قدرت کا قانون ہے کہ جب تاریکی اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے‘ تو روشنی اس کا سینہ چیرتی ہوئی رونما ہوجاتی ہے۔ ظلمتیں چھٹ جاتی ہیں اور فضا نور سے بھر جاتی ہے۔ تاریخ انسانی میں روشنی اور نور کا سب سے بڑا سیلاب ۲۷ رمضان المبارک‘ ۱۳ قبل ہجرت میں رونما ہوا۔
خشکی‘ تری اور بحروبر پر تاریکی کا غلبہ تھا ‘ ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الروم ۳۰:۴۱)۔ ظلم اور فساد سے خدا کی زمین بھر گئی تھی۔ انسان اپنے حقیقی معبود کو چھوڑ کر جھوٹے خدائوں کی بندگی کر رہے تھے۔
ارض و سما کے مالک نے اپنے انبیا علیہم السلام کے ذریعے جو ہدایت اور رہنمائی بھیجی تھی‘ انسان نے اس کو گم کردیا تھا۔ نتیجے کے طور پر گمراہی اور ضلالت کا دور دورہ تھا۔ انسان آگ‘ درخت‘ پتھر‘ پانی اور جانوروں تک کی پوجا کر رہے تھے۔ زندگی کے اجتماعی معاملات میں کچھ انسان دوسرے انسانوں کے خدا اور رب بن بیٹھے تھے‘ اور اپنی من مانی کر رہے تھے۔ نیکیاں معدوم ہو رہی تھیں اور برائیاں فروغ پا رہی تھیں۔ نسل‘ قوم اور قبیلے کے بتوں کی پوجا ہو رہی تھی۔ حق‘ انصاف‘ آزادی‘ مساوات اور بندگی رب کو انسانیت ترس رہی تھی۔
یہ تھی وہ دنیا ‘ جس میں خدا کے ایک برگزیدہ بندے‘ انسانیت کے گل سرسبد اور دنیا کے سب سے نیک انسان‘ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے آنکھیں کھولیں۔ وہ ظلم کے اس راج اور بدی کے اس غلبے پر حیران و سرگرداں تھا‘ وَوَجَدَکَ ضَآلاًّ فَھَدٰی (الضحیٰ ۹۳:۷)۔ وہ جھوٹے خدائوں کا باغی اور ایک حقیقی خدا کی بندگی کا جویا تھا۔ دست فطرت نے ۴۰ سال اس کی تربیت فرمائی۔ پھر زمین و آسمان کے مالک نے ایک شب اسے انسانیت کی رہنمائی کے لیے اپنے آخری نبیؐ کی حیثیت سے مامور فرما دیا۔ وہ غارحرا میں عبادت میں مشغول تھا کہ خدا کا فرشتہ‘ اس کا امین‘ اور پیام بر رونما ہوا۔ بندگی میں مشغول بندے کو سینے سے لگایا‘ اسے خوب بھینچا اور رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْض کی طرف سے پہلی وحی اس پر نازل کی:
اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَo خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ o اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ o الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ o عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ o (العلق ۹۶:۱-۵) ’’پڑھو (اے نبیؐ)‘ اپنے رب کے نام سے جس نے (ساری چیزوں) کو پیدا کیا۔ اس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے بنایا۔ پڑھو‘ اور تمہارا رب بڑا کریم ہے‘ جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا‘ اس نے انسان کو وہ باتیں سکھائیں‘ جو اس کو معلوم نہ تھیں‘‘۔
تاریکیوں کے لیے پیغام موت آگیا۔ طاغوت کے غلبے کا دور ختم ہو گیا۔ رب کی آخری ہدایت کا دور شروع ہو گیا۔ یہ سلسلہ ۲۳ سال تک چلتا رہا۔ حتیٰ کہ ہدایت مکمل ہوگئی اور انسانیت کو نور کا وہ خزانہ مل گیا‘ جس کی روشنی تاقیامت قائم رہے گی جس کے ذریعے وہ ہمیشہ رہنمائی اور ہدایت حاصل کرتی رہے گی:
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ط (المائدہ ۵ :۳) ’’آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے‘ اور تمھارے لیے اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے‘‘۔
آج اس نزول وحی کے آغاز اور بعثت نبوی ؐ کو ۱۴ سو سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے۔ ساری دنیا میں محمدؐ کے نام لیوا اس واقعے کی یاد تازہ کرتے ہیں‘ جو ماضی اور حال کی تاریخ کے درمیان حدفاصل کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس سے انسانیت کی تاریخ میں قرآن اور محمدؐ کے دور کا آغاز ہوا۔
خدا کی اس زمین پر انسان کی بنیادی ضرورتیں دو قسم کی ہیں۔ ایک وہ جن کا تعلق اس کی جسمانی اور مادی زندگی سے ہے‘ اور دوسری وہ جو اس کی روحانی‘ اخلاقی اور سماجی زندگی سے متعلق ہیں۔ خدا کی ربوبیت کاملہ کا تقاضا تھا کہ انسان کی یہ دونوں ضرورتیں پوری کی جائیں‘ تاکہ وہ زندگی کی آسایشیں بھی حاصل کر سکے اور ان کو صحیح مقاصد کے لیے صحیح طریقوں سے استعمال بھی کر سکے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کی ان دونوں ضرورتوں کو بہ حسن و کمال پورا کیا ہے۔ مادی اور جسمانی ضروریات کی تسکین کے لیے زمین و آسمان میں بے شمار قوتیں ودیعت کر دی ہیں‘ جن کی دریافت اور ان کے مناسب استعمال سے انسان کی تمام ضرورتیں پوری ہو سکتی ہیں۔ اسی طرح انسان کی روحانی‘ اخلاقی اور سماجی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی ہدایت نازل فرمائی‘ اور اپنے انبیا علیہم السلام کے ذریعے نہ صرف یہ کہ اس ہدایت کو انسانوں تک پہنچایا‘ بلکہ ان کی زندگیوں میں اسے متشکل کر کے بھی دکھا دیا۔ اس طرح انسانیت نے اپنا سفر تاریکی میں نہیں‘ روشنی میں شروع کیا‘ اور ہر دور میں خدا کی ہدایت اس کے لیے مشعل راہ بنی رہی۔ اس دنیا میں پہلا انسان (آدم علیہ السلام) پہلا نبی بھی تھا۔ خدا کی یہ ہدایت اپنی آخری اور مکمل ترین شکل میں حضرت محمدؐپر نازل کی گئی۔ یہی ہدایت قرآن کی شکل میں موجود ہے اور قیامت تک انسانیت کی رہنمائی کرتی رہے گی۔
قرآن جس تصور کو پیش کرتا ہے‘ وہ مختصراً یہ ہے:
۱- یہ دنیا بے خدا نہیں ہے۔ اس کا ایک پیدا کرنے والا ہے جو اس کا مالک‘ آقا‘ رب اور حاکم ہے۔ ہر شے پر اس کی حکومت ہے اور وہی اس کا حقیقی فرماں روا ہے۔ ساری نعمتیں اسی کا عطیہ ہیں۔ اس کا اختیار‘ کلی اور ہمہ گیر ہے۔ جس طرح وہ دنیا کی ہر چیز کا خالق اور مالک ہے‘ اسی طرح وہ انسان کا بھی خالق ‘ مالک اور حاکم ہے۔ اس مالک حقیقی نے انسان کو‘ ایک خاص حد تک اختیار اور آزادی دے کر‘ اس زمین پر اپنا نائب اور خلیفہ بنایا ہے اور باقی تمام مخلوقات کو اس کے تابع فرمان کیا ہے۔
۲- انسان کو خلافت کی ذمہ داریوں کو ٹھیک ٹھیک ادا کرنے کے لائق بنانے کے لیے مالک حقیقی نے اسے اپنی ہدایت سے نوازا ہے اور اس کی رہنمائی صراط مستقیم کی طرف کی ہے۔ اسے بتایا گیا ہے کہ پورا جہان اس کے لیے ہے اور اس کے تابع ہے لیکن وہ خود خدا کے لیے ہے۔ اس کا کام یہ ہے کہ خدا کی بندگی اختیار کرے‘ اور اپنی پوری زندگی کو رب کی اطاعت میں دے دے۔ اس زندگی کی حیثیت ایک امتحان اور آزمایش کی سی ہے۔ اس میں انسان کے لیے صحیح رویہ یہ ہے کہ وہ اپنے ارادے کو مالک کی مرضی کے تابع کر دے اور اس کی رضا اور خوشنودی کے حصول کے لیے اپنا سب کچھ لگا دے۔ جس نے اس راستے کو اختیار کیا‘ وہ کامیاب و کامران ہے اور اس عارضی زندگی کے بعد ابدی راحت‘ اور چین اس کے لیے ہے۔ جس نے اس راہ سے انحراف کیا‘ وہ ناکام و نامراد ہے اور آنے والی ابدی زندگی میں جہنم اس کا ٹھکانا ہو گا۔
۳- یہ باتیں انسان کو ازل میں سمجھا دی گئیں۔ ان کا شعور اور احساس اس کی فطرت میں ودیعت کر دیا گیا۔ ان کی تذکیر اور بندگی رب کے راستے کی تشریح و توضیح کے لیے‘ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک‘ اللہ تعالیٰ انبیا علیہم السلام کو مبعوث کرتا رہا۔ ایک طرف انسان کو عقل اور سمجھ دی گئی کہ وہ حق کو پہچانے اور اس کے مطابق زندگی کے معاملات کی صورت گری کرے اور دوسری طرف خدا کے ان برگزیدہ بندوں (انبیا علیہم السلام) نے بڑی سے بڑی قربانی دے کر انسانیت کو سیدھی راہ پر لگانے کا کام انجام دیا۔ ہر ملک اور ہر قوم میں انبیا مبعوث ہوئے اور اس سنہری سلسلے کی آخری کڑی محمد عربیؐ ہیں۔
آپ ؐ ساری دنیا کے لیے بھیجے گئے اور سارے زمانوں کے لیے مبعوث ہوئے۔ آپؐ نے اللہ کا وہی دین‘ یعنی اسلام لوگوں کے سامنے پیش کیا‘ جو اس سے پہلے پیش ہوتا رہا تھا۔ جن لوگوں نے آپ کی دعوت قبول کر لی اور اسلا م کو زندگی کے دین اور راستے کی حیثیت سے اختیار کر لیا‘ وہ ایک امت بن گئے۔ اب یہ امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ خود اپنی زندگی کا نظام اس ہدایت کے مطابق تشکیل دے‘ جو اللہ کی طرف سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم لائے اور جس کا نمونہ آپؐ نے اپنی مبارک زندگی میں پیش فرمایا۔ اور تمام انسانوں کو اللہ تعالیٰ کی بندگی کی دعوت دیتے رہے۔ قرآن وہ کتاب ہے جس میں پوری دعوت موجود ہے‘ جس میں اللہ کا دین اپنی مکمل اور آخری شکل میں ملتا ہے‘ جس میں وہ ہدایت ہے جو خالق کائنات نے اتاری ہے اور جو تمام انسانوں کی دائمی خیروفلاح کی ضامن ہے۔
(الف) ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَارَیْبَ ج فِیْہِ ج ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَo (البقرہ ۲: ۱۲) ’’یہ اللہ کی کتاب ہے ‘ اس میں کوئی شک نہیں۔ پرہیزگاروں کے لیے ہدایت ہے‘‘۔
(ب) اِنَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ یَھْدِی لِلَّتِیْ ھِیَ اَقْوَمُ (بنی اسرائیل ۱۷:۹) ’’حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو بالکل سیدھی ہے‘‘۔
یہ رہنمائی تمام انسانوں کے لیے ہے:
الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ (البقرہ ۲: ۱۸۵) ’’قرآن انسانوں کے لیے ہدایت ہے‘‘۔
(ج) یہ ہدایت کا ایسا مرقع ہے‘ جس میں ازل سے نازل ہونے والی ہدایت جمع کر دی گئی ہے اور یہ پورے خیر کا مجموعہ ہے:
وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ الْکِتٰبِ وَمُھَیْمِنًا عَلَیْہِ (المائدہ ۵:۴۸) ’’پھر اے نبیؐ ‘ہم نے تمھاری طرف یہ کتاب بھیجی جو حق لے کر آئی ہے اور الکتاب میں سے جو کچھ اس کے آگے موجود ہے‘ اس کی تصدیق کرنے والی اور اس کی محافظ و نگہبان ہے‘‘۔
(د) یہ ہدایت ہر لحاظ سے محفوظ بھی ہے اور تاقیامت محفوظ رہے گی:
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ o (الحجر ۱۵:۹) ’’بلاشبہ ہم نے اس کو نازل کیا ہے اور ہم خود ہی اس کو محفوظ رکھنے والے ہیں‘‘۔
انسانیت کے دکھوں کا واحد علاج یہی ہدایت ہے:
یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَآئَ تْکُمْ مَّوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَشِفَا ٓئٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِ لا وَھُدًی وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ o (یونس ۱۰:۵۷) ’’لوگو! تمھارے پروردگار کی جانب سے تمھارے پاس ایک نصیحت آگئی ہے۔ یہ دل کے تمام امراض کے لیے شفا ہے اور ہدایت اور رحمت ہے ان تمام لوگوں کے لیے جو اسے مانیں‘‘۔
(ر) اور یہی ہدایت ہے جو حق اور باطل کے درمیان فرق کرنے والی اور حق کا حقیقی معیار ہے۔ اس لیے اس کو مھیمن (نگہبان) کہا گیا ہے اور اسی لیے اس کا نام فرقان (حق و باطل میں تمیز کرنے والی) رکھا گیا ہے۔
قرآن کی اس نوعیت کو سمجھ لینے کے بعد اس کی حقیقت اور اس کے مقصد کی وضاحت آسان ہو جاتی ہے۔ اس لیے ہم مختصراً یوں بیان کر سکتے ہیں:
٭ قرآن کاموضوع انسان ہے کہ انسان کی فلاح اور اس کا خسران کس چیز میں ہے۔
٭ قرآن کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ ظاہربینی یا قیاس آرائی یا خواہش کی غلامی کے باعث انسان نے خدا‘ نظام کائنات‘ اپنی ہستی اور اپنی دنیوی زندگی کے متعلق جو نظریات قائم کیے ہیں‘ اور ان نظریات کی بنا پر جو رویے اختیار کر لیے ہیں‘ وہ سب حقیقت کے لحاظ سے غلط اور نتیجے کے اعتبار سے خود انسان ہی کے لیے تباہ کن ہیں۔ حقیقت وہ ہے‘ جو انسان کو خلیفہ بناتے وقت خدا نے خود بتا دی تھی۔ اس حقیقت کے لحاظ سے وہی رویہ درست اور خوش انجام ہے‘ جو خدا کو اپنا واحد حاکم اور معبود تسلیم کرے۔ اور پھر انسان اس دنیا میں اپنی پوری زندگی اسی خدا کی ہدایت کے مطابق گزارے۔
٭ قرآن کا مدعا انسان کو اس صحیح رویے کی طرف دعوت دینا اور اللہ کی اس ہدایت کو واضح طور پر پیش کرنا ہے‘ جسے انسان اپنی غفلت سے گم اور شرارت سے مسخ کرتا رہا ہے (ملاحظہ ہو‘ تفہیم القرآن‘ جلد اول‘ مقدمہ از سید ابوالاعلیٰ مودودی)۔
اس بات کو شاہ ولی اللہؒ محدث دہلوی نے اس طرح بیان فرمایا ہے‘ کہ قرآن مجید کے نزول کا اصل مقصد انسانوں کی تہذیب اور ان کے باطل عقائد اور گم کردہ راہ اعمال کی اصلاح اور درستی ہے (الفوز الکبیر)۔
قرآن تمام انسانوں کو ابدی سعادت کی طرف بلاتا ہے‘ اور انسان کے ظاہر و باطن کی ایسی تعمیر کرتا ہے‘ کہ اس کو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو۔ دنیا اور آخرت کی زندگیوں میں حقیقی چین اور راحت نصیب ہو۔ یہ راستہ رب کی بندگی کا راستہ ہے۔
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلاَّ لِیَعْبُدُوْنِo (الذاریت ۵۱:۵۶) ’’میں نے جن اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں‘‘۔
یہ بندگی انسان کی پوری زندگی پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس کا ہر سانس احساس عبدیت سے معمور ہونا چاہیے اور اس کا ہر عمل مالک کی اطاعت کا مظہر ہونا چاہیے۔
یہی وہ مقام ہے جہاں سے قرآن کا انقلابی تصورِ حیات ہمارے سامنے آتا ہے۔
قرآن انسانی زندگی کو مختلف گوشوں اور شعبوں میں تقسیم نہیں کرتا۔ وہ پوری زندگی کو بندگی رب میں لانا چاہتا ہے۔ انسان کے فکروخیال اور عقیدہ و رجحان سے لے کر اس کی اجتماعی زندگی کے ہر پہلو پر اللہ تعالیٰ کی حکمرانی قائم کرنا چاہتا ہے--- اس کا مطالبہ خود مسلمانوں سے یہ ہے کہ:
اُدْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃ ً ص(البقرہ ۲:۲۰۸) ’’داخل ہو جائو خدا کے دین میں پورے کے پورے‘‘۔
یعنی اسلام کے راستے کو اختیار کرنے کے بعد زندگی کے کسی شعبے کو خدا کی ہدایت سے آزاد رکھنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ پھر انسان کی انفرادی زندگی اور اس کی اجتماعی زندگی‘ خدا کے قانون کی پابند اور اس کی رضا کو تلاش کرنے والی ہوگی۔ پھر تمدن کے پورے نظام یعنی معاشرت‘ سیاست‘ معیشت‘ قانون و عدالت‘ انتظام و انصرام‘ ملکی اور بین الاقوامی تعلقات‘ سب پر خدا کی حکمرانی قائم ہونی چاہیے۔ صرف اپنے اوپر ہی اس قانون کو جاری و ساری نہیں کرنا‘ بلکہ پوری انسانیت کو اپنے قول اور عمل سے اس راستے کی طرف دعوت دینی ہے۔ انسانیت کو حق کی طرف بلانا ہے‘ اور ہر اس رکاوٹ کو ہٹانے کی جدوجہد کرنی ہے‘ جو بندے اور اس کے رب کے درمیان اس تعلق کے قیام کی راہ میں مزاحم ہے۔ اسی کا نام دعوت حق ہے‘ جو اسلام میں جہاد ہی کا ایک شعبہ ہے۔ یہی وہ دعوت ہے جس کی طرف یہ کتاب بلاتی ہے۔
قرآن کی تعلیمات اس نقطۂ نظر کی حمایت نہیں کرتیں‘ جس میں انسان کی اصل دل چسپی صرف اور صرف اپنی ذات کی اصلاح اور اپنی روح کے لیے قرب الٰہی کا حصول ہے۔ بلاشبہ قرآن انسان کے ظاہر و باطن کی اصلاح چاہتا ہے اور بندے کے تعلق باللہ کو مستحکم کرنا چاہتا ہے۔ لیکن وہ یہ کام اسے زندگی کی کش مکش سے کاٹ کر کرنے کی دعوت نہیں دیتا‘ بلکہ دنیاوی زندگی کے ان ہزاروں‘ لاکھوں تعلقات کو خدا کی ہدایت کا پابند بناکر‘ یہ مرحلہ طے کرانا چاہتا ہے۔
علامہ اقبال ؒ قرآن کے اس مخصوص مزاج کی وضاحت اس طرح کرتے ہیں:
’’محمد عربیؐ برفلک الافلاک رفت و باز آمد واللہ اگر من رفتمے ہرگز باز نیا مدمے
]محمد عربیؐ (معراج کے موقع پر) آسمانوں پر گئے اور واپس آگئے۔ اللہ کی قسم‘ اگر میں جاتا تو ہرگز واپس نہ آتا[
یہ مشہور صوفی بزرگ حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی ؒ کے الفاظ ہیں‘ جن کی نظیر تصوف کے سارے ذخیرئہ ادب میں مشکل ہی سے ملے گی۔ شیخ موصوف کے اس ایک جملے سے ہم اس فرق کا ادراک نہایت خوبی سے کر لیتے ہیں‘ جو شعور ولایت اور شعور نبوت میں پایا جاتا ہے۔ صوفی نہیں چاہتا کہ اس واردات اتحاد میں اسے جو لذت اور سکون حاصل ہوتا ہے‘ اسے چھوڑ کر واپس آئے‘ لیکن اگر آئے بھی‘ جیسا کہ اس کا آنا ضروری ہے‘ تو اس سے نوع انسانی کے لیے کوئی خاص نتیجہ مرتب نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس‘ نبی کی باز آمد تخلیقی ہوتی ہے۔ وہ اس واردات سے واپس آتا ہے‘ تو اس لیے کہ زمانے کی رَو میں داخل ہو جائے۔ اور پھر ان قوتوں کے غلبے و تصرف سے‘جو عالم تاریخ کی صورت گر ہیں‘ مقاصد کی ایک نئی دنیا پیدا کرے۔ صوفی کے لیے تو لذت اتحاد ہی آخری چیز ہے‘ لیکن انبیا علیہم السلام کے لیے اس کا مطلب ہے‘ ان کی اپنی ذات کے اندر کچھ اس قسم کی نفسیاتی قوتوں کی بیداری‘ جو دنیا کو زیروزبر کر سکتی ہیں‘ اور جن سے کام لیا جائے تو جہان انسانی دگرگوں ہو جاتا ہے۔ لہٰذا انبیا کی سب سے بڑی خواہش یہ ہوتی ہے کہ اس واردات کو ایک زندہ اور عالم گیر قوت میں بدل دیں--- لہٰذا انبیا کے مذہبی مشاہدات اور واردات کی قدر وقیمت کا فیصلہ ہم یہ دیکھ کر بھی کر سکتے ہیں کہ‘ ان کے زیراثر کس قسم کے انسان پیدا ہوئے‘‘۔ (تشکیل جدید الہیات اسلامیہ‘ علامہ محمد اقبال ؒ ‘ترجمہ سید نذیر نیازی‘ بزم اقبال‘ لاہور‘ ص ۱۸۸-۱۹۰)
مطلب یہ کہ بزرگ صوفی کا یہ قول زندگی کے محدود تصور کا غماز ہے۔ اس تصور میں اصل اہمیت عرفان ذات کی ہے اور وہ اس سے اونچے کسی مقام کا تصور نہیں کر سکتی ہے‘ کہ بندے کے قدم وہاں پہنچ جائیں‘ جہاں فرشتوں کے پَر جلتے ہیں۔ پھر اس کے اس دنیا کی طرف واپس آنے کا کیا سوال؟ لیکن محمدؐ جس دین کے علم بردار ہیں‘ یہ وہ دین ہے جس کا نبیؐ اُس بلندی پر پہنچ کر اِس دنیاے رنگ و بو میں لوٹتا ہے‘ تاریخ کے منجدھار میں قدم رکھتا ہے‘ اور اس نور سے جو اسے حاصل ہوا ہے‘ تنگ و تاریک دنیا کو منور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
وہ صرف اپنے اس سینے کو گنجینہ انوار نہیں بناتا‘ بلکہ پورے عالم کو روشن کرنے کی جدوجہد کرتا ہے۔ایک نیا انسان بنانے‘ ایک نیا معاشرہ تعمیر کرنے‘ ایک نئی ریاست قائم کرنے اور تاریخ کو ایک نئے دور سے ہم کنار کرنے میں مصروف جہاد ہو جاتا ہے۔
قرآن اسی دعوت انقلاب کو پیش کرتا ہے۔ وہ زمانے کے چلن کو تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ وہ ایک نیا نظام قائم کرنا چاہتا ہے۔ اس کا مقصد ایک انقلاب برپا کرنا ہے۔ دلوں کی دنیا میں بھی انقلاب --- اور انسانی معاشرے میں بھی انقلاب--- وہ صالح انقلاب جس کے نتیجے میں خدا سے بغاوت ختم ہو اور اس کی بندگی کا دور دورہ ہو۔ برائیاں سرنگوں ہو جائیں اور نیکیوں کو غلبہ حاصل ہو۔ خدا کے منکر اور اس سے غافل‘ قیادت کی مسند سے ہٹا دیے جائیں اور اس کے مطیع اور فرماں بردار بندے زمانے کی باگ ڈور سنبھال لیں۔
یہ ہے نزول قرآن کا مقصد اور یہی ہے انسانیت کی نجات کا راستہ۔
ہم امت مسلمہ کو جس بات کی دعوت دیتے ہیں‘ وہ یہ ہے کہ اس امت کا ہر فرد اس موقع پر اور بھی سنجیدگی کے ساتھ قرآن کی اصل حقیقت کو سمجھے۔اس کے مقصد کا حقیقی شعور پیدا کرے۔ اس کے پیغام پر کان دھرے اور اس کے مشن کو پورا کرنے کے لیے سرگرم عمل ہو جائے۔
قرآن نے انسانیت کو ایک نیا راستہ دکھایا ہے۔ اس نے قبیلے‘ نسل‘ رنگ‘ خاک و خون اور جغرافیائی تشخص کے بتوں کو پاش پاش کیا ہے۔ اس نے یہ اعلان کیا ہے کہ پوری انسانیت ایک گروہ ہے اور اس میں جمع تفریق اور نظام اجتماعی کی تشکیل کے لیے صرف ایک ہی اصول صحیح ہے‘ یعنی عقیدہ اور مسلک۔ اسی اصول کے ذریعے اس نے ایک نئی امت بنائی اور اس امت کو انسانیت کی اصلاح اور تشکیل نو کے عظیم کام پر مامور کر دیا۔
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ ط (اٰل عمرٰن ۳:۱۱۰) ’’اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو‘ بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔
قرآن نے اس امت کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی بھی صورت گری کی ہے‘ اور اسے باقی انسانیت کے لیے خیر و صلاح کا علم بردار بھی بنایا ہے۔ یہی وہ چیز تھی جس نے چھٹی صدی عیسوی کی ظلم اور تاریکی سے بھری ہوئی دنیا کو تاریخ کے ایک نئے دور سے روشناس کرایا۔ جس نے عرب کے اونٹ چرانے والوں کو انسانیت کا حدی خواں بنا دیا۔ جس نے ریگستان کے بدوئوں کو تہذیب و تمدن کا معمار بنا دیا۔ جس نے مفلسوں اور فاقہ کشوں میں سے وہ لوگ اٹھائے‘ جو انسانیت کے رہبر بنے۔ جنھوں نے وہ نظام قائم کیا‘ جس نے طاغوت کی ہر قوت سے ٹکر لی اور اسے مغلوب کر ڈالا۔
قرآن طاقت کا ایک خزانہ ہے۔اس نے جس طرح آج سے ڈیڑھ ہزار سال پہلے انسانوں کی اصلیت بدل کر رکھ دی تھی اور ان کے ہاتھ سے ایک نئی دنیا تعمیر کرائی تھی‘ اسی طرح آج بھی فساد سے بھری ہوئی دنیا کو تباہی سے بچا سکتا ہے۔ اپنے ماننے والوں کو‘ بشرطیکہ وہ اس کا حق ادا کر سکیں ‘ انسانیت کا رہنما اور تاریخ کا معمار بنا سکتا ہے۔
خوب کہا امام احمد بن حنبلؒ نے:
لا یصلح اخر ھذہ الامہ الا بما صلح اولھا ‘ ’’اس امت کے بعد کے حصے کی اصلاح بھی اسی چیز سے ہوگی‘ جس سے اس کے اوّل حصے کی اصلاح ہوئی تھی‘‘۔
اور یہ چیز قرآن ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر قرآن نے پہلے بنجر اور شورزمین سے ایک نیا جہاں پیدا کر دیا تھا‘ تو آج وہ یہ کارنامہ کیوں سرانجام نہیں دے رہا؟
اگر وہ کل شفا و رحمت تھا‘ تو وہ آج یہ وظیفہ سرانجام دیتا ہوا کیوں نظر نہیں آتا؟
اگر ہم کل اس کی وجہ سے طاقت ور تھے‘ تو آج اس کے باوجود ہم کمزور کیوں ہیں؟
اگر کل اس کے ذریعے ہم دنیا پر غالب تھے‘ تو آج اس کے ہوتے ہوئے ہم مغلوب کیوں ہیں؟
اگر غور کیا جائے تو اس کی دو ہی وجوہ ہو سکتی ہیں--- ایک‘ یہ کہ ہم نے عملاً اس کتاب ہدایت کو
اپنا حقیقی رہنما باقی نہ رکھا ہو۔ اس سے ہمارا تعلق‘ غفلت و سرد مہری و بے التفاتی اور بے توجہی کا ہو گیا ہو۔ دوسرے‘ یہ کہ ہم بظاہر تو اس کا احترام اور تقدیس کر رہے ہوں لیکن اس کو سمجھنے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے صحیح راستہ اور صحیح طریقہ اختیار نہ کر رہے ہوں۔ بدقسمتی سے ہمارے معاملے میں یہ دونوں ہی باتیں
صحیح ہیں۔
برف کی طرح پگھلتی اور ہر آن قطرہ قطرہ ختم ہوتی اس زندگی میں یہ بڑا ہی سنہری موقع ہے کہ ہم لمحہ بھر رک کر سوچیں کہ خدا کی اس کتاب سے ہمارا تعلق کیا ہونا چاہیے؟ اور ہمیں اس سے کیا معاملہ کرنا چاہیے تاکہ یہ اپنے اثرات دکھا سکے اور اس کی روشنی دنیا کے گوشے گوشے کو نور سے بھر دے۔
(۱) اس سلسلے میں سب سے پہلی چیز تو یہ ہے کہ اپنے اس سوئے ہوئے ایمان کو بیدار کیا جائے جو قرآن پر لایاتو ضرور گیا ہے‘ مگر اس کا یقین اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے جذبے اور شوق سے عاری ہے۔ یاد رکھیے‘ کہ یہ ایمان اس کے‘ خدا کی کتاب ہونے پر‘ اس کے مکمل طور پر محفوظ ہونے پر‘ اس کے ہر لفظ کے حق و صداقت ہونے پر‘ اس کے بتائے ہوئے طریقے کے درست اور مفید ہونے پر‘ اس کے بتائے ہوئے علاج کے اصل ضامن شفا ہونے پر ہے--- یہ ہے نقطہ آغاز:
اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی وَلاَ تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآئَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِیْنَ o وَمَآ اَنْتَ بِھٰدِی الْعُمْیِ عَنْ ضَلٰلَتِھِمْ ط اِنْ تُسْمِعُ اِلاَّ مَنْ یُّؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَا فَھُمْ مُّسْلِمُوْنَo (النمل ۲۷:۸۰-۸۱) ’’بے شک تم مُردوں کو نہیں سنا سکتے اور نہ بہروں کو اپنی دعوت سنا سکتے ہو۔ جب وہ اعتراض کرتے ہوئے منہ پھیر لیں‘ اور نہ تم اندھوں کو ان کی گمراہی سے نکال سکتے ہو۔ تم تو صرف انھی کو سنا سکتے ہو جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں اور پھر اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کرتے ہیں‘‘۔
وَمَنْ یَّکْفُرْ بِہٖ فَاُولٰئِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ o (البقرہ ۲:۱۲۱) ’’اور جو لوگ اس کا انکار کریں گے‘ وہ نقصان اٹھانے والے ہیں‘‘۔
(۲) پھر یہ بھی ضروری ہے کہ دل قرآن حکیم کی عظمت اور بلندی‘ اس کے ایک اعلیٰ اور برتر کلام ہونے کے احساس سے معمور ہو۔یہ وہ کلام ہے جو اگر پہاڑوں پر نازل ہوتا تو وہ شق ہو جاتے۔ اس پُرعظمت کلام کے مقابلے میں اپنی عاجزی کا احساس اور دل کا اس کے لیے موم ہو جانا بہت ضروری ہے:
وَاِذَا سَمِعُوْا مَا اُنْزِلَ اِلَی الرَّسُوْلِ تَرٰٓی اَعْیُنَھُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَقِّ ج (المائدہ ۵:۸۳) ’’جب وہ اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول پر اترا ہے‘ تو تم دیکھتے ہو کہ حق شناسی کے اثر سے ان کی آنکھیں آنسوئوں سے تر ہو جاتی ہیں‘‘۔
یہ معرفت حق کا لازمی نتیجہ ہے۔
(۳) قرآن سے رہنمائی اور رہبری کے لیے رجوع کرنا‘ اس کے بارے میں غفلت کی روش کو ترک کر کے اسے سمجھنے کی کوشش کرنا۔ یہ دیکھنا کہ کس طرح وہ ہماری زندگی کا نقشہ بدلنا چاہتا ہے۔ اس کتاب کو مضبوطی سے تھامنا اور ہر معاملے میں اس سے ہدایت حاصل کرنا۔ یہی وہ طریقہ ہے جس سے اس کتاب کے اصل اسرار و رموز ہم پر منکشف ہو سکیں گے:
فَاسْتَمْسِکْ بِالَّذِیْٓ اُوْحِیَ اِلَیْکَ ج اِنَّکَ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ o وَاِنَّہٗ لَذِکْرٌ لَّکَ وَلِقَوْمِکَ ج وَسَوْفَ تُسْئَلُوْنَ o (الزخرف ۴۳: ۴۳-۴۴) ’’اے پیغمبر‘ جو کچھ تمھاری طرف وحی کیا گیا ہے‘ اس کو خوب مضبوط پکڑے رہو۔ یقین رکھو کہ تم سیدھے راستے پر ہو اور یہ (قرآن ) تمھارے لیے اور تمھاری قوم کے لیے یقینا ایک نصیحت نامہ ہے اور آگے چل کر تم سب سے اس کی بابت بازپرس ہوگی۔
امام شاطبی ؒ نے بجا فرمایا ہے:
جو شخص دین کو جاننا چاہتا ہے‘ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ قرآن ہی کو اپنا مونس و ہمدم بنائے۔ شب و روز قرآن ہی سے تعلق رکھے۔یہ ربط و تعلق علمی اور عملی دونوں طریقوں سے ہونا چاہیے۔ ایک ہی پر اکتفا نہ کرے۔ جو شخص یہ کرے گا وہی شخص گوہر مقصود پائے گا ۔ (الموافقات ‘ ج ۳‘ ص۳۴۶)
(۴) قرآن کا مطالعہ کیا جائے اور اس طرح کیا جائے جو اس کا حق ہے:
اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰھُمُ الْکِتٰبَ یَتْلُوْنَہٗ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ ط (البقرہ ۲:۱۲۱) ’’جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے‘ وہ اسے اس طرح پڑھتے ہیں جیسا کہ پڑھنے کا حق ہے‘‘۔
اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ قرآن کی تلاوت کے ظاہری آداب پورے کیے جائیں‘ یعنی اسے پاک حالت میں چھوا جائے‘ ادب سے مطالعہ کیا جائے‘ ترتیل سے پڑھا جائے اور خوش الحانی سے پڑھا جائے وغیرہ۔ اس کا تقاضا یہ بھی ہے کہ اس کے معنی کو سمجھا جائے اور ان پر غوروفکر کیا جائے۔ قرآن کے الفاظ پر سے یوں ہی نہ گزر جایا جائے‘ بلکہ اس کی گہرائیوں میں اترنے اور اس کے مفہوم کو سمجھنے کی پوری کوشش کی جائے۔ یہی قرآن کا مطالبہ ہے:
کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَo (یونس ۱۰:۲۴) ’’غور کرنے والوں کے لیے ہم نے اس طرح آیات تفصیل سے بیان کی ہیں‘‘۔
لَقَدْ اَنْزَلْنَا ٓ اِلَیْکُمْ کِتٰبًا فِیْہِ ذِکْرُکُمْ ط اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ o (الانبیا ۲۱:۱۰) ’’لوگو‘ ہم نے تمھاری طرف کتاب اتار دی ہے‘ جس میں تمھارا ذکر ہے‘ کیا تم غور نہیں کرتے!‘‘
کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْآ اٰیٰتِہٖ وَلِیَتَذَکَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ o (ص ۳۸:۲۹) ’’اے پیغمبر‘ یہ قرآن برکت والی کتاب ہے‘ جو ہم نے تمھاری طرف اتاری ہے‘ تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غور کریں۔ جو سمجھ بوجھ رکھتے ہیں‘ وہ اس سے نصیحت پکڑیں‘‘۔
یہی صحابہ کرام ؓ کا طریقہ تھا کہ وہ قرآن پاک کی آیات کو سمجھ سمجھ کر پڑھتے تھے اور ان پر غوروفکر کرتے تھے۔
(۵) قرآن پر عمل کیا جائے اور اس کے مطابق اپنے فکروعمل کو بدلا جائے۔ قرآن پر اس سے بڑا ظلم اور کوئی ہو نہیں سکتا‘ کہ قرآن کے احکام کے مطابق اپنے کو بدلنے کے بجائے اپنی بداعمالیوں کے لیے جواز پیش کرنے کے لیے قرآن کو (نعوذ باللہ) بدلنے کی کوشش کی جائے۔ اسی طرح یہ بھی قرآن کے حقوق کے منافی ہے کہ اس کے احکام کو تو پڑھا جائے‘ مگر ان پر عمل نہ کیا جائے۔ قرآن نازل ہی اس لیے کیا گیا ہے‘ کہ اس کے مطابق انفرادی اور اجتماعی زندگی کے نقشے کو تعمیر کیا جائے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ قرآن کے مطابق عمل کی سعی کی جائے۔حضرت ابن مسعودؓ کا ارشاد ہے کہ ’’جب کوئی شخص ہم میں سے دس آیتیں سیکھ لیتا تھا‘ تو اس سے زیادہ نہ پڑھتا تھا‘ جب تک ان کے معنی نہ سمجھ لیتا اور ان پر عمل نہ کرتا‘‘ (ابن کثیر‘ جلد اول‘ ص ۵)۔
پھر قرآن کوسمجھنے اور اس پر عمل کے سلسلے میں رہنما اور نمونہ اس مبارک ہستی ؐ کو ماننا‘ جس پر یہ کتاب نازل ہوئی:
مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ ج (النساء ۴:۸۰) ’’جس نے رسولؐ کی اطاعت کی‘ اس نے اللہ کی اطاعت کی‘‘۔
اس سلسلے میں رسول ؐاللہ کے اسوئہ حسنہ سے سرموانحراف بھی قرآن سے دُور لے جانے والی چیز ہے۔
اور آخری چیز یہ ہے کہ قرآن جس دعوت کو لے کر آیا ہے‘ اسے پھیلانے‘ اور اس کے نظام کو قائم کرنے کی عملی جدوجہد کی جائے۔ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے بہت سچ لکھا ہے کہ:
فہم قرآن کی ان ساری تدبیروں کے باوجود آدمی قرآن کی روح سے پوری طرح آشنا نہیں ہونے پاتا‘ جب تک کہ عملاً وہ کام نہ کرے‘ جس کے لیے قرآن آیا ہے۔ یہ محض نظریات اور خیالات کی کتاب نہیں ہے‘ کہ آپ آرام کرسی پر بیٹھ کر اسے پڑھیں اور اس کی ساری باتیں سمجھ جائیں۔ یہ دنیا کے عام تصور مذہب کے مطابق ایک نری مذہبی کتاب بھی نہیں ہے کہ مدرسے اور خانقاہ میںاس کے سارے رموز حاصل کر لیے جائیں... یہ ایک دعوت اور تحریک کی کتاب ہے۔ اس نے آتے ہی ایک خاموش طبع اور نیک نہاد انسان کو گوشہ عزلت سے نکال کر خدا سے پھری ہوئی دنیا کے مقابلے میں لاکھڑا کیا۔ باطل کے خلاف اس سے آواز اٹھوائی اور وقت کے علم برداران کفرو فسق و ضلالت سے اس کو لڑا دیا۔ گھر گھر سے‘ ایک ایک سعید روح اور پاکیزہ نفس کو کھینچ کھینچ کر لائی اور داعی حق کے جھنڈے تلے ان سب کو اکٹھا کیا۔ گوشے گوشے سے‘ ایک ایک فتنہ جُو اور فساد پرور کو بھڑکا کر اٹھایا اور حامیان حق سے ان کی جنگ کرائی۔ ایک فرد واحد کی پکار سے کام شروع کر کے خلافت الٰہیہ کے قیام تک پورے ۳۰ سال میں یہ کتاب اس عظیم الشان تحریک کی رہنمائی کرتی رہی اور حق و باطل کی اس طویل و جاں گسل کش مکش کے دوران میں ایک ایک منزل اور ایک ایک مرحلے پر اس نے تخریب کے ڈھنگ اور تعمیر کے نقشے بتائے۔
--- اب بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ سرے سے نزاع کفر و دیں اور معرکہ اسلام و جاہلیت کے میدان میں قدم ہی نہ رکھیں اور اس کش مکش کی منزل کا آپ کو اتفاق ہی نہ ہوا ہو‘ اور پھر محض قرآن کے الفاظ پڑھ پڑھ کر اس کی ساری حقیقتیں آپ کے سامنے بے نقاب ہو جائیں۔ اسے تو پوری طرح آپ اسی وقت سمجھ سکتے ہیں جب اسے لے کر اٹھیں اور دعوت الی اللہ کا کام شروع کریں اور جس جس طرح یہ کتاب ہدایت دیتی جائے‘ اس طرح قدم اٹھاتے چلے جائیں‘ تب وہ سارے تجربات آپ کو پیش آئیں گے جو نزول قرآن کے وقت پیش آئے تھے۔ مکہ‘ حبشہ اور طائف کی منزلیں بھی آپ دیکھیں گے اور بدر و احد سے لے کر حنین اور تبوک تک کے مراحل بھی آپ کے سامنے آئیں گے۔ ابوجہل اور ابولہب سے بھی آپ کو واسطہ پڑے گا۔ منافقین اور یہود بھی آپ کو ملیں گے اور سابقین اولین سے لے کر مولفتہ القلوب تک سبھی طرح کے انسانی نمونے آپ دیکھ بھی لیں گے اور برت بھی لیں گے۔ یہ ایک اور ہی قسم کا ’’سلوک‘‘ ہے‘ جس کو میں ’’سلوک قرآنی‘‘ کہتا ہوں۔اس سلوک کی شان یہ ہے کہ اس کی جس جس منزل سے آپ گزرتے جائیں گے‘ قرآن کی کچھ آیتیں اور سورتیں خود سامنے آکر آپ کو بتاتی چلی جائیں گی کہ وہ اس منزل میں اتری تھیں اور یہ ہدایت لے کر آئی تھیں۔ اس وقت یہ تو ممکن ہے کہ لغت اور نحو اور معانی اور بیان کے کچھ نکات سالک کی نگاہ سے چھپے رہ جائیں‘ لیکن یہ ممکن نہیں کہ قرآن اپنی روح کواس کے سامنے بے نقاب کرنے سے بخل برت جائے۔
--- پھر اس کلیے کے مطابق قرآن کے احکام‘ اس کی اخلاقی تعلیمات‘ اس کی معاشی اور تمدنی ہدایات اور زندگی کے مختلف پہلوئوں کے بارے میں اس کے بتائے ہوئے اصول و قوانین‘ آدمی کی سمجھ میں اس وقت تک آ ہی نہیں سکتے جب تک وہ ان کو برت کر نہ دیکھے۔ نہ وہ فرد اس کتاب کو سمجھ سکتا ہے جس نے اپنی انفرادی زندگی کو اس کی پیروی سے آزاد رکھا ہو اور نہ وہ قوم اس سے آشنا ہو سکتی ہے‘ جس کے سارے ہی اجتماعی ادارے اس کی بنائی ہوئی روش کے خلاف چل رہے ہوں (تفہیم القرآن‘ ج ۱‘ مقدمہ‘ ص ۳۳-۳۴)۔
یہ ہیں قرآن سے تعلق کی صحیح بنیادیں اور اگر ان پر ٹھیک ٹھیک عمل کیا ہو تو پھر قرآن انفرادی زندگی کا نقشہ بھی بدل دیتا ہے اور اجتماعی زندگی کی شکل بھی تبدیل کرا لیتا ہے۔ انفرادی زندگی اس کی برکتوں سے بھر جاتی ہے اور اجتماعی زندگی نیکی اور خوشی کی بہار سے شادکام ہوتی ہے۔
قرآن پر ایمان اسی وقت مفید اور معنی خیز ہو سکتا ہے‘ جب ہم قرآن کے پیغام کوسمجھیں اور اس کی دعوت پر لبیک کہیں۔ قرآن کے بتائے ہوئے طریقے پر چلنے اور اس کی ہدایت کے ذریعے اپنے معاملات کو طے کرنے کی کوشش کریں۔ آج عالم اسلام جن مسائل اور مصائب سے دوچار ہے‘ ان سے نکلنے‘ ترقی اور عزت کی راہ پر پیش قدمی کرنے کا راستہ صرف یہی ہے اور صادق برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کی تلقین کی تھی:
رسولؐ اللہ: خبردار عنقریب ایک بڑا فتنہ سر اٹھائے گا۔
حضرت علیؓ: اس سے نجات کیا چیز دلائے گی‘ یارسول ؐاللہ!
رسول ؐ اللہ: اللہ کی کتاب
__ اس میں تم سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کے حالات ہیں
__ تم سے بعد ہونے والی باتوں کی خبر ہے
__ اور تمھارے آپس کے معاملات کا فیصلہ ہے
__ اور یہ ایک دو ٹوک بات ہے‘ کوئی ہنسی دل لگی کی بات نہیں
__ جو سرکش اسے چھوڑے گا‘ اللہ اس کی کمر کی ہڈی توڑ ڈالے گا
__ اور جو کوئی اسے چھوڑ کر کسی اور بات کو اپنی ہدایت کا ذریعہ بنائے گا‘ اللہ اسے گم راہ کر دے گا
__ خدا کی مضبوط رسی یہی ہے
__ ‘یہی حکمتوں سے بھری ہوئی یاد دہانی ہے
__ یہی بالکل سیدھی راہ ہے
__ اس کے ہوتے ہوئے خواہشیں گمراہ نہیں کرتیں
__ اور نہ زبانیں لڑکھڑاتی ہیں
__ اہل علم کا دل اس سے کبھی نہیں بھرتا
__ اسے کتنا ہی پڑھو طبیعت سیر نہیں ہوتی
__ اس کی باتیں کبھی ختم نہیں ہوتیں
__ جس نے اس کی سند پر کہا‘ سچ کہا
__ جس نے اس پر عمل کیا‘ اجر پائے گا
__ جس نے اس کی بنیاد پر فیصلہ کیا‘ اس نے انصاف کیا
__ جس نے اس کی دعوت دی‘ اس نے سیدھی راہ کی دعوت دی۔
یہی وہ سیدھی راہ ہے جس کی طرف قرآن ہم سب کو دعوت دے رہا ہے!
(کتابچہ دستیاب ہے‘ ۳۵۰ روپے سیکڑہ‘ منشورات‘ منصورہ‘ ملتان روڈ‘ لاہور)