سید قاسم محمود اردو کے معروف ادیب‘ مصنّف‘ مولف‘ مترجم اور منصوبہ سازناشر ہیں۔ گذشتہ تین چار دہائیوںمیں انھوں نے جو مختلف النوع علمی منصوبے تیار کیے‘ کتابیں تصنیف و تالیف اورشائع کیں‘ اور جو رسالے جاری کیے‘ ان کا سرسری جائزہ لینا بھی آسان نہیں ہے۔ حال ہی میں انھوں نے علم القرآن کے عنوان سے قرآن حکیم کے ۳۰ پارے ‘انگریزی اور اردو ترجمے اور مختصر تفسیری حواشی کے ساتھ مرتب کر کے شائع کیے ہیں۔ اسے انھوں نے ’’اردو کی بہترین تفاسیر کا انتخاب‘‘ کا نام دیا۔ پہلا کالم: اردو ترجمہ‘ مولانا فتح محمد جالندھری‘ دوسرا کالم: انگریزی ترجمہ‘ عبداللہ یوسف علی‘ تیسرا کالم: ترجمانی یا ترجمہ‘ سید ابوالاعلیٰ مودودی۔
سرورق پر ۲۳ مفسّرین کی فہرست دی گئی ہے۔ لیکن تفسیری حواشی میں خاصا اختصار ہے (یہ مناسب بھی ہے ورنہ ضخامت بڑھ جاتی)۔ پارہ نمبر ۵ تک حواشی ‘ علم القرآن کے عنوان سے ہر پارے کے آخر میں سورت اور آیت کا حوالہ دے کر عنوان وار دیے گئے ہیں۔ مگر پارہ نمبر ۶ سے تفسیری حواشی کو حسب موقع‘ آیات کے تراجم کے ساتھ ہی منسلک کر دیا گیا ہے۔ بعض موضوعات پر مستقل اور مفصّل مضامین‘ پاروں کے آغاز و اختتام پر شامل کیے گئے ہیں‘ جیسے:’’تاریخ حدیث‘‘ اور ’’تاریخ فقہ‘‘ از ڈاکٹر محمد حمیداللہ (جو دراصل ان کے خطبات بہاول پور ہیں)۔ ’’قرآن کا طرزِ استدلال‘‘ از حمیدالدین فراہی۔ ’’قرآن مجید کے حروف مقطّعات‘‘ از الطاف علی قریشی۔ جنگ بدر اور جنگ تبوک پر مصباح الدین شکیل کے مفصل مضامین (مگر جنگ خندق پر صرف ۷سطریں؟)۔ ’’انسانی پیدایش کے چھ مراحل‘‘ ابوالکلام آزاد۔ ختم نبوت کے اہم موضوع پرایک گونہ تشنگی کا احساس ہوتا ہے۔
زیرنظر کتاب میں‘ مدیر کے بقول: ’’اردو کی بہترین اور دستیاب تفاسیر کا انتخاب و خلاصہ پیش کیا گیا ہے۔ مفسّرین کے ناموں سے زیادہ ان کی تفسیروں پر توجہ مرکوز رہی ہے۔ طریقہ یہ رہا ہے کہ مختلف تفاسیر سے جملے اُٹھا کر انھیں اس طرح باہم شیروشکر کر دیا گیا ہے کہ یہ معلوم ہونا دشوار ہو گیا ہے کہ کون سا جملہ کس
مکتب فکر کے مفسّرکا ہے۔ گویا تمام مفسّرین ایک مجلس میں یک جا ہو کر محو کلام ہیں‘‘۔ (پارہ ۱‘ ص ۱۱)
سرورق پر ۲۳ مفسّرینکے نام درج ہیں‘ مگر قاسم محمود صاحب کہتے ہیں کہ ’’یہ فہرست تو محض علامت ہے‘ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ جتنی بھی تفاسیر دستیاب ہیں‘ وہ میرے زیرمطالعہ ہیں‘‘ (دیباچہ ‘ پارہ ۲)۔ ابتدا میں مفسّرین کی فہرست میں محمد علی لاہوری کا نام بھی شامل تھا‘ اس پر اعتراض ہوا تو انھوں نے لکھا: ’’جن مفسّرین کی تصانیف میرے زیرمطالعہ رہتی ہیں‘ ان میں بہت سے غیر مسلم ہیں‘ یہود بھی‘ نصاریٰ بھی‘ ہنود بھی---‘‘ (دیباچہ‘ پارہ ۶)۔ سرورق پر موجودہ فہرست میں‘ مفسّرینکی فہرست میں ’’جناب غلام احمد پرویزؒ‘‘ ]کذا [کا
نامِ نامی بھی شامل ہے۔ اس پر بھی ایک صاحب نے اعتراض کیا تو قاسم محمود صاحب نے جواب میں میر تقی میر کے ایک شعر کا سہارا لے کر‘ اپنی ’’وسیع المشربی‘‘ کا حوالہ دیا--- ’’وسیع المشربی‘‘ بلاشبہ اچھی بات ہے‘ مگر اس صورت میں انھیں ان تمام یہود و ہنود اور نصاریٰ ]نیزقادیانی ‘ منکرین حدیث‘ بلکہ بہائی [مفسّروں کے نام بھی سرورق پر درج کرنے کی جرأت کرنی چاہیے تھی‘ جن کی تفسیریں اُن کے ’’زیرمطالعہ‘‘ رہیں--- ظاہر ہے کہ ایسا کرنا‘ ان کے لیے ممکن نہیں تو پھر محض لفظی طور پر وسیع المشربی کا ’’قشقہ‘‘ کھینچنے کا فائدہ؟ ہمارا خیال ہے کہ جب وہ یہ کہتے ہیں کہ میں’’متفق علیہ بات ہی درج کروں گا‘‘ (دیباچہ‘ پارہ ۶)‘ تو پھرتفاسیر یا مفسّرینکے ضمن میں بھی اسی اصول کو پیشِ نظر رکھناچاہیے تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو ’’متعّہ‘‘ اور اس طرح کے دیگر مسائل پر دیے گئے تفسیری حواشی پر بھی اعتراضات سے بچا جا سکتا تھا۔
مجموعی حیثیت سے علم القرآن ایک قابل قدر کاوش ہے‘ ہماری تجویز ہے کہ اول: سرورق پر مفسرین کی فہرست دینے کی ضرورت نہیں۔ دوم: زیرنظر پاروں کے شروع میں وہ اداریے جوں کے توں شامل ہو گئے ہیں جو ہر ماہ رسالے میں علوم القرآن کی اوّلیں اشاعت کے موقع پر تحریر کیے جاتے تھے‘ اب انھیں ترمیم و نظرثانی کے بعد ہی پاروں کے ساتھ شامل رکھنا چاہیے--- اس صورت میں‘ ہمارا خیال ہے کہ بعض اعتراضات بڑی حد تک دُور ہو جائیں گے۔
یہ امر خوش آیند ہے کہ قاسم محمود صاحب نے احادیث نبویؐ کا ایک انتخاب پیش کرنے کا وعدہ بھی کیا ہے (دیباچہ‘ پارہ ۲۹)۔ دیکھیے‘ کب پورا ہوتا ہے! (رفیع الدین ہاشمی)
پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نگاہ ڈالی جائے تو یوں نظر آتا ہے جیسے یہاں حکومت کا دوسرا نام
’’فوجی کنٹرول‘‘ ہے۔ اس لیے پاکستان کی سیاسی تاریخ لکھی جائے تو اس کا زیادہ تر حصہ فوجی حکومتوں کے جواز‘ عدم جواز اور تجربات و مضمرات ہی پر مشتمل ہوگا۔
پاکستان میں فوجی حکومتیں ایک اہم موضوع ہے مگر اس کتاب کے مطالعے سے معلوم ہوتاہے کہ عجلت پسندی کے ہاتھوں موضوع کا صحیح معنوں میں نہ احاطہ ہو سکا اور نہ اس کا صحیح تجزیہ ہی کیا جا سکا۔ کتاب میں زیربحث موضوع کے مختلف پہلوئوں کو سرسری بیانات کے ذریعے اور غیرمناسب انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ بعض جگہ اسلوب رپورتاژ کا ہے اور بعض مقامات پر افسانہ نگاری کا۔ چار ناکام فوجی سازشوں پر جوبات کی گئی ہے‘ وہ نہایت تشنہ اور ادھوری ہے۔ مثال کے طور پر پنڈی سازش (ص ۳۳-۳۸)‘ ۱۹۷۲ء سازش (ص ۲۷۸-۲۷۹)‘ جنرل تجمل سازش (ص ۳۳۵-۳۳۷)‘ بریگیڈیر عباسی سازش (ص ۳۸۱-۳۸۲)۔ قاری بجا طور پر جاننا چاہتا ہے کہ ان سازشیوں کا پروگرام کیا تھا؟ ان کے مقاصد کیا تھے ؟ ان کے اثرات کیا مرتب ہوئے؟ لیکن اس حوالے سے اس کتاب کے صفحات خاموش ہیں۔
مولف نے ثانوی بلکہ پروپیگنڈا لٹریچر پر زیادہ انحصار کیا ہے‘ اسی لیے وہ لکھ گئے ہیں: ’’لاہور کے گول باغ میں شیخ مجیب الرحمن کے جلسے ]۱۹۷۰ء[ میں جماعت اسلامی نے ہنگامہ کر دیا تھا اور وہ اسٹیج پر ڈٹے رہے تھے (ص ۲۳۹)۔ یہ بات سرے سے غلط اور گمراہ کن ہے۔ اگر فاضل مولف اس زمانے کے چار پانچ روزناموں کو دیکھ لیتے تو ایسی بے سروپا بات نہ لکھتے۔ اسی طرح وہ لکھتے ہیں: ’’جماعت اسلامی نے ]۱۹۷۰ء میں[ اپنے ]قومی اسمبلی کے[ ۱۰۱‘ امیدواروں کا اعلان کیا تو ان میں کوئی بھی امیدوار مشرقی پاکستان سے نہ تھا‘‘ (ص ۲۴۰)۔ حالانکہ ۱۹۷۰ء کے انتخابات میں جماعت اسلامی نے مغربی پاکستان میں قومی اسمبلی کی ۸۰ اور مشرقی پاکستان سے ۷۱ نشستوں پر انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ مشرقی پاکستان میں جماعت کے قومی اسمبلی کے امیدواروں نے ۱۰ لاکھ ۴۴ ہزار ۱۳۵ (۰۷.۶ فی صد)ووٹ لیے اور وہ عوامی لیگ کے بعد دوسرے نمبر پر رہے‘ جب کہ مشرقی پاکستان سے صوبائی اسمبلی کی ۱۷۴ نشستوں پر جماعت نے حصہ لیا‘ (دیکھیے: رپورٹ آف جنرل الیکشنز ۱۹۷۰ء‘ اسلام آباد)۔ اس نوعیت کی اور بھی کئی باتیں ہیں جو کتاب کی ثقاہت کو بری طرح مجروح کرتی ہیں۔ (سلیم منصور خالد)
شیخ محمد الغزالی ؒ(م: ۹ مارچ ۱۹۹۷ء) امام حسن البنا شہیدؒ کے اولین ساتھیوں میں سے تھے۔ تعلیم و تعلّم سے وابستہ رہے۔ اُم القریٰ یونی ورسٹی‘ مکہ مکرمہ میں تدریس کے فرائض سرانجام دیے۔ جامعہ الامیر عبدالقادر‘ الجزائر میں علمی مجلس کے صدر رہے۔ دُنیا کے کئی ممالک کا دورہ کیا اور پانچ درجن تصانیف یادگار چھوڑیں۔
محمد ظہیر الدین بھٹی نے شیخ کی خود نوشت سوانحِ حیات کا اردو ترجمہ پیش کیا ہے۔ ابتدا میں شیخ کی خدمات اور فکروفن پر بعض نام ور عرب تحریکی شخصیات کے مضامین بھی شامل ہیں۔ مترجم نے شیخ کی ذات اور دعوتی زندگی پر خود بھی ایک مختصر تعارفی مضمون سپردِ قلم کیا ہے۔
احیاے دین کی مبارک جدوجہد دنیا کے جس حصے میں بھی جاری و ساری ہو‘ اُس کے متعلقین بھی اور اُس کے قائدین بھی‘ اِس چیز کے مستحق ہیں کہ اُن کی ذاتی زندگی اور اجتماعی جدوجہد کو وسیع پیمانے پر نشر کیا جائے تاکہ نشات ثانیہ کے علم بردار ایک دوسرے سے توانائی حاصل کر سکیں اور ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھا سکیں۔ محمد ظہیر الدین صاحب مبارک باد کے مستحق ہیں کہ عالم عرب اور مسلم دنیا کے حوالے سے ان کا قلم رواں ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے نہ صرف شیخ کی ذاتی زندگی کے حوادث و حاصلات کا پتا چلتا ہے بلکہ اخوان المسلمون میں شرکت کے بعد جو جو تجربات دعوتی اور سیاسی جدوجہد کے میدان میں ہوئے اُن کا بھی کہیں اجمالی اور کہیں تفصیلی ذکر ملتا ہے۔ شیخ نے ۱۹۵۶ء میں اخوان سے علیحدگی کے باوجود اپنی جدوجہد تمام عمر جاری رکھی۔ حکومت نے انھیں اخوان کے خلاف استعمال کرنا چاہا۔ انھوں نے جیل جانا قبول کر لیا لیکن اخوان کے خلاف الزام تراشی اور بیان بازی سے احتراز کیا۔ سوانح نگاری ایک دلچسپ فن ہے اور سوانح حیات دل چسپی کے ساتھ پڑھی جاتی ہیں‘ تاہم اس کتاب میں کہیں کہیں واقعات کی تکرار محسوس ہوتی ہے۔ اسلامی تحریک نشات‘ عالم عرب اور اخوان المسلمون کے موضوعات پر یہ ایک مفید کتاب ہے۔ (محمد ایوب منیر)
یہ مصنف ۱۵ اگست ۱۹۴۷ء کو سری نگر کے ایک کالج میں بطور لیکچرر کام کر رہے تھے۔ شیخ عبداللہ کو اقتدار ملا تو نیشنل کانفرنس کے ’’ہوم گارڈز‘‘ میں بطور کمانڈر ان کا تقرر ہو گیا اور اس حیثیت میں وہ جموں اور کشمیر کے مختلف علاقوں میں اپنے فرائض انجام دینے لگے۔ لیکن حالات سے بددل یا مایوس ہو کر بہت جلد (جنوری ۱۹۴۸ء میں) وہ اپنی ’’ہوم گارڈز کی کمانڈری والی بندوق سمیت‘‘ آزاد کشمیر چلے آئے (کچھ عرصہ حکومت آزاد کشمیر کی ملازمت میں رہے پھر برطانیہ چلے گئے اور وہیں کے ہو رہے)۔محمود ہاشمی نے کشمیر میں اپنے چند ماہ کے مشاہدات اور ان سے اُبھرنے والے تاثرات و احساسات کو ادبی پیرایے میں بیان کیا ہے۔ چار مضامین پر مشتمل یہ رپورتاژ پہلے پہل ۱۹۵۰ء میں شائع ہوا تھا۔ اب اسے ایک طویل اختتامیے کے اضافے کے ساتھ دوبارہ (بلکہ سہ بارہ) شائع کیا گیا ہے۔ نصف صدی پرانی یہ کتاب آج بھی اتنی ہی بامعنی اور تروتازہ ہے جتنی ۵۰ سال پہلے تھی‘ بلکہ کشمیر کی حالیہ تحریک آزادی کے حوالے سے شاید اس کی معنوی اور ادبی قدروقیمت اور زیادہ ہو گئی ہے۔
اردو کے چوٹی کے نقادوں نے محمود ہاشمی کے اس رپورتاژ کی تعریف کی ہے۔ درحقیقت اس رپورتاژ میں مولف نے اپنے مشاہدات اور تاثرات کے ساتھ تاریخ کے نشیب و فراز کو بھی آمیز کیا ہے۔ یہ کشمیر کی باقاعدہ تاریخ نہیں لیکن اس میں کشمیری جدوجہد آزادی کے سارے نشیب و فراز‘ موڑ اور اہم اور نازک لمحات اور بیشتر کردارآگئے ہیں۔ ۷۵ لاکھ میں جموں و کشمیر کی خریداری‘ ۱۹۳۰ء میںغلامی اور جبر کے خلاف اہل کشمیر کی پہلی باغیانہ آواز‘ مہاراجا کے انسانیت سوز مظالم‘ شیخ عبداللہ کا کردار (طریق کوہ کن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی--- بقول مصنف: ’’تاریخ کے صفحات میں جہاں کلائیو اور امی چند ملے ہیں‘ انھیں کوئی نہ کوئی میرجعفر بھی ملا ہے‘‘ ص ۳۹۔ یہ تگڈم مائونٹ بیٹن‘ نہرو اور شیخ عبداللہ سے مکمل ہوتی ہے)۔ ہری سنگھ کا سری نگر سے فرار‘ نیشنل کانفرنس والوں کی لوٹ مار وغیرہ۔ رپورتاژ میں کہیں کہیں چھوٹی موٹی کہانیاں بھی ہیں مگر ان معمولی کہانیوں کے پس پردہ اہم حقائق صاف نظر آ رہے ہیں۔
مصنف نے کشمیری صحافی شمیم احمد شمیم کا یہ دل چسپ تجزیہ نقل کیا ہے: ’’شیخ عبداللہ ہماری امیدوں اور آرزوئوں کا مرکز بھی ہیں اور مدفن بھی۔ ان کی ذات سے ہماری تحریک کی صبح بھی عبارت ہے اور شام بھی۔ وہ ایک خوب صورت آغاز اور حسرت ناک انجام کی علامت ہے‘‘ (ص ۳۳۸)۔ شیخ عبداللہ نے اپنے بیٹے فاروق عبداللہ کو اپنی مسند پر بٹھایا۔ محمود ہاشمی نے (بھارت اور پاکستان کے سیاسی منظر کے حوالے سے) پتے کی بات کہی ہے کہ برسرِاقتدار والد یا والدہ صرف اپنے بیٹے بیٹی کو ہی اُس منصب کے لائق سمجھتے ہیں جو حالات نے انھیں عطا کیا ہو اور جمہوریت میں ملوکیت کا یہ پیوند سیاست کا اٹوٹ انگ بنتا جا رہا ہے ۔(ص ۳۴۰)
کشمیر اُداس ہے پرمغز ‘ دل چسپ اورقابل مطالعہ کتاب ہے۔ ایک ایسی خوب صورت ادبی تخلیق‘ جس کے پس پردہ مصنف کی دردمند شخصیت جھلکتی ہے۔ مصنف کا مشاہدہ گہرا اور بصیرت قابل داد ہے۔ ۵۰سال پہلے محمود ہاشمی نے جو تجزیہ کیا آج بھی وہ صحیح اور برمحل معلوم ہوتا ہے۔ مصنف کے ایک دوست اور ہوم گارڈز میں ان کے ساتھی اپورب نے ایک بار جذباتی انداز میں ان سے پوچھا تھا: ’’وہ صبح جس کے ہم انتظار میں ہیں‘ جانے کب ہو؟‘‘ اس کا حتمی جواب کون دے سکتا ہے مگر اس میں شبہ نہیں کہ زیرنظر کتاب کی تحریر و تصنیف کے ۵۰ سال بعد آج بھی: ’’کشمیر اُداس ہے!‘‘۔ (ر - ہ )
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ (۲۶۱ھ) کے مشہور رسالے‘ رفع الملائم عن آئمۃ الاعلام کے سلیس اور باقاعدہ ترجمے (پروفیسر غلام احمد حریری) کو جناب محمد خالد سیف نے ایک بھرپور مقدمے اور تخریج کے ذریعے مزید مستند و محقق بنا دیا ہے۔فاضل مترجم نے اپنے مقدمے میں ائمہ اربعہ کے حالات زندگی اور اتباع کتاب و سنت کے حوالے سے اقوال نقل کیے ہیں۔ مقدمہ نگار نے سنت و حدیث کی حجیت پر عقلی و نقلی دلائل پیش کیے ہیں اور منکرین و مستشرقین کے اعتراضات کو مدنظر رکھ کر ان کا جواب دیا ہے۔
امام ابن تیمیہؒ نے اپنے اس رسالے میں اکابر علما خصوصاً ائمہ اربعہ کی جانب منسوب اس غلط فہمی کا ازالہ کیا ہے کہ انھوںنے دانستہ حدیث نبویہؐ کو نظراندازکر کے اپنے مقلدین کو اپنے اقوال و افکار کی پیروی کا حکم دیا۔ بقول امام ابن تیمیہؒ: ’’کسی امام نے بھی سنت رسولؐ سے کبھی انحراف نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کوامت کی جانب سے قبول عام کی سند حاصل ہوئی‘ البتہ جب کسی امام کا قول حدیث صحیح کے خلاف ہو تو اس حدیث کے ترک کرنے کی وجہ ان کے ہاں ضرور ہوگی۔ وہ عذر یہ ہیں کہ امام سمجھتا ہو گا کہ حضورؐ نے یہ حدیث سرے سے ارشادنہیں فرمائی۔ امام کے نزدیک اس کا مفہوم وہ نہ ہوگا جو قائل سمجھا‘ یا امام کے نزدیک حدیث منسوخ ہو گی۔ امام صاحب نے مذکورہ تینوں قسموں کے ۱۰ اسباب گنوائے ہیں اور فرمایا ہے کہ کتاب و سنت سے اخذ و استنباط میں اپنی اپنی مہارت اور اصول و ضوابط کے مطابق استخراجِ مسائل کی وجہ سے جو اختلاف پیدا ہوا وہ اجتہادی بصیرت کے ضمن میں آتا ہے۔ اس ضمن میں خطا یا صواب دونوں میں اجر و ثواب ملتا ہے۔
امام ابن تیمیہؒ نے حدیث و آثار اور اقوال صحابہ و تابعین سے بکثرت ایسی مثالیں پیش کی ہیں جن میں صحابہ کرامؓ ‘ تابعین عظام اور ائمہ اربعہ کے مابین استنباط میں اختلاف ہوا مثلاً کسی کے ہاں وہ حدیث پہنچی ہی نہیں‘ کسی نے اس کو مخصوص جانا‘ کسی نے مقید‘ کسی نے اسے منسوخ قرار دیا۔ ایک امام بعض اوقات
ایک حدیث کو اس لیے نظرانداز کر دیتا ہے کہ وہ حدیث سند کے لحاظ سے اس کے ہاں صحیح نہیں ہوتی‘ علیٰ ہذا القیاس۔ پورا رسالہ اسی قسم کے اسباب و وجوہ پر مبنی ہے۔ البتہ ائمہ اربعہ کا موقف یہی ہے کہ اصل دین
کتاب و سنت کی پیروی کا نام ہے اور یہ آئمہ اربعہ کتاب و سنت کا سب سے زیادہ علم رکھنے والے تھے۔
کتاب عمدہ انداز میں شائع ہوئی ہے۔ مضبوط جلد‘ عمدہ کمپوزنگ اور بہترین تدوین نے کتاب کے حسن کو مزید نکھار دیا ہے۔ (حافظ محمد سجاد تترالوی)