ایک قاری نے بیرون ملک کام کرنے والے مسلمان سائنس دانوں کے کارناموں کو قابل فخر قرار دینے (فروری ۲۰۰۱ء) پر اعتراض کیا ہے۔ سائنس دانوں کو تحقیقی کام کرنے کے لیے جس معیار کی سہولتیں درکار ہیں‘ ان کا پاکستان کے کسی تعلیمی یا تحقیقی ادارے (الا ماشاء اللہ) میں وجود نہیں ہے۔ اس لیے بہت سے سائنس دان بیرون ملک اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے پاکستان واپس آکر اپنی صلاحیتیں ضائع کرنے کے بجائے وہیں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان سائنس دانوں کا دارالکفر میں رہ کر طاغوتی قوتوں کی ترقی میں معاونت کرنا ایک اجتماعی گناہ ہے‘ جس میں ہم سب کسی نہ کسی درجے میں شریک ہیں۔ اگرچہ ان سب سائنس دانوں سے
اعلیٰ درجے کے داعیانہ اور مجاہدانہ کردار کی توقع نہیں کی جا سکتی‘ تاہم اگر اسلامی ممالک سائنس کی اہمیت کو محسوس کریں اور مطلوبہ سہولتیں فراہم کریں تو امید ہے کہ ان میں سے زیادہ تر سائنس دان دارالکفر سے واپس دارالاسلام میں آجائیں گے۔ ان شاء اللہ!
’’اکیسویں صدی اور ہماری ذمہ داریاں‘‘ از علامہ یوسف القرضاوی (اپریل ۲۰۰۱ء) پڑھا۔ اس میں ایک نکتے کی کمی محسوس ہوئی‘ اور وہ ہے: جہاد۔ اُمت مسلمہ کو اگر اکیسویں صدی میں باعزت اور باوقار مقام حاصل کرنا ہے تو ان ۱۰ نکات کے ساتھ ساتھ بلکہ سرفہرست فلسفہ جہاد کو اُبھارنا‘ جہادی کلچر کو فروغ دینا‘ مجاہد بننا اور بنانے پر عمل اور فخر محسوس کرنا ہوگا۔ اور یہ جہاد اسلامی معاشرے کے اندر ہر برائی کے خلاف‘ بغیر کسی امتیاز کے جاری رکھنا ہوگا۔
’’یورپی مسلم خاندان‘‘ (اپریل ۲۰۰۱ء) میں محمد ظہیرالدین بھٹی صاحب نے یورپ میں روایتی مسلم ممالک سے آکر بسنے والے مسلمانوں کی مشکلات کا ذکر کیا۔ لیکن یورپی نومسلموں کے بارے میں نہیں لکھا۔ یہ خوش قسمت لوگ جو سوچ سمجھ کر کھلی آنکھوں کے ساتھ اسلام میں داخل ہوئے ہیں ان کے مسائل پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔
ایک طرف تو ’تہذیب یافتہ‘ یورپ نے افغانستان میں بتوں کو بچانے کے لیے دنیا سر پر اٹھا رکھی ہے اور پوری دنیا کے ذرائع ابلاغ آہ و زاری کر رہے ہیں لیکن دوسری طرف بے حسّی کا وہ منظرنامہ ہے بوسنیا: اجتماعی قبریں (مارچ ۲۰۰۱ء) کہ یورپ کے مرکز میں مسلمانوں کا قتل عام ہوا‘ مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی۔ معصوم لوگوں کو اجتماعی طور پر قتل کر کے دبا دیا گیا لیکن کسی نے شور نہیں مچایا۔ کسی نے آواز بلند نہیں کی۔ تم بتوں کی بات کرتے ہو‘ یہ تو زندہ انسانیت کی بات تھی۔ یہ کیسا دہرا معیار ہے!
دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں اور ان کے قائدین کے بارے میں معلومات افزا مضامین ایک تواتر سے آتے رہیں تو یہ ایک مفیدسلسلہ ہوگا۔
رسائل و مسائل کے سوالات کے جوابات طویل ہوتے ہیں‘ مختصر مگر جامع ہونے چاہییں۔ سائل کا نام بھی دیا جانا چاہیے‘ فرضی سوال کا تاثر اُبھرتا ہے۔