معا شرتی زندگی کی بنیادی اکائی خا ندان ہے۔ اسلامی معاشرے میں ہر نئے خاندان کی ابتدا ایک مرد اور عورت کے درمیان نکاح کے ذریعے ڈالی جاتی ہے۔ معا شرے کی صالح قدروں کی نشوونما ، استحکام اور بقا، خا ندان کی مضبوطی سے وابستہ ہے۔ ایک صالح خا ند ا ن اس وقت و جو د میں آتا ہے جب صالح مرد اور عورت آپس میں نکاح کے پاکیزہ رشتے سے منسلک ہوجائیں۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نکاح میری سنت ہے‘‘۔ اسی طرح ایک اور جگہ فرمایا: ’’میں عورتوں سے نکاح کرتا ہوں، جو میری سنت سے منہ موڑے وہ مجھ سے نہیں ہے‘‘ (بخاری )۔ گویا ایک مسلم معاشرے میں نکاح بے حد اہمیت کا حا مل ہی نہیں، سنت ِ رسولؐ بھی ہے۔
نکاح مرد و عورت کے د ر میا ن ایک پاکیزہ ، پر خلو ص بندھن کا ا یسا معاہدہ ہے جس میں اللہ نے برکت ، محبت و خوب صورتی پید ا کر دی ہے۔ ’’اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمھارے لیے تمھاری جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمھارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی‘‘(روم ۳۰:۲۱)۔اس مخلص رشتے میں محبت دراصل اللہ کی بے پایاں رحمت کا حصہ ہے جس کامقصد ایک پر سکون اور صالح معاشرتی زندگی کی تعمیر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو یہ دعا سکھائی ہے: رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰـتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا o (الفرقان ۲۵:۷۴) ’’اے ہمارے رب! ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولادوں سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اور ہم کو پرہیزگاروں کا امام بنادے‘‘۔
عا م طور پر شادی کی تیار یا ں تو بہت زوروشور سے ہوتی ہیں لیکن شادی کے بعد کی زندگی کی کوئی منصوبہ بندی جس کی بنیاد خالصتاً رضاے الٰہی، یعنی دینی بنیادوں پر ہو نظر انداز ہو کر رہ جاتی ہے۔ اس سلسلے میں دین دا رگھرانوں کا بھی غیر اسلامی معاملات سے صرف ِ نظر کرنا گویا دین داری کو پھر اسی دائرے میں مقید کر دینا ہے جس کا آغا ز کلمہ کے زبانی ا قرا ر سے شروع ہو کر عبادات کے مظاہر پرختم ہوجاتا ہے۔ ا گر اس میں اللہ کی حدود اوراسلامی تعلیما ت کا خیال رکھا جائے تو خاندان کی ا بتدا اسلامی ا صولوں پر ہوگی۔ اسلام ایک مکمل ضا بطۂ حیات ہے۔ وہ زندگی کے ایک ایسے فیصلے کو جس پر انسان کی آدھی سے زیادہ زندگی کے اعمال کا ا نحصار ہے، نظرانداز نہیں کرسکتا۔ اسلام میں اس سلسلے میں نہایت وا ضح رہنما ئی ملتی ہے جس پر عمل پیر ا ہوا جائے تو وہ مسائل جن کا فی زمانہ بہت سے لوگوں کو سامنا کرنا پڑ ر ہا ہے ، ان کی شدت میں کمی وا قع ہوجائے۔
یہ شادی کی تیاری کا پہلا مرحلہ ہے جو ہماری معاشرت میں خالصتاً زنانہ کام سمجھا جاتا ہے۔ بظاہر عام روز مرہ زندگی کا ایک ایسا کام جس کو سال ہا سال سے تقریباً ہر فرد نے اپنی اپنی اولادوں کے لیے سرا نجام دیا ہوگا، ہمارے دین کا ایک اہم حصہ ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں احادیث سے واضح ہدایات ملتی ہیں۔ ہرعمل جو روزمرہ زندگی میں معمول کا حصہ سمجھا جاتاہے ،ایسے مباحات میں شمار ہوتا ہے جن میںدینی لحاظ سے بھرپور منصوبہ بندی کر کے آغاز کیا جائے تو آخرت میں بے حد اجر و ثواب کا باعث ہوسکتا ہے۔ یہاں ذرا ٹھیر کر خود سے سوال کریں کہ آپ انتخابِ زوج کے لیے کیا ترجیحات رکھتے ہیں؟ پھر اس کی درجہ بہ درجہ فہرست مرتب کر لیں تو ہمیں خود اندازہ ہوجائے گا کہ دین ہمارے معاملات میںکس درجہ اور کس حد تک شامل ہے اور رسوم و رواج، جاہلانہ روایات و اقدار جس میں قو م ، قبیلہ ، ذات وغیرہ شامل ہیں ا ن کی کیا اہمیت ہے۔
حدیث ہے کہ ہر عمل کا دارومدا ر نیت پر ہے۔ مناسب زوج کا انتخاب کرتے وقت اس حدیث کو پیش نظر رکھنا چاہیے کہ آیا میری بیٹی ، بیٹا یا فرد کی اپنی شادی صرف اس و جہ سے ضروری ہے کہ یہ ایک معا شرتی یا طبیعی ضرورت ہے یا اس لیے کہ ایک پاکیزہ رشتے سے ایک صالح خاندان وجود میں آئے گا؟ یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ اخلاص نیت سے کیا گیا ہر کام عبادت میں شمار ہوتا ہے۔ جس طرح ہر عبادت کی نیت ہوتی ہے جو اس عبادت کے لیے یکسو کر دیتی ہے، اسی طرح زندگی کے دیگر معاملات میں بھی نیت کو خالص اللہ کی ر ضا کے لیے متعین کرنا قرب الٰہی کا ذریعہ ہے اور ساتھ ساتھ شیطا نی افکا ر و اعمال سے نجات کا بھی۔ اگر نکاح کی تیاریو ں کے اس مرحلے کو خالص کرلیا جائے تواللہ تعالیٰ کی رحمت شامل حال ر ہے گی۔ اس لیے ضرور ی ہے کہ ا نسا ن اپنی نیتوں کا جائزہ لیتا رہے، اپنی رغبتوں کو پرکھتا رہے کہ نکاح کے لیے میری نیت کیا ہے اور میری ترجیحات میں دین کتنا شامل ہے۔
دوسرا مرحلہ ایک ایسے فرد کی تلا ش ہے جو نکاح کے لیے ا ن تمام شرائط کو پوراکرتاہو جس کا تقاضا دین اسلام ہم سے کرتا ہے۔ اس ضمن میں ہر فرد کو خوب سوچ بچار کرنے کا حق حاصل ہے لیکن ترجیحات کا تعین ہماری دینی سمجھ بوجھ اور تقویٰ پر منحصر ہے۔ ایک دین دار فرد کے لیے یقینا زندگی کا یہ مرحلہ بہت نازک ہوتا ہے۔ جب زندگی کا ایک حصہ اللہ کے ا حکام کے مطابق گزارنے کی سعی میں صرف ہوچکا ہو تو وہ فرد اپنی باقی ماندہ زندگی کو ایسے فرد کے ساتھ گزارنے کاسوچ بھی نہیں سکتا جو ملحدانہ سوچ کا حامل ہو اور اس کا دین زبانی کلا می اسلامی دعووں تک محدود ہو۔
قرآن صالح مرد کے لیے صالح عورت اور صالح عورت کے لیے صالح مرد کا انتخاب کرتا ہے۔ ’’خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لیے اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لیے۔ پاکیزہ عورتیں، پاکیزہ مردو ںکے لیے ہیں اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لیے ‘‘(النور ۲۴:۲۶)۔ اسی طرح پسند ناپسند کامعیار تقویٰ پر مقرر کرتے ہوئے قرآن میں تاکید آتی ہے کہ ’’تم مشرک عورتوں سے ہرگز نکاح نہ کرنا جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں۔ ایک مومن لونڈی، مشرک شریف زادی سے بہتر ہے ، اگر چہ وہ تمھیں بہت پسند ہو۔ اور اپنی عورتوں کے نکاح مشرک مردوں سے کبھی نہ کرنا ، جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں۔ ایک مومن غلام، مشرک شریف سے بہتر ہے ا گرچہ وہ تمھیں بہت پسند ہو۔ یہ لوگ تمھیں آگ کی طرف بلا تے ہیں اور اللہ ا پنے اذن سے تم کو جنت اور مغفرت کی طرف بلا تا ہے۔ ‘‘(البقرہ ۲:۲۲۱)
انتخا ب کرنے والے فرد کو انتخاب کرتے وقت یہ ضرور سوچناچاہیے کہ پسند ناپسند کامعیار دینی تعلیمات پر مبنی ہے یا اپنی ذاتی رغبتوں اورزمانے کی روایات کے مطابق۔ حدیث نبویؐ اس سلسلے میں ہماری جو رہنمائی کرتی ہے وہ بہت و اضح ہے۔ حضرت ا نس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص نے کسی عورت سے محض اس کی عزت کی و جہ سے شادی کی، اللہ تعالیٰ اس کو خوب ذلیل کرے گا، جس نے کسی عورت سے اس کے ما ل کے سبب شادی کی تو اللہ تعالیٰ اسے محتاج بنا د ے گا، اور جس نے کسی عورت سے اس مقصد کے لیے شادی کی کہ اس طرح اس کی نگاہ جھکی رہے اور اس کی شرم گا ہ محفوظ رہے تو اللہ تعالیٰ اس کو عورت کے ذریعے اور عورت کو اس شخص کے ذریعے خیر و برکت سے نواز د ے گا‘‘۔ ( الطبرانی الاوسط)
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روا یت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عورت سے چار بنیادوں پر نکاح کیا جاتا ہے: اس کے مال کی خاطر ، خاندان کی و جہ سے ،اس کے حُسن کی و جہ سے ، اس کے دین کی خاطر۔ تمھارے دونوں ہاتھ خاک آلود ہوں،تم دین دا ر عورت کو نکاح میں لائو۔(بخاری، مسلم )
اسلام نکاح کا پیغام دینے والے مرد و عو رت کے لواحقین کے سامنے جو معیار پیش کرتا ہے وہ ان احادیث سے واضح ہے۔ ایک مسلمان کی زندگی کا کل اثاثہ دین ہے۔ سارے معاملات کی بنیاد بھی دین ہے کیونکہ اس کے علاوہ سارے معیار ہماری ذاتی ، نفسی اور رسوم و روایات پر مبنی اور باطل ہوتے ہیں۔ ان کے اثرات و نتائج اور نقصانات کے ہم خود ذمہ دار ہوتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا ہے۔ رسولؐ اللہ نے نکاح کرنے والے ہر فرد کو اس بات کی تلقین کی ہے کہ اس کامعیار پا کیزہ طبیعت ، دین داری اور بہترین ا خلا ق پرہونا ضرور ی ہے نہ کہ ظاہری چمک دمک اور ما ل و دولت پر۔ ان معاملات کو دینی بنیادوں پر اسی وقت استوار کیا جاسکتا ہے جب فرد اپنی سوچ کو دین کے تقاضوں کے مطابق کر دے۔ وہ فرد جو حسن ِ صورت اور دنیاوی مرتبہ رکھتا ہو اس کا حصول بہت پُرکشش ہوتا ہے۔ اس معیار پر بھی اسلام نے کوئی قد غن نہیں لگا ئی کیونکہ اس رشتے کی بنیاد دلی رغبت پر بھی ہوتی ہے لیکن صرف اس کو معیار بنا کر دین کو فہرست کی انتہا پر رکھنا یا اسے غیرضروری حیثیت دے دینا درست نہیں ہے۔
عزت کا قرآنی معیار ایک ایسا آفاقی معیار ہے جو ہر اس نظریے کی نفی کرتا ہے جس سے انسا نیت متاثر ہوتی ہے۔ اس معیار کو قرآن اس طرح پیش کرتا ہے: ’’ا ے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد و عورت سے پیدا کیا اور تم کو گروہ اور قبا ئل بنا دیا تا کہ تم ایک دوسرے کو پہچانو ، درحقیقت تم میں سب سے زیادہ معزز وہی ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے‘‘(الحجرات)۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روا یت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اللہ تمھاری شکل و صورت اور جسموںکو نہیں دیکھتا بلکہ وہ تمھارے دلوں اور تمھارے عملوں کو دیکھتا ہے ــ‘‘ (صحیح مسلم)۔ اسی طرح خطبہ حجۃ الوداع میں فرمایا کہ ’’تم میں سب سے زیادہ معزز وہی ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے‘‘۔
یہ دراصل وہ اسلامی معیار عزت ہے جس میں قا بل عزت صرف وہی ہے جس کے پاس تقویٰ ہو۔اگر رشتوں کی بنیاد بھی اسی آفاقی معیار عزت پر رکھی جائے تو مرو جہ روایتی طریقوں کی پیروی جن کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے، خود ہی ختم ہوجائے گی۔ زندگی کے ہر شعبے کو کسی نہ کسی قانون کا پابند کیا جاسکتا ہے اور لوگوں کو اس کی پاس داری پر مجبو ر بھی کیا جاسکتا ہے لیکن گھریلو معاملات کے دائرے میں معاملات درست کرنے کے لیے تقویٰ ناگزیر ہے، ورنہ فرد پر کوئی قانون لاگو نہیں کیا جاسکتا۔ یہی تقویٰ آیندہ زندگی کے معاملات کو درست رکھنے اور رضا ے الٰہی کے حصول کے لیے معاون ہوگا۔ ورنہ شیطان کے چنگل میں پھنسے لوگ اللہ کے خوف سے آزاد ہوکر معاملات کرتے ہیں اور زندگی طنز، طعنے، بدگمانی ، حسد جلن جیسے قبیح افعال سے بھر جاتی ہے۔
مومن کوتاہ بین نہیں ہوتا۔ اس کی بصیرت کا تقاضا ہے کہ وہ ا پنے ہر عمل کامستقبل آخرت میںدیکھے۔ انتخا ب کرتے وقت اس بات کا بھی ادراک ہونا ضرور ی ہے کہ یہ انتخاب محض زوجین کا ہی نہیں بلکہ مستقبل کے والدین کا انتخا ب بھی ہے۔ ان کو آگے چل کر امت مسلمہ کے لیے ا یسے افراد کی تربیت کرنے کا فرض ادا کرنا ہے جنھیں خلیفۃ اللہ فی الارض کامنصب سنبھالنا ہے۔ وہ نکاح جس میں دینی اقدار کا خیال رکھا جاتا ہے تربیت اولاد کے سلسلے میں بھی ٹھوس کردار ادا کرتا ہے اور اسی کے ذ ریعے ایک صالح نسل وجو د میں آتی ہے۔ لہٰذا انتخاب زوجین کے وقت ایک ا یسا خا ندان ضرور چشمِ تصور میں رکھنا چاہیے جو صالحیت کے قرآنی معیارپر پورا اترتا ہو اور جس میں زوجین بحیثیت ما ں باپ کے ا پنے اپنے فرا ئض و حقوق ادا کر کے نسلِ نو کی اسلامی اصولوں پر تربیت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ جہا ں ما ں کی گود اولاد کے لیے پہلا مدرسہ ہے وہیں حدیث کے مطابق ایک باپ کااپنے بچے کے لیے سب سے بہترین عطیہ اچھی تعلیم و تربیت ہے۔ یوں تربیت کی ذمہ داری ما ں باپ دونوں کے کاندھوںپر آجاتی ہے۔ تربیت وہی فرد بحسن و خوبی کر سکتا ہے جو اپنے فرض و ذمہ داری کا بخوبی ادراک رکھتا ہو۔
قرآن میںہے کہ ’’اے مومنو! ا پنے آپ کو اور اپنے اہل خانہ کو آگ سے بچائو‘‘ (التحریم ۶۶:۶)۔ قرآن نجات کا یہ اصول پیش کرتا ہے کہ صرف اپنی ہی فکر نہ کر و بلکہ ا پنے اہل خا نہ کو بھی آتش دوزخ سے نجات دلا ناسرپرست ہی کا فریضہ ہے۔ اس فرض کی ادایگی اسی وقت ممکن ہے جب والدین کے اپنے دل میں حب الٰہی ، خوف خدا اور ایمان کی کیفیات ہوں جو ان کے معاملات سے بھی جھلکتی ہوں۔ آج کی نوجوان نسل کے کاندھوں پر کل کے مستقبل کے معماروں کی تربیت اور نشوونما کی ذمہ داری ہے۔ اس میں کی جانی والی کوتاہی ہماری نسلوں کے ایمان و عمل کو تباہ کرسکتی ہے۔
جنت کے حصول کا ایک اہم ذریعہ نیک اور صالح زوجین کے انتخاب سے بھی مشروط ہے۔ قرآن میں مختلف مقامات پر بیویوں اور اولاد کے لیے جنت کا وعدہ ہے:’’ آخرت کا گھر انھی لوگوں کے لیے ہے ، یعنی ا یسے باغ جو اِن کی ا بدی قیا م گاہ ہوں گے۔ وہ خود بھی ان میں داخل ہوں اور ان کے آبا و ا جداد اور ا ن کی بیویوں اور ا ن کی اولاد میں سے جو جو صالح ہیں وہ بھی اُن کے ساتھ وہاں جائیں گے‘‘(الرعد۱۳:۲۳-۲۴)۔ ان آیا ت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہا ں کامیا بی کا تصور جنت میں داخل ہونے اور آتش جہنم سے نجات سے منسلک ہے۔ اس لیے نیک زوج کی اہمیت اور بھی بڑ ھ جاتی ہے کہ وہ نہ صرف خود کو بلکہ ا پنے ا ہل و عیال کو بھی آتش دوزخ سے بچانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔
ایک اور مقام پر ہے: ’’جو لوگ ایمان لائے ہیں اور ا ن کی اولاد بھی کسی درجۂ ایمان میں ان کے نقش قدم پر چلی ہے اُن کی اُس اولاد کو بھی ہم (جنت میں ) ان کے ساتھ ملا دیں گے اور ان کے عمل میں کوئی گھا ٹا ان کو نہ دیں گے‘‘ (الطور ۵۲:۲۱)۔ پس انتخا ب کرتے وقت مستقبل کا وہ نقشہ ضرور سامنے رہنا چاہیے جس میں آخرت کا خسارہ نہ ہو۔ مستقبل تو لازمی سوچا جاتا ہے لیکن وہ اسی روزمرہ زندگی کے حوالے سے یا اپنے ساتھ تعلقات کی بنیاد پر تعمیر کیا گیا ہوتا ہے۔ اس مستقبل میں اگر آخرت کا حصہ بھی شامل کر لیں تو ان شا ء اللہ اصل نا کامی اور خسارے سے بچ رہیں گے۔
مشاورت ، اخوت و محبت اور نظم و ضبط کسی بھی گھرانے کو مستحکم کرنے کاسبب ہیں۔ ا یسے گھرا نے کی تشکیل وہی افراد کر سکتے ہیں جن کے دل میں حب ا لٰہی ہو اور ا ن کی محبت و نفرت ، کسی سے ملنا اور کٹنا صرف اور صرف اللہ رب العالمین کی خوشنودی کے لیے ہو۔ جن گھرانوں میں ا ن اوصاف کی قدر کی جاتی ہے وہا ں خود بہ خود تعلقات مستحکم اور پایدار ہوجاتے ہیں اور فرد کو ا پنے حقوق کے بجاے ا پنے فرائض کی ادایگی کی فکر لاحق ہوتی ہے۔ عفو و درگزر کا رویہ ایک مومن ہی کی شان ہے۔ نیک و صالح زوجین ا پنے تعلقات کی بنیاد اللہ رب العزت کی خوشنودی کے حصول پر رکھتے ہیں، لہٰذا وہ اپنے ا خلا ق کی ہر ممکن حفاظت کرتے ہیں۔ بڑوں کی عزت ، چھوٹوں سے شفقت و محبت ، راے کی قربانی ، کسی کی خاطر اپنے جذبات و احساسات کو قربان کر دینا جیسے اعلیٰ اوصاف گھر ہی سے پروان چڑھتے ہیں۔ جن افراد کے دل میں ایمان کا بیج خوب اچھی طرح جڑ پکڑ چکا ہو تو اس کی بہاریں ان کے عمل سے ظاہر ہوتی ہیں۔ ایسے افراد ہمارے آس پاس ، ارد گرد ہی موجود ہوتے ہیں لیکن ہماری ترجیحات کی بنا پر وہ ہماری نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں۔ یہ ہر فرد کا اپناانتخا ب ہے کہ وہ زوجین کے انتخا ب کے وقت مستقبل کی ا ن چیزوں کو مدنظر رکھتا ہے یاوقتی دل کشی اورآسودگی کے معیارات میں کھو کرتھوڑے فائدے کو اپنا مطمح نظر جان لیتا ہے جس میں ممکن ہے کہ دنیا کی کامیابی ہو لیکن بہت ممکن ہے کہ اس عارضی کامیابی میں جنت کی را ہ کہیں کھو جائے اور کُلی خسارہ اس طرح ہماری جھولی میں آ گرے کہ ہمیں اس کی خبر بھی نہ ہو۔
مغر بی تہذ یب کے مفاسدہماری معا شرت و معاملات میں اس حد تک سر ایت کر گئے ہیں کہ جب دین کی بنیادوں پر معاملات کی بات ہو تواس پر عمل کرنا نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور نظر آتا ہے۔ خاص طور پر اس مرحلے میں فرد خود اس بات کا اندازہ نہیں کر پا تا کہ وہ کس و جہ سے کون سا کام کر ر ہا ہے تا قتیکہ وہ ا پنے ہر ہر عمل کو قرآن و سنت کی کسوٹی پر پرکھنا شروع کر دے، اور ا پنے ہرعمل کا جواز ا پنے دل سے پوچھے کہ کیا اس میں میری ذاتی رغبت ہے یا یہ خالصتاً اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے کیا گیا ہے۔ معا شرے کا چلن اس طرح ہوگیا ہے کہ ان مراحل میںاس عارضی زندگی کے لوازمات اور ضروریات پر توخوب بات کی جاتی ہے اورکمی بیشی کی صورت میں شاذ و نادر ہی سمجھوتا کیا جاتا ہے، تاہم دینی معیار پر خوب خوب سمجھوتا کیا جاتا ہے۔ جب مرد کے لیے معیارِ انتخا ب ما لی حیثیت، گھر والوں کی تعدادوغیرہ جیسے امور پر ہی ختم ہوجائے اور عورت کے لیے خوب صورتی، جان پہچان، مال و دولت وغیرہ پر، تو دینی معیار بہت ہلکے پھلکے انداز میںلیا جاتا ہے۔ فریقین کے بارے میں ان باتوں کا جاننا کہ نماز کی پابندی کا کیا حال ہے ، قرآن سے تعلق کی کیا کیفیت ہے ،قرآن سمجھنے ، سمجھا نے میں کتنا وقت لگا نا معمول ہے، سنت رسول ؐ سے محبت و اُلفت کتنی ہے ، زندگی کے معمول میں اقا مت دین کی جد و جہد کاکتنا حصہ ہے، دنیا میں ا پنے اصل مقصد سے کتنی آگاہی ہے اور معاملات میں اسلام کتنا ہے،جیسے اہم سوالات جو کہ درحقیقت سیرت و کردارسازی کی بنیاد ہیں اور آگے چل کر پُرسکون زندگی کا باعث بنتے ہیں، جنھیں اصل میں جاننے کی جستجو ہونی چاہیے ا نتہا ئی غیر اہم سمجھے جاتے ہیں، جب کہ اس سے کہیں ز یادہ محنت ان باتوں کی تحقیق میںکی جاتی ہے جو اس چند روزہ زندگی کا کھیل تماشا ہیں۔ سمجھوتا ہوتا ہے تو دینی معاملات میں۔ زندگی کے ہر معاملے میں ہم خوب سے خوب تر کی تلا ش میں سرگرداں رہتے ہیں بس ایک دینی معاملات ہی ا یسے ہوتے ہیں جن میں سمجھوتا کرنے کامشورہ د ے کر اپنے عقل مند اور حقیقت پسند ہونے کا ثبوت دیا جاتا ہے۔
یہ دراصل اس بات کا نتیجہ ہے کہ صالحیت کا قرآنی معیار رائج الوقت نہیں ہے، لہٰذا اس کی خواہش و جستجو کرنا ایک لاحاصل کام سمجھا جاتا ہے۔ صالحیت ایک طرزِ زندگی کا نا م ہے جو کسی محدود دائرے میں مقید نہیں رہتی اور مصلحتوں کے ا نبا ر میں نہیں دبتی۔ اس کا اظہار ہربات اور ہر معاملے سے ہوتا ہے۔ عقل مند تو اللہ کی نظر میں وہ ہے جو اپنی آخرت کی فکر کرتا ہے نہ کہ وہ جو دنیا کی زند گی کو اپنا مطمح نظر مان کر ساری تگ و دو اسی کے لیے کرتا ہے جو کہ غارت ہوجانے والی ہے۔ کیا اللہ رب العزت بھی تقویٰ کا وہی معیار قبول کر یں گے جو ہمارے پیش نظر ہوتا ہے؟ اگر کسی کو اس بات کا پختہ یقین ہے تو پھر تو دینی معیار پر سمجھوتے کی گنجایش نکل بھی آتی ہے تاہم دوسر ی صورت میں چند روزہ زندگی کے لیے آخرت تباہ کرنا کوئی دانش مندی کی بات نہیں ہے۔ یہی معیار ہمیں جنت کے حصول کے لیے چاہیے تو ذراسوچ لیں کہ کیا جنت کاسودا ا تناسستا ہے کہ وہ یوں ہی مل جائے گی، جب کہ ہماری زندگیاں مادہ پرستی کا بھرپور شاہکار ہوں۔ اپنی اولاد ، زوج ، رشتہ داریوں اور تعلقات کے لیے اپنی پسند کا اسلام قبول کرتے ہوں گو کہ ہمارا دعویٰ ہو کہ ہم مسلمان ہیں، جب کہ ایمان ہمارے حلق سے نیچے نہ اُترا ہو۔ سیرتِ رسولؐ اور سیرتِ صحابہ ؓ سے ہمیں اُس معیار تقویٰ کی جھلک نظر آتی ہے جو مسلمان مرد و عورت کو زوجین کے انتخاب کے وقت پیش نظر رکھنا چاہیے۔ حضرت عمر فا رو قؓ کا صرف اس بات سے متاثر ہو کر ایک دودھ بیچنے والی کی لڑکی کو اپنی بہو بنالینا کہ اس نے اللہ سے خوف کی بناپر دھوکا و ملاوٹ سے انکار کردیا، اس بات کی روشن دلیل ہے کہ ایک مسلمان کامطلو ب و مقصو د تقویٰ ہوتا ہے۔ تاریخ گو ا ہ ہے کہ ا نھی کی نسلوں سے ایک با ر پھر عمرؓثانی کی مثال دنیا کو ملتی ہے۔
ذیل میں ا ن عو ا مل کی نشان دہی کی جا رہی ہے جو نکاح کو مشکل اور حرام کو آسان بنا رہے ہیں اور جن کی بنیادیں اسلام میں نہیں ہیںلا محالہ یہ عوامل فساد فی الارض کاسبب بھی ہیں۔
حضو ر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر تمھارے پاس ایسا شخص ( نکاح کا پیغام ) لے کر آئے جس کی دین داری اور اخلا ق سے تم خوش ہو توپھر اس کے ساتھ نکاح کر لو ورنہ زمین میں فتنہ و فساد بر پا ہوجائے گا۔ (ترمذی)
جہا ں دینی قدروں پر سمجھوتا کیا جاتا ہے وہا ں دین دارو ں کو اس و جہ سے مسترد بھی کر دیا جاتا ہے کہ وہ بہت سی دنیا و ی لوازما ت میں پیچھے ہوتے ہیں یا ہم پلہ نہیں ہوتے۔ اسلامی معاشرے کا اس سے بڑا ا لمیہ اور کیا ہوگا کہ ایک پاک باز لڑکی کو ایک بے دین ، ملحدانہ نظریات و خیالات رکھنے والے مرد کے عقد میں دے دیا جائے جس کی نظر میں اعلیٰ اخلاقی قدروں اور اوصاف کی کوئی وقعت ہی نہ ہو ، اور پھر لڑکی کو فرعون کی بیوی حضرت آسیہ کی مثالیں د ے کر سمجھوتا کرنے کو کہا جائے، یا شوہر کے رنگ میں رنگ کر اپنی آخرت تباہ کرنے کے لیے آمادہ کیا جائے۔ انتخاب کے عمل میں ترجیح، تقویٰ کو ہونا چاہیے۔ خدا نخواستہ کبھی معاملہ اس کے برعکس ہوجائے تو فرد آسیہ کا کردار بھی ضرور ادا کرے لیکن شادی ہی یہی سوچ کر کی جائے تو یہ اللہ سے مایوسی کا رویہ ہے۔ ایسے میں ا پنے اُخروی مستقبل کا ضرور سوچ لینا چاہیے۔ اسی طرح مرد کے لیے بے دین بیوی کا انتخاب مرد کی دین داری کو متاثر کرتا ہے۔ جنت کے حصول کے خواہش مند فرد کا انتخاب حدیث نبویؐ کے مطابق ہوتا ہے۔ حدیث ہے کہ دنیا متاع ہے اور اس کی بہترین متاع نیک بیوی ہے (مسلم)۔ اسی طرح ایک اور حدیث ہے کہ نکاح آدمی کا نصف دین ہے۔ پس آدمی کو ا پنے باقی نصف دین کی فکر کرنی چاہیے۔
ان ہدایات کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔ کیفیت یہ ہے کہ نکاح جیسے حلال ، پاکیزہ اور آسان عمل کو مشکل ترین بنادیا گیا اور حرام کے تمام ذرائع آزادانہ چاروں طرف میسر ہیں۔ سرپرست ، والدین ا پنے بچوں کی طرف سے متفکر رہتے ہیںلیکن معاشرے کی اس صورت حال میں کس کا کتنا حصہ ہے اس پر بھی غو ر کرنا ضروری ہے۔ جب ہم اپنی اولاد کے لیے حلال ذرائع خود مشکل بناتے ہیں، ان کو اپنی خود ساختہ رسوم و روایات کا پا بند کرتے ہیں تو حرام ذریعہ اپنی جگہ خود بنا لیتا ہے اور اسی کے راستے ہموار ہوتے ہیں۔ آج نکاح مشکل ہے اور زنا آسان۔ اس سے بڑا فتنہ اور فساد فی الارض اور کیا ہوگا کہ وہ گنا ہ جس سے صالحیت کی عما رت زمین بوس ہوجائے آسان ہو اور جو بات معاشرے کی پاکیزگی کی ضا من ہے وہ ہماری پسند ناپسند، خاندانی اَنا و وقار کے بوجھ تلے دب کر سسک رہی ہو۔ یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے اور سوچنے کامقا م ہے کہ کہیں ہمارے کسی عمل سے حرام کا ر ستہ آسان تو نہیں ہو ر ہا ہے ؟
رسم و رواج ہماری زندگی کا ایسا لازمہ بن گئے ہیں کہ اس کو اختیار نہ کرنے والا فرد دنیا میں معتوب و مغضوب ٹھیرتا ہے۔ دلوں کے نہا ںخا نو ں میں چھپے یہ بت ہیں کہ ٹوٹتے ہی نہیں۔ کہیں یہ معروف طریقہ اختیار کرنے کے پردے میں سامنے آتے ہیں ، کہیں اپنی حیثیت کا اظہار کے نام پر اور کہیں کچھ اور بہانوں سے۔ رسوم و رواج کے یہی طوق تھے جن سے ا نبیاے کرام نے ہر دور میںلوگوں کو نجات دلائی۔ اسلام میں تصور جہیز، بری ، بارا ت ، لڑکی کی طرف سے دعوت طعام جیسے تصورات کا کوئی و جود نہیں اور نہ یہ کوئی تسلیم کرنے والی چیزیں ہیں۔ آج ان کواسلامی غلاف چڑھا چڑھا کرقا بل قبول بنانے کی کوششوں نے دین کا حلیہ بگاڑ دیا ہے اور نہ کرنے والوں پر مختلف پھبتیاں کسنا عام ہوگیا ہے۔ شاید یہ وہ دور ہے جب دین اجنبی ہوجائے گا اور اس پر عمل پیرا ہونا فرد کو اجنبیت کے دائر ے میںلے آئے گا۔
زما نے کاساتھ دے کر منکر کو معروف میں بدلنے میں بہت تھوڑا فائدہ ہے، جب کہ اللہ کے بتائے ہوئے معروف کو اختیار کرنا اور زمانے بھر میں اجنبی بن جانا ، مشکل سہی لیکن فائدے کاسودا اور پُرسکون زندگی کی بنیاد ہے۔ یہ اس لحاظ سے بھی مفید ہے کہ جب ا نفرادی طور پر اپنی خوشی کے لیے بہ ظا ہر بے ضرر نظر آنے والی چیز بھی معاشرے میں فتنے کاسبب بنے اور دوسرے افراد کے لیے ایک ایسی مثال قا ئم کرنے کا باعث ہو جس سے دین کی کسی بات پر عمل مشکل ہوجائے تو فرد کو اس چیز سے کنارہ کشی اختیار کرنا چاہیے تاکہ معاشرے میں اتباع سنتؐ کی اصل روح برقرار رہے، اورمسلمانوں کی طرف سے یہ پیغام جائے کہ اسلام جائز اور حلال رشتوں کو آسان بنا کر لوگوں کو آسانیاں فراہم کرتا ہے اور حرام کا رستہ روکتا ہے۔
انتخا ب زوجین میںسرپرست ، یا والدین کا سارا زور ا ن خود ساختہ نظریات پر ہوتا ہے جو کسی خاندان، روایات ، یار ہن سہن کی بنا پر ذہنوں میں راسخ ہو چکے ہوتے ہیں اور ا ن کی کوئی دلیل حدیث و سنت سے بھی نہیں ملتی ہے۔ یہاں ہم ان خود ساختہ نظریات کا جائزہ لیتے ہیں اور احادیث کی روشنی میں اس عمل کی دلیل دیکھتے ہیں:
۱- نکاح کے لیے خاتون لازماً مرد سے کم عمر ہو۔
نبی کریمؐ کے اسوہ کو دیکھیں تو آپؐ نے اپنا پہلا نکاح ۲۵ سالہ نوجوان ہوتے ہوئے بھی ایک ۴۰ سا لہ بیوہ سے کیا، لہٰذا لڑکی کا لازماً کم عمر ہونا ضروری نہیں۔ اس قسم کی پابندیوں کا مقصد نکاح کو مشکل بنانا ہے۔ بعض اوقا ت دو چار سا ل ہی کا فرق ایسا اہم ہو جاتا ہے کہ ساری کی ساری دین داری اس کی نذر ہوجاتی ہے اور فرد محض اس بنا پر نامعقول قرار پاتا ہے کہ وہ مرد سے دو ، چار سال کے فرق سے بڑا ہے۔ اسلام میں نکاح کے لیے خاتون کا لازماً مرد سے کم عمر ہونا کوئی شرط نہیں ہے۔
۲- غیر شادی شدہ مرد کی شادی لازماً ایک غیر شادی شدہ خاتون ہی سے ہونی چاہیے۔
سیرت سے آنحضرتؐ کے پہلے نکاح کی مثال تو ملتی ہی ہے، تاہم اس سلسلے میں حدیث سے بھی مثال ملتی ہے کہ ’’حضرت جابر ؓ کہتے ہیں کہ میرے والد جنگ اُحد میں شہید ہوئے اور سات یا نو بیٹیاں چھوڑ گئے۔ پھر میں نے ایک عورت سے نکاح کیا۔ آنحضرتؐ نے پوچھا جابر ؓ تو نے نکاح کیا ؟ میں نے عرض کیا جی ہا ں ! آنحضرتؐ نے فرمایا باکرہ سے یا مثیبہ(شادی شدہ ) سے ؟ میں نے عرض کیا مثیبہ سے۔ آپؐ نے فرمایا اور! کنواری سے کیوں نہ کیا ؟ میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میرے باپ شہید ہوئے اور سات یا نو بیٹیا ں ( میری بہنیں ) چھوڑ گئے، میں نے یہ پسند نہ کیا کہ انھی کی سی ایک اور ( کم عمر) بیا ہ لائوں، اس لیے میں نے ایک جہاندیدہ عورت سے نکاح کیا جو ان کی نگر ا نی رکھے۔ (بخاری )
پس حالات و و اقعا ت کے تنا ظر میں ا گر کوئی فرد یہ فیصلہ کرتا ہے تو خلا ف اسلام کام کا پہلو نہیں نکلتا، یعنی معاملہ ترغیب کا ہے، لازماً شرط ِنکاح بنا لینے کا نہیں۔ بہترہے کہ خوش گوار زندگی کے لیے ہم مزاج اور ہم عمرفرد کا ا نتخاب کیا جائے تاہم ا گر کبھی حالا ت کے پیش نظر یا ضرورتاً یا ان وجوہات کے علا وہ ا گر کوئی فرد رغبتاً بھی کسی بیوہ یا مطلقہ کو اپنے نکاح میں لا نا چا ہ ر ہا ہو، جب کہ وہ خود ایک غیر شادی شدہ مرد ہے، تو یہ شرعاً کوئی ممنوع فعل نہیں ہے۔ نبی اکرم ؐ اور حضرت خدیجہ ؓ کی مثال پھر ہماری یہاں رہنمائی کرتی ہے۔ ہمیں ہمہ وقت یہ خیال رکھنا چاہیے کہ ہماری نظر میں قا بل اعترا ض حرام امور ہونے چاہییں نہ کہ جائز اور مستحب امور جن کاسنت میں بھی پایا جانا ثابت ہو۔
۳- خاتون یا خاتون کے سرپرست کی طرف سے پیغام نکاح قا بلِ شرم فعل ہے۔
ہمارے ہاں خاتون یا خاتون کے سرپرست کی جانب سے پیغامِ نکاح بھیجنا معیوب سمجھا جاتا ہے حالانکہ شرعاً کوئی ممانعت نہیں ہے۔ حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور ا ن سے نکاح کی خوا ہش کا اظہار کیا۔ یہ سن کر حضرت انس ؓ کی بیٹی بولی (کمبخت) کیا بے شرم عورت تھی، ارے تھو، ارے تھو۔ حضرت ا نس ؓ نے کہا: وہ عورت تجھ سے بہتر تھی۔ اس نے آنحضرتؐ کی محبت میں خود اپنے آپ کو پیش کیا (بخاری)۔ گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو براہِ راست پیغامِ نکاح دینا حیا کے منافی نہیں ہے بلکہ شرف حاصل کرنے کا جذبہ ہے۔ امام بخاری نے اس حدیث سے استنباط کیا ہے کہ ایک عورت کسی صالح شخص کو اس کی نیکی کی وجہ سے پیغامِ نکاح دے سکتی ہے۔ اسلام کا عمومی اصول نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی بتلایا ہے کہ لا نکاح الا بولی ’’نکاح ولی کے ذریعے ہوتا ہے‘‘۔ اس طرح کے نادر واقعات سے ایسی صورت میں جب ولی نہ ہو یا عورت خود جرأت کر کے پیغامِ نکاح دے سکتی ہو، کا جواز نکلتا ہے، جب کہ بنیاد دین دار شوہر کی طلب ہو۔
حضرت خدیجہ ؓ بھی ایک بیوہ خاتون تھیں انھو ں نے بھی آپؐ کو پیغام ِ نکاح بھجو ایا تھا۔ اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ بیا ن کرتے ہیں کہ جب ام المومنین حفصہ ؓ بیوہ ہوگئیں (ان کے خاوند خنیسؓ بن خدا فہ سہمی جو آنحضرتؐ کے ا صحا ب میں سے تھے مدینہ میں گزر گئے، جنگ اُحد میں زخمی ہوئے تھے) تو حضرت عمر ؓ نے حضرت عثمانؓ اور حضرت ابوبکرؓ سے حضرت حفصہؓ سے نکاح کے لیے کہا مگر انھوں نے خاموشی اختیار کرلی۔ اس کے بعد رسول اکرمؐ نے حضرت حفصہؓ سے نکاح کا پیغام بھیجا (بخاری )۔ یہ ایک طویل واقعے کا اقتباس ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خاتون یا خاتون کے سرپرست کا اسلامی حدود کے اندر رہتے ہوئے پیغام نکاح میں پہل کرنا کوئی قا بل اعتراض اور قابلِ شرم بات نہیں، جس طرح ہمار ے معاشرے میں اس کو سمجھا جانے لگا ہے۔ خیال رہے کہ اسلامی حدود کی پامالی اور بے حیائی کا کوئی پہلو اس میں شامل نہ ہو۔
اب ہم مختصراً دیکھتے ہیں کہ سیرتؐ سے ہمیں تقریب نکاح کا کیا نمونہ ملتا ہے۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے عبد الرحمن بن عوفؓ کے (بدن یا کپڑے ) پر زرد دھبہ دیکھا تو پوچھا: کہو کیا حال ہے (یہ زردی کیسی ہے؟)۔ انھوں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ ! میں نے گٹھلی برابر سونا مہر مقرر کرکے ایک عورت سے نکاح کیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: بارک اللّٰہ لک، ولیمہ تو کرو خواہ ایک بکری ہی کاسہی (بخاری)۔ لڑکی کے گھر والوں کی طرف سے دعوت طعام کا بوجھ ہٹا کر ایک کھانا دعوت ولیمہ کاسنت رکھا گیا۔ حدیث میں اس ضمن میںجو ہدایات و رہنمائی ملتی ہیں وہ بھی ہم سب کے سامنے ہیں۔ نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’وہ دعوت ولیمہ کیا ہی بری دعوت ہے جس میں صا حب حیثیت لوگوں کو بلایا جاتا ہے اور مسکینوں سے صرف نظر کیا جاتاہے۔(مسلم)
ایک اور جگہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’بلا شبہہ برکت کے اعتبار سے سب بڑا نکاح وہ ہے جس میں کم سے کم اخراجات ہوں (شعب ا لایمان للبیھقی)
یہ تمام ا حادیث ہمارے معاشرے کے موجود ہ رجحانات اور طریقہ کار کی نفی کرتی ہیں جو ہم نے نکاح جیسی سادہ ، آسان اور پاکیزہ سنت کے ضمن میں اختیار کیا ہے۔ نہ مہمانوں کی تعداد کا مسئلہ اور نہ اس شان و شوکت کا اظہار جو اسراف اور نمودو نما یش میں شمار ہوتی ہیں کہ وقت کے نبیؐ کے بھی ان دو اصحاب ؓ ( حضرت جابر ؓ اور حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ) کے نکاح میں شرکت ممکن نہ ہوئی تو نہ کوئی ناراضی پیدا ہوئی نہ کوئی گلہ شکوہ۔ اتبا ع سنت کے ضمن میں اگر ہم نے انتخابِ ازواج اور نکاح کی تقریب ہی کو سنت کے مطابق کر لیں تو ہمارے حب رسولؐ کا دعویٰ کچھ ثابت ہوجائے۔
ایمان دراصل ہے ہی یہ کہ انسان ان تمام رسوم و رواج اور طریقوں سے جو اسلام کے بالمقابل آکراسلامی طرزِ حیات کو مسخ کرتے ہوں، دستبرداری کا اعلا ن کر کے کلمہ کو عملاً اپنی زندگی میں نافذ کرے۔ اس سلسلے میں ضروری ہے کہ درآمد شدہ تمام رسومات اور نظریات کو پوری ہمت و جرأت کے ساتھ پائوں تلے روند دیا جائے کیونکہ ان چیزوں نے نہ صرف دین کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے بلکہ معاشرے میں مفسدات و غلط رجحانات کا باعث یہی چیزیں ہیں۔ بے شک یہ تمام کام جاہلیت کی نشانیوں میں سے ہیں اور اسلام جاہلیت سے نجات دلانے آیا تھا۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے نظریات و افکار کو بھی مسلمان کرنے کی توفیق دے اور معاشرے میں اسلام کی اصل تصویر کو پیش کرنے والا بنا ئے جس میں معروف پر عمل آسان اور منکرپر مشکل ہوتا ہے۔ (آمین)