عالمِ اسلام کی معروف تحریک الاخوان المسلمون پر ایک جامع اور تفصیلی مضمون برطانوی جریدے دی اکانومسٹ (۱۰؍اکتوبر ۲۰۰۹ء)نے شائع کیا ہے۔ مضمون نگار نے اپنے تجزیے میں مختلف عرب ممالک میں سرگرمِ عمل اخوان تحریک کی حقیقی مشکلات و مسائل اور درپیش چیلنجوں کا احاطہ کرنے کی بھی کوشش کی ہے اور بین السطور اپنے دل میں چھپی مخصوص تمنائوں اور آرزوئوں کا اظہار بھی کیا ہے۔ بلاشبہہ آج پورا عالمِ اسلام کفر کی یلغار اور نرغے میں ہے۔ اسلام دشمن قوتوں کا اصل ہدف اسلامی نظریۂ حیات اور قرآن و سنت کی تعلیمات پر مشتمل وہ حقیقی تصورِ دین ہے جس سے بحیثیتِ مجموعی امتِ مسلمہ کے انحراف اورحکمران ومترفین طبقات کے فکری اور عملی لحاظ سے غیرمسلم نظریات کے سانچے میں ڈھل چکنے کے باوجود دشمنانِ اسلام خوف زدہ ہیں۔
یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ امتِ مسلمہ کے درمیان احیاے دین اور نشاتِ ثانیہ کی تحریکیں مسلمان ممالک ہی میں نہیں، غیر مسلم ممالک میں بھی کسی نہ کسی انداز میں موجود ہیں۔ چومکھی لڑائی کا محاورہ پوری آب و تاب کے ساتھ آج اسلامی تحریکوں کی جدو جہدپر منطبق ہوتا نظر آتا ہے۔ آج امتِ مسلمہ کو درپیش خطرات بیرونی بھی ہیں اور اندرونی بھی۔ اندرونی خطرات سیکولر اور مغرب نواز حکمرانوں کے بھی پیدا کردہ ہیں اور نام نہاد سیکولر اہلِ دانش (intelligentsia) بھی اسلامی اقدار کے خلاف پورے لا ؤ لشکر کے ساتھ محاذ پر موجود ہیں۔ یہاں تک تو بات قابلِ فہم ہے لیکن اس سے اگلا مرحلہ یہ ہے کہ خود اسلام کا نام لینے والوں کے درمیان کئی مختلف اللّون لہریں اُٹھا دی گئی ہیں، جن کا آپس میں کوئی تال میل نہیں بلکہ بعض اوقات تو وہ ایک دوسرے سے متحارب نظر آتی ہیں۔
انٹرنیشنل اور عالم عرب کے ممالک کی سطح پراخوان المسلمون فکری، اعتقادی اور عملی لحاظ سے بہت مضبوط بنیادوں پر قائم اسلامی تحریک ہے مگر عالمی اور مقامی میدانوں میں معروضی حالات نے اسے کئی مشکلات سے دوچار کر دیا ہے۔ اکانومسٹ کا تجزیہ نگار مختلف ملکوں میں اخوان کے بڑھتے ہوئے قدم رک جانے کا تذکرہ مزے لے لے کر کرتا ہے۔ دنیا بھر میں جن ممالک کے اندر کسی بھی انداز میں انتخابات ہوتے ہیں وہاں آگے بڑھنے اور پیچھے ہٹنے کی تمام کھلاڑیوں کے لیے کئی ایک وجوہات ہو سکتی ہیں۔ کبھی نشستیں کم ہوتی ہیں تو اگلے مرحلے میں زیادہ بھی ہو سکتی ہیں لیکن اکانومسٹ کے نمایندے نے اس تناظر میں بجا طور پر مختلف حکومتوں کی طرف سے اخوان کا ناطقہ بند کرنے کی مذموم کاوشوں کا بھی ذکرکیا ہے۔ ان ممالک میں سے اکثر میں انتخابات محض ایک ڈھونگ اور ڈراما ہوتے ہیں۔ مغرب نواز حکمران اپنی من مانی سے مخالفین کو کامیابی سے محروم کرنے کے لیے جو چاہیں کریں، مغربی دنیا خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔ اسی سے معلوم ہوجاتا ہے کہ جمہوریت کے یہ عاشقان اپنے دعووں میں کس قدر سچے ہیں۔
اخوان المسلمون کی بنیاد مصر میں ۱۹۲۸ء میں پڑی تھی، پھر وہاں سے یہ تحریک دوسرے ملکوں میں پھیلی۔ مصر کے بعد سب سے پہلے جس ملک میں یہ تنظیم قائم ہوئی وہ شام ہے۔ حالیہ برسوں میں سیاسی لحاظ سے جہاں اخوان کے متاثرین کو سب سے بڑی کامیابی حاصل ہوئی، وہ غزہ اور فلسطین ہیں۔ شامی حکومت اور غزہ و فلسطین کی تحریکِ آزادی حماس کے تعلقات آپس میں بہت قریبی اور دوستانہ ہیں۔ اس کی حقیقی وجہ شامی حکومت کی حماس سے محبت نہیں بلکہ علاقے کی معروضی صورتِ حال ہے۔ دوسری جانب حماس کو بھی اگرچہ شامی حکومت اور اس کی مجموعی سوچ کے علاوہ مقامی اخوان کے ساتھ اس کے رویے پر خاصے تحفظات ہیں مگر ان کی مجبوری اور مصلحت کا تقاضا ہے کہ وہ شام کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی نہ کریں۔ کسی عرب ملک نے انھیں اپنے ہاں وہ سہولیات فراہم نہیں کیں جو انھیں شام میں حاصل ہیں۔
شام کے جو علاقے جولان کی پہاڑیوں سمیت اسرائیل نے ۱۹۶۷ء کی جنگ میں قبضے میں لے لیے تھے اور جنھیں پوری ڈھٹائی کے ساتھ بعد میں اسرائیل کا حصہ بنادیاگیا، اس پر شامی حکومت اور عوام کو شدید قلق اور صدمہ ہے۔ اس لیے مصر اور اُردن کے برعکس شام کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات خاصے کشیدہ ہیں۔ حماس غزہ اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کی ناجائز ریاست اور اس کے ظالمانہ حملوں کا جس جرأت ودلیری کے ساتھ مقابلہ کر رہی ہے، اس کی بدولت اُمتِ مسلمہ کے بیدار مغز مسلمانوں کے نزدیک اسے ہیرو کا درجہ حاصل ہے۔ اندریں حالات شام کے اخوانی، شامی حکومت کے بے پناہ مظالم کی وجہ سے جس ابتلا و آزمایش سے گزر رہے ہیں، اس کی بنا پر انھیں جہاں شام کی نصیری حکومت سے شدید نفرت ہے، وہیں حماس اور شام کے باہمی تعلقات پر بھی وہ کبیدہ خاطر ہوتے ہیں۔ شام میں اخوان کی بنیاد ۱۹۴۵ء میں پڑی تھی۔ اس کے پہلے سربراہ عالمی شہرت کے حامل عالمِ دین اور دانش ور الشیخ ڈاکٹر مصطفی السباعی تھے۔ شام میں اخوانی سربراہ کو مراقبِ عام کہا جاتا ہے۔ جب اخوان نے اپنا عالمی تنظیمی ڈھانچا ترتیب دیا تو اس میں مصری تنظیم کے سربراہ (مرشدِعام)کو تنظیم کا عالمی قائد تسلیم کیا گیا، جب کہ شام اور دیگر علاقوں کے سربراہانِ اخوان بالعموم نائب صدر مقرر کیے جاتے ہیں۔ چونکہ عالمی تنظیم ایک ڈھیلے ڈھالے ڈھانچے پر مشتمل ہے، اس لیے شام کے مخصوص حالات کے بارے میں اس فورم پر بھی کبھی کبھار بحث و تکرار کی نوبت آجاتی ہے۔
شام میں اخوان نے اپنے قیام کے بعد جمہوری دور میں انتخابی عمل میں شرکت اور جمہوری اداروں کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا تھا۔ شامی اخوان عملاً منتخب اداروں میں نمایندگی کرتے رہے، حتیٰ کہ بعض اوقات انھیں مخلوط حکومتوں میں وزارتی ذمہ داریاں ادا کرنے کا موقع بھی ملا۔ ان کا یہ سلسلہ کامیابی سے آگے بڑھ رہا تھا کہ بدقسمتی سے ملک فوجی آمریت اور اس کے نتیجے میں یک جماعتی سیاست کی نذر ہو گیا۔ ۱۹۴۷ء، ۱۹۵۰ء، ۱۹۵۴ء اور ۱۹۶۲ء کے انتخابا ت میں شامی اخوان نے حصہ لیا اور دستور سازی کے عمل میں بھی ایوان کے اندر اور باہر فعال کردار ادا کیا۔ ۱۹۴۸ء میں مراقبِ عام الشیخ مصطفی ا لسباعی پارلیمنٹ کے رکن تھے، جنھیں ۱۹۴۹ء میں پارلیمان میں ڈپٹی سپیکر بھی منتخب کیا گیا۔ ۱۹۶۲ء کے انتخابات میں اخوان کے ۱۳ چیدہ چیدہ راہ نما پارلیمان میں منتخب ہو گئے۔ ان میں جناب عصام العطار، عمر الخطیب، زھیر الشاویش، محمد سعید العباد، طیب خواجہ، محمد علی مشعل، شیخ عبدالفتاح (ابوغدہ)اورڈاکٹر نبیل صبحی کے اسماے گرامی قابلِ ذکر ہیں جنھیں عا لمِ عرب کے تمام پڑھے لکھے لوگ جانتے ہیں۔ اخوان کے پارلیمانی گروپ کی کارکردگی اور اہلیت کی بنا پر کچھ دیگر آزاد ارکان بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئے، یہاں تک کہ ان کی تعداد ۲۰ ہو گئی۔
مختلف حکومتوں میں جو شامی اخوان وزارتی ذمہ داریاں نبھاتے رہے ہیں ان میں خالدالعظم کی وزارتِ عظمیٰ میں جناب عمر الخطیب، ڈاکٹر نبیل اور احمد مظہر العظمہ خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ جب جمہوریت پر شب خون مارا گیا اور بعث پارٹی فوجی انقلاب کے نتیجے میں برسرِ اقتدار آئی تو شامی اخوان پر سرزمینِ شام تنگ کر دی گئی۔ نصیری انقلاب سے قبل بھی لادین قوتیں جن میں شامی عیسائی بہت پیش پیش تھے اسلامی شعائر کے خلاف کھل کر میدان میں آچکی تھیں۔ ان کی جسارت کا حال اس سے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ کھلے عام اپنے منشور میں بعث پارٹی نے اپنا عقیدہ یوں بیان کیا ؎
اٰمنت بالبعثِ رباً لا شریک لہ
و بالعروبۃ دیناً مالہ ثانی
(میں نے بعث پارٹی کو اپنا رب تسلیم کر لیا ہے اور اس میں کسی دوسرے کو شریک نہیں سمجھتا۔ عرب قومیت میرا دین ہے اور اس کا کوئی بدل نہیں)۔
یہ در اصل اس اسلامی شعر کا جواب ہے جس میں کہا گیا تھا ؎
اٰمنت باللہ رباً لا شریک لہ
و بالاسلام دیناً مالہ ثانی
اسلامی شعائر کے خلاف بغاوت دن بدن بڑھتی چلی گئی۔ بعث پارٹی کے دورِ حکومت میں بے شمار جرائم کا ارتکاب ہوا۔ شناختی کارڈ سے مذہب اور مسلم کا خانہ خارج کر دیا گیا۔ اوقاف کی تمام املاک کو اونے پونے داموں اپنے منظورِ نظر لوگوں کے ہاتھ بیچ دیا گیا۔ حافظ الاسد کے بھائی رفعت الاسدنے قتل و غارت گری کے ذریعے پورے ملک میں خوف وہراس کا ماحول پیدا کر دیا (بعد میں حافظ الاسد نے اپنے بھائی کو اپنے اور اپنی اولاد کے لیے خطرہ سمجھا تو اسے بھی راستے سے ہٹادیا گیا)۔تعلیمی نصاب سے اسلامی مضامین خارج کر دیے گئے۔ اسلامی شعائر کا مذاق سرکاری سرپرستی میں چلنے والے رسائل و اخبارات میں روزمرہ کا معمول بن گیا۔ مجلہ الفجر نے گدھے کا کارٹون بنا کر اس کے سر پر عمامہ پہنایا۔ مجلہ الشعیب میں لکھا گیا کہ (نعوذ باللہ)اللہ اور تصورِادیان کو میوزیم میں رکھوا دینا چاہیے۔ حلب، حمص اور دمشق میں تمام اخوانی رہنمائوںاور اہلِ علم کو جیلوں میں بند کر دیا گیا۔ ڈاکٹر حسن ہویدی، عبدالفتاح ابو غدہ، شیخ سعیدحوّٰی اور امین شاکر جیسی بلند پایہ شخصیات سال ہا سال جیلوں میں بند رہیں۔
اس دور سے شا می مسلمانوں کے لیے مشکلات پیدا ہونا شروع ہوئیں۔ ۸مارچ ۱۹۶۳ء ہی کو فوجی انقلاب کے ساتھ سیاسی پارٹیوں بالخصوص اخوان پر پابندی لگا دی گئی۔ تما م اسلامی رسائل وجرائد بند کر دیے گئے، منبر و محراب کی آزادی چھین لی گئی اور سیاسی آزادیوں کا باب مکمل طور پر بند کر دیا گیا۔ اس عرصے میں عیسائی اور اشتراکی عناصر نے قومیت پرستوں کے ساتھ مل کر خود کو منظم کیا، فوج سے اسلامی ذہن رکھنے والے افسران کو چن چن کر نکالا گیا اورایک نصیری (علوی) جرنیل صلاح جدید کو ۲۳ فروری ۱۹۶۶ء کو فوج کے سربراہ کا منصب سونپ دیا گیا اور جرنیلوں کو وزارتوں کے قلم دان سونپ دیے گئے۔ اسی سال ایئر فورس سے تعلق رکھنے والے فوجی افسر حافظ الاسد کو وزیر ِ دفاع بنایا گیا۔ فوجی کونسل میں جو ملک کے سیاہ و سفید کی مالک قرار پائی، ۱۵ارکان تھے۔ ان میں پانچ نصیری، دو دروز، دو اسماعیلی اور چھے سنی ارکان تھے۔ بعد میں تین نصیری مزید شامل کیے گئے اور ان کے شامل ہوتے ہی ۱۹۷۰ء کا انقلاب برپا ہوا جس کے نتیجے میں حافظ الاسد (موجودہ صدر بشار الاسد کا والد) بلاشرکتِ غیرے ملک کا حکمران بن گیا۔ اس نے ۲۰۰۰ء تک بد ترین آمریت کے تحت حکومت کی اور اپنی موت سے پہلے اپنے بیٹے بشارالاسد کو تخت و تاج کا مالک قرار دے دیا۔
حافظ الاسد کے دور میں شام کے اندر اخوان پر بے پناہ مظالم ڈھائے گئے۔ جہاں کہیں اخوان نے احتجاج کیا، انھیں مسلح ایکشن کے ذریعے انتہائی سنگ دلی سے کچل دیا گیا۔ ہزاروں اخوان مردوخواتین جیل میں بند کردیے گئے۔ حلب کے شہر کو ۲۰ستمبر ۱۹۷۹ء میں شامی فوجوں نے یوں گھیرے میں لے لیا جیسے کوئی دشمن ملک اپنے مخالف پر چڑھ دوڑتا ہے اور اخوان کی بہت بڑی تعداد قتل کر دی گئی۔ دوسرے بڑے شہر حماۃ میں بھی ۱۹۸۲ء میں ایسے ہی ایک آپریشن کے ذریعے ہزاروں بے گناہ شہریوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا گیا۔ آج تک اخوان کی ایک بڑی تعداد جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ جو لوگ ملک کے اندر موجود ہیں وہ یا تو جیلوں میں بند ہیں یا ان کے کاروبار بند کرنے اور انھیں ملازمتوں کے لیے نااہل قرار دینے کے بعد ان کا معاشی قتلِ عام کیا گیا ہے۔ داخلی طور پر یہ صورتِ حال بہت درد ناک ہے لیکن حماس کے قائد خالد المشعل اور ان کے قریبی ساتھی دمشق میں امن سے زندگی گزار رہے ہیں۔ انھیں یہ پناہ کسی دوسرے ملک میں نہیں مل سکتی۔ کوئی شک نہیں کہ شام کے سارے شر میںسے حماس کی حمایت کا یہ پہلو ہی خیر کا ایک مظہر ہے لیکن شامی اخوان شاکی ہیں کہ عالمِ اسلام اور ان کے اپنے بھائی بند انھیں فراموش کر بیٹھے ہیں۔ مغربی ذرائع بھی تسلیم کرتے ہیں کہ حماۃ شہر میں ۱۰ ہزار شہری موت کے گھاٹ اتار دیے گئے تھے۔ اکانومسٹ کے تجزیہ نگار نے اپنے مضمون میں بیان کیا ہے کہ اس سال اپریل میں اخوان نے شام کی اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد سے علیحدگی اختیار کر لی ہے، اور یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ شامی اخوان حکمران بعث پارٹی سے سودا بازی کے لیے پر تول رہے ہیں۔ شام میں چونکہ عوام کو جمہوری آزادیاں حاصل نہیں، اس لیے اخوان کی نمایندگی کہیں موجود نہیں۔ اگر عرب ملکوں میں حقیقی معنوں میں عوام الناس کو آزادانہ ماحول میسر آجائے تو مصر و شام دو ایسے ممالک ہیں، جہاں اخوان کو سیاسی میدان میں کوئی شکست نہیں دے سکتا مگر یہ مواقع کب میسر آئیں گے، کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ سرِدست تو مصر میں بھی اخوان پر مزید پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں اور ان کے سیکڑوں مؤثر لوگ جیل میں بند ہیں۔
اکانومسٹ کا نمایندہ بظاہر غیر جانب دارانہ تجزیہ پیش کرتا ہے مگر یہ بیان کرتے ہوئے اس کی خوشی ڈھکی چھپی نہیں رہتی کہ سابقہ انتخاب میں مصر میں ۸۵نشستیں حاصل کرنے والے اخوان کے ارکان جو آزاد نمایندگان کے طور پر جیتے تھے، آیندہ شاید پارلیمنٹ کا منہ نہ دیکھ سکیں۔ اس نے خود ہی یہ نتیجہ بھی اخذ کیا ہے کہ مصر میں اخوان کے مرشدِ عام محمد مہدی عاکف (عمر ۸۱سال) حالات سے دل برداشتہ ہو گئے ہیں اور انھوںنے آیندہ سال جنوری میں قیادت سے دستبرداری کا اعلان کر دیا ہے، جب کہ اس سے قبل تمام مرشد انِ عام تا دمِ آخر قیادت کرتے رہے ہیں۔ اس کے نزدیک اس روایت کو توڑنے کی وجہ بد دلی اور مایوسی ہے۔ یہ عجیب مغربی منطق ہے جس کی توجیہ سمجھ میں نہیں آتی۔ تاعمر قیادت اخوان کی ایک روایت ہے، یہ نہ ان کے دستور کی کوئی دفعہ ہے نہ یہ قرآن و سنت کا منصوص حکم۔ اخوان مشکلات کا شکار ضرور ہیں مگر ان کی صفوں میں کہیں کوئی مایوسی نظر نہیں آتی۔ مشکل ترین حالات میں بھی یہ لوگ پر عزم اور مستقل مزاج رہے ہیں۔
مذکورہ تجزیے میں بعض باتیں حقائق کے برعکس ہیں۔ کویت کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ پچھلی اسمبلی میں حامیانِ اخوان کے چھے نمایندے تھے۔ اب انھیں صرف ایک سیٹ ملی ہے۔ مراکش میں اخوان کی فکر سے متاثر جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی مسلسل آگے بڑھ رہی تھی لیکن موجودہ بلدیاتی انتخابات میں چھے فی صد سے بھی کم کامیابی حاصل کرپائی ہے۔ سوڈان میں ڈاکٹر حسن ترابی کو حکومت نے اقتدار سے بہت دُور کر دیا ہے، جب کہ تجزیہ نگار کے مطابق اردن اور غزہ میں بھی اخوان کے سیاسی مستقبل کا ستارہ گردش میں نظر آتاہے۔ غزہ کی سابقہ ۲۲روزہ جنگ سے تجزیہ نگار کے بقول عام فلسطینی سخت نالاں ہیں کہ حماس نے بلاوجہ اسرائیل سے چھیڑخانی کرکے اپنے اور عوام کے لیے تباہی کا سامان فراہم کیا۔ یہ تجزیہ حقائق کے بالکل برعکس ہے۔ بہرکیف جہاں ایسے تجزیے مغرب کی مخصوص فکر کی عکاسی کرتے ہیں، وہیں یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ مسلمان معاشروں میں اسلامی سوچ کو جڑ سے اکھاڑپھینکنے یا کم از کم اتنا محدود کر دینے کا منصوبہ کہ وہ بے اثر ہو کر رہ جائے مغربی تھنک ٹینکس نے گذشتہ صدی ہی میں بنا لیا تھا۔ اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے مسلمان حکمرانوں کو خدمات سونپ دی گئی ہیں۔ ان حالات میں اسلامی تحریکوں کی ذمہ داریاں کئی گنابڑھ جاتی ہیں۔ اپنی صفوں میں اتحادبرقرار رکھنا اور اپنے کارکنان کے حوصلے بلند رکھنے کے لیے قلیل المیعاد اور طویل المیعاد منصوبہ بندی وقت کا تقاضا ہے۔ اسلامی تحریکوں کی قیادت یقینا ان تمام حالات سے باخبر بھی ہے اور چیلنج کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔ مغربی تجزیہ نگاروں کے تجزیے سے باخبر رہنے کے ساتھ ان سے فائدہ اٹھانے کی بھی ضرورت ہے۔
جہاں تک شامی اخوان کا معاملہ ہے، عالمِ اسلام کی جملہ اسلامی تحریکوں کو ان کے مسئلے کو زندہ کرنے کے لیے فکر بھی کرنی چاہیے اور ان کے حق میں آواز بھی اٹھانی چاہیے۔ حماس تو بے شک مجبور ہے کہ اسے بوجوہ کسی عرب ملک میں وہ سہولتیں حاصل نہیں جو شام میں حاصل ہیں۔ ان کی ضرورت ہے کہ انھیں فلسطین سے ملحق ممالک میں جاے پناہ مل جائے۔ چار ممالک ہی ایسے ہیں جو یہ جغرافیائی پوزیشن رکھتے ہیں۔ ان میں سے مصر اوراُردن تو کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد سے اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہیں اور فلسطین کی جدو جہدِ آزادی کے عملاً مخالف ہیں۔ لبنان کے اپنے مخصوص حالات اور مسائل ہیں۔ یہاں حزب اللہ اسرائیل دشمن ہے مگر اپنی مصلحتوں کے تحت اسے شام سے بھی بنا کر رکھنا پڑتی ہے۔ اس ملک میں حزب اللہ کی عسکری و سیاسی قوت ایک حد تک قابلِ ذکر ضرور ہے مگر وہ اقلیتی گروہ ہے۔ شام ہی ایک ایسا ملک رہ جاتا ہے جس نے حماس کو اپنے ہاں مہمان بنایا ہوا ہے اور بیرونی دبائو کے باوجود اس پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ حماس کی حمایت ضرور ی اور فرض ہے مگر شامی اخوان کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ایک معتدل اور متوازن پالیسی کے ذریعے حالات کا مقابلہ ممکن ہے اور یہی وقت کا تقاضا بھی ہے۔