دسمبر ۲۰۰۹

فہرست مضامین

کتاب نما

| دسمبر ۲۰۰۹ | کتاب نما

Responsive image Responsive image

خطابتِ نبویؐ، سید عزیز الرحمن۔ ناشر: زوار اکیڈمی پبلی کیشنز، اے ۴؍۱۷، ناظم آباد ۴، کراچی۔ صفحات: ۲۸۴۔ قیمت: ۲۴۰؍ روپے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خطابت آپؐ کی شخصیت، نبوت اور سیرت کا ایک اہم عنوان ہے۔سیرتِ نبویؐ پر اَن گنت تصانیف و تالیفات ملتی ہیں مگر سیرتِ نگاروں نے بالعموم خطباتِ نبویؐ کو الگ سے کوئی حیثیت دینے کے بجاے اس اہم پہلو کو بھی کتبِ سیرت میں ہی سمو دیا ہے۔ یوں آپؐ کے فنِ خطابت پر کوئی جامع اور تحقیقی کام منظر عام پر نہیں آ سکا۔ اس کتاب کو سید سلمان ندوی نے ’’اپنے موضوع پر ایک کامیاب کاوش‘‘ قرار دیا ہے۔

مؤلف نے فصاحت و بلاغت، فصاحت ِ نبوی کے ترکیبی عناصر،بلاغت ِ نبوی کے خصائص و امتیازات، جوامع الکلم کی اصطلاح کی وضاحت، کلامِ نبوی سے اس کی نسبت اور  حیاتِ مصطفی سے چند ایک مثالیں، مکاتیبِ نبوی کے اجزا اور خصوصیات، اور حضورِ اکرمؐ سے منسوب مسنون دُعاؤں کے ذریعے سے کلامِ نبوی کے امتیازات کو ظاہر کیا ہے۔

مؤلف نے حسن ِ صوت، قبائل کی لغات اور لہجوں سے واقفیت، فصل و ترتیل، برجستگی اور فی البدیہ گفتگو پر مکمل قدرت، اختصار، سجع اور قافیہ بندی، کلام کی جامعیت، دِل سوزی و خیرخواہی ، بامقصد خطاب اور اثر انگیزی کے تحت نبی کریمؐ کی خطابت کا جائزہ پیش کیا ہے اور بتایا ہے کہ  خاص مواقع کی نسبت سے آپؐ کے اندازِ خطابت کی نوعیت بدل جاتی تھی۔

آخری باب (۵۱) میں بحث کو سمیٹتے ہوئے دینی رجحان، منافرت کا اختتام، سادگی، مقصدیت کا فروغ ، قرآن کریم اور کلامِ نبوی سے استشہاد کے حوالے سے خطابت ِ نبوی کے اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ کتاب کے آخر میں ۱۳۳ ماخذات و مصادر کی جامع فہرست دی گئی ہے۔

مولانا سلیم اللہ خاں نے اس کاوش کی تحسین کرتے ہوئے کتاب کو بہتر بنانے کے لیے چند مفید مشورے دیے ہیں، مثلاً بعض اسرائیلی روایات کی علمی تحقیق، آیاتِ قرآنی میں بین القوسین تشریحات اور بعض مقامات پر حاشیے میں تشریحی نوٹ کی ضرورت وغیرہ، تاہم زبان و بیان، ایجاز و اختصار، ابواب بندی، تحقیقی طریقِ کار ، حواشی و تعلیقات اور مجموعی طور پر ایک علمی اسلوبِ تالیف کے اعتبار سے یہ ایک بلند پایہ تصنیف ہے ۔ (خالد ندیم)


خیرالبشرؐ کے بارہ خادمانِ خاصؓ، طالب الہاشمی، ناشر: طٰہٰ پبلی کیشنز، ۱۹-ملک جلال الدین بلڈنگ، چوک اُردو بازار،لاہور۔ فون: ۶۱۲۰۴۲۲-۰۴۲۔ صفحات: ۳۳۶۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔

سیرت النبیؐ، سیرتِ صحابہؓ اور تذکرہ و سوانح نگاری جناب طالب الہاشمی مرحوم کا مخصوص موضوع تھا۔ اس تسلسل میں ان کی آخری کتاب خیرالبشرؐ کے بارہ خادمانِ خاص ہے۔ یہ حُسنِ اتفاق ہے کہ انھوں نے خود بھی اس کتاب کو اس سلسلے کی آخری اور تکمیلی کتاب قرار دیا ہے (ص ۱۳)۔ یہاں جن اصحابِ رسولؐ کا تذکرہ موجود ہے، اُن میں سے کچھ کے سوانح مصنف کی دیگر کتب میں آچکے ہیں لیکن بقول مصنف: ’’وہاں کے پیرایۂ بیان اور زیرکتاب کے اسلوب نگارش و اندازِ تحقیق میں نمایاں فرق ہے‘‘۔ (ص ۱۴)

اس کتاب میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کا شرف پانے والے جن ۱۲ صحابہ کرامؓ کا تذکرہ قلم بند کیا گیا ہے اُن میں ایسے اصحاب بھی ہیں جو خدمتِ رسولؐ کے حوالے سے معروف و مشہور میں اور وہ اصحاب بھی جن کا تعارف اس اعتبار کچھ زیادہ اور عام نہیں ہے۔ یہ اصحابِ کرام خدمتِ اقدس میں نام پانے کے علاوہ علم و فضل کے اعتبار سے بھی بلند مرتبہ ہیں۔ بارہ خادمانِ خاص میں حضرت زید بن حارثہ، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت بلال بن رباح، حضرت عقبہ بن عامر جہنی، حضرت ثوبان، حصرت ایمن بن عبید، حضرت اسلع بن شریک تمیمی، حضرت انس بن مالک انصاری، حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی، حضرت معیقیب بن ابی فاطمہ الدوسی، حضرت ذومخمر حبشی اور حضرت ابورافع رضی اللہ عنہم اجمعین کے حالات زندگی کی تفصیل علمی، تحقیقی اور ایمانی طرز و اسلوبِ نگارش میں بیان کی گئی ہے۔ ان تذکروں کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ ان ہستیوں کی ہر ہر ادا میں حب ِ رسولؐ کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر نظر آتا ہے۔ ان کی انفرادیت و امتیاز بھی اسی بنا پر ہے کہ انھوں نے دنیا ومافیہا کے ہر تعلق پر خدمت ِ رسولؐ کو ترجیح دے رکھی تھی اور یہ سعادت اُن کی کامیابی و کامرانی کے علاوہ نام وَری و شہرت کا باعث بھی بن گئی۔

طالب الہاشمی مرحوم کی یہ تصنیف بھی اُن کی سابقہ تصانیف کی تمام خوبیاں اور خصائص اپنے اندر جمع کیے ہوئے ہے۔ یقینا اُردو قارئین کے لیے یہ ایک بہترین تحفہ ہے۔ (ارشاد الرحمٰن)


عہدفاروقی کے باکمال، پروفیسر علی محسن صدیقی۔ ناشر: زوّار اکیڈمی پبلی کیشنز، ۱ے-۴/۱۷، ناظم آباد نمبر ۴، کراچی۷۴۶۰۰۔ فون: ۶۶۸۴۷۹۰-۰۲۱۔ صفحات: ۳۱۲۔ قیمت: ۲۴۰ روپے۔  ملنے کا پتا: کتاب سراے، اُردو بازار، لاہور۔

مصنف کو امیرالمومنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی سوانح حیات لکھنے کے دوران میں اس کتاب کو ترتیب دینے کا خیال آیا۔ انھوں نے ان باکمال صحابہ کرامؓ کے حالاتِ زندگی جمع کیے ہیں جنھوں نے دورِ فاروقی میں سرکاری نوعیت کا کام انجام دیا اور بطور خاص کاروبارِ خلافت کی انجام دہی میں جناب امیرالمومنین رضی اللہ عنہ کی معاونت کی۔ ۳۰صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں حضرت ابوعبیدہ جراح، حضرت ابوموسیٰ اشعری، حضرت خالد بن ولید، حضرت زبیر بن عوام، حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت عمرو بن عاص اور حضرت مغیرہ بن شعبہ ثقفی رضی اللہ عنہم زیادہ اہم ہیں۔ پروفیسر علی محسن صدیقی کا مزاج محققانہ ہے۔ ممکن ہے بعض تحقیقی آرا سے قاری متفق نہ ہوسکے۔ کتاب مجلد اور رنگین مگر سادہ سرورق سے مزین ہے۔ بعض اغلاط باقی رہ گئی ہیں۔ امید ہے آیندہ اڈیشن میں درست کردی جائیں گی۔ (ملک نواز احمد اعوان)


پھر نظر میں پھول مہکے، محمد اکرم طاہر۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور- ۵۴۷۹۰۔  فون: ۳۵۴۳۲۴۷۶۔ صفحات: ۲۲۳۔ قیمت: ۱۸۰ روپے۔

پروفیسر محمد اکرم طاہر کی زیرنظر کتاب ان کے سفرِحج اور عمرہ کے مشاہدات اور وارداتِ قلبی کا نچوڑ ہے۔ حج کے سفرناموں میں طبائع انسانی کے تنوع کے ساتھ ساتھ ادبی اعتبار سے بھی اس سفرنامے میں خاصی جاذبیت ہے۔

جوں جوں ہم رسالت مآبؐ کے زمانے سے دُور ہوتے جارہے ہیں ارکانِ اسلام کی بجاآوری میں بھی غفلت کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔ حالی نے بجا کہا تھا: ع  ’’زحمتِ روزہ بھی کرتے ہیں گوارا تو غریب‘‘۔ ایک باشعور مسلمان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ حج کرے اور اپنی کمائی اور رزقِ حلال کو اس سفر کے لیے خرچ کرے (سرکاری اخراجات پر سفر کرنے والوں کے تاثرات کیا ہوتے ہوں گے)؟ البتہ رزق حلال سے حج کرنے والوں کے تاثرات یقینا دلوں میں ایک نیا ولولہ اور جوش پیدا کرتے ہیں۔ اکرم طاہر کا یہ سفرنامہ ایک ایسے زائر کے جذبات سے لبریز ہے جو اسلامی شعائر سے محبت کرنے والا ہے۔ عشقِ رسولؐ سے قلب و نظر میں جو پاکیزگی و طہارت پیدا ہوتی ہے، وہ بھی اس سفرنامے میں جگہ جگہ عیاں ہے۔

مصنف نے سفرنامے کے شروع میں ان وسوسوں اور اندیشوں کا ذکر کیا ہے جو انھیں ہوّا بن کر ڈراتے تھے اور مانع سفر تھے مگر ان کے عزم بالجزم کے سامنے سارے وسوسے اور اندیشے خودبخود ختم ہوتے چلے گئے۔ سرزمینِ مکہ اور مدینہ کی خاک ایک مسلمان کے لیے سرمۂ نور کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کے شب و روز انسانی دل پر بے پناہ اثرات چھوڑتے ہیں۔ دربارِ رسالت میں زبان گنگ ہوجاتی ہے اور جذبات اشکِ رواں کی صورت اختیار کرجاتے ہیں۔ اکرم طاہر اپنے سفرنامے میں اس کیفیت کا نقش ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں: ’’شمعِ رسالتؐ کے پروانے آگے  بڑھ گئے، چاروں طرف آنسو کا ایک سیلاب تھا کہ تھمتا نہ تھا۔ آنسو، اپنی اپنی سیاہ کاریوں پر شرم ساری کے آنسو، حبیبِؐ خدا کی قربت میں سرشاری کے آنسو… آج کسی کے پاس کہنے کو کچھ نہ تھا۔ خانہ کعبہ میں ہربے زبان کو زبان مل جاتی ہے۔ درِ رسولؐ پر بڑے بڑے زبان دانوں کی زبان گنگ ہوجاتی ہے‘‘۔

مصنف نے عرب کی قدیم تہذیب کے نمونے بھی پیش کیے ہیں اور معدنی تیل کے ثمرات اور اثرات کا ذکر بھی کیا ہے جس نے عربوں کی اقدارِ حیات کو یکسر تبدیل کر دیا ہے۔ ایک جملہ ملاحظہ کریں: یہاں تین نئی چیزیں باہم مربوط ہیں: سنہ جدیدہ، سیارۂ جدیدہ و حرمۂ جدیدہ (نیا سال، نئی گاڑی اور نئی بیوی)۔

سفرنامے میں اُمت کی مجموعی حالت پر نوحہ خوانی کا تاثر بھی ملتا ہے۔ کشمیر اور فلسطین جیسے سلگتے مسائل سے اُمت مسلمہ کی عدم دل چسپی اور بے حسی پر بھی افسوس کیا گیا ہے، پھر یہ کہ مملکت سعودی عرب نے سرورِ کونینؐ اور صحابہؓ کے آثار اور یادگار مقامات کو مٹانے میں اعتدال سے   تجاوز کیا ہے۔ بحیثیت مجموعی یہ سفرنامہ ایک مسلم قاری کے جذبۂ ایمانی میں نیا جوش پیدا کرتا ہے۔(محمد ایوب لِلّٰہ)


تعلیم کا تہذیبی نظریہ، نعیم صدیقی [مرتبین: ڈاکٹر مشتاق الرحمن صدیقی، نوید اسلام صدیقی]۔ ناشر: الفیصل ناشران، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۲۳۷۷۷-۰۴۲۔ صفحات: ۶۷۹۔ قیمت: ۵۰۰ روپے۔

ہر معاشرے کی تشکیل و تعمیر میں تعلیم کا کردار بنیادی اہمیت رکھتا ہے، جب کہ ایک اسلامی معاشرے کی تشکیل میں تعلیم کے پہلو بہ پہلو تربیت کو نہایت کلیدی مقام حاصل ہے۔ بیسویں صدی کے دوران میں برعظیم پاک و ہند نے جن اعلیٰ دماغ مسلمان رہنمائوں اور عالموں کو پروان چڑھایا، ان میں ایک نام نعیم صدیقی (۱۹۱۶ء-۲۰۰۲ء) ہے۔ ان کے بارے میں زیرنظر کتاب کے دیباچے میں پروفیسر خورشیداحمد لکھتے ہیں: نعیم صدیقی ایک بالغ نظر مفکر، ایک صاحب ِ دل داعی، اور ایک دردمند مصلح تھے، بیسویں صدی میں تحریکِ اسلامی کی ایک قیمتی متاع(ص ۱۴)، اور اس متاع    نے اپنے قلم، دماغ، زبان، فکر، نظر اور عمل سے جو بے پناہ کام کیا، اس کا تعلق دین اسلام کی   نعمت و صداقت کو اہلِ فکر سے لے کر عام لوگوں تک پہنچانا تھا۔

زیرتبصرہ کتاب کا مرکزی موضوع تعلیم ہے جسے نعیم صدیقی کے مقالات، مکاتیب، خطبات اور رشحات سے مرتب کیا گیا ہے۔ محترم مؤلف رسمی طور پر علم التعلیم (ایجوکیشن) کے ماہر نہ ہونے کے باوجود زیربحث موضوع پر ماہرین تعلیم سے کہیں زیادہ مہارت اور مضبوطی سے کلام کرتے ہیں۔

جناب نعیم صدیقی نے اس کتاب میں نہ صرف مروجہ تعلیمی نظاموں پر نقد و جرح کی ہے، بلکہ اس کے ساتھ ایک متبادل نظامِ تعلیم کے لیے فکرانگیز تجاویز بھی پیش کی ہیں۔ انھیں پڑھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ شعروادب اور سیاست و صحافت کا یہ حُدی خواں تعلیم کے نام پر اُگنے والے جھاڑ جھنکار کی جڑوں کو جانتا اور ان کے مقابلے میں اسلامی نظام تعلیم کے ایک قابلِ عمل اور   قابلِ طلب ڈھانچے کو گہرے یقین و اعتماد کے ساتھ پیش کرتا ہے۔

کتاب چار حصوں اور بڑے چھوٹے ۶۷ مضامین پر مشتمل ہے۔ ان مضامین میں نہ صرف فکری مضامین ہیں، بلکہ کم و بیش تمام اصولی اور عملی مسائل بھی زیربحث لائے گئے ہیں۔ مثال   کے طور پر چند جملوں کو ملاحظہ فرمائیں: ’’میں جب ہر روز صدہا ایسے چہروں کو دیکھتا ہوں جن کی لوحِ پیشانی پر جلی خط میں ’لامقصدیت‘ لکھی ہوتی ہے۔ میں جب ماحول میں پریشان فکری،   آوارہ نگاہی، تشدد پسندی، اشاعتِ جرم، تشکیک و بے یقینی، خوف و حزن اور یاس و قنوط کے رنگ دیکھتا ہوں تو میرے اندر یہ سوال بار بار اُبھرتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟‘‘ (ص ۱۹۱)۔ ’’تحریکی و انقلابی شعور کا اوّلین دائرہ عمل، علم وفکر کا میدان ہے۔ ہمیں علمی حیثیت سے یہ واضح کرنا ہے کہ اسلامی ثقافت کی فکری بنیادیں کیا ہیں؟ پھر گہری نظر سے جائزہ لینا ہے کہ ہمارا سرمایۂ ثقافت کیا ہے؟ اور اس میں سے کتنا حصہ قابلِ قدر ہے، جسے نامطلوب کوڑے سے الگ کر کے ساتھ لینا ہے۔ [اس] کے ساتھ ہمیں اپنے حال پر بھی ناقدانہ نگاہ ڈال کر یہ دیکھنا ہے کہ آج ہمارے ثقافتی کباڑخانے میں کیا کچھ بھرا پڑا ہے… ان کی تطہیر کیسے ممکن ہے؟‘‘ (ص ۲۵۲)۔ ’’ہمارے تحریکی و انقلابی شعور کا دوسرا دائرہ عمل نظامِ تعلیم و تربیت ہے۔ اپنی ثقافت کے بارے میں ہم جو جو کچھ علمی حیثیت سے طے کرتے جائیں، ان سارے فیصلوں کو ہمیں اپنے نظام تعلیم و تربیت میں سمو دینا چاہیے۔ انھی کے مطابق ہمیں اپنی موجودہ اور آیند نسلوں کے دل و دماغ، ان کے جمالیاتی ذوق اور ان کے ثقافتی مزاج کو ڈھالنا چاہیے‘‘ (ص ۲۵۳)۔ ان تین اقتباسات سے مصنف کے فکری تعمق اور دائرۂ خیال کی وسعت کا اندازہ ہوتا ہے۔یوں اس کتاب کے مندرجات پاکستان کے تعلیمی و ثقافتی پالیسی سازوںکی رہنمائی کے ساتھ معلمین و مربیّین کے لیے روشنی کے چراغ مہیا کرتے ہیں۔

کتاب کے مرتبین ڈاکٹر مشتاق الرحمن اور نوید اسلام، ہم سب کے شکریے کے مستحق ہیں کہ انھوں نے مصنف کی اِن قیمتی تحریروں کو مربوط اور سائنٹی فک انداز سے مرتب کر کے، اس کتاب کے روپ میں پیش کیا۔(سلیم منصور خالد)


Essays on Muslims and The Challenges of Globalization، مرتبین: خالد رحمن، عرفان شہزاد۔ ناشر: انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، بلاک ۱۹، مرکز F-7، اسلام آباد۔ صفحات: ۴۵۰۔ قیمت: درج نہیں۔

پینے کے پانی سے لے کر بڑے بڑے مسافر طیاروں کی خرید وفروخت تک کاروباری معاملات انتہائی منظم اداروں کے ہاتھ میںچلے گئے ہیں۔ چھوٹی کمپنیاں بیک وقت کئی ممالک میں سرگرم بین الاقوامی فرموں میں ضم ہوچکی ہیں ان میں سے کئی کمپنیوں کے بجٹ کئی ممالک کی سالانہ قومی آمدن سے بھی زائد ہیں۔ اپنے معاشی حجم کو بڑھانے اور اپنی معاشرتی ضرورت میں اضافے کے لیے اِن کمپنیوں نے اہم ممالک کو بھی تجارتی مراعات اور دیگر پھندوں میں پھنسا رکھا ہے اور اس سارے عمل کو ’عالم گیریت‘ کانام دے دیا گیا۔

زیرتبصرہ کتاب میں اِس اہم موضوع پر نمایاں اہلِ علم کی آرا جمع کر دی گئی ہیں۔ چار حصوں میں تقسیم اہلِ قلم کے ۱۳ مضامین کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ ان میں اختصار بھی ہے اور موضوع زیربحث کے کسی نہ کسی پہلو کا جائزہ بھی لیا گیا ہے اور اس دلدل سے نکالنے کے لیے قابلِ عمل تجاویز بھی شامل ہوگئی ہیں۔

فرانس ویری لاڈ نے اعلیٰ تعلیم اور عالم گیریت کا جائزہ لیا ہے، جب کہ محمدچھاپرا نے عالم گیریت کے مسئلے کو اسلامی نقطۂ نظر سے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ایسی    عالم گیریت کی ضرورت ہے جس میں تمام انسانوں کا اور اُن کی ثقافت و تاریخ کا احترام ہو۔

پروفیسر خورشیداحمد کا یہ کہنا ہے کہ عالم گیریت کے سیلاب کا نعروں اور جذباتی فضا پیدا کرنے سے مقابلہ نہیں کیا جاسکتا بلکہ مسلم دنیا کو آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ غلامی سے نکل کر خودمختاری کی منزل حاصل ہوسکے۔

محمد عمر چھاپرا کا مضمون: ’مسلم دنیا میں سماجی و اقتصادی انصاف‘ ایک ایسی تحریر ہے جو مسلمانوں کو آئینہ دکھاتی ہے۔ مسموم ثقافت، تعلیم، ذرائع ابلاغ اور عالم گیریت کے زیراثر مسلمان نوجوانوں اور خواتین میں پیدا ہونے والی تبدیلیاں ایک علیحدہ کتاب کا موضوع ہیں؟ امید ہے کہ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اپنی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے ان موضوعات پر بھی رہنمائی دے گا۔ (محمد ایوب منیر)

تعارف کتب

  •  قرآن حکیم اورامت مسلمہ، مرتب:محمدمحمودالصواف، ترجمہ :خدابخش کلیارا یڈووکیٹ۔ ناشر:ادارہ معارف اسلامی منصورہ،لاہور۔صفحات:۸۰۔ قیمت:۶۰ روپے۔[اخوان المسلمون کے رہنما محمدمحمود الصواف (۱۹۱۴ء-۱۹۹۲ء) نے مطالعے کے رجحان میں کمی کے پیش نظر بالخصوص نوجوانوں میں قرآن کے فہم کو      عام کرنے کے لیے ایسے مختصر تفسیری کتابچے شائع کرنے کا سلسلہ المکتبہ القرآنیہ کے نام سے شروع کیا  جو عام فہم ہونے کے ساتھ ساتھ دل و دماغ پر قرآن کے اثرات مرتب کرسکیں۔ دل کش اندازِ بیان اور قرآن پر عمل کے لیے تحریک۔اس مفید سلسلے کے دیگر کتابچوں کے ترجمے کی بھی ضرورت ہے۔]
  •  تہذیب الاخلاق، افادات: مولانا اشرف علی تھانویؒ ،مرتبہ: محمداقبال قریشی۔ ناشر: ادارہ تالیفات اشرفیہ، جامع مسجدتھانہ والی، ہارون آباد، بہاول نگر۔ صفحات: ۲۴۰۔ قیمت: ۱۳۵ روپے۔[بعض اخلاقی خامیاں، جیسے بدنگاہی، غیبت، تجسس، بدگمانی، غصہ اور کینہ، اِسراف اور تکبر وغیرہ  کے ازالے کے لیے     مولانا اشرف علی تھانویؒ کے افادات سے رہنمائی کے ساتھ عملی علاج بھی تجویز کیا گیا ہے۔ تزکیہ و تربیت کے لیے اخلاقی خوبیوں کے ساتھ ساتھ صحبت ِ صالح اور شیخ کامل سے تعلق پر بھی زور دیا گیا ہے۔]
  •  نماز کی ظاہری ہیئت اور معنویت ،مرتب: خلیل الرحمن چشتی۔ ناشر: الفوز اکیڈمی، ای-۱۱/۴، گولڑہ، اسلام آباد۔ فون: ۲۲۲۲۴۱۸- ۰۵۱۔ صفحات: ۱۱۸۔ قیمت: ۸۵ روپے۔ [نماز کے فرائض، واجبات، سنن اور مستحبات کے اہتمام کی تلقین۔ دعاے استفتاح، رکوع، قومہ ، سجدہ، جلسہ، سلام سے پہلے اور سلام پھیرنے کے بعد کئی کئی مسنون اذکار اور دعائیں باترجمہ ارکانِ نماز کا خلاصہ، نماز کا حاصل، نمازیوں کی قسمیں اور توحید کی قسمیں۔ نماز کی ظاہری و معنوی حالت کو بہتر بنانے اور خضوع وخشوع پیدا کرنے میں معاون کتاب۔]
  • کرم کی برسات (سفرنامۂ حج)، ڈاکٹر خالد عاربی۔ ناشر: دارالتذکیر، رحمن مارکیٹ، غزنی سٹریٹ،    اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۲۳۲۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔ [حج کے مشاہدات و تاثرات پر مبنی خوب صورت پیراے میں تحریر کی گئی ایمان افروز اور قلبی کیفیات کی آئینہ دار یہ کتاب مطالعے کے دوران قاری پر روحانی اور وجدانی کیفیت طاری کردیتی ہے اور جذبات کو مہمیز دیتی ہے۔ حج کے مسائل کے ساتھ ساتھ حضوؐر کے حج و عمرہ کے اسفار کی تفصیل اور تقاریر کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔]
  • نو زبانی لُغت، پروفیسر عبدالعزیز مینگل۔ ناشر: اُردو سائنس بورڈ، ۲۹۹-اَپرمال، لاہور۔ صفحات: ۶۵۸۔ (بڑی تقطیع)۔قیمت: ۱۰۰۰ روپے۔ [بہ ترتیب حروفِ تہجی اُردو الفاظ کے بالمقابل بتایا گیا ہے کہ آٹھ دیگر زبانوں (براہوی، بلوچی، پشتو، پنجابی، سرائیکی، سندھی، فارسی، انگریزی) میں ان کے مترادفات کیا ہیں۔ مصنف کی محنت قابلِ داد ہے مگر اس کی افادیت محدود ہے۔]
  •  محنت کش، مسائل، مشکلات، حل ،شفقت مقبول۔ناشر: محنت پبلی کیشنز، پوسٹ بکس نمبر۳۲، جی ٹی روڈ، واہ کینٹ۔ فون: ۴۵۳۵۳۳۴- ۴۵۳۷۵۵۰-۰۵۱۔ صفحات: ۱۵۶۔ قیمت: درج نہیں۔ [اس کتاب میں محنت، کسبِ معاش کی اہمیت و فضیلت، مختلف نظریہ ہاے محنت (سرمایہ داری نظام، اشتراکیت اور اسلام کا نظریۂ محنت)، محنت کش کی انسانی تاریخ، دیگر مذاہب میں اور نظاموں میں مزدور کی حالت، نیز پاکستان میں محنت اور محنت کش کی صورت حال، آجر اور اجیر کے درمیان مثالی تعلقات جیسے موضوعات پر بحث کی گئی ہے۔]