑے ہو گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو فرمایا: اے فلاں آدمی! اِس کے ایک اونٹ پر جَو اور ایک پر کھجور کے بورے لاد دے۔ (نسائی‘ ۴۷۸۰)
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ (الاحزاب ۳۳: ۱ ۲) ’’تمھارے لیے اللہ کے رسول کی سیرت میں بہترین نمونہ ہے‘‘۔ کائنات کی سب سے بڑی ہستی‘ بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر‘‘ اور علامہ اقبالؒ کے الفاظ میں:
ادب گاہیست زیر آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید ایں جا
لیکن کوئی پروٹوکول نہیں‘ سب کے ساتھ‘ سب کے درمیان‘ کوئی سیکورٹی گارڈ نہیں۔ ہر وقت‘ ہر ایک آسانی سے مل سکتا ہے۔ جان نثاروں‘ جان و مال‘ ماں باپ اور اولاد سے زیادہ محبت کرنے والوں کے درمیان ہیں۔ اتنا ادب کرنے والوں کے درمیان‘ جو چہرئہ انور کی طرف نظریں جما کر بھی نہیں دیکھ سکتے۔ ضرورت اور انتہائی مجبوری کے بغیر کوئی سوال کرنے کی جرأت نہیں کرتے۔ ایسے میں ایک دیہاتی جو آداب سے عاری ہے‘ آتا ہے۔ اسے صرف اپنے پیٹ کی فکر ہے اور اسی بات پر نظر ہے کہ آپؐ بیت المال کے منتظم اور نگران ہیں۔ وہ بے ادبی اور گستاخی سے بلکہ تکلیف پہنچا کر مانگتا ہے۔ روے زمین والوں نے ایسا منظر کسی اور کا نہیں دیکھا ہوگا۔ تب کیا ہوا؟ کیا بے ادب‘ گستاخ‘تکلیف دینے والے کی تکہ بوٹی کی گئی؟ اسے جیل میں ڈالا گیا؟ اسے ماراپیٹا گیا؟اسے دھتکارا گیا؟ نہیں! پیار سے بات کی گئی‘ درشت بات سنی گئی‘ پھر جاں نثاروں‘ فداکاروں کے جذبات کی متلاطم موجیں اپنی جگہ رہ گئیں۔ دیہاتی جَو اور کھجور سے لدے دونوں اونٹوں کو شاداں و فرحاں ہنکاتا ہوا‘ گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔ تواضع‘ حلم‘ عفو و درگزر‘ جود و سخا اور رحمتہ للعالمینی کے کتنے نمونے ہیں جن کا نظارہ پوری کائنات نے کیا۔
اس سے بہتر اور بڑا نمونہ انسانیت کے لیے اور کیا ہو سکتا ہے!
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوجہم ؓبن حذیفہ کو زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا۔ ایک صاحب اپنی زکوٰۃ کے معاملے میں ان سے جھگڑ پڑے۔ حضرت ابوجہمؓ نے ان کی پٹائی کر دی۔ وہ لوگوں کو لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آگئے اور قصاص مانگا۔ آپؐ نے انھیں قصاص کے بدلے میں مال کی پیش کش کی کہ اتنا مال لے کر قصاص چھوڑ دو۔ وہ نہ مانے۔ آپؐ نے مزید مال پیش کیا تب وہ راضی ہو گئے۔
آپؐ نے فرمایا: میں لوگوں کو اس سے باخبر کرنے کے لیے ان کو جمع کر کے ان سے خطاب کرتا ہوں اور انھیں تمھاری رضامندی سے آگاہ کرتا ہوں۔ انھوں نے کہا :ٹھیک ہے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے خطاب فرمایا کہ یہ لوگ میرے پاس قصاص کا مطالبہ لے کر آئے تھے۔ میں نے ان کے سامنے اتنے مالی معاوضے کی پیش کش کی جس پر یہ راضی ہو گئے (یہ سننے کے بعد وہ پھر منحرف ہو گئے)۔ کہنے لگے :نہیں‘ ہم راضی نہیں ہیں۔ اس پر مہاجرین نے انھیں مارنے کا ارادہ کیا لیکن آپ ؐنے انھیں حکم دیا کہ رک جائیں۔ تب وہ رک گئے۔ آپؐ نے انھیں پھر بلایا (علیحدگی میں) اور کہا :کیا تم راضی ہو؟ کہنے لگے: ہاں۔ آپ ؐنے فرمایا: میں لوگوں سے خطاب کرتا ہوں اور انھیں تمھاری رضامندی سے باخبر کرتا ہوں۔ انھوں نے کہا ٹھیک ہے۔ پھر آپ ؐنے خطاب فرمایا اورپوچھا: کیا تم راضی ہو؟ کہنے لگے: ہاں‘ ہم راضی ہیں۔ (نسائی‘ ۴۷۸۳)
حضرت ابوجہمؓ کو چاہیے تھا کہ جھگڑنے والے کو نہ مارتے لیکن ان کا بھی قصور تھا کہ جھگڑا کیا۔ اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قصاص کے بجائے مالی معاوضے پر راضی کرنے کی کوشش فرمائی‘ جس پر وہ راضی ہو گئے۔ آپؐ نے ان کی رضامندی سے اس کا عوام میں اعلان کیا۔ آپؐ نے اعلان فرمایا تو انھوں نے گستاخی کا مظاہرہ کیا‘ کہنے لگے کہ ہم راضی نہیں ہیں‘ حالانکہ وہ راضی ہو گئے تھے۔ آپؐ مدعیوں سے دوبارہ بات کرتے ہیں اور انھیں راضی کرتے ہیں۔ کیسا بہترین فیصلہ ہے! عامل بے قصور نہ تھا اس لیے اس کی طرف سے مالی معاوضہ دیا گیا‘۔اور مدعی بے قصور نہ تھا کہ اس نے جھگڑا کیا اس لیے قصاص نہیں دلوایا۔
کیا حکومتی عہدے دار اپنی زیادتیوں کے جواب دہ نہیں ہیں؟ ان سے قصاص نہیں لیا جائے گا؟ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی ذات اقدس کی طرف سے قصاص دیتے ہوئے دیکھا ہے۔ حضرت ابوجہمؓ کے خلاف استغاثہ کرنے والوں کو کتنی پیشیاں دینی پڑیں؟ آج کے حکمران کتنے لوگوں کو لاٹھیوں کا نشانہ بناتے ہیں‘ بلاجواز قیدوبند میں ڈالتے ہیں‘ انھیں کوئی پوچھتا ہے؟ پھر اگر کوئی مقدمہ کیا جاتا ہے تو اس کے فیصلے میں کتنا عرصہ لگتا ہے؟ پھر بھی انصاف کہاں ملتا ہے! لیکن یہاں کیا ہے؟ فوری سماعت‘ فوری انصاف‘ گستاخی سے صرف نظر! اور سب سے بڑی چیز یہ کہ پبلک کے سامنے یہ آئے کہ انصاف ہوا ہے تاکہ آیندہ کے لیے کوئی عہدے دار ظلم کی جرأت نہ کر سکے ۔ عوام کو بھی معلوم ہو گیا کہ کوئی عہدے دار بے جا زیادتی کا حق نہیں رکھتا۔ اگر وہ ایسا کرے تو اسے روکا جائے گا‘ نہ رکے تو سزا کا مستحق ہوگا۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جب بندہ کھلے عام اچھی طرح نماز پڑھے اور چھپ کر بھی اچھی طرح نماز پڑھے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: یہ میرا سچا بندہ ہے۔ ( ابن ماجہ‘ مشکوٰۃ‘ باب الریا)
انسان کا مقصد وجود ہی ’’اچھا عمل‘‘ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اس نے موت وحیات کو پیدا کیا تاکہ تمھارا امتحان لے کہ تم میں سے کون ہے جو اچھا عمل کرتا ہے‘‘۔ (الملک ۶۷:۲ )۔اچھا عمل وہ ہے جو اخلاص کے ساتھ ہو اور شریعت کے مطابق ہو۔ ہر شخص خود ہی اپنا بہترین منصف ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے نماز کے حوالے سے ایک بیرومیٹر ہاتھ میں تھما دیا ہے۔ انسان اپنی چھپی اور کھلی نمازوں کی کیفیت اور ظواہر کا جائزہ لے لے۔ جان لے گا کہ وہ اپنے اللہ کا کتنا سچا بندہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ریا سے محفوظ رکھے۔
حضرت ابوالدرداء ؓسے روایت ہے کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ آپؐ نے اپنی نظر آسمان کی طرف اٹھائی۔ پھر فرمایا: یہ وہ وقت ہے (آنے والے وقت کی طرف اشارہ ہے) جس میں لوگوں سے علم چھین لیا جائے گا۔ یہاں تک کہ کسی بھی چیز پر قادر نہ ہوں گے ۔(یہ سن کر) حضرت زیاد بن عبیدانصاریؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! ہمارے پاس سے علم کیسے اٹھا لیا جائے گا؟ درآں حالیکہ ہم نے قرآن پڑھا ہے۔اللہ کی قسم! ہم اسے پڑھیں گے‘ اپنے بیٹوں اور بیویوں کو قرآن پڑھائیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زیاد‘ تیری ماں تجھے گم کر دے! میں تو تجھے مدینہ کے سمجھ دار لوگوں میں شمار کرتا تھا۔ یہ تورات اور انجیل یہود کے پاس ہیں۔ یہ ان کو کیا فائدہ دیتی ہیں؟
جبیر کہتے ہیں کہ میں حضرت عبادہ ؓبن صامت سے ملا تو ان سے کہا‘ آپ نے نہیں سنا کہ آپ کے بھائی ابوالدرداءؓ کیاکہتے ہیں؟ پھر میں نے انھیں وہ بات بتلا دی جو حضرت ابوالدرداء ؓنے کہی تھی۔ انھوں نے کہا :ابوالدرداء ؓنے سچ فرمایا۔ اگر آپ چاہیں تو میں بتلا سکتا ہوں کہ علم کاسب سے پہلا حصہ کون سا ہے جو اٹھایا جائے گا۔ پہلا علم جو لوگوں سے اٹھایا جائے گا وہ خشوع ہے ۔عنقریب تم جامع مسجد میں داخل ہو گے تو اس میں ایسے آدمی کو نہیں پائو گے جو خشوع کرنے والا ہوگا۔ (ترمذی شریف)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ علم کے اٹھائے جانے سے مراد ’عمل‘ کا اٹھایا جانا ہے۔ اس کی وضاحت حضرت عبادہؓ بن صامت نے اس بات سے کی کہ سب سے پہلے ’خشوع ‘ اٹھایا جائے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ وہ علم جو محض کتابوں میں ہو‘ محض ذہن میں ہو‘ تقاریر اور تحریر کی شکل میں ہو‘ حقیقی علم نہیں ہے۔ حقیقی علم وہ ہے جو دل میں اترے اور عملی زندگی میں نظر آئے۔ اس وقت کتابی اور ذہنی علم کی کمی نہیں ہے۔ آج قرآن و سنت اپنی پوری تابانی سے موجود ہیں۔ فقہ اسلامی کے دفاتر بھی اَن گنت ہیں لیکن ان کا علم‘ عملی زندگی اور معاشرے سے اٹھا لیا گیا ہے۔ کتنا باقی ہے‘ اس کا اندازہ معاشرے کی دینی حالت کے تجزیے سے کیا جا سکتا ہے۔ علم کے اٹھائے جانے کا یہ پہلا مرحلہ ہے۔ دوسرا مرحلہ ذہنوں اور سینوں سے اٹھائے جانے کا ہے‘ تاآنکہ قیامت کے قریب علم وسیع پیمانے پر اٹھا لیا جائے گا۔ کتابوں کے صفحات اور انسانوں کے سینے ‘سب سے علم اٹھ جائے گا۔
حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ نے مال دار مسلمانوں پر ان کے مالوں میں اتنا مال فرض کیا ہے جتنا فقرا کی ضروریات کے لیے کافی ہو۔ فقرا جب بھوک اور ننگ کی تکلیف اٹھاتے ہیں تو اس کا سبب دولت مندوں کا فقرا سے مال کو روکنا ہے۔ سنو! اللہ تعالیٰ ان سے سخت حساب لیں گے اور دردناک عذاب دیں گے۔ (طبرانی فی الاوسط)
اللہ تعالیٰ نے مال دار اور فقیر دونوں کے لیے رزق کی تقسیم میں اس طرح آزمایش رکھی ہے کہ فقیر کا حصہ بھی مال دار کو دے دیا ہے۔ معاشرے میں جتنے بھی فقرا ہوں ان کی ضروریات پوری کرنا مال داروں کے ذمے ہے۔ فقرا کی ضروریات زکوٰۃ سے پوری نہ ہوں تو اللہ نے فقرا کو دینے کے لیے مزید مال بھی دولت مندوں کو دیا ہے۔
اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاے راشدین بیت المال سے صرف اس قدر خرچ کرتے تھے جس قدر ادنیٰ درجے کے فقیر مسلمان کا خرچ ہوتا تھا۔ آج اگر اسی اصول کو اپنا لیا جائے تو حکمرانوں‘ اونچے گریڈ کے افسران اور سرمایہ داروں‘ جاگیرداروں اور عام لوگوں کے درمیان جو بہت بڑا مادی تفاوت ہے‘ وہ ختم ہو جائے اور معاشی ناہمواریاں اور غریبوں کا ننگ و بھوک اور بنیادی ضروریات پوری ہو جائیں۔