سوال : کیا زکوٰۃ ایک طرح کا انکم ٹیکس نہیں ہے؟ کیا ہم زکوٰۃ کو فلاح عامہ کے کاموں مثال کے طور پر مدرسوں اور ہسپتالوں کے لیے استعمال نہیں کر سکتے؟
جواب : زکوٰۃ کو ٹیکس قرار دینا سرے سے ہی غلط ہے۔ وہ تو اسی طرح ارکان اسلام میں سے ایک رکن ہے‘ جس طرح نماز ایک رکن ہے‘ حج ایک رکن ہے‘ روزہ ایک رکن ہے۔ زکوٰۃ انھی عبادتوں کی طرح ایک عبادت ہے‘ اور اس عبادت کو مقرر کرنے کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے اس کے مصارف بھی متعین کر دیے ہیں‘ جن کے سوا کسی اور مصرف میں اسے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
آپ جتنے ٹیکس دیتے ہیں‘ خواہ وہ انکم ٹیکس ہو یا کسی اور قسم کا ٹیکس‘ ہر ایک کا نفع آپ کی طرف پلٹ کر آتا ہے۔ لیکن زکوٰۃ ایک ایسی چیز ہے‘ جس کا نفع آپ کی طرف آخرت میں پلٹ کر آئے گا۔ اس دنیا میں کسی طور پر بھی اس کی منفعت حاصل ہونے کی امید پر آپ زکوٰۃ دیں گے تو اسے ضائع کر دیں گے۔ اس دنیا میں آپ بس خدا کے بتائے ہوئے حق داروں کو زکوٰۃ دے دیجیے اور سمجھ لیجیے کہ یہ نیکی خدا کے دفتر میں درج ہو گئی۔
اگر آپ زکوٰۃ سے سڑکیں بنائیں گے‘ ریلیں بنائیں گے‘ یا مدرسے اور ہسپتال بنائیں گے تو ان سے امیر اور غریب سب فائدہ اٹھائیں گے۔ درآں حالیکہ زکوٰۃ غریبوں کے لیے ہے‘ امیروں کے لیے نہیں ہے۔ ان چیزوں سے آپ خود بھی فائدہ اٹھائیں گے درآں حالیکہ زکوٰۃ سے آپ کو خود فائدہ اٹھانے کا حق نہیں پہنچتا۔ اس لیے زکوٰۃ کو صرف عبادت سمجھ کر ادا کیجیے‘ اس کو رکن اسلام سمجھیے‘ انکم ٹیکس نہ سمجھیے۔
ٹیکس کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ خواہ کتنے ہی انصاف کے ساتھ لگایاجائے‘ کتنی ہی ایمان داری سے وصول اور خرچ کیا جائے‘ بہرحال جن لوگوں پر اس کا بار پڑتا ہے وہ کبھی اس کو خوش دلی سے نہیں دیتے‘ بلکہ اس سے بچنے کی بے شمار راہیں تلاش کرتے ہیں۔ اب کیا خدا کی فرض کی ہوئی ایک عبادت کو بھی ٹیکس سمجھ کر اس کے ساتھ آپ یہی سلوک کرنا چاہتے ہیں؟--- یہ طرزِعمل آپ زکوٰۃ کے ساتھ اختیار کریں گے تو اپنے مال کے ساتھ اپنے ایمان کو بھی کھو دیں گے۔
یہ تو وہ چیز ہے جو خوش دلی سے دینی چاہیے‘ خدا کی خاطر دینی چاہیے‘ جتنی آپ پر واجب ہو اس سے بھی کچھ بڑھ کر دینا چاہیے‘ تاکہ خداکی خوشنودی اور زیادہ حاصل ہو سکے۔ (سیدابوالاعلٰی مودودی‘ ۵-اگست ۱۹۷۴ء‘ ٹورنٹو‘ کینیڈا)
س: چار مہینے پہلے میری چھوٹی بہن وفات پا گئی جو دسویں جماعت کی طالبہ تھی۔ کوئی خاص بیماری نہ تھی جس کا میں یہاں ذکر کروں کیونکہ ڈاکٹروں کا یہی کہنا تھا کہ کمزور ہے اس کی خوراک کا خیال رکھیں۔ باوجود اچھی خوراک کے وہ دن بدن کمزور ہوتی چلی گئی۔ وفات سے اڑھائی مہینے پہلے ٹانگوں میں ورم آگیا جس سے چلنے پھرنے سے معذور ہو گئی۔ ٹانگوں میںشدید درد کی وجہ سے اس نے بہت تکلیف اٹھائی۔کچھ شواہد اور ڈاکٹروں کی رپورٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم یہ ماننے پر تیار ہو گئے کہ یہ کالا جادو ہوا ہے۔ جو بھی دوا دی جاتی وہ اس سے اور زیادہ بیمار ہوتی۔ پی اے ایف ہسپتال سرگودھا میں معائنہ کروایا لیکن انھیں بھی بیماری کی کوئی خاص وجہ سمجھ میں نہ آئی۔
اب ہمارے گھر میں سب اس بات کا یقین کر رہے ہیں کہ اسے جادو کے ذریعے مروایا گیا ہے۔ ایک محترم پروفیسرصاحب کے سامنے یہ مسئلہ رکھا تو انھوں نے قرآن و سنت کے حوالے سے اسے سچ ثابت کیا اور کہا کہ امام شافعی ؒ اور امام حنبلؒ جادو کے ذریعے قتل کرنے والے کو واجب القتل قرار دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں بتایئے کہ اس چیز پر یقین ہونا چاہیے یا نہیں؟ کیا جادو سے انسان مر سکتا ہے؟ جو جادوکرے یا کروائے اس کے ساتھ کیا معاملہ ہونا چاہیے؟ ہم کیسے پہچان کریں کہ جادو کا عمل ہوا ہے؟ ایسے معاملات کی شرعی اور قانونی حیثیت کیا ہے؟ کیا قانون ایسے معاملے کی گرفت کرتا ہے؟
ج : آپ کی چھوٹی بہن کی بیماری اور وفات کا سن کر صدمہ ہوا۔ اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل اور اجرِجزیل سے نوازے۔ اللھم اغفرلھا وارحمھا وادخلھا الجنۃ الفردوس۔ آمین!
جادو ایک حقیقت ہے اور اس کے اثر سے ایک آدمی بیمار اور فوت ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ بات کہ فلاں شخص جادو سے فوت ہوا ہے اور فلاں نے اس پر جادو کیا ہے‘ اسی طرح ثابت ہوگا جس طرح قتل ثابت ہوتا ہے۔ یعنی دو عادل گواہ گواہی دیں گے کہ اس آدمی کو ہم نے فلاں آدمی پر جادو کرتے ہوئے دیکھا ہے‘ یا جادوگر اقرار کرے کہ میں نے جادو کیا اور اس سے یہ شخص قتل ہوا ہے۔
۱- ایسے شخص پر عدالت میں دعویٰ کیا جاتا ہے اور عدالت میں مذکورہ طریقے سے ثابت کیا جاتا ہے۔ جب عدالت مطمئن ہو جائے کہ جادوگر نے جادو کے ذریعے قتل کیا ہے تو اسے قتل کیا جائے گا۔
۲- امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک اگر جادوگر پکڑا جائے اور وہ اعتراف کرے کہ وہ جادوگر ہے تو اسے عدالت میں اقرار کرنے یا گواہوں سے جادوگر ثابت کر دینے کی صورت میں قتل کرنے کی سزا دی جائے گی۔ کیونکہ جادوگر ایسے شرکیہ اعمال کرتے ہیں جو اسے مرتد بنا دیتے ہیں ‘ اگرچہ اس نے جادو کے ذریعے کسی کو قتل نہ کیا ہو۔ حدیث میں آیا ہے: حد الساحر ضربہ بالسیف ’’جادوگر کی حد یہ ہے کہ اسے تلوار سے قتل کر دیا جائے‘‘۔
۳- آپ اپنی بہن کے بارے میں بلاوجہ کسی وہم میں مبتلا نہ ہوں۔ صبرسے کام لیں۔ ہمارے معاشرے میں ’’جادو‘‘ بہت کم ہے۔ اس لیے کہ جادو میں شیطان کی پوجا و پرستش کرنا پڑتی ہے‘ اس کے نام کی نذر و نیاز دینا پڑتی ہے‘ گندگی میں ملوث رہنا پڑتا ہے۔ نماز‘ روزہ اور عبادات ترک کرنا پڑتی ہیں اور غیراللہ کی پرستش کرنا پڑتی ہے۔ ایک کلمہ گو جو دین کی سمجھ رکھتا ہو جادوگر نہیں ہو سکتا۔ لوگ دکان داری کے طور پر اپنے آپ کو جادوگر ظاہر کرتے ہیں اور کمائی کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو تعزیری سزا دی جائے گی اور دکان داری سے روکا جائے گا۔ یہ حقیقت میں جادوگر نہیں ہوتے۔ اس لیے ان پر مقدمہ چلا کر جادوگر کی سزا نہیں دی جائے گی بلکہ شاطرانہ چالوں کے ذریعے برائی کو پھیلانے اور ناجائز کمائی کا دھندا کرنے کی سزا دی جائے گی۔ (احکام القرآن للجصاص‘ معارف القرآن‘ مفتی محمد شفیعؒ‘ تفسیر آیت سحر‘ پارہ اول)۔ (مولانا عبدالمالک)
س : ۱- ایک شخص رات کھانے سے پیشتر اعصاب کو سکون بخشنے والی ادویات استعمال کرتا ہے جس سے اس پر نماز عشاء سے قبل ہی نیند کا غلبہ ہوجاتا ہے۔ اور دوسرا شخص وہ ہے جواپنی مصروفیات یا ذمہ داریوں میں ایسا الجھا ہوا ہے کہ نماز عشاء بروقت ادا کرنے کے قابل نہ ہو اور نماز قضا ہونے کا احتمال ہو۔ کیا ایسے دونوں اشخاص کا نماز مغرب کے ساتھ نماز عشاء کا ملا کر پڑھنا (یعنی نماز مغرب ادا کر کے تسبیح و تہلیل کے بعد نماز عشاء ادا کرنا) جائز ہے؟
۲- ایک شخص مسجد کے پڑوس میں کاروبار کرتا ہے۔ کاروبار اس نے قرض لے کر شروع کیا ہے اور اس کے ساتھ کوئی دوسرا شخص دکان پر موجود نہیں ہوتا۔ نماز کے اوقات میں دکان بند کرنے سے نقصان کا اندیشہ ہے اور سرمایہ ڈوبنے کا ڈر ہے۔ کیا ایسا شخص دکان پر نماز ادا کر سکتا ہے؟
ج : ۱- رات کے کھانے سے پہلے خواب آور ادویات کا استعمال یا دنیاوی کاروبار میں منہمک ہو جانا ایسے عذرنہیں ہیں کہ ان کے سبب نماز عشاء مقررہ وقت پر ادا نہ کی جائے۔ شدید مجبوری کی بنا پر جمع بین الصلاتین صرف درمیانی وقت میں کی جا سکتی ہے جو نماز مغرب کے پون گھنٹہ بعد شروع ہوتا ہے۔ آپ یہ طریقہ اختیار کر سکتے ہیں کہ نماز مغرب کے پون گھنٹے بعد نماز عشاء پڑھ کر دوائیں اور کھانا کھالیں۔ اس طرح شریعت کی پابندی اور عذر کی رعایت بھی ہو جائے گی۔ امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک شام کے بعد اُفق پر سرخی کے بعد جو سفیدی آتی ہے وہ جمع بین الصلاتین کا وقت ہے جو غروب آفتاب کے تقریباً پون گھنٹہ بعد شروع ہو جاتا ہے۔
دنیاوی کاروبار میں مشغولیت کی وجہ سے نماز عشاء کی تقدیم درست نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ جمعہ میں ایسے کاروبار اور تجارت سے منع فرمایا ہے جو یاد الٰہی اور نماز سے غافل کرنے والی ہو۔ فرمایا گیا: وَاِذَا رَاَوْا تِجَارَۃً اَوْ لَھْوَ نِ ا انْفَضُّوْآ اِلَیْھَا وَتَرَکُوْکَ قَآئِمًا ط قُلْ مَا عِنْدَاللّٰہِ خَیْرٌ مِّنَ اللَّھْوِ وَمِنَ التِّجَارَۃِ ط وَاللّٰہُ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ o (الجمعہ ۶۲:۱۱) ’’اور جب انھوں نے تجارت اور کھیل تماشا ہوتے دیکھا تو اُس کی طرف لپک گئے اور تمھیں کھڑا چھوڑ دیا۔ اِن سے کہو‘ جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ کھیل تماشے اور تجارت سے بہتر ہے۔ اور اللہ سب سے بہتررزق دینے والا ہے‘‘۔
اسی طرح جو لوگ اپنے کاروبار زندگی کے دوران نماز اور دیگر عبادات میں خلل نہیں آنے دیتے‘ ان کی تحسین اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں کی ہے: رِجَالٌ لا لاَّ تُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَّلاَ بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَاِقَامِ الصّٰلٰوۃِ وَاِیْتَآئِ الزَّکوٰۃِ ص (النور ۲۴:۳۷) ’’اُن میں ایسے لوگ صبح و شام اس کی تسبیح کرتے ہیں جنھیں تجارت اور خرید و فروخت اللہ کی یاد سے اور اقامت نماز و اداے زکوٰۃ سے غافل نہیں کر دیتی‘‘۔
اس لیے کاروبار میں اُلجھ کر رہ جانا یا خواب آور ادویات کے استعمال سے نماز کو اپنے مخصوص اوقات سے مقدم یا موخر کرنا درست نہیں ہے۔
۲- نفع و نقصان کا خدشہ ہر وقت موجود ہے۔ جو کچھ اللہ نے کسی کے مقدر میں لکھ دیا ہے وہ اس کو مل کر رہے گا۔ محض چند خدشات کی وجہ سے نماز کو گھر یا دکان میں پڑھنا درست نہیں۔ (ع ۔ م)
س : ہمارے گھر میں کبھی کبھار شطرنج بغیر کسی شرط اور کسی قابل اعتراض بات کے صرف تفریح کے لیے کھیلی جاتی ہے‘ وہ بھی مخصوص حدود کے اندر کہ وقت کی بربادی اور ضیاع کا باعث نہ بنے۔ میری نظر سے چند احادیث گزری ہیں جن میں اس کو لغو اور بے ہودہ کھیل فرمایا گیا ہے۔ میں جاننا چاہتی ہوں کہ آیا ان احادیث میں شطرنج سے مراد وہی شطرنج ہے جو ہم کھیلتے ہیں؟
ج : مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی اطاعت اور بندگی کے لیے پیدا فرمایا ہے۔ انسان کا مقصد وجود اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے۔ انسانی زندگی میں کھیل تماشا اور دیگر تفریحات جو اس مقصد سے اسے دُور کرنے والی ہوں‘ ان سے پرہیز کی تعلیم دی گئی ہے۔ اسلام مفید کھیلوں پر قدغن نہیں لگاتا۔ اس میں تفریحات کا تصور بھی موجود ہے۔ لیکن ایسی تفریح جو دینی یا دنیاوی طور پر سودمند نہ ہو‘ محض وقت کا ضیاع ہو‘ یا ایسے کھیل جن میں جسمانی اور ذہنی صلاحیتیں اجاگر نہ ہوں اور ان سے ذہنی تسکین نہ ملتی ہو‘ مسلمان کے شایان شان نہیں ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے سورہ المومنون میں اہل ایمان کی ایک اہم صفت یہ بتائی ہے کہ وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ o (۲۳: ۳)‘ یعنی اہل ایمان لغو سے احتراز کرنے والے ہیں۔ مفسرین کے نزدیک لغوسے مراد مالایعنیہ ہے،’’ یعنی جس کا کوئی فائدہ نہ ہو‘‘۔ شطرنج اور اس طرح کے دیگر کھیل بھی اسی زمرے میں آتے ہیں۔ پھر اگر ان میں جوا بھی شامل ہوجائے تو یہ حرام اور ناجائز ہو جاتے ہیںاور اس بارے
میں قرآن و حدیث میں سخت وعید ہے۔آپ نے شطرنج کی ممانعت میں جو احادیث لکھی ہیں ان سے مراد
مروجہ شطرنج اور اس سے ملتے جلتے کھیل ہیں۔ ان میں جوا ہو تو حرام ہے‘ اگر جوا نہ ہو تب بھی مکروہ ہیں۔اس لیے کہ غفلت عبادت سے دُوری اور تضیع اوقات کا باعث بنتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو امتحان گاہ بنایا ہے۔ یہ پہلا اور آخری موقع ہے۔ اس لیے وقت کی قدر و منزلت کا خیال رکھتے ہوئے لغویات سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اس میں دنیا اور آخرت کی بھلائی ہے۔ ایسے کھیلوں کا عادی نہیں ہونا چاہیے جو غفلت کا موجب
ہوں۔ (ع -م)