’پاکستان اور امریکا کے تعلقات‘ (نومبر ۲۰۰۹ء) میں کیری لوگر بل کا آئینہ سامنے رکھ کر بجا توجہ دلائی گئی ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو ہمیشہ یہ غلط فہمی رہی ہے کہ امریکا ہمارا دوست ہے، جب کہ تاریخ شاہد ہے کہ امریکا کبھی بھی ہمارا دوست نہیں رہا بلکہ اس نے ہر آڑے وقت میں ہماری پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے۔
ہم یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ حکمرانوں کے ذاتی مفادات ہیں جس کی وجہ سے وہ قوم کے سامنے دشمن کو دوست کے روپ میں پیش کرکے سادہ لوح عوام کو دھوکا دیتے ہیں۔ غلط پالیسیوں کے نتیجے میں ملک کی آزادی، خودمختاری اور عزت و وقار کا سودا کر کے اسے امریکا کی غلامی میں دے دینا، تاریخی کامیابی ہے یا تاریخی ذلت؟ حکمرانو! خدارا ہوش کے ناخن لو!
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا جرم کیا ہے؟ (ستمبر ۲۰۰۹ء) کتاب پر تبصرہ نظر سے گزرا۔ افغانستان کے بدنام امریکی جیل خانے (بگرام) میں پانچ برس مقید رہنے کے بعد اب مظلومہ عافیہ صدیقی امریکا میں جیل کی صعوبتیں برداشت کر رہی ہے۔ اس پر وحشیانہ مظالم جاری ہیں اور کوئی قصور بھی سامنے نہیں آسکا۔ مسلمان حکمران بھی بے بس اور بے حِس نظر آتے ہیں۔ کسی مسلم حکومت نے کوئی بھرپور احتجاج بھی نہ کیا جس سے اُمت مسلمہ کی غیرت کا اظہار ہوتا۔ حکومتِ پاکستان امریکا کی ہر طرح خدمت کر رہی ہے لیکن اتنا نہ کرسکی کہ خیرسگالی کے اظہار کے طورپر عافیہ صدیقی کو رہا کروا لیتی۔
ہمارے حکمرانوں اور میڈیا پر تو جیسے مغرب کا سحر طاری ہوگیا ہے۔ مغربی طرز کے عائلی قوانین، خاندانی منصوبہ بندی اور اس کے اشتہارات کی بھرمار، مغربی معاشرت کے فروغ کے لیے میڈیا کا استعمال، فوج میں خواتین کی بھرتی، مخلوط تعلیم اور جنسی تعلیم وغیرہ حکومتی ’کارناموں‘ کی ایک لمبی فہرست ہے۔ مغرب کی اندھی تقلید میںہم یہ بھی بھول گئے ہیں کہ خود مغرب نے اپنے تجربات سے کیا پایا ہے۔ مغرب اور مغربی تہذیب جن مسائل سے دوچار ہے انھیں بھرپور انداز میں سامنے لانا چاہیے تاکہ مغرب کی تقلید کا راگ الاپنے والوں کے سامنے حقیقت ِ حال اور تصویر کا دوسرا رُخ بھی سامنے آسکے۔ کچھ عرصہ قبل ترجمان میں ’افواج میں خواتین کی بھرتی‘ (جنوری ۲۰۰۹ء) کے مغربی تجربے پر تحقیقی مضمون شائع ہوا تھا، اس نوعیت کی تحریریں بار بار آنی چاہییں تاکہ مغرب کا سحر ٹوٹ سکے اور میڈیا کی یلغار کا بھی مقابلہ کیا جاسکے۔
مسلم دنیا بالعموم اور پاکستان بالخصوص گذشتہ نو دس برس سے اپنوں اور دشمنوں کی وجہ سے پیچیدہ ترین حالات سے گزر رہا ہے۔ اسی سلسلے میں ’دہشت گردی‘ کی حالیہ لہر نے پورے ملک کی فضا کو سوگوار بنا دیا ہے۔ تعلیمی ادارے ہوں یا عبادت گاہیں، سب امن و سلامتی کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ ہمیں ’دہشت گردی‘ کا جواب بندوق سے نہیں، بلکہ اصل مسئلے کو حل کرنے سے دینا چاہیے۔ ’آپریشن راہِ راست‘ سے سوات، بونیر اور دیر میں کتنے لوگ راہِ راست پر آگئے اور ’آپریشن راہِ نجات‘ سے کیا ملک کو ’دہشت گردی‘ سے واقعی نجات مل جائے گی…؟؟ علماے کرام کا خودکش حملوں کو حرام قرار دینے اور محض اخبارات میں اشتہارات لگوانے سے خودکش حملے نہیں روکے جاسکتے۔
اگر ’دہشت گردی‘ کے ایک واقعے پر امریکا پوری دنیا کا منظرنامہ اور نقشہ تبدیل کرسکتا ہے اور ایک کمیشن بناکر نام نہاد دہشت گردی کے نام پر جاری جنگ کے لیے عوامی تائید اور قوم کا اعتماد حاصل کرسکتا ہے، تو ہم صرف اپنے ملک کی حد تک اس کو حل کرنے اور پُرامن بنانے کے لیے ’دہشت گردی‘ پر ایک اعلیٰ اور بااختیار کمیشن کیوں نہیں بناسکتے؟ جس میں اسباب، وجوہات اور حقائق سمیت ہر پہلو کا جائزہ لیا جائے اور پُرامن و خوش حال پاکستان کے لیے اس کی سفارشات پر عمل درآمد ہو۔