امریکی وزیرخارجہ کولن پاول خطے کے دورے پر آئے ہوئے تھے۔دورے کے اختتام پر ایوانِ صدر میں الوداعیہ پریس کانفرنس کا اہتمام کیا گیا۔ ایک طرف وزیرخارجہ پاول کھڑے تھے اور دوسری جانب، ہر پروٹوکول کو خاک میں ملاتے ہوئے صدر مملکت جنرل پرویز مشرف۔ کولن پاول نے احسان جتاتے ہوئے اعلان کیا: ’’پاکستان ہمارا اسٹرے ٹیجک حلیف ہے‘‘۔ اعلان کے بعد وزیرخارجہ پورے تزک و احتشام کے ساتھ روانہ ہوئے اور سیدھے دلی پہنچے، وہاں وزیرخارجہ کے برابر بھارتی وزیرخارجہ نے کھڑے ہوکر پریس کانفرنس کی۔ وہاں کولن پاول کامل اطمینان و مسرت سے اعلان کر رہے تھے: ’’بھارت ہمارا فطری حلیف ہے‘‘۔ ظاہر ہے اسٹرٹیجی اور پالیسی تو تبدیل ہوتی رہتی ہے لیکن فطرت کبھی تبدیل نہیں ہوسکتی۔
نائن الیون سے پہلے اور بعد کے حالات اسی حقیقت کا عملی مظہر و ثبوت ہیں۔ ہم نے امریکی احکامات کی بجاآوری اس انداز سے کی ہے کہ اس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ دنیا کا کوئی عام شہری بھی پاکستان کو مقبوضہ افغانستان اور عراق سے زیادہ حیثیت نہیں دیتا، لیکن اس ساری خدمت گزاری کا اصل اجر وثواب بھارت کی گود میں ڈالا جا رہا ہے۔ ہرچند ماہ، بلکہ بعض اوقات چند ہفتوں کے وقفے سے امریکا یا اس کی لے پالک صہیونی ریاست کی طرف سے کوئی نہ کوئی بڑی فوجی یا اقتصادی امداد بھارت کے چرنوں میں لا ڈالی جاتی ہے۔
نومبر کے آغاز میں ایک ارب ۱۰ کروڑ ڈالر مالیت کا جدید ترین اسرائیلی دفاعی نظام بھارت کو پیش کیا گیا۔ اسی طرح کا ایک سودا تقریباً ایک ماہ قبل، گذشتہ اکتوبر میں سامنے آیا تھا۔ ایک طرف پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف بھارت، اسرائیل اور امریکا ہمیشہ سرجھاڑ، منہ پھاڑ پروپیگنڈا کرتے رہتے ہیں، لیکن دوسری طرف ’پُرامن مقاصد‘ کی دُم لگا کر بھارت کے ایٹمی پروگرام کو بلاروک ٹوک آگے بڑھایا جارہا ہے۔ بھارت کے علاقوں آندھرا پردیش اور گجرات میں خود امریکی جوہری کمپنیوں کی جانب سے ایٹمی تنصیبات تعمیر کرنے کے معاہدوں پر عمل درآمد کیا جارہا ہے۔ بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ ان دنوں دورئہ واشنگٹن پر ہیں۔ اس دورے میں امریکا اور بھارت کے درمیان ۱۸ ارب ڈالر کے جنگی جہازوں اور دیگر عسکری سازوسامان کے سودوں پر دستخط متوقع ہیں۔ ہرسال ایک لاکھ بھارتی طلبہ کو امریکا میں اعلیٰ تعلیم کے لیے داخلے دیے جارہے ہیں۔ ہرسال دنیا بھر میں امریکی سفارت خانے، ملازمتوں کے لیے جتنے ویزے جاری کرتے ہیں، ایک اندازے کے مطابق ان میں سے ۵۰فی صد صرف بھارتیوں کو دیے جاتے ہیں۔امریکا اور بھارت کے درمیان باہمی تجارت گذشتہ چارسال میں دگنی ہوکر ۴۳ ارب ڈالر سالانہ تک پہنچ چکی ہے۔ امریکا میں مقیم بھارتی نژاد امریکیوں کی تعداد تقریباً ۳۰ لاکھ ہوچکی ہے۔ ان بھارتی نژاد امریکیوں کی ایک سب سے اہم سرگرمی، بھارت امریکا اور اسرائیل کے تعلقات کو مضبوط سے مضبوط تر کرنا ہے۔ اس پورے کام کو بھارتی حکومت کی مکمل سرپرستی حاصل رہتی ہے۔
امریکا، اسرائیل اور بھارت پر مشتمل برائی کا محور (Axis of Evil) ایک عالم کو اپنی لپیٹ میں لینے کے لیے بے تاب ہے۔ اس موضوع پر لاتعداد مقالے، تحقیقی رپورٹیں اور کتابیں روشنی ڈالتی ہیں۔ ۸مئی ۲۰۰۳ء کو امریکی یہودی کمیٹی (American Jewish Committee -AJC) کے ۹۸ویں سالانہ عشائیے میں بھارتی قومی سلامتی کے مشیر برجیش مشرا کا خصوصی خطاب بھی اس سلسلے کی اہم کڑی ہے۔ اپنے اس کلیدی خطاب میں جناب مشرا نے انھی تین ممالک پر مشتمل تکون کو مضبوط کرنے پر زور دیا تھا۔ یہ تکون بنانے کے اسباب و اہداف واضح کرتے ہوئے انھوں نے اس ’نظریۂ تثلیث‘ کو ایک تو انتہا پسند اسلام کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری قرار دیا تھا، اور دوسرے سبز اور سرخ (عالم اسلام اور چین) کے ممکنہ اتحاد کا مقابلہ کرنے کے لیے۔ مشرا نے اپنی تقریر میں یہ خوش خبری دی تھی کہ اس تکون کی تشکیل عملاً وجود میں آچکی ہے۔
مشرا نے کہا: ’’ہم تینوں کا عسکری تعاون پہلے ہی سے جاری ہے۔ امریکا اور بھارت دونوں کی افواج اسرائیل میں تربیت حاصل کررہی ہیں۔ یہ افواج دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں، شہروں میں گوریلا کارروائیوں کی ٹریننگ اور دیگر مہارتیں حاصل کررہی ہیں.... جاسوسی معلومات کے تبادلے میں بھی وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔ اسرائیلی جاسوسی ادارے بھارت کو ایسی جاسوسی اطلاعات فراہم کرنے میں خصوصی طور پر فعال ہیں، جن سے پاکستان پر نگاہ رکھنے میں مدد ملتی ہے‘‘۔
موصوف نے اپنی تقریر میں تینوں ملکوں کو ایک دوسرے کی ضروریات پوری کرنے کا درس دیتے ہوئے کہا: ’’خصوصی طور پر یہ کہ ہم تینوں ملک ایک دوسرے کو وہ کچھ پیش کرسکتے ہیں جو دوسرے کے پاس نہیں ہے۔ بین الاقوامی تعلقات کے میدان میں دیکھیں تو ہم تینوں میں سے ہرملک دوسرے دو کے بدترین دشمنوں سے اچھے تعلقات رکھتا ہے۔ بھارت کے سب سے بڑے دشمن پاکستان کے ساتھ ’فی الحال‘ امریکا کے اچھے تعلقات ہیں۔ ایران، اسرائیل اور امریکا کا دشمن ہے، لیکن بھارت کے اس سے اچھے تعلقات ہیں۔ چین، امریکا کا بہت بڑا حریف ہے ،بھارت کے لیے بھی وہ بڑا خطرہ ہے لیکن اسرائیل کے ساتھ اس کے بہتر تعلقات ہیں‘‘۔ ان الفاظ میں چھپا اصل پیغام یقینا وہاں بیٹھے تمام حاضرین کو بخوبی سمجھ میں آگیا ہوگا کہ ہم میں سے جو ملک ہمارے کسی دشمن ملک کے ساتھ دوستی رکھتا ہے، وہ وہاں باقی دونوں کے مقاصد کی تکمیل کرے۔
یکم نومبر ۲۰۰۸ء کو شکاگو میں دیے گئے ایک اور لیکچر کا عنوان ہی ’بھارت، اسرائیل، امریکا اتحاد: انسانیت کی آخری عظیم اُمید‘ تھا۔ اس لیکچر میں ڈاکٹر رچرڈ بنکن (Richard Benkin) نے جو کچھ کہا ہوگا وہ اس کے عنوان سے ظاہر ہے۔ اس نظریاتی اور جذباتی وابستگی کی بنیاد پر تینوں ملکوں کے تعلقات کو مستحکم اور ہمہ پہلو بنانے کے لیے کئی امریکی اور یہودی ادارے مصروف کار ہیں۔ تین اہم امریکی تھنک ٹینک اس سلسلے میں اپنی سالانہ کانفرنسیں باقاعدہ منعقد کررہے ہیں، تاکہ تینوں ملکوں کے درمیان گہرے تعلقات کا سفر جاری رہے۔اس تعاون کا ایک عملی نتیجہ ۲۰۰۰ء کے وسط میں، اسرائیل کا کلنٹن انتظامیہ کو اس بات پر آمادہ کر لینا تھا کہ وہ اپنا جدید ترین فضائی اور جاسوسی نظام ’اواکس‘ (AWACS) بھارت کو فروخت کردے، حالانکہ امریکی انتظامیہ خطے میں طاقت کا توازن بگڑ جانے کے خدشے سے یہ نظام بھارت کو دینے میں متردد تھی۔ ۲۱ جنوری ۲۰۰۸ء کو بھارتی سرزمین سے، بھارتی راکٹوں کے ذریعے فضا میں چھوڑا جانے والا اسرائیلی جاسوسی خلائی سیارہ اس عالمی تکون کا ایک اور خطرناک اقدام تھا۔ اس جاسوسی سیارے کے ذریعے ہر طرح کے موسم میں ایک مربع میٹر کے علاقے تک کی انتہائی واضح تصاویر بنا لینا آسان ہوگیا ہے۔
امریکی عسکری رسالے ڈیفنس نیوز کے مطابق اسرائیل امریکا کے تعاون سے ۲۰۱۰ء کے وسط میں Horizon-8 نام کا ایک نیا جاسوسی سیارہ فضا میں چھوڑنے جا رہا ہے۔ اس کے بعد Horizon-9کے نام سے ایک مزید سیارہ بھی چھوڑا جانا ہے لیکن اس کے لیے کسی ایسے دوسرے ملک کی تلاش ہے جو اس کے اخراجات اور ٹکنالوجی میں معاونت دے سکے۔ امریکی رسالے کے مطابق اسرائیل اور بھارت ۲۰۱۱ء کے آخر تک Tec SAR-2 نامی ایک اور مشترکہ خلائی سیارہ بھی فضا میں چھوڑیں گے۔
تینوں ملکوں کے تعلقات میں سے بھی بھارت اسرائیل تعلقات خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ فلسطینی اسٹرے ٹیجک رپورٹ ۲۰۰۷ء نے ان دونوں ملکوں کے تعلقات کا مفصل جائزہ لیا ہے۔ کئی صفحات پر پھیلی یہ رپورٹ واضح کرتی ہے کہ:
بھارت نے صہیونی ریاست کو اس کے اعلان تشکیل کے فوراً بعد ہی ایک حقیقت واقعہ (de-facto) کی حیثیت سے تسلیم کرلیا تھا۔ چند ماہ بعد ہی اسے ممبئی میں اپنا تجارتی دفتر کھولنے کی اجازت دے دی گئی۔ جون ۱۹۵۳ء میں یہ دفتر باقاعدہ اسرائیلی قونصلیٹ کا درجہ اختیار کرگیا، اگرچہ بھارت کا علانیہ موقف یہی رہا کہ اسرائیل کو قانونی طور پر تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ اندراگاندھی نے اپنے دور اقتدار میں اسرائیل کے ساتھ خفیہ عسکری تعلقات کا آغاز کردیا، لیکن دونوں ملکوں کے درمیان باقاعدہ اور علانیہ سفارتی تعلقات ۱۹۹۲ء میں اس وقت قائم ہوئے، جب نرسیما راؤ نے کانگریس پارٹی کی قیادت سنبھالی۔ اسرائیلی سفارت خانہ جلد ہی بھارت میں موجود سفارت خانوں میں فعال ترین سفارت خانے کی حیثیت اختیار کرگیا۔ دونوں ملکوں کے درمیان ہمہ جہت تعلقات کی ایک جھلک فروری ۲۰۰۷ء میں دلی میں منعقد ہونے والی ہندو یہودی مشترکہ کانفرنس میں دیکھی جاسکتی ہے، جس میں دونوں طرف سے چوٹی کی مذہبی قیادت شریک ہوئی۔ اگرچہ اس کانفرنس کا انعقاد ایک مجہول تنظیم ’عالمی کونسل براے مذہبی قیادت‘ کی طرف سے کیا گیا تھا لیکن اس کا اعلامیہ اسرائیلی وزارتِ خارجہ کی طرف سے جاری کیا گیا۔ دیگر امور کے علاوہ اس کانفرنس میں ایک ’ہندو یہودی دائمی کمیٹی‘ کے قیام کا اعلان کیا گیا۔
تعاون کا ایک اور اہم پہلو باہم اقتصادی تعاون ہے۔ ۱۹۹۲ء میں باقاعدہ اور علانیہ تعلقات کے قیام کے وقت دونوں ملکوں کے درمیان ۲۰ کروڑ ڈالر کی سالانہ تجارت ہوتی تھی۔ ۲۰۰۵ء-۲۰۰۶ء میں یہ تجارت ۲ ارب ۲۰ کروڑ تک جاپہنچی۔ یہ اعداد و شمار بھی بھارت کے اعلان کردہ ان اعداد و شمار کے مطابق ہیں جن کے بارے میں عمومی خیال ہے کہ ان میں دونوں ملکوں کے درمیان عسکری تعاون کی اصل رقوم چھپائی جاتی ہیں۔ عسکری تعاون کا جائزہ لیں تو وہ دونوں کے باہمی تعلقات کا سب سے اہم حصہ ہے۔ کشمیر کی تحریک آزادی اور ۱۹۹۹ء میں کارگل کے واقعات کو اس میں مزید اضافے کے لیے خوب خوب استعمال کیا جارہا ہے۔ اسرائیلی فوج کا ڈپٹی چیف جنرل موشیہ کا بلینسکی خود جون ۲۰۰۷ء میں کشمیر کا دورہ کرچکا ہے، تاکہ کشمیر کی جدوجہد آزادی ختم کرنے کے لیے ماہرانہ رہنمائی دے سکے۔ اب بھارت، اسرائیل سے اسلحہ خریدنے والا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے۔ ٹائمز آف انڈیا کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیل، بھارت کو گذشتہ کئی برس سے سالانہ تقریباً ایک ارب ڈالر کا اسلحہ دے رہا تھا۔ ۲۰۰۶ء میں یہ مقدار ڈیڑھ ارب ڈالر تک جا پہنچی جو بھارت میں درآمد کیے جانے والے کل ہتھیاروں کا ایک تہائی ہے۔ اب معاملہ صرف اسرائیلی ہتھیار خریدنے پر ہی موقوف نہیں، دونوں ملک مل کر بھی بہت سا جدید اسلحہ تیار کررہے ہیں۔ وزیراعظم من موہن سنگھ کی سربراہی میں ایک مشترک کمیٹی نے درمیانے درجے کے نئے میزائل تیار کرنے کے ایک منصوبے کی منظوری دی ہے، جس کی مالیت اڑھائی ارب ڈالر ہے۔ یہ میزائل روسی ساخت کے پچوڑا (Pechora ) میزائل کی جگہ لے گا۔
The Hindu کے شمارے (یکم ستمبر ۲۰۰۷ء)کے مطابق دونوں ملک مزید ۱۸ مشترکہ عسکری منصوبوں پر کام کررہے ہیں۔ (ان خبروں کے پس منظر میں ۲۳ نومبر ۲۰۰۹ء کو بھارت کے اگنی۲ میزائل جس کی مار ۲ہزار کلومیٹر تک ہے اور جو ایک ٹن ایٹمی مواد اٹھا سکتا ہے، کا تجربہ، ساتھ ہی ۳ہزار اور ۵ہزار کلومیٹر دُور مار کرنے والے میزائلوں پر کام جاری ہونے کی اطلاعات، بہت سے سوالیہ نشان پیدا کرتی ہیں۔ سب سے اہم تو یہ کہ آخر بھارت کو اتنی دُور تک تباہی پھیلا سکنے والے میزائلوں اور ان پر اربوں ڈالر بھسم کرڈالنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ اگر پاکستان سے خطرات لاحق ہیں تو اس کے لیے تو چند سو کلومیٹر تک جاسکنے والے میزائل ہی کافی تھے؟ تو پھر کیا یہ میزائل اسرائیلی مفادات کی آبیاری کے لیے تیار کیے جارہے ہیں؟ اور کیا یہ بھی انھی ۱۸ مشترکہ عسکری منصوبوں کا حصہ ہیں؟ پھر یہ کہ یہ تجربہ اور اعلانات من موہن کی امریکی موجودگی کے عین دوران کیوں کیے گئے؟ کیا ان کا مقصد ایران اور پاکستان سمیت دیگر مسلم ممالک کو دی جانے والی امریکی اسرائیلی دھمکیوں کو، عملاً نافذ کرنے کی تیاریوں کی اطلاع دینا ہے؟)
بھارت اور اسرائیل کے بدنام زمانہ جاسوسی اداروں ’را‘ اور ’موساد‘ کے مابین جاسوسی تعاون، سابق الذکر تعاون کے تمام منصوبوں پر مستزاد ہے۔ اسٹرے ٹیجک رپورٹ کے مطابق اس کی ایک جھلک Radiff.com کی ویب سائٹ پر موجود مضمون: Raw & Mosad: The Secret Link میں دیکھی جاسکتی ہے۔
کچھ لوگوں کے لیے یہ حقائق اور معلومات یقینا غیر متوقع نہیں ہوں گے، لیکن سوال یہ ہے کہ اس سب تعاون کے جواب میں پاکستان، جو اس ساری تیاری اور تعاون کا اولیں ہدف ہے، کیا کررہا ہے؟ امریکا، بھارت اور اسرائیل کے اہداف بھی واضح ہیں اور ان کی پالیسیاں اور اقدامات بھی۔ لیکن اس سب کچھ کے مقابل ذرا ہم اپنی طرف سے مسلسل الاپے جانے والے راگ سنیں: ’’امریکا ہمارا قابلِ اعتماد دوست ہے، ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ میں ہم اس کے حلیفِ اول ہیں۔ امریکی جنگ، ہماری اپنی جنگ ہے۔ ہم بھارت سے دوستی چاہتے ہیں۔ آخر کب تک کشمیر پر لڑتے رہیں، اقوامِ متحدہ کی قراردادیں ہی نہیں درجنوں مزید آپشن موجود ہیں۔ خفیہ سفارت کاری سے مسئلہ حل کریں گے۔ مسئلہ فلسطین پر خود عرب اپنا ایمان بیچ رہے ہیں تو ہم کیوںنہ اسرائیل سے دوستی کرلیں۔ بھارت کا راستہ روکنا اور امریکا کا دل جیتنا ہے تو ہم خود اسرائیل کو تسلیم کرلیں‘‘۔
یہ اور اس طرح کی مزید بہت سی خودفریبیاں دشمن کا کام یقینا آسان کردیں گی اور پھر کسی فریب خوردہ ملک و قوم کے لیے نجات کی کوئی راہ باقی نہ رہے گی۔ آج بھی وقت ہے سنبھلنے کا۔ پروردگار اہل باطل کو دُور تک اور دیر تک ڈھیل، اور اہل ایمان کو آخری لمحے تک مہلت عمل دیتا ہے۔
وہ تمھاری خرابی کے کسی موقع سے فائدہ اٹھانے میں نہیں چوکتے۔ تمھیں جس چیز سے نقصان پہنچے وہی اُن کو محبوب ہے۔ ان کے دل کا بُغض ان کے منہ سے نکلا پڑتا ہے اور جو کچھ وہ اپنے سینوں میں چھپائے ہوئے ہیں وہ اس سے بھی شدید ترہے۔ ہم نے تمھیں صاف صاف ہدایات دے دی ہیں، اگر تم عقل رکھتے ہو (تو ان سے تعلق رکھنے میں احتیاط برتو گے)۔ تم ان سے محبت رکھتے ہو مگر وہ تم سے محبت نہیں رکھتے حالانکہ تم تمام کتب ِ آسمانی کو مانتے ہو۔ جب وہ تم سے ملتے ہیں تو (وہ تم سے اظہارِ محبت و قربت کرنے کے لیے) کہتے ہیں کہ ہم نے بھی (تمھارے رسول اور تمھاری کتاب کو) مان لیا ہے، مگر جب جدا ہوتے ہیں تو تمھارے خلاف ان کے غیظ و غضب کا یہ حال ہوتا ہے کہ اپنی اُنگلیاں چبانے لگتے ہیں۔ ان سے کہہ دو کہ اپنے غصہ میں آپ جل مرو، اللہ دلوں کے چھپے ہوئے راز تک جانتا ہے۔(اٰل عمرٰن ۳:۱۱۸-۱۱۹)
سب سے اہم یہ کہ ہم سب کو اپنے اللہ کی پناہ حاصل کرنا ہوگی۔ دن رات دہرائے جانے والے اپنے وعدے اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کا عملی ثبوت دینا ہوگا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش پا پر چلتے ہوئے، ہر دم اس خبیر و قدیر ذات کے سامنے ہاتھ پھیلانا ہوں گے اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُورِھِمْ وَنَعُوذُ بِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ، اے ہمارے پروردگار ہم اپنے دشمنوں کی گردنیں تیرے ہاتھ دیتے ہیں اور ہم ان کے ہر شر سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔