دسمبر ۲۰۰۹

فہرست مضامین

قرآن کی سیاسی و معاشی تعلیمات اور تاریخِ عالم

پروفیسر عبدالقدیرسلیم | دسمبر ۲۰۰۹ | نظامِ حیات

Responsive image Responsive image

مسلمانوں کا دعویٰ ہے کہ قرآنِ مجید ایک عہدآفرین کتاب ہے۔ اس کتاب کے نزول اور پھر اس کی اشاعت کے بعد دنیا وہ نہ رہی، جو اس سے قبل تھی اور نہ پھر کبھی وہ بن سکے گی۔ لیکن یہ دعویٰ تو اُس قوم کا ہے، جو اس کے الہامی اور مِن جانب اللہ ہونے کو بحیثیت نقطۂ آغاز تسلیم کرتی ہے۔ جو لوگ اس بنیادی مقدمے ہی کو تسلیم نہیں کرتے کہ یہ کُل انسانیت کے نام اللہ کا آخری پیغام اور اس کی ہدایت کا غیرمُبدّل ذریعہ ہے، اُن کے لیے اس دعوے کو جانچنے کا کیا ذریعہ ہوسکتا ہے؟

میرے خیال میں اس کے متعدد ذرائع ہوسکتے ہیں، اور مختلف زاویوں سے ہم اس مسئلے کی طرف توجہ کرسکتے ہیں، مثلاً قرآنِ مجید کی اِن پیش گوئیوں ہی کو لیجیے:

لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ (المجادلہ ۵۸:۲۱) میں اور میرا رسولؐ غالب آکر ہی رہیں گے۔

اِنَّـآ اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ o فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ o اِنَّ شَانِئَکَ ھُوَ الْاَبْتَرُ o (الکوثر۱۰۸:۱-۳) اس میں کوئی شبہہ نہیں ہے کہ ہم نے تمھیں خیرکثیر عطا کردیا ہے پس تم اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو، بلاشبہہ تمھارا دشمن ہی بے نشان ہوگا۔

قرآنِ مجید میں یہ دعوے اللہ تعالیٰ سے منسوب ہیں۔ اب سے ۱۴ سو سال پہلے صحراے عرب میں ایک شخص کھڑے ہوکر یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اللہ کا پیامبر ہے، اور پوری انسانیت کے لیے ہادی اور راہنما ہے۔ وہ کوئی جمہوری دَور نہیں تھا، جب اختلافِ راے و عقیدہ آسانی سے برداشت کرلیے جاتے ہوں۔ اب ہوتا یہ ہے کہ چاروں طرف مخالفت کا بازار گرم ہوجاتا ہے۔ جو کل دوست تھے، آج دشمن ہیں۔ قبائلی نظام میں کسی فرد کی سب سے بڑی قوت اس کے قبیلے کی پشت پناہی ہی ہوتی ہے۔ مگر یہاں تو یہ حال ہے کہ اس دعوت کی سب سے زیادہ مخالفت اور مزاحمت اس کے اپنے قبیلے اور خصوصاً اس کے بااثر سرداروں ہی کی طرف سے ہوتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس عہد کے کسی دانا انسان کے ذہن میں بھی یہ بات نہیں آسکتی تھی کہ تاریخ اب کسی نئے موڑ پر مڑنے والی ہے۔ اور تو اور آج کا کوئی بڑے سے بڑا مؤرخ یا فلسفیِ تاریخ بھی ابتدا سے تاریخِ اقوام کا گہری نظر سے مطالعہ کرتا ہوا آئے تو چھٹی صدی یا ساتویں صدی عیسوی کی ابتدا میں، اقوامِ عالم میں اُسے کوئی ایسی غیرمعمولی حرکت نہیں دکھائی دے گی، جس کی بنا پر وہ ایک عالم گیر سیاسی انقلاب کی پیش گوئی کرسکے، جس سے صدیوںپرانی سلطنتیں منہدم ہوجائیں، یا کسی ایسے معاشرتی، اخلاقی اور مذہبی انقلاب کا پتا چل سکے، جس نے نہ صرف ہزارہا سال کے انسانی تصورات اور مزعومات کو ہلاکر رکھ دیا، بلکہ انسان کی فکری تاریخ پر ایسے گہرے نقوش چھوڑے کہ اُن کے اثرات اور اثرات کے اثرات نے عالمِ فکر میں ایک زنجیری ردِّعمل برپا کردیا ہے۔ ایسا عمل، جو آج بھی جاری ہے۔

آج سے کوئی پندرہ سو سال قبل جب کسی کتاب نے ایسا دعویٰ کیا، تو سواے اُس شخص کے جو یہ کتاب لے کر آیا، اور اُن چند مٹھی بھر انسانوں کے جو اُس کی صداقت کے قائل ہوگئے تھے، کسی کو اس کا یقین نہ تھا۔ اور یہ عدمِ یقین، تاریخِ اسلام کے ایک مشہور واقعے سے بخوبی ظاہر ہوتا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغِ دین کے ابتدائی ایام میں اہلِ قبیلہ کی دعوت کا اہتمام کیا، اور اس کے بعد دعوتِ اسلام پیش کی۔ سب خاموش رہے۔ حضرت علیؓ، جو اس وقت بچے تھے کھڑے ہوئے اور بولے: ’’اگرچہ میری ٹانگیں پتلی ہیں (یعنی میں کمزور ہوں) اور آنکھوں میں آشوب ہے، تاہم میں آپؐ کا ساتھ دوں گا‘‘۔ آپؐ کا چچا ابولہب بولا: ’’یہ چہل سالہ بوڑھا اور یہ لڑکا دنیا کو بدلنے چلے ہیں!!‘‘۱؎

قرآنِ مجید کے انقلابی اثرات کا جائزہ ایک دوسرے انداز میں بھی لیا جاسکتا ہے۔ ایک جگہ کہا گیا ہے:

وَ قِیْلَ لِلَّذِیْنَ اتَّقَوْا مَاذَآ اَنْزَلَ رَبُّکُمْ ط قَالُوْا خَیْرًا لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا فِیْ ھٰذِہِ الدُّنْیَا حَسَنَۃٌ ط وَ لَدَارُ الْاٰخِرَۃِ خَیْرٌ ط وَلَنِعْمَ دَارُ الْمُتَّقِیْنَ o (النحل ۱۶:۳۰) اور جب اُن لوگوں سے جنھوں نے تقویٰ اختیار کیا ہے، کہا جاتا ہے کہ تمھارے پروردگار نے کیا نازل کیا ہے؟ تو وہ کہتے ہیں: ’’ہمارے رب نے خیرنازل فرمایا ہے‘‘۔ وہ لوگ جنھوں نے اعمالِ حسنہ کیے ہیں، اُن کے لیے اس دنیا میں بھی بھلائی ہے، اور آخرت کا گھر تو بہتر ہے ہی، اور اہلِ تقویٰ کا ٹھکانا ضرور ہی اچھا ہوگا۔

یہاں قرآنِ مجید میں خود مسلمانوں کے منہ سے اِس کی کُل تعلیمات کے لیے ایک نہایت جامع لفظ ’خیر‘ استعمال کرایا گیا ہے۔ گویا قرآنِ مجید میں جو کچھ تلقین و تعلیم ہے، سراسر خیر ہی خیر ہے۔ اس میں تمام انسانیت کی بھلائی مضمر ہے۔

آیئے ایک نظر حیاتِ انسانی کے اہم انفرادی و اجتماعی اداروں اور نظاموں پر ڈال کردیکھیں کہ قرآنِ مجید کی تعلیمات سے وہ کس طرح اور کس حد تک متاثر ہوئے ہیں۔ اس گفتگو کے لیے ہم نے فی الحال صرف دو اداروں، سیاست و معیشت کو منتخب کیا ہے، ورنہ قرآنِ مجید کے اثرات تو انسانی زندگی پر ہمہ گیر ہیں۔ تصورِ مذہب، اخلاق، علم و تعلیم اور معاشرت پر اس کے اثرات کا کُلی طور پر احاطہ کرلینا تقریباً ناممکن ہے۔

قرآنِ مجید کی تعلیمات کے سیاسی اثرات کو ملاحظہ کرنے کے لیے اس عہد کے فلسفۂ سیاست پر ایک نظر ڈالنا ہوگی:

  •  انسانی تاریخ کے اسٹیج سے پہلے پہل جب پردہ اُٹھتا ہے تو شرقِ اوسط اور مصر کی اقوام منصہ شہود پر نظر آتی ہیں۔ ان تہذیبوں میں جمہوریت یا عوامی حکومت کا کوئی تصور نظر نہیں آتا۔ حکومتیں خاندانی یا موروثی ہوتی تھیں۔ قدیم بابل اور آشوریا میں حکمران کا اقتدار مطلق ہوتا تھا۔ مطلق العنان حکمرانوں کو اپنے عوام کی زندگی اور موت پر کُلی اختیار تھا۔ حکومت کی پالیسی، قانون سازی، اس کے نفاذ کے ادارے، سب انھی کے کنٹرول میں ہوتے تھے۔ اگر کوئی تحدید تھی، تو بعض رسوم ورواج کی، یا طاقت ور قبائلی سرداروں یا اشرافیہ کی بغاوت کے خطرے سے تھی۔ عوام کے کوئی حقوق کہیں نظر نہیں آتے۔ اُن کی قسمت کا دارومدار کلیتاً اس بات پر تھا کہ جو شخص تخت پر قبضہ کرلیتا ہے، وہ ظالم، جابر اور لاپروا ہے، یا اس کے دل میں رحم دلی کی کوئی رمق باقی ہے۔
  •  دنیا میں جمہوریت کا عکس سب سے پہلے ہمیں یونان میں نظر آتا ہے۔ ۷۰۰ قبل مسیح میں ایتھنز میں موروثی بادشاہت کے بجاے بعض اشراف کی حکومت کا بیج پڑا۔ اشرافیہ کے تحت لوگوں نے حقوق طلب کرنے شروع کیے اور آخرکار ۵۰۰ ق م کے لگ بھگ لوگوں نے حکمرانوں کے انتخاب، قانون سازی اور منصفوں کے تقرر کے پورے اختیارات حاصل کرلیے۔ لیکن پھر تیسری صدی قبل مسیح میں مقدونیہ کی طاقت ور بادشاہت کے آگے یونانی جمہوریتیں تاش کے پتّوں کی طرح بکھر گئیں۔
  •  روم میں بھی ابتدائً شہر کے ’اشراف‘ خاندانوں ہی کے ہاتھ میں اقتدارِ کُلی ہوتا تھا، مگر   جوں جوں باہر سے زیادہ لوگ شہر میں آکر آباد ہوتے گئے، حقوق کے لیے چیخ و پکار بڑھتی گئی۔ آخرکار ۵۱۰ قبل مسیح میں عام لوگوں نے تختِ شاہی کو اُلٹ دیا۔ جنگ کے قابل تمام لوگ ہر سال جمع ہوکر دو کونسل (consul) منتخب کرنے لگے۔ مگر یہ تو جمہوریت نہ تھی کہ ’قابلِ جنگ لوگ‘ (comitia curiata)، صرف اُمرا ہی ہوتے تھے۔ یہ گروہ سینیٹ کے ساتھ اقتدارِ اعلیٰ کا شریک ہوتا تھا اور سینیٹ، اشرافیہ کا ایک مختصر تر گروہ تھا جس کے افراد عمربھر کے لیے اس کے رکن ہوا کرتے تھے۔ گو، روم کے عوام نے کئی دفعہ مقبول حکمرانی ’جمہوریت‘ کے قیام کے لیے جدوجہد کی لیکن کسی قابلِ ذکر اور دیرپا کامیابی سے دوچار نہیںہوئے۔ سینیٹر ہی فوج، اُمورِخارجہ اور مالیات کو کنٹرول کرتے تھے۔ دراصل حکمران وہی ہوتے تھے۔

رومی سلطنت کے عروج اور فتوحات کی وسعت کے ساتھ بڑے سپہ سالاروں کا بھی عروج ہوا، جنھوں نے اپنی عسکری قوت کے بل بوتے پر مطلق اقتدار حاصل کرلیا۔ سینیٹ، فطری طور پر اُن سے حسد رکھتی تھی۔ ایسے سب سے بڑے سپہ سالار جولِیس سیزر (۱۴۴-۱۰۰ء) نے سینیٹ کے اقتدار و اختیار کو تقریباً ختم ہی کردیا، اور آخرکار سینیٹ کے ’جمہوریت پسندوں‘ ہی کی سازش سے، جن کا قائد بروٹس تھا، وہ بالآخر قتل کر دیا گیا اور اس طرح سلطنتِ روما سے جمہوریت کا شائبہ تک  ختم ہوگیا، کیوں کہ اس کے بعد مارک انطونی نے اسی طرح اقتدار سنبھال لیا۔

یہ سچ ہے کہ ہماری معلومہ تاریخ میں جمہوریت کا اصول سب سے پہلے یونانیوں نے دنیا کو دیا تھا لیکن یونانی جمہوریت کیا تھی؟ ایتھنز جیسی شہری ریاستوں میں جہاں آبادی کا تقریباً ایک تہائی حصہ غلاموں پر مشتمل تھا، صرف آزاد انسانوں ہی کو حق راے دہی اور حقِ عہدہ حاصل تھا، کیوں کہ قانوناً یہی لوگ ’اصل شہری‘ تھے۔ خود ارسطو، جو ’اہلِ دانش کا شہزادہ‘ کہلاتا ہے، اس بات کا قائل تھا کہ بربروں کو غلام بنانا بالکل درست ہے، کیوں کہ وہ ایک کم تر نسل ہیں۔ پھر اس یونانی جمہوریت کے کئی نقائص اور بھی تھے۔ ’براہِ راست جمہوریت‘ ہونے کی بنا پر یہ زیادہ سے زیادہ ایک شہر ہی کے لیے قابلِ عمل ہوسکتی تھی۔ کسی بڑے ملک یا سلطنت میں اس کے نفاذ کا کوئی طریق نہ تھا۔ دوسرے یہ کہ ریاست کے انتظام میں تکنیکی امور، یہاں تک کہ مقدمات کے فیصلے اور انصاف تک، عوامی صوابدید پر چھوڑ دیے گئے تھے۔ چوتھی صدی قبل مسیح جو علم و دانش میں یونان کا عہدِ زریں   شمار ہوتی ہے۔ اس عوامی جمہوریت تلے دَم توڑتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اسی بنا پر ایتھنز کو فوجی مہمات میں شکست پر شکست ہوتی ہے، اور ’عوامی عدالت‘ کا سامنا کرکے سقراط کو جو پیغمبروں جیسی حکمت و دانش کا امین تھا، زہر کا پیالہ پینا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس دَور کے عظیم ترین مفکر، سقراط، افلاطون اور ارسطو اس نظامِ سیاسی سے سخت نالاں اور اس کے زبردست ناقد نظر آتے ہیں۔

بہرحال، یونانی طرز کی جمہوریت، جیسی بھی وہ تھی، نہایت عارضی ثابت ہوئی اور یورپ میں سیاسی اور فکری اقتدار رومیوں کے ہاتھ آیا، تو انھوں نے ایک طرح کی اشرافیہ اور بدترین ملوکیت کا نظامِ حکمرانی اختیار کیا، حتیٰ کہ حکمران سیزر کا نام ہی ’قیصر‘ کی صورت میں بادشاہی کا مترادف بن گیا۔

  •  ایشیا کی حالت اس سے کسی طرح بھی بہتر نہ تھی۔ یہاں کی دو اہم قومیں فارس اور ہند کی تھیں۔ اہلِ فارس کے ہاں کسی جمہوری روایت کی خبر نہیں ملتی۔ وہاں جابر بادشاہوں کے بڑھے ہوئے ظلم وستم پر کبھی کبھی بغاتوں کے شعلے ضرور بھڑکتے ہوئے نظر آتے ہیں، جیسے پانچویں صدی عیسوی (عہدِ ساسانی) میں مزدکیت کا فلسفہ پھیلتا دکھائی دیتا ہے، جس کے بانی مزدک کا خیال تھا کہ معاشرے میں دولت اور ازواج کی اشتمالیت ہونی چاہیے کہ یہ کسی فرد کی ذاتی ملکیت نہ رہیں، بلکہ ہر ایک کو ان سے استفادے کا حق ہو۔ ظاہر ہے کہ اس تعلیم کا اثر سیاسی، معاشی اور اخلاقی انتشار اور نراج ہی کی شکل میں نکل سکتا تھا۔ خسرو نوشیرواں نے تلوار اور جبر کے زور سے اس عقیدے کو کچلا، تاہم اس وقت تک ہزاروں بچے ایسے پیدا ہوگئے تھے، جن کا نسب متعین کرنا ناممکن ہوگیا تھا، وراثت اور تملیک کیوں کر طے پاتی۔ اب ملوکیت اپنے تمام لوازمات کے ساتھ پھر ایران کا نظامِ سیاسی و معاشی قرار پائی۔
  •  جہاں تک ہندستان کا تعلق ہے، نظامِ حکومت کا جمہوری اصولوں یا سیاسی حقوق سے کوئی دُور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ آریوں نے وسط ایشیا سے تقریباً ۲ ہزار قبل مسیح میں ہندستان میں قدم رکھا تھا۔ قدیم باشندوں کو دُور دراز کے علاقوں اور پہاڑوں، جنگلوں میں دھکیل دیا گیا یا غلام بنالیا گیا۔ اس وقت سے مسلمانوںکی آمد تک ہندستان کئی فکری اور ذہنی انقلابوں سے دوچار ہوا۔ ویدوں کا عہد سیدھا سادا تھا جس میں طاقت ور راجا اور سردار بے داد و ستد (ظلم کے ساتھ) حکومت کرتے تھے۔ معاشرہ چار طبقوں میں منقسم تھا، حکمران کھشتری ہوتے تھے، مذہبی مقتدر طبقہ برہمن، تجارت اور معاش میں سرگرم ویش اور محنت کش، کمترین طبقہ شودر، جن کے چھونے سے بھی اعلیٰ طبقے گریزاں تھے۔ بدھ مت اور جین مت نے بھی جو اس ظالمانہ نظام کے خلاف ایک تحریک کا حصہ کہے جاسکتے تھے، کوئی قابلِ ذکر کامیابی حاصل نہ کی، اور ایک طرح سے ہندومت میں ضم ہوگئے۔ اس طرح ہندستان کے عوام بھی موروثی سیاسی حکمرانی، مذہبی حکمرانی اور معاشی اقتدار کے بدترین نظام کے اسیر رہے۔

غرض دنیا میں کوئی ایسا فلسفہ نہ تھا، جو فردِ واحد یا چند افراد کے ٹولے کے مطلق العنان اقتدار کو چیلنج کرتا، اور اس کے لیے کوئی مؤثر لائحہ عمل مہیا کرتا۔

قرآن کا فلسفۂ سیاست

اس عہد میں قرآنِ مجید نے اعلان کیا اور یہ کتابِ مقدس کا پہلا فقرہ ہے: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o (الفاتحہ ۱:۱) ’’تعریف اللہ ہی کے لیے ہے، جو تمام کائنات کا رب ہے‘‘۔ گویا اقتدارِ اعلیٰ کسی فرد، خاندان یا گروہ کا نہیں، بلکہ اللہ ہی کا حق ہے:

ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْ لَہٗ الْمُلْکُ لَآ اِِلٰـہَ اِِلَّا ھُوَ ج (الزمر ۳۹:۶) یہ اللہ ہے، تمھارا رب، اُسی کی حکومت ہے،اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔

لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ (الزمر ۳۹:۴۴) آسمانوں اور زمین کی بادشاہی کا وہی مالک ہے۔

پھر قرآن اعلان کرتا ہے کہ اللہ نے انسان کو زمین پر اپنا خلیفہ، یعنی جانشین بنا دیا ہے:

ھُوَ الَّذِیْ جَعَلَکُمْ خَلٰٓئِفَ الْاَرْضِ (الانعام ۶:۱۶۵) وہی ہے جس نے تمھیں زمین میں اپنا نائب بنایا۔

یہ خیال رہے کہ یہاں پوری نسلِ انسانی سے خطاب ہے، کسی خاص قوم، نسل، یا طبقے سے نہیں۔ یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ کسی اور مروج مذہب یا فلسفۂ سیاسی میں پہلی بار تمام انسانوں کو یہ حق دیا جا رہا ہے کہ وہ زمین پر حقیقی مقتدرِ اعلیٰ کی نیابت کریں۔ اگرچہ یہ اقتدار اعلیٰ، موجودہ لادینی جمہوریت کی طرح مطلق العنان نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کے تجویزکردہ اجتماعی نظام کا پابند ہے:

اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَ الْاَمْرُ (اعراف ۷:۵۴) آگاہ ہوجائو، تخلیق اور حکم دینا اُسی کے لیے مخصوص ہے (یعنی اُسی ذاتِ پاک کا حق ہے)۔

قرآنِ مجید نے اپنے ماننے والوں کو حکم دیا کہ اپنے اُمور کا تصفیہ باہم مشورے سے کریں، اور اس طرح مطلق العنانی کا خاتمہ کیا۔ حضور اکرمؐ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور اور ہدایت یافتہ تھے، تاہم آپؐ کو بھی ہدایت کی گئی کہ معاملات میں اپنے ساتھیوں سے مشورہ ضرور کریں:

وَ شَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ ( اٰل عمرٰن ۳:۱۵۹) اور دنیا کو بتایا گیا کہ حقیقتاً تو مسلمانوں کے معاملات باہمی مشورے ہی سے طے پاتے ہیں۔

وَاَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ ( الشوریٰ ۴۲:۳۸) اُن کے (یعنی مسلمانوں کے) اُمور باہمی مشورے ہی سے انجام پاتے ہیں۔

اس طرح تاریخ میں پہلی دفعہ مطلق العنانی یا اشرافیہ کی من مانی کا ابطال کیا گیا اور شورائیت کا حکم دیا گیا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ شورائیت کی یہ تلقین ایک مذہب کر رہا ہے، اور مذہب روایتی طور پر ایک ’حاکمانہ مزاج‘ رکھتا ہے، نہ کہ جمہوری۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف اللہ کے رسول بلکہ مدینہ کی پہلی اسلامی ریاست کے سربراہ بھی تھے۔ آپؐ سیاست، جنگ و صلح اور تمام ملکی انتظامات کے سلسلے میں اپنے اصحاب سے مشورہ فرمایا کرتے تھے۔ غزوئہ اُحد کے موقع پر جب یہ خبر ملی کہ کافروں کا بہت بڑا لشکر پوری جنگی تیاریوں کے ساتھ حملہ آور ہونے آرہا ہے، تو آپؐ کی راے یہ تھی کہ مدینہ ہی میں رہتے ہوئے مقابلہ کیا جائے، مگر آپؐ نے صحابہ کی راے کو ترجیح دی، اگرچہ اس کے نتیجے میں مسلمانوں کا بہت نقصان ہوا اور بہت سی قیمتی جانیں گئیں۔

آپؐ کے بعد مسلمانوں نے سربراہِ حکومت کا انتخاب بھی شورائی طریق پر کیا، اور ’خلیفہ‘ (جو قرآنِ مجید کی اصطلاح کے مطابق اللہ کی زمین پر اللہ کے خلفا(جانشینوں) کا نمایندہ ہوتا ہے) کے انتخاب کے لیے بیعت کا طریق رائج ہوا۔ بیعت دراصل راے دہی ہی کی ایک صورت ہے، اور کوئی شخص قانونی طور پر مسلمانوں کا امیر نہیں بن سکتا، جب تک مسلمانوں کی اکثریت اس کے انتخاب کے حق میں نہ ہو۔ راے دہی کے جدید طریقے، ووٹ ڈالنا اور خفیہ راے شماری___ دراصل اسی اصولِ شورائیت و بیعت کے نفاذ کی جدید صورتیں ہیں۔ ظاہر ہے کہ اسلام کے    قرنِ اوّل میں اِن طریقوں کا استعمال ممکن نہ تھا۔

جدید مغربی جمھوریت

مغرب میں سیاسی حقوق کا شہرہ ۱۳ویں صدی عیسوی سے ہوتا ہے، یعنی قرآنِ مجید کی آمد کے ۷سو سال بعد۔ جدید مغربی جمہوریت اگرچہ زیادہ ’جمہوری‘ نظر آتی ہے، کہ وہ اقتدارِ اعلیٰ کلیتاً عوام کو عطا کرتی ہے، مگر بڑی حد تک یہ محض کاغذ پر ایک رسمی دعویٰ ہے۔ ۱۲۱۵ء میں انگلستان کے بادشاہ جان کو کچھ نوابوں نے مجبور کیاکہ وہ حقوق کی ’عظیم دستاویز‘___ ’میگناکارٹا‘پر دستخط کردے۔ لیکن سچ پوچھیے تو اب تک دنیا میں کسی ملک میں عوام کو حقیقی معنوں میں اقتدار نصیب نہیں ہوا ہے۔ یورپ میں نظریۂ جمہوریت کے متوازی عہدِ نوآبادیات شروع ہوا۔ فرانس اور برطانیہ جیسی اقوام نے جو خود کو دورِ جدید میں جمہوریت و حریت کی علَم بردار کہتی ہیں، براعظم ایشیا، افریقہ اور آسٹریلیا میں اپنی نوآبادیات قائم کیں۔ وہاں کے اصل باشندوں کے حقوقِ ملکیت، زمین و وسائل، راے دہی اور حق آزادی کو پامال کیا، بلکہ تسلیم ہی نہ کیا۔ حد تو یہ ہے کہ بعض علاقوں سے اصل باشندوں کا تقریباً صفایا ہی کر دیا گیا، جیسے شمالی امریکا سے سرخ ہندی (ریڈ انڈین)اور آسٹریلیا سے وہاں کے قدیم باشندے۔ سوال یہ ہے کہ یہ کس سیاسی نظریے کی بنیاد پر ہوا؟ ۲۰ویں صدی کے نصف آخر میں جن نوآبادیاتی قوتوں نے اپنے مقبوضات کو چھوڑا ہے،تو پھر برہنہ سیاسی اقتدار کے بجاے ایک نئی قسم کا سیاسی و اقتصادی غلبہ ان نوآزاد مملکتوں پر مسلط کر دیا۔ یہ جدید نوآبادیاتی نظام (neo-colonialism) استحصال اور لُوٹ مار کی ایک جدید ’خوب صورت‘ شکل ہے۔ نام نہاد آزادی حاصل کرنے والے یہ ممالک اپنے آقا ملکوں کے قرض، تکنیکی مہارت اور توازنِ ادایگی کے  نہ ختم ہونے والے چکر میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں۔

پھر جن ملکوں میں یہ جمہوریت پروان چڑھی ہے، وہاں بھی حریت و اقتدار، حقیقی سے زیادہ سطحی ہے۔ جدید ریاستوں میں بھی سربراہِ مملکت، عسکری قیادت اور مقتدرہ کو عدالت میں جواب دہی کے لیے نہیں گھسیٹا جاسکتا، جب کہ حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اقتدار کے عروج میں اپنی پشتِ مبارک ایک دعوے دار کے لیے کھول دی تھی کہ وہ ایک قمچی کا بدلہ لے لے، اور کسی کو کوئی دعویٰ ہو تو آپؐ مداوا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ حضرت عمرؓ (سربراہِ مملکتِ اسلامیہ) برسرِمنبر اس اعتراض کا جواب دیتے ہیں کہ جو کپڑے تقسیم کیے گئے تھے، وہ اتنے چھوٹے تھے کہ آپ کی قمیص نہ بن سکتی تھی، آپ نے کیسے بنالی؟ فرمایا: میرے بیٹے نے اپنا کپڑا مجھے دے دیا تھا۔

مغرب میں ’جمہوریت‘ کے عروج کے ساتھ صنعتی ترقی شروع ہوئی۔ اس کے نتیجے میں بڑی بڑی صنعتیں سلطنتیں (industrial empires) اور کارپوریشنیں وجود میں آئیں۔ قومی رقابتوں اور اُن کے باہمی تصادم کے خطرے اور نتیجے کے طور پر ہول ناک عسکری قوتیں قائم   کرنا ناگزیر ہوگیا۔ اور ان عسکری قوتوں کے لیے سامانِ حرب بھی لازم تھا۔ غرض صنعت کاروں، سرمایہ داروں، مقتدرہ اور سپہ سالاروں کی ٹولیوں نے جمہوریت کے پردے میں ناموسِ انسانیت کی بے حُرمتی کا ایک نیا اسلوب اور کھیل شروع کیا، جو اَب بھی جاری ہے۔ عراق اور افغانستان پر امریکا اور اس کے اتحادیوں کی یلغار اس کی تازہ مثال ہے    ؎

دیوِ استبداد جمہوری قبا میں پاے کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری

(بانگِ درا)

معاشی نظریات کا تاریخی پس منظر

دولت کی منصفانہ تقسیم کا مسئلہ، انسان کو درپیش اہم ترین مسائل میں سے ایک ہے۔ نزولِ قرآن کا پس منظر ملاحظہ کیجیے، تو معلوم ہوگا کہ اس طرف توجہ شاذو نادر ہی کی گئی تھی۔ جہاں تک افلاطون کا تعلق ہے، اپنی ’جمہوریہ‘ میں وہ صرف ’حکمران فلاسفہ‘ ہی کے درمیان اشتمالیت اور    نفیِ ملکیت کی تلقین کرتا ہے۔ بجا طور پر اس کا خیال ہے کہ مال و اسباب کی ہوس ہی سیاسی فساد اور مظالم کا باعث بنتی ہے، مگر یہ تو پوچھا جاسکتا ہے کہ اگر دولت مند اور باوسائل طبقے ہی ہوسِ اقتدار میں مبتلا ہوجائیں، تو انھیں حکومت پر قبضہ کرلینے سے روکنے والی چیز کیا ہوگی؟جہاں تک قدیم ایران کے مُزدک کا تعلق ہے، اس کی تعلیمات کے منتشر اجزا ہی ہم تک پہنچے ہیں اور اُن سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی تعلیمات پر عمل سے مزاج اور انتشار ہی کا راستہ کھل سکتا ہے۔

انسانی فکر ی تاریخ میں قرآن سے پہلے اِن دو افکار سے پہلے کہیں یہ نظر نہیں آتا کہ دولت کی منصفانہ تقسیم کے لیے کوئی نظام دیا گیا ہو، جس سے معاشرے میں مفاسد کا قلع قمع ہو۔ ظلم،   بے انصافی اور استحصال کا خاتمہ ہو، اور تمام انسانوں کی بنیادی ضروریات کی فراہمی کا انتظام، معاشرہ یا حکومت خود اپنے ذمّے لے لے۔ قرآنِ مجید نے جو اسلامی نظامِ معاش تجویز کیا ہے۔ اس سے قبل دنیا کے تمام معاشروں میں اقتصادی نظام سخت غیرمتوازن نظر آتے ہیں۔ ایک طرف تو پیدایشِ دولت اور دولت جمع کرنے پر کوئی پابندی نہیں تھی، دولت کمانے کے سلسلے میں جائز و ناجائز کی کوئی تفریق نہ تھی۔ اِسی طرح اُسے خرچ کرنے پر بھی کوئی پابندیاں نہ تھیں، دوسری طرف ملوکِ جابر اور سردار، جہاں اور جس طرح چاہتے اپنی رعایا کی دولت پر قبضہ کرلیتے۔ پیداوارِ دولت کا بنیادی ذریعہ، یعنی ’زمین‘ انھی کی ذاتی ملکیت ہوتا تھا۔ بعض معاشروں میں تو ستم بالاے ستم یہ تھا کہ معاشرے کو ایسے موروثی طبقات میں تقسیم کر دیا گیا تھا کہ بعض افراد اور اُن کی اولاد کا مستقبل کبھی معاشی طور پر خوش آیند ہو ہی نہیں سکتا تھا، جیسے قدیم ہندو معاشرے کے شودر۔ اس کے برخلاف دوسرے طبقات کو غیرمعمولی معاشی فوائد سے متمتع ہونے کا حق دار بنا دیا گیا تھا۔

قرآن کا معاشی فلسفہ

قرآنِ مجید نے ان تمام مفاسد کے انسداد کی تدبیر کے لیے دنیا کو ایک نیا معاشی نظام دیا۔ اگر آپ دولت کی پیدایش کے عوامل پر نظر ڈالیں تو ان میں دو عوامل نمایاں نظر آئیں گے: ۱-وسائلِ پیداوار ۲- محنت۔ آج معاشیات میں دو مزید عوامل، سرمایہ اور انتظام گنائے جاتے ہیں، مگر یہ بھی درحقیقت اوّل الذکر دو عوامل ہی کے تحت آسکتے ہیں۔

جہاں تک وسائلِ پیداوار کا تعلق ہے (جن کو کلاسیکی معاشیات میں ’زمین‘ کے عنوان کے تحت گفتگو کی جاتی ہے، اور اس میں زمین کے علاوہ سمندر اور آبی وسائل، جنگلات، معدنیات اور ہر طرح کے عطیاتِ قدرت شامل ہیں) قرآنِ مجید کے بارے میں واضح اعلان کرتا ہے:

وَ لِلّٰہِ مِیْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ( اٰل عمرٰن ۳:۱۸۰، الحدید ۵۷:۱۰) آسمان اور زمین اللہ ہی کی ملکیت ہیں۔

اَلَآ اِنَّ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ(یونس ۱۰:۵۵) یاد رکھو، آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے،وہ اللہ ہی کی ملکیت ہے۔

چوں کہ وسائلِ پیداوار اپنی آخری تحلیل میں زمین ہی سے حاصل ہوتے ہیں، اس لیے قرآن مجید اُن کے لیے ’ارض‘ استعمال کرتا ہے، کیوں کہ انسان اپنی محنت سے جو بھی دولت حاصل کرتا ہے، وہ ’زمین‘ ہی سے آتی ہے، اور اگر کائنات کے دوسرے گوشوں(آفتاب) سے بھی آئے تو ’سموات‘ کی اصطلاح اسے بھی احاطہ کرلیتی ہے۔

جب دولت کا مصدر (source) فی الواقع اللہ ہی کی ملکیت ہے، تو اس پر انسان کو مالکانہ حقوق حاصل نہیں ہوسکتے۔ دراصل جب انسان کو زمین پر اللہ کا خلیفہ یانائب کہا گیا ہے تو اس کا مطلب ہی یہ ہے کہ زمین پر اس کا اختیار مالکانہ نہیں، بلکہ ایک امانت دار ہی کا ہوسکتا ہے۔ زمین پر اللہ کی نیابت کوئی انفرادی معاملہ نہیں بلکہ ایک اجتماعی تصور ہے، یعنی بحیثیت کُل۔ پوری انسانیت خلیفۃ اللّٰہ فی الارض ہے۔ جدید لادینی تصورِ سیاست میں چونکہ اللہ کے تصور کو خارج از بحث رکھا جاتا ہے اس لیے اس میں اللہ کی جگہ ’ریاست‘ لے لیتی ہے۔ یوں زمین اور سارے وسائلِ پیداوار دراصل ریاست ہی کی ملکیت قرار پاتے ہیں، یہ اور بات ہے کہ ریاست جن افراد یا اداروں کی ملکیت میں انھیں دے دیتی ہے، وہ اس پر مالکانہ تصرف کے مختار قرار پاتے ہیں۔

اگر صورتِ حال ایسی ہو تو ظاہر ہے کہ ’زمین‘ سے حاصل ہونے والی پیداوار پر انسان کا حق نہایت محدود معنوں ہی میں ملکیت قرار دیا جاسکتا ہے۔ اسلام کے نزدیک وہ دراصل ایک امانت ہے، اور امانت پر امین کا کُلی اختیار نہیں ہوتا۔ اُس کے لیے لازم ہوتا ہے کہ اصل مالکِ امانت کے منشا کے مطابق ہی اُسے استعمال کرے۔

اس نکتے کو قرآنِ مجید نے متعدد مقامات پر نہایت وضاحت سے بیان کیا ہے:

اَفَرَئَ یْتُمْ مَّا تَحْرُثُوْنَ o ئَ اَنْتُمْ تَـزْرَعُوْنَہٗٓ اَمْ نَحْنُ الزّٰرِعُوْنَ o لَوْ نَشَآئُ لَجَعَلْنٰہُ حُطَامًا فَظَلْتُمْ تَفَکَّھُوْنَ o اِنَّا لَمُغْرَمُوْنَ o بَلْ نَحْنُ مَحْرُوْمُوْنَ o اَفَرَاَیْتُمُ الْمَآئَ الَّذِیْ تَشْرَبُوْنَ o ئَ اَنْتُمْ اَنْزَلْتُمُوْہُ مِنَ الْمُزْنِ اَمْ نَحْنُ الْمُنْزِلُوْنَ o لَوْ نَشَآئُ جَعَلْنٰہُ اُجَاجًا فَلَوْلاَ تَشْکُرُوْنَ o اَفَرَاَیْتُمُ النَّارَ الَّتِیْ تُوْرُوْنَ o ئَ اَنْتُمْ اَنْشَاْتُمْ شَجَرَتَھَا اَمْ نَحْنُ الْمُنْشِئُوْنَ o (الواقعۃ ۵۶:۶۳-۷۲) ذرا اُس کھیتی کو تو دیکھو جس کی تم کاشت کرتے ہو، کیا تم نے اُس (کے بیج) کو اُگایا، یا اُگانے والے ہم ہیں۔ اگر ہم چاہتے تو اُسے بھوسے جیسا بنا دیتے، اور تم ہاتھ ملتے رہ جاتے (اور کہتے) دراصل ہمیں دھوکا ہوا (کہ ہم اُسے اپنی محنت کا ثمرہ سمجھ رہے تھے)۔ فی الواقع ہم نامراد ہیں۔ پھر ذرا اُس پانی کو تو دیکھو جسے تم پیتے ہو۔ کیا تم اُسے بادل سے اُتارتے ہو، یا برسانے والے ہم ہیں۔ اگر ہم چاہتے تو اُسے کھاری ہی بنا لیتے۔ تو تم اس کا شکریہ ادا کیوں نہیں کرے؟ ذرا اُس آگ کو تو دیکھو جسے تم روشن کرتے ہو۔ کیا تم نے اُس کا شجر اُگایا ہے، یا اُگانے والے ہم ہیں۔

اقبال نے قرآنِ مجید کے اس فلسفۂ ملکیت کو اپنی نظم الارض لِلّٰہ میں یوں بیان کیا ہے:

پالتا ہے بیج کو مٹی کی تاریکی میں کون؟
کون دریائوں کی موجوں سے اٹھاتا ہے سحاب؟

کون لایا کھینچ کر پچھّم سے بادِ سازگار؟
خاک یہ کس کی ہے؟ کس کا ہے یہ نورِ آفتاب؟

کس نے بھر دی موتیوں سے خوشۂ گندم کی جیب؟
موسموں کو کس نے سکھلائی ہے خوے انقلاب؟

دِہ خدایا! یہ زمیں تیری نہیں، تیری نہیں
تیرے آبا کی نہیں ، تیری نہیں ، میری نہیں

(بالِ جبریل)

اب، چوںکہ جدید سیکولر ریاستوں میں اصل مالکِ زمین عوام ہیں، اس لیے اللہ کی جگہ عوام یعنی ریاست نے لے لی ہے، اور سارے وسائل اپنے آخری تجزیے میں ریاست کی ملکیت متصور ہوتے ہیں، اور اس لیے انھیں اُن کے مفاد ہی کے لیے استعمال کرنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔

پیدایشِ دولت کا دوسرا اہم عامل ’محنت‘ کا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ تمام انسان اپنی صلاحیتوں اور کارکردگی میں یکساں نہیں ہوتے، لیکن اگر کوئی بہتر صلاحیت رکھتا ہے، تو یہ بھی اللہ تعالیٰ ہی کی ودیعت ہے، اور محض اس بنا پر وہ کسی قدر زائد کا حق دار نہیں۔ ہاں، محنت کی کمی بیشی کی بنا پر معیشت میں فرق ہوسکتا ہے، مگر ظاہر ہے کہ یہ فرق ایک اور ایک ہزار یا لاکھوں کروڑوں کا نہیں ہوسکتا، جیساکہ آج کے سرمایہ دارانہ نظام اور ’ بے روک معیشت‘ میں ہم دیکھتے ہیں۔ اسلام نے قرآنی تعلیمات کی بنا پر اس فضیلت ِ ذہنی وجسمانی کی بناپر ایک گروہ کو دوسرے گروہ کا استحصال کرنے اور اُسے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے آلۂ کار بنانے کی اجازت نہیں دی ہے۔ اللہ تعالیٰ اگر اپنے بعض بندوں کو زائد رزق کے حصول کے مواقع دیتا ہے تو امین کی حیثیت سے ان کا فرض ہے کہ اُسے اپنے نسبتاً کم خوش قسمت بنی نوع پر خرچ کریں؟

وَ اللّٰہُ فَضَّلَ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ فِی الرِّزْقِ فَمَا الَّذِیْنَ فُضِّلُوْا بِرَآدِّیْ رِزْقِھِمْ عَلٰی مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُھُمْ فَھُمْ فِیْہِ سَوَآئٌ اَفَبِنِعْمَۃِ اللّٰہِ یَجْحَدُوْنَo (النحل ۱۶:۷۱) اللہ تعالیٰ نے روزی میں تم میں سے بعض کو بعض پر برتری دی ہے، تو جنھیں زیادہ دیا گیا ہے، وہ اپنا رزق اُن لوگوں کو نہیں لوٹا دیتے جو اُن کے زیردست ہیں، تاکہ وہ باہم مساوی ہوجائیں تو کیا وہ اللہ کی اس (نعمت) کا انکار کر رہے ہیں؟

یہاں ایک نکتہ قابلِ غور یہ ہے کہ بِرَآدِّیْ رِزْقِھِمْ یعنی ’’اپنے رزق کو لوٹانے والے‘‘ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، اور لوٹائی وہ چیز جاتی ہے جس کے ہم حقیقی مالک نہ ہوں۔ اسی طرح ایک حدیث میں زکوٰۃ کی بابت ارشاد ہوتا ہے کہ یہ امیروں سے لے کر غریبوں کو لوٹائی جاتی ہے۔ گویا معاشرے کے پس ماندہ طبقوں کی امداد کے لیے اہلِ ثروت جو دیںگے وہ بھیک یا خیرات نہیں ہوگی، بلکہ محتاجوں کا حق ہوگا۔

اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کے نزدیک ضرورت سے زائد تمام دولت معاشرے کے پس ماندہ طبقے کا حق ہے:

یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ قُلِ الْعَفْوَ (البقرہ ۲: ۲۱۹) لوگ آپؐ سے پوچھتے ہیں کہ ہم (اللہ کی راہ میں) کیا خرچ کریں؟ کہہ دیجیے، وہ جو ضرورت سے زائد ہے۔

یہ بات اہم ہے کہ یہ سورئہ بقرہ کی ایک آیت ہے، اور زمانۂ نزول کے اعتبار سے آپؐ کی دی ہوئی ہدایات میں سے آخری ہدایتوں میں سے ہے۔

قرآنِ مجید کا تصورِ معیشت و ریاست خالصتاً فلاحی یعنی welfare کا ہے۔ وہ نہ صرف سرمایہ دارانہ استحصال کو روکتا ہے، بلکہ زر کے جمع کیے جانے والے اور اُسے اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرنے پر وعید بھی سناتا ہے:

وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّھَبَ وَ الْفِضَّۃَ وَ لَا یُنْفِقُوْنَھَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَبَشِّرْھُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ o یَّوْمَ یُحْمٰی عَلَیْھَا فِیْ نَارِ جَھَنَّمَ فَتُکْوٰی بِھَا جِبَاھُھُمْ وَ جُنُوْبُھُمْ وَ ظُھُوْرُھُمْ ط ھٰذَا مَا کَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِکُمْ فَذُوْقُوْا مَا کُنْتُمْ تَکْنِزُوْنo (التوبۃ ۹:۳۴۔۳۵) وہ لوگ جو سونا چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں، اور انھیں اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے، اُنھیں ایک دردناک عذاب کی خوش خبری سنا دو۔ وہ ایسا دن ہوگا، جب انھیں جہنم کی آگ میں پگھلایا جائے گا، پھر اُن سے ان کے پہلو اور کھالیں داغی جائیں گی۔ یہ ہے جو تم اپنے لیے جمع کرکے رکھتے تھے، تو اپنے اس جمع کرنے کا مزا چکھو۔

اس طرح قرآنِ مجید معاشرے کے پس ماندہ طبقوں پر خرچ کرنے کو محض ایک نفل عبادت اور ’ثواب کا کام‘ نہیں بنا دیتا، بلکہ اِسے ایک فرض قرار دیتا ہے، جس کے سلسلے میں دنیا میں احکام ہیں اور آخرت میں محاسبہ۔

دورِ جدید

نظامِ سرمایہ داری کے مظالم اور تکالیف کا مداوا کرنے کے لیے مغرب میں جتنی بھی تحریکیں شروع ہوئیں، اُن کی ابتدا فرانس اور جرمنی میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ یہ امر قابلِ غور ہے کہ یورپ میں فرانس اور جرمنی ہی اوّلاً عربوں اور اسلام سے متاثر ہوئے تھے۔ جرمن فلسفی ایمانوئل کانٹ کو اخلاقی تعلیمات میں اسلام کی چھاپ نہایت واضح نظر آتی ہے۔ قدامت پسند چرچ کے ناقدین اور حریت اور شرفِ انسانی کے علَم بردار اگرچہ کسی مذہب کا نام لینے سے گریزاں رہے، لیکن ان کی بوجھ ہٹانے والی اور زنجیروں کو کاٹنے والی تحریروں میں قرآن کا رنگ جھلکتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اس ضمن میں جو نظام تجویز کیے گئے ان کا نقطۂ منتہا کارل مارکس اور اینجلز کی Manifesto اور اوّل الذکر کی عہدآفریں کتاب سرمایہ (Capital) ہے جو ۱۸۶۷ء میں لکھی گئی تھی۔ ان کی تحریر و تحریک کے نتیجے میں ۱۹۱۷ء کا اشتراکی انقلاب روس آیا، جو بعد میں مشرقی یورپ کے کئی ملکوں اور مشرقِ بعید چین تک پھیل گیا، اور دنیا کی ایک موثر سیاسی و معاشی قوت بن گیا۔ مارکس اور اینجلز نے صنعتی انقلاب کے نتیجے میں وجود میں آنے والے ظالمانہ نظام کی چکی میں پِسنے والے طبقوں کو للکارا: ’’دنیا کے محنت کشو! متحد ہوجائو، تمھارے پاس گِنوانے کے لیے سواے زنجیروں کے اور کچھ نہیں ہے‘‘۔ لیکن ۱۰۰ سال سے بھی کم عرصے میں اس انقلابی تجربے کی عملی تعبیر نے روس میں بدترین آمریت اور تاریخ کے دہشت ناک ترین ادوار میں سے ایک کو جنم دیا۔ اس نظام نے اپنے زیراثر افراد کی آزادیاں اخلاق اور بلند اقدار چھین لیے۔ اکثریت کو پست حیوانی سطح پر پہنچا دیا۔ جسمانی احتیاجات کی تو ضمانت دے دی گئی، لیکن وہ مقام چھین لیا گیا، جو انسان کو حقیقی شرف عطا کرتا ہے۔

تاہم، اس تحریک اور نظام کے ردِّعمل اورتعامل کے نتیجے میں مغرب کے بے قید سرمایہ دارانہ نظام میں تھوڑی سنجیدگی اور ذمہ داری کا احساس بھی پیدا ہوا۔ مزدوروں اور محنت کشوں کے حقوق کے لیے قانونی تحفظات مہیا کیے گئے، ان کی بہتر زندگی، صحت اور آسایش کی طرف توجہ ہوئی اوربہت سے ملکوں میں بے لگام معیشت پر کچھ پابندیاں عائد ہوئیں۔

مشرق کی طرف نظر ڈالیں تو بلاشبہہ ابتدائی اسلامی دورِ حکومت کے بعد بادشاہوں اور  نام نہاد ’خلفا‘ کا دَور کسی طرح بھی ظلم و استحصال سے پاک مثالی عہد قرار نہیں دیا جاسکتا۔ لیکن اُس وقت بھی، جب خلافتِ اسلامی زوال پذیر ہوکر ملوکیت کی شکل اختیار کرچکی تھی مسلمانوں کے   ضمیر سے حقوقِ انسانی، عدلِ عمرانی اور معاشی انصاف کے قرآنی تصورات کو ہٹایا نہیں جاسکا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ عباسی حکمران مامون کے عہد میں بھی امام ابوحنیفہ کے تلمیذ امام ابویوسف جو ’کتاب الخراج‘ تصنیف کرتے ہیں، اس میں عوام کے سیاسی اور معاشی حقوق کی نہایت شعوری تلقین ہے، حالانکہ یہ ایک نسلی ملوکیت کا دَور تھا، اور خلیفہ، خلیفہ نہیں بلکہ موروثی بادشاہ ہوا کرتا تھا۔ اس عہد میں قرطبہ، طلیطلہ، سیوائل اور غرناطہ کے مسلم مدرسوں میں عیسائی طلبہ اور علما کا استفادے کے لیے آنا اور علومِ اسلامی کی خوشہ چینی ایک تاریخی حقیقت ہے، جس میں کسی شبہے کی گنجایش نہیں ہے۔ تعلیماتِ قرآنی کے دُھندلے ہوجانے، اور عہدِاوّل سے بُعد کے باوجود ۱۱ویں اور ۱۲ویں صدی عیسوی میں مسلم فکر وعلوم کے اِن اداروں سے اہلِ مغرب کا متاثر ہونا بالکل فطری تھا۔ ’ہسپانوی اسلام‘ کے ایک مؤرخ نے اُس عہد کے ایک عیسائی مفکر کو یوں نوحہ زن پایا ہے:

میرے عیسائی دوست، عربوں کی شاعری اور داستانوں ہی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ وہ دین محمدیؐ کے اہلِ دینیات اور فلاسفہ کی کتابوں کو زیرمطالعہ رکھتے ہیں۔ اس لیے نہیں کہ ان کا اِبطال کریں، بلکہ مقصد یہ ہوتا ہے کہ اعلیٰ درجے کا عربی اسلوب اختیار کرلیں۔ افسوس! نوجوان عیسائی، جو اپنی صلاحیتوں کے اعتبار سے ممتاز ہیں، سواے عربی کے کسی اور زبان اور ادب سے نا آشنا ہیں۔ وہ عربی کتابیں نہایت ذوق و انہماک سے پڑھتے اور ان کا مطالعہ کرتے ہیں۔ زرِ کثیر صَرف کر کے ان کے پورے کے پورے کتب خانے بنا لیتے ہیں۔ ہر جگہ وہ عرب داستانوں کے گیت گاتے نظر آتے ہیں۔۳؎

ہمارے لیے یہ تو ممکن نہیں کہ اُن معاشی محرکات اور اصلاحات کا، جو آج کی دنیا میں مثالیہ بن چکی ہیں براہِ راست قرآن کی اسلامی تعلیمات سے سراغ لگاسکیں، تاہم یہ تو ثابت شدہ امر ہے کہ یورپ میں نشاَتِ ثانیہ اور تحریکِ اصلاح، مسلم فکر کے زیراثر ہوئی تھی اور احیا العلوم کی یہی حرکت آخرکار دورِ جدید کی پیدایش کا باعث ہوئی اور فلاحی ریاست (Welfare State) کا تصور تو خالصتاً اسلامی تصور ہے، کیوں کہ ایسے کسی تصور کا سراغ یورپ اور ایشیا کے کسی اور فلسفے میں نہیں تھا، جس نے دورِ جدید کی تشکیل میں حصہ لیا ہو۔ یہ توجدید دنیا کی بدقسمتی ہے کہ اُصولاً تو وہ اس تصورِ ریاست و معیشت کو اپنانے کا دعویٰ کرتی ہے، لیکن عملاً اس سے گریزاں ہے۔

حواشی

۱-  شبلی نعمانی: سیرت النبیؐ، جلد ۱، ص ۲۱۱۔ بعض نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے، تاہم صورتِ حال یوں ہی تھی کہ کمزور اور ’بے حقیقت‘ لوگوں ہی نے دعوت کو قبول کیا تھا، اور اہلِ اقتدار اور بااثر لوگوں نے نہ صرف اِسے رد کیا تھا، بلکہ سخت مخالفت اور مزاحمت کی تھی۔

۲-  جدید معاشیات اور انتظامِ کاروبار کی ایک معروف (دل چسپ/ مضحکہ خیز؟) اصطلاح Human Resource ، یعنی انسانی وسیلہ ہے۔ گویا قدرتی وسائل (Natural Resoruces) معدنیات، تیل، جنگل اور زمین اور پانی کی طرح ’انسان‘ بھی ایک وسیلۂ پیدایشِ دولت ہے۔ جرمن مفکر کانٹ نے کہا تھا کہ انسان (انسانیت) کو ایک غایت سمجھا جائے، نہ کہ ایک ذریعہ۔ اور قرآن کہتا ہے: ’’ہم نے بنی آدم کو ’کرامت‘ (عزت، بزرگی، عظمت) عطا کی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی جان کو قیمتی ترین قرار دیا۔

۳-  بحوالہ R. Dozy: Spanish Islam, 1953, New York, p 268, Will Durant: The Age of Faith, 1950, N.Y. p 300