مئی ۲۰۰۱

فہرست مضامین

اسلامی پارٹی ملایشیا کی پیش قدمی

محمد ایوب منیر | مئی ۲۰۰۱ | عالم اسلام

Responsive image Responsive image

’ملے‘ قوم اسلام کا ایک توانا بازو ہے۔ اس قوم نے ۵۰۰ برس پہلے اسلام قبول کیا۔ ملایشیا‘ انڈونیشیا‘ فلپائن اور جنوبی تھائی لینڈ‘ ماضی قریب میں جزائر ملایا کے نام سے جانے جاتے تھے۔ ۲۰ ویں صدی میں یہاں استعماری ممالک کا اقتدار تھا۔ انڈونیشیا ۱۹۴۵ء میں اور ملایشیا ۱۹۵۷ء میں آزاد ہوا۔ جنوب مشرقی ایشیا کی سب سے موثر اسلامی تحریک Parti Islam Se Malaysia ہے۔ ’پاس‘ (PAS) اس کے نام کا مخفف ہے‘ تاہم عمومی طور پر اسے اسلامی پارٹی ملایشیا کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے۔

ملایشیا کا ایک تعارف بے انتہا اقتصادی ترقی بھی ہے اور انفرمیشن ٹکنالوجی کے میدان میں حیرت انگیز پیش رفت بھی۔ ۱۹۹۷ء کے اقتصادی بحران نے ایشین ٹائیگر کو ہلا کر رکھ دیا لیکن ملایشیا آزاد روی پر مبنی معیشت‘ نئے اقتصادی منصوبوں اور کھلی منڈی کی بدولت دیوالیہ ہونے سے بچ گیا۔

ملایشیا میں مستقبل کا نقشہ کیا ہوگا اور اسلامی پارٹی کیا کردار ادا کرے گی‘ یہی آج کا موضوع ہے۔

اس علاقے کی تاریخ میں متحدہ ملے قوم پرور تنظیم (United Malays Nationalist Organisation) کا قیام ایک اہم سنگ میل ہے۔ ۴۰ سے زائد وطن دوست اور قوم پرست تنظیموں نے ۱۹۴۶ء میں اس وفاقی تنظیم کی داغ بیل ڈالی اور عوام الناس کی اکثریت کو اپنی جانب راغب کر لیا۔ ’’امنو‘‘ (UMNO) ملایشیا میں طویل عرصے سے برسرِاقتدار ہے۔

آغاز ہی سے ’امنو‘ کا ایک علما کا شعبہ قائم تھا۔ انھوں نے ’امنو‘ کے اندر رہ کر اسے حقیقی دینی تنظیم بنانے کی کوشش کی۔ جب یہ اصلاحِ احوال سے مایوس ہو گئے تو شعبۂ علما کے تمام ممبران نے بہ یک وقت ’امنو‘ سے علیحدگی کا اعلان کر دیا۔ علماے کرام کے مذکورہ گروہ نے ۲۴ نومبر ۱۹۵۱ء کوPersatuan Alim Ulama Malaya

کے نام سے اسلامی تنظیم قائم کی‘ ایک اور اسلامی تنظیم حزب المسلمین نے اپنے آپ کو نئی تنظیم میں ضم کر لیا۔ اس طرح اسلامی پارٹی ملایشیا وجود میں آگئی۔

’پاس‘ کے تجربات اخوان المسلمون مصر‘ جماعت اسلامی پاکستان‘ حزب النہضہ تاجکستان‘ الجبھۃ الاسلامیہ سوڈان‘ رفاہ پارٹی ترکی اور اسلامی نجات محاذ الجزائر سے مختلف ہیں۔ گذشتہ ۵۰ برسوں میں اس تحریک کی پانچ افراد نے قیادت کی اور ہر دَور میں اس کی شناخت ایک نئے انداز سے واضح ہوئی۔

احمد فواد حسن ’پاس‘ کے اولین سربراہ تھے۔ ۱۹۵۱ء سے ۱۹۵۳ء تک ’پاس‘ کے قائد رہے۔ ان کا مطمح نظر یہ تھا کہ ملے اپنے ہی وطن میں اقلیت نہ بن جائیں اور ملے قوم کی سربلندی کے لیے منظم ہو کر کام کیا جائے۔ ۱۹۵۳ء سے ۱۹۵۶ء تک ڈاکٹر الیاس عباس سربراہ رہے‘ قومی حقوق کے لیے جدوجہد ان کے پیش نظر تھی۔ اُس وقت تک ’پاس‘ کی شناخت ایک قوم پرست پارٹی کی تھی۔ ’پاس‘ کے تیسرے صدر ڈاکٹر برہان الدین الحلمی (۱۹۵۶ء سے ۱۹۶۹ء) نے تحریک کو خالصتاً اسلامی پہچان دی‘ اور ’پاس‘ کی قوم پرست شناخت کو اسلام کے احیا اور سربلندی کے لیے کام کرنے والی عالم گیر شناخت سے بدل دیا۔ ڈاکٹر حلمی کے وضع کردہ خطوط پر تحریک آگے بڑھتی تو اسلامی تحریک کا کوئی اور منظر ہوتا۔

ڈاکٹر حلمی کو داخلی خودمختاری کے قانون (ISA) کے تحت گرفتار کر لیا گیا۔ رہائی کے کچھ عرصے بعد اُن کا انتقال ہو گیا اور محمدعصری مودا نے ۱۹۷۰ء میں تحریک کی باگ دوڑ سنبھالی۔ عصری مودا شعلہ بیان مقرر تھے‘ تاہم انھوں نے غلبۂ اسلام کی جدوجہد کو ازسرنو قوم پرست تحریک میں تبدیل کرنے کی کوشش کی اور ’امنو‘ کے ساتھ تعاون کیا۔ برلن یونی ورسٹی کے پروفیسر اور ریسرچ اسکالر ڈاکٹر فارش اے نور کا خیال ہے کہ ترقی ء معکوس کے اس دَور میں تحریک کو تقریباً سمیٹ کر رکھ دیا گیا۔ اس دَور کو ’پاس‘ کے انتشار کا بدترین دَور بھی کہا جا سکتا ہے۔ آخرکار عصری مودا کو تحریک سے الگ کر دیا گیا اور تحریک کو اپنے اصل نظریے کے ساتھ مربوط کر کے کام کا آغاز کر دیا گیا۔ اسلامی پارٹی کے لوگ خود کہتے ہیں کہ ۱۹۷۰ء سے ۱۹۸۰ء تک ۱۰ سال ضائع ہو گئے۔

۱۹۷۹ء میں ایران میں برپا ہونے والے اسلامی انقلاب نے ’پاس‘ پر بھی اثرات مرتب کیے۔ ’پاس‘کے ذمہ داران نے یہ محسوس کیا کہ ’’اسلامی تبدیلی کے لیے علما کی قیادت ضروری ہے‘ مثلاً جس طرح ایران میں ہوا ہے‘‘۔ یہ ایک مشاہدہ تھا‘ دستوری اور آئینی فیصلہ نہ تھا۔ اسلامی تحریک ملایشیا کے مضبوط اور مستحکم دَور کا آغاز عملاً ۱۹۸۲ء سے ہوا۔

۱۹۸۲ء میں دینی تعلیم یافتہ علما نے تحریک کا نظم و نسق سنبھال لیا۔ تحریک کے لیے مرشد عام کا منصب تخلیق کیا گیا۔ یوسف راوا کو جو معروف عالم دین اور ۳۰ برس سے دعوت و جدوجہد کے میدان میں سرگرم عمل تھے‘ تحریک کا مرشدعام بنایا گیا۔ مرشدعام دستوری اور تنظیمی فیصلوں کے مراحل میں شریک نہیں ہوتا‘ تاہم اگر وہ چاہے تو تنظیم کے فیصلوں کو ردّ (veto)کر سکتا ہے ۔وہ مرکزی شوریٰ میں ۱۲ افراد کو نامزد کر سکتا ہے۔ حاجی فاضل محمد نور‘ گذشتہ دو دہائیوں سے تحریک کی رہنمائی کر رہے ہیں۔ یونی ورسٹی میں تدریس کرتے رہے ہیں ‘ وفاقی اسمبلی میں پہلے بھی منتخب ہوئے اور ۱۹۹۹ء میں منتخب ہونے والی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کا کردار سنبھال چکے ہیں۔ یوسف راوا کے اپنے منصب سے خود سبک دوش ہونے کے بعد نک عبدالعزیز کو مرشدعام بنایا گیا جوملایشیا کے دینی تعلیمی اداروں کے علاوہ دیوبند(بھارت)‘ اور مدرسہ قاسم العلوم شیرانوالہ گیٹ لاہور‘ (پاکستان) میں بھی زیرتعلیم رہے۔ حاجی فاضل محمد نور اور عبدالہادی آوانگ طلبہ کی اسلامی تحریک ’آبیم‘ (ABIM) میں بھی عرصۂ دراز سرگرم عمل رہے۔ نوجوانوں کی پرعزم‘ دعوتی و سماجی بھلائی کی اسلامی تنظیم کے طور پر ’آبیم‘ نے انتہائی موثر کردار ادا کیا ہے۔ اب اسلامی تحریک قدیم و جدید اور جدید تعلیم یافتہ افراد پر مشتمل ہے۔ نک عبدالعزیز کی حکومت نے اعلان کر رکھا ہے کہ جس گھر میں پہلے کمپیوٹر نہ ہو اُسے ارزاں نرخ پر کمپیوٹر ملے گا۔

۱۹۸۲ء کے بعد سے تحریک کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ رہا کہ ریاست بھی اسلام کے نفاذ کے متوازی پروگرام کا اعلان کرتی رہی‘ اسلامی بنک کاری نظام وجود میں آیا‘ اسلامی ادارہ ہاے فکرودانش

(think tanks) وجود میں آئے‘اسلامی تحقیقات کے ادارے قائم کیے گئے اور کوالالمپور میںاسلامی عالمی یونی ورسٹی قائم کی گئی۔جب اقتدار پر فائز لوگ اسلام کے علم بردار بن کر سامنے آتے ہیں تو نفاذ اسلام کے مراحل کو اپنے اقتدار کی طوالت کے ساتھ منسلک کر دیتے ہیں۔ ’آبیم‘ کے موجودہ صدر احمد عزام کا خیال ہے کہ مہاتیر محمد دنیا بھر کے مسلم حکمرانوں کے لیے ترقی پسند‘ اسلام دوست اور ملایشیا کے عوام کے لیے منتقم ڈکٹیٹر ہیں۔ ۱۹۹۰ء میں ’پاس‘ نے اپنے بے داغ کردار کی بدولت کلنتان  کی ریاست میں کامیابی حاصل کر لی۔ اسلامی قوانین کے نفاذ کا اعلان کیا‘ تو وفاقی حکومت کی طرف سے شدید اعتراضات اٹھائے گئے۔ غیر مسلموں کے انسانی حقوق پامال ہونے اور ریاست کے ماضی کی طرف سفر پر تنقید کی گئی‘ لیکن اس کے باوجود ’پاس‘ کلنتان میں تین بار

(۹۹ء‘ ۹۵ء‘ ۱۹۹۰ء) حکومت بنانے میں کامیاب ہو چکی ہے۔

کلنتان کی ریاست وسائل کے لحاظ سے ملایشیا کی سب سے کمزور ریاست ہے لیکن اسلامک پارٹی کا یہاں کے عوام کے ساتھ گہرا رابطہ ہے۔ ’پاس‘ کے پہلے مرشدعام یوسف راوا تھے اور دوسرے مرشدعام

نک عبدالعزیز ہیں‘ جو کلنتان کی ریاست کے سربراہ بھی ہیں۔ نک عبدالعزیز عالم دین ہیں اور امامت و خطابت سے منسلک ہیں۔ وزیراعلیٰ بننے کے بعد انھوں نے سرکاری رہایش گاہ نہ لی۔ ۲۰‘ ۲۵ برس سے جس فلیٹ میں رہ رہے ہیں‘ اُسی کو وزیراعلیٰ کا دفتر قرار دے دیا۔ جمعہ کا خطبہ دیتے ہیں‘ پروٹوکول اور عوام سے دُور رکھنے والی دیگر علّتوں سے دُور ہیں۔ وزیراعلیٰ بننے کے بعد انھوں نے اعلان کر دیا کہ چور کا ہاتھ کاٹنے کی شرعی سزا پر ہم عمل درآمد کرنا چاہتے ہیں لیکن ہندو اور چینی اقلیت کو خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے۔ مکمل معاشرتی انصاف کے بغیر

اس سزا پر فی الحال عمل درآمد نہیں ہوگا‘ تاہم شراب کی تیاری اور فروخت اور سودی معیشت کے ذریعے اشیا

کی قیمتوں میں بے حد و حساب اضافے پر حکومتی کنٹرول رہے گا۔ ناچ گھر اور نائٹ کلبوں کے لیے آیندہ اجازت نامے بند کر دیے گئے۔ حکومت نے رہن کا نظام متعارف کرایا ہے‘ اس نظام کی بدولت غریب عوام اپنی کسی قیمتی چیز (زمین‘ جائداد‘ زیورات) کو رہن رکھوا کربلاسود قرض حاصل کر سکتے ہیں۔

مجموعی طور پر کلنتان میں امن و امان کی صورت حال کافی بہتر ہوئی ہے۔ شراب اور جوئے کا کاروبار کرنے والے غیر مسلموں نے آہستہ آہستہ دوسرے کاروبار اختیار کرنے شروع کر دیے ہیں۔  فار ایسٹرن اکنامک ریویو کے ایک گذشتہ شمارے میں کلنتان کے بارے میںشائع ہونے والے ایک مضمون میں ایک ہندو ٹیکسی ڈرائیور کی رائے لی گئی تو اس نے کہا کہ میں وزیراعلیٰ نک عبدالعزیز کے مذہب کو تسلیم نہیں کرتا لیکن میں اسے پسند کرتا ہوں کیونکہ اُس کا گھر بھی عام لوگوں جیسا ہے‘ اور وہ سڑکوں پر چلتا پھرتا بھی دکھائی دیتاہے۔ ایسے ہی لوگ ملایشیا کو حقیقی ترقی دے سکتے ہیں۔

ملایشیا کے بارے میں ایشیا ویک کے ایک شمارے میں نک عبدالعزیز کی مسجد کی تصویر شائع ہوئی کہ اُن کا خطاب سننے کے لیے مسجد بے انتہا بھری رہتی ہے۔ عرصۂ دراز سے خواتین اسکارف کے ساتھ عملی زندگی میں شریک ہیں اور اسلامی تحریک کی قوت کا باعث ہیں۔

ترنگانو دوسری ریاست ہے جہاں ’پاس‘ نے حکومت بنائی ہے۔ عبدالہادی اوانگ اس کے وزیراعلیٰ ہیں۔ اخبارات اُن کی یہ تصویر پیش کرتے ہیں کہ وہ اپنی توانا فکر‘ غیر لچک دار موقف اور مستقبل بینی کے باعث مستقبل کے وزیراعظم ہیں۔ ترنگانو‘ گیس اور تیل کے لحاظ سے امیر ترین ریاست ہے۔ مگر وفاقی حکومت نے صوبائی حکومت کے حزب اختلاف میں سے ہونے کی وجہ سے فنڈ روک رکھے ہیں اور حکومت اور حزب اختلاف میں شدید قانونی جنگ جاری رہتی ہے۔ تحریک کے ترجمان سہ روزہ حرکہ کی اشاعت ۴ لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔حکومت بہ ضد ہے کہ سہ روزہ اخبار کو پندرہ روزہ کیا جائے۔ وفاقی پارلیمان کے اندر بھی ’پاس‘ نے ۱۹۹۹ء کے انتخابات میں ۲۹نشستیں حاصل کی ہیں۔ ’پاس‘ نے موجودہ حکومت مخالف اتحاد میں شمولیت اختیار کر رکھی ہے۔ عبدالہادی اوانگ کا مشہور جملہ ہے کہ حکومت فلک بوس عمارات تعمیر نہ کرے‘ بس اسٹاپ قائم کرے‘ یہ ہماری ضرورت ہیں۔

عبدالہادی آوانگ کی سیاسی آرا کو زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے۔ ہانگ کانگ سے شائع ہونے والے کئی جریدے اُن کی آرا شائع کر تے ہیں۔عبدالہادی آوانگ مغربی تعلیم یافتہ ہیں‘ دُنیا کے کئی ممالک میں اُن کے دوست موجود ہیں‘ کئی خطوں کا دَورہ کر چکے ہیں‘ ملایشیا کو جو مسائل درپیش ہیں اُن میں سے اکثر کے بارے میں اُن کے ذہن میں واضح تجزیہ اور عملی حل موجود ہے۔ گلوبلائزیشن کی اُس تعریف کے وہ شدید ناقد ہیں کہ سرحدوں کے بغیر معیشت (borderless economy) ہونی چاہیے۔ ملایشیا کے دوست تجارتی حلقوں کے درمیان عدم تناسب کے شاکی ہیں‘ چاہتے ہیں کہ ملایشیا امریکانائزیشن سے نجات حاصل کرے اور مسلم ممالک سے قریبی تجارتی روابط بنائے۔

۱۹۹۷ء کے اقتصادی بحران کا سبب اُن کے نزدیک ملٹی نیشنل کارپوریشنوں کی آزادانہ نقل و حرکت ہے۔ موجودہ برسرِاقتدار گروہ کی مغرب دوستی بلکہ مغرب پرستی کے وہ ناقد ہیں‘ اُن کی تجویز ہے کہ ہر شخص پر ٹیکسوں کی بھرمار کی جائے۔ بڑی بڑی فلک بوس عمارتیں تعمیر کرنے‘ میلوں پر پھیلے تجارتی مراکز چلانے اور انفرمیشن ٹکنالوجی کے بے مہار سوداگروں پر معقول ٹیکس عائد کیا جائے‘ ملے اور چائینز آبادیوں میں منافرت کم کی جائے‘ ہندو‘ اور چینی تہذیب کو غالب قومی تہذیب نہ بنایا جائے۔

اگرچہ ملایشیا کی تاریخ میں ۱۹۹۷ء کا سال اِس لحاظ سے سب سے خراب سال رہا کہ جنوب ایشیائی ممالک کی اقتصادی ساکھ زوال پذیر ہونا شروع ہوئی۔ امپیکٹ‘ لندن کی رپورٹ کے مطابق جنوب ایشیائی ممالک کی کرنسیوں کی قدر ۴۰ سے ۲۰ فی صد رہ گئی۔ ملایشیا کے سکے رِنگٹ کی قدر میں ۶۰ فی صد کمی ہوئی‘ تاہم ملایشیا کے اندر نئی اقتصادی پالیسیوں کے سبب ملایشیا مزید زوال سے بچ گیا۔ اقتصادی بحران آتے اور جاتے رہے ہیں لیکن ڈیڑھ لاکھ ملایشیائی نوجوان اعلیٰ ترین تعلیم کے لیے اب بھی بیرون ملک ہر سال جا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس حقیقت کو بھی فراموش نہ کرنا چاہیے کہ ڈاکٹر مہاتیر محمد مغرب پر تنقید کرنے کے باوجود لبرل اکانومی اور کیپٹلزم کے مغربی اصولوںکو نافذکیے ہوئے ہیں۔

ڈاکٹر انور ابراہیم اور مہاتیر محمد کے درمیان ہونے والے اختلافات کے بے انتہا اثرات مرتب ہوئے ہیں اور ان اختلافات نے ملایشیا کی تاریخ کا رخ موڑ کے رکھ دیا ہے۔ انورابراہیم نے طالب علم لیڈر کی حیثیت سے شہرت پائی۔ طلبہ کی اسلامی تحریک’آبیم‘ کی طویل عرصے تک قیادت کی۔ طلبہ کے حقوق کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کی، ’آبیم‘ کو سیاسی جماعتوں کی آلہ کار کے بجائے خودمختار تنظیم بنایا۔ عالمی اسلامی تحریکات میں بھرم قائم کیا۔ انور ابراہیم کی حیثیت ’’مستقبل ساز‘‘ کی ہے۔ ہزاروں افراد کو بیرون ملک روانہ کیا تاکہ وہ جدید علوم اور خصوصاً انفرمیشن ٹکنالوجی میں مہارت حاصل کریں اور واپس آکر وطن کی ترقی کے لیے کام کریں۔ ۱۵‘ ۲۰ سال میں لاکھوں لوگوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کر لی اور دو کروڑ کی آبادی والا ملک‘ اقتصادی خوش حالی کی بدولت ایشیائی ممالک کے قائد کی حیثیت اختیار کرنے لگا۔ڈاکٹر انور ابراہیم بے انتہا صلاحیتوں کے مالک ہیں‘ ملے نوجوانوں میں بے انتہا مقبول ہیں۔ برسرِاقتدار ’امنو‘ پارٹی نے اُن کے اثر و رسوخ سے فائدہ حاصل کرتے ہوئے انھیں پارٹی کا ممبر بنایا‘ وزیرخزانہ بنایا اور قلیل مدت میں وہ نائب وزیراعظم اور مہاتیرمحمد کے دست راست کے طور پر پہچانے جانے لگے۔ یہ بات بھی کی جاتی ہے کہ حکمران پارٹی میں شامل کر کے مہاتیر محمد نے انور ابراہیم کو اُس کی اسلامی شناخت سے الگ تھلگ کر دیا۔ حکومت کے ساتھ تعاون کے عمل کو ’پاس‘ نے اچھی نگاہ سے نہ دیکھا اور اسے نفاذ اسلام کی راہ روکنے کے مترادف قرار دیا۔

ڈاکٹر مہاتیر محمد کی عمر ۷۵ برس ہے ‘وہ میڈیکل ڈاکٹر ہیں اور نسلی طور پر خالص ملے نہیں ہیں۔ اُن کے اجداد نے برعظیم سے ہجرت کی تھی اور انھیں خدمت اسلام کا سعودی حکومت کی طرف سے اعلیٰ ترین اعزاز بھی مل چکا ہے۔ لیکن وہ شخصی اقتدار پر کسی بھی صورت میں آنچ نہیں آنے دینا چاہتے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت انور ابراہیم کے خلاف سازش‘ گرفتاری اور طے شدہ سزا ہے۔ ملایشیا کے عوام مطمئن تھے کہ مہاتیر کے ساتھ کسی حادثے کی صورت میں ڈاکٹر انور ابراہیم عنانِ اقتدار سنبھالیں گے۔ انور ابراہیم نے کوشش کی کہ وہ ’امنو‘ کے صدر بن جائیں۔ یہ بات ڈاکٹر مہاتیر کو پسند نہ آئی۔ ۱۹۹۸ء میں بے جا الزامات عائد کر کے انور کو گرفتار کر لیا گیا۔ بعدازاں سزا بھی سنا دی گئی۔ انور ابراہیم کے واقعے کے بعد ’امنو‘ کے ہزاروں لوگ پارٹی سے الگ ہو گئے۔ کم از کم تین لاکھ افراد نے اسلامی پارٹی کی رکنیت اختیار کر لی۔ انور ابراہیم کے واقعے نے نہ صرف مہاتیر کا تصور گدلا کیا بلکہ ان کے حامیان اسلام کے دوست ہونے کی قلعی بھی کھل گئی۔ ان کا موجودہ جانشین عبداللہ بیضاوی‘ کسی طور انورابراہیم کی ٹکر کا نہیں ہے۔

انور ابراہیم کی بیگم نے کادلان (انصاف) پارٹی قائم کی‘ انتخاب میں حصہ لیا اور ۷ نشستیں جیت لیں۔ انور کا خیال ہے کہ مہاتیر اور اس کے خاندان کی بدعنوانیاں ظاہر کرنے کی اسے سزا مل رہی ہے۔ ہفت روزہ اکانومسٹ‘ لندن انور کے خلاف اقدامات کو مہاتیر محمد کی عظیم ترین غلطی قرار دیتا ہے۔

اسلامی پارٹی ملایشیا کے راستے میں دو بڑی رکاوٹیں ہیں۔ ملایشیا میں ملے نسل آبادی کا ۶۰ فی صد ہے‘ جب کہ چینی النسل باشندے اور ہندو بھی ملایشیا کے قانونی شہری اور ملک کی تعمیروترقی میں برابر کے شریک ہیں۔ ’پاس‘ اگر غیر ملے آبادی کے اندر اثر و رسوخ قائم کر لے اور قومی مفاہمت کے ذریعے اسلام کے نظام عدل کے اندر انھیں سمیٹ لے تو بالکل ممکن ہے کہ آیندہ وہ اسمبلی کی سب سے بڑی قوت بن کر اُبھرے۔

’پاس‘ کے لیے دوسرا بڑا چیلنج یہ ہے کہ اس کے بارے میں ابھی تک یہ تصور ہے کہ یہ غریب غربا پارٹی ہے یا کسانوں کی پارٹی ہے‘ یا مولوی حضرات کی پارٹی۔ اگرچہ عبدالہادی اوانگ‘ حاجی فاضل نور اور مصطفی علی  اور ازمان سید احمد نے پارٹی کو اسلام کے اصولوں پر عمل پیرا ‘روشن خیال‘ کاروبارِ مملکت احسن انداز میں چلا سکنے والی باعمل پارٹی کے طور پر متعارف کرایا ہے‘ تاہم بہت سا کام ابھی باقی ہے۔اس پارٹی کے پاس سیکڑوں

آئی ٹی ماہرین موجود ہیں۔ تعلیم‘ میڈیا اور بنک کاری کے میدان میں ماہرین اور منتظمین کی کھیپ تیار ہو رہی ہے۔ ’پاس‘ کے تجربے نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اکثریت سے رابطہ رکھ کر اور اصولوں پر مبنی پالیسیاں اختیار کر کے

 عوام الناس کی اکثریت کو ہم نوا بنایا جا سکتا ہے اور کلمۃ اللّٰہ ھی العلیا کی منزل حاصل کی جا سکتی ہے۔

’پاس‘ نے اپنے قائدین کی تحریروں پر مبنی لٹریچر کی وسیع پیمانے پر اشاعت شروع کر رکھی ہے۔ تحریک کے آغاز کے دنوں میں جس جماعت کے پاس ٹائپ رائٹر بھی نہ ہوتا تھا‘ اب اُن کے کروڑوں کے اثاثے ہیں۔ جب سہ روزہ حرکۃ پر پابندی لگی تو انٹرنیٹ کے ذریعے ’پاس‘ کے بارے میں معلومات ہر لمحے فراہم کی جاتی رہیں۔ ’پاس‘ کے باضابطہ ممبران کی تعداد ۴۵ لاکھ ہے اور ہر سطح کے نظم میں خواتین بھی شامل ہیں۔ آیندہ دور میں نہ صرف ملایشیا بلکہ پورے علاقے کی سیاسی صورت حال پر ’پاس‘ فیصلہ کن اثرات مرتب کر سکتی ہے۔

کادلان پارٹی‘ چائینز پارٹی اور ’پاس‘ نے ایک اتحاد تشکیل دے رکھا ہے اور اُس کا یک نکاتی ایجنڈا reformasi (اصلاحات)ہے۔اس کا مقصدیہ ہے کہ برسرِاقتدار ’امنو‘ پارٹی نظام حکومت میں ایسی اصلاحات کرے کہ سیاسی رواداری پروان چڑھے اور مخالفین کو تشدد کے بعد جیل خانوں میں نہ ڈال دیا جائے۔ علاوہ ازیں ملے اور غیر ملے قومیتیں جو ملایشیا میں موجود ہیں وہ اپنے طریق زندگی کے مطابق زندگی گزاریں‘ لیکن ملایشیا کی اسلامی حیثیت کو متاثر نہیں ہونا چاہیے۔ حزب اختلاف کی حکومت ہونے کے سبب ترنگانو صوبے کی گیس اور تیل کی رائلٹی جو کروڑوں ڈالر تک پہنچ رہی ہے روکے رکھنا نہ جمہوریت ہے نہ انصاف!

مہاتیر محمد کے بعد ’امنو‘ کے اندر کوئی ایسا باصلاحیت لیڈر موجود نہیں ہے کہ جو معاشی ترقی کی رفتار اور ملک کے اندر جاری و ساری داخلی جبر کو یکساں برقرار رکھ سکے۔ چند ماہ قبل  ’ملے اتحاد‘ کے نام سے برسرِاقتدار پارٹی نے ایک پانسہ پھینکا اور ’پاس‘ کو ہم نوا بنانے کی کوشش کی لیکن ’پاس‘ اس سازش کا شکار نہ ہوئی۔ ’امنو‘ کے وزرا کرام کے سوٹ کیسوں سے بدعنوانی کے کروڑوں ڈالر برآمد ہوئے لیکن مہاتیر نے اس پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ اس صورت حال میں ’امنو‘ کے محفوظ مستقبل کی کون پیش گوئی کر سکتا ہے! ’پاس‘ اپنے کارکنان کی لگن اور پایدار پالیسیوں اور دیگر اقوام ملایشیا کے ساتھ مفاہمت کے رویے کے ساتھ آگے بڑھتی ہے تو چند برسوں بعد ملایشیا ’پاس ‘کے زیر اقتدار ہوگا!