محرم کی اشاعت میں جماعت اسلامی کی تشکیل کا جو نقشہ پیش کیا گیا تھا اس کو دیکھ کر ہی بہت سے اللہ کے بندوں نے ایسی ایک جماعت میں شامل ہونے کا ارادہ ظاہر کر دیا تھا‘ بلکہ ہندستان کے مختلف حصوں سے مقامی جماعتیں بننے کی اطلاعیں بھی آنی شروع ہو گئی تھیں۔ پھر صفر کی اشاعت میں درخواست کی گئی کہ جو لوگ اس نقشے پر کام کرنا پسند کرتے ہیں وہ براہِ کرم ہم کو اطلاع دیں تاکہ ان کے درمیان ربط پیدا کرنے کی کوئی صورت نکالی جاسکے۔ اس کے جواب میں بہت سے وہ لوگ بھی گویا ہوئے جو دل میں ارادہ رکھتے تھے مگر اب تک خاموش تھے۔ اس طرح وسط ماہِ اگست تک تقریباً ۱۵۰‘ اصحاب کی فہرست تیار ہو گئی۔ پھر یہ مناسب سمجھا گیا کہ ۲۵ اگست ]۱۹۴۱ء[ کو لاہور میں ان اصحاب کا ایک اجتماع عام منعقد کر لیا جائے۔ چنانچہ اجتماع کی دعوت دے دی گئی۔ تاریخ مقررہ پر ۷۵‘ اصحاب تشریف لائے جن میں سے بعض اپنی مقامی جماعتوں کے نمایندئہ مختار تھے‘ اور بعض انفرادی حیثیت سے تشریف لائے تھے۔ چار روز تک مشاورت جاری رہی۔ جماعتی تشکیل کا جو ابتدائی خاکہ محرم کے پرچے میں شائع کیا گیا تھا اس پر غور کیا گیا اور باہمی مشورے سے بالاتفاق ایک دستور جماعت مرتب ہوا جو اِس اشاعت میں درج کیا جا رہا ہے۔ پھر تمام اصحاب نے دستور کے مطابق پورے احساس ذمہ داری کے ساتھ کلمۂ شہادت ادا کیا اور جماعتی نظم کے ساتھ اسلامی نصب العین کے لیے جدوجہد کرنے کا عہد کیا۔ پھر آیندہ کام کے متعلق ایک پروگرام بھی طے ہو گیا جس پر توکلاً علی اللّٰہ کام شروع کر دیا گیا ہے۔ یہ سب مراحل خدا کے فضل سے بخوبی طے ہوگئے۔ اب آیندہ مراحل کی کامیابی رفقا کے خلوص نیت اور اللہ کی توفیق پر منحصر ہے۔
...دستور]جماعت اسلامی[کی بنیادجس خیال پر رکھی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ہم اسلام کے کسی ایک جز کو‘ یا مسلمانوں کے دنیوی مقاصد میں سے کسی مقصد کو لے کر نہ اُٹھیں‘ بلکہ اصل اسلام اور پورے اسلام کو لے کر اٹھیں۔ جس مقصد کے لیے انبیا علیہم السلام دنیا میں تشریف لائے وہی ہمارا مقصد ہو۔ جس چیز کی طرف انھوں نے دعوت دی اُسی کی طرف ہم دعوت دیں‘ جس طرز پر وہ ایمان لانے والوں کی جماعت بناتے تھے اسی طرز پر ہم جماعت بنائیں‘ جو نظام جماعت اُن کا تھا وہی ہمارا ہو‘ جن ضوابط کو وہ اپنی جماعت میں نافذ کرتے تھے انھی کو ہم بلاکسی کمی و بیشی کے نافذ کریں‘ اور جس طریقے سے وہ اپنے نصب العین کے لیے جدوجہد کرتے تھے اسی طریقے سے ہم جدوجہد کریں۔ غرض یہ کہ ہماری یہ تحریک ذرہ برابر نہ اسلام سے کم کسی چیز پر مشتمل ہو اور نہ اُس سے زائد‘ بلکہ پورے کے پورے اسلام ہی کو ہم اپنی تحریک بنا لیں۔ اسی لیے ہم اُس جماعت کو جو اس دستور پر بنی ہے ’’جماعت اسلامی‘‘ کہتے ہیں کیونکہ اِس کا عقیدہ‘ نصب العین‘ نظام جماعت اور طریق کار بعینہٖ وہی ہے جو اسلامی جماعت کا رہا ہے۔ (’’اشارات‘‘، سید ابوالاعلیٰ مودودی‘ ماہنامہ ترجمان القرآن‘ جلد ۱۸‘ عدد ۳‘ ربیع الاول ۱۳۶۰ھ‘ مئی ۱۹۴۱ء ‘ص ۲-۳)