پاکستان آج اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔ ہرطرف سے سنگین خطرات کی یورش ہورہی ہے اور گمبھیر بحرانوں کے ایک خوف ناک سیلاب بلکہ سونامی نے زندگی کے ہرشعبے کوتہ و بالا کر دیا ہے۔ عوام بے چین ہیں، دانش ور انگشت بدنداں ہیں، نوجوان مایوس ہیں، دوست اوربہی خواہ دل گرفتہ ہیں لیکن حکمران جن پر سب سے بڑی ذمہ داری ہے، بے حسی اور بے تدبیری کی تصویر بنے ایک غلطی کے بعد دوسری غلطی کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ مفاد پرستوں کو من مانی کرنے کی کھلی چھوٹ ہے، ادارے تباہ ہو رہے ہیں، امن و امان کی صورت ابتر ہے، شب وروز کا اطمینان و سکون اور چین رخصت ہوچکا ہے، اور معیشت کا حال دگرگوں ہے۔ غربت، فاقہ کشی اور بے روزگاری میں ہر روز اضافہ ہورہا ہے، کرپشن کا طوفان ہے۔ مرکز اور صوبوں کے درمیان بے اعتمادی بڑھ رہی ہے۔
’دہشت گردی‘ کے خلاف امریکی جنگ نے اب پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ صوبہ سرحد، صوبہ بلوچستان اور مرکز کے زیرانتظام علاقہ جات (فاٹا) میں فوجی آپریشن جاری ہے، جس سے عملاً سارا ملک اس آگ کی لپیٹ میں آگیا ہے۔ پاکستان کی قومی فوج اور عوام ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں۔ امریکا کی مداخلت اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ اب اس کے سفارت کار کھلے بندوں حکمرانی (مائیکرومینجمنٹ) کرتے نظر آرہے ہیں۔ امریکی ڈرون حملے روزمرہ کا معمول بن گئے ہیں، جن پر رسمی احتجاج کا تکلف بھی روا نہیں رکھا جا رہا۔ امریکا کی خفیہ ایجنسیوں کے کارندے دن کی روشنی اور رات کی تاریکی میں سرگرم ہیں اور اپنی من مانی کر رہے ہیں۔ حکمرانوں کا حال یہ ہے کہ وہ ایسی جارحانہ دراندازیوں پر پوری بے حمیتی کے ساتھ عملاً ممنونیت کے پھول نچھاور کر رہے ہیں۔ ایک نہیں متعدد امریکی ذمہ دار اپنی نجی گفتگو میں اس امر کا فخر سے اظہار کر رہے ہیں کہ: موجودہ صدر آصف زرداری سابقہ صدر جنرل مشرف سے بھی زیادہ خوش دلی کے ساتھ امریکا کے ہر اشارے پر عمل کر رہے ہیں___ یہی وجہ ہے کہ ۲۰ ماہ ہی میں موجودہ حکمرانوں نے عوام کو بُری طرح مایوس کر دیا ہے، یوں ۱۸ فروری ۲۰۰۸ء کو روشنی کی جو کرن اُفق پر اُبھری تھی وہ دم توڑ کر رہ گئی ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کی نمایندہ پامیلا کونسٹیبل پاکستان کے اپنے حالیہ دورے کے بعد ۱۶ نومبر ۲۰۰۹ء کی اشاعت میں پاکستانی عوام کے جذبات و احساسات کو یوں بیان کرتی ہے:
طالب علم، دکان دار عام شہری غرض جس سے بھی پچھلے ہفتے بات کی گئی، اس نے شکایت کی کہ زرداری حکومت نے ملک کے کسی بھی پیچیدہ مسئلے میں عوام کو سہولت نہیں دی۔ سب نے کہا کہ فوجی حکومت کے بجاے سول حکومت کے آنے پر ہم نے جو اُمیدیں باندھی تھیں وہ ختم ہوگئی ہیں۔
پامیلا کونسٹیبل، قائداعظم یونی ورسٹی اسلام آباد کے ایک پروفیسر کا یہ تبصرہ نقل کرتی ہے:
یہ تاثر عام ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب قوم کو مضبوط قیادت کی ضرورت ہے، حکومت بے پتوار کشتی کی مانند ہچکولے کھا رہی ہے۔ مسٹر زرداری کے بارے میں عام خیال ہے کہ وہ اپنے اختیارات کو ذاتی مفادات کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ انھوں نے بہترین آدمیوں کو اپنے سے دُور کر دیا ہے اور کابینہ میں ان لوگوں کو بہ کثرت شامل کررکھا ہے جو تعمیل کے لیے احکامات کے منتظر رہتے ہیں۔ اس لیے حکومت سے توقعات ختم ہوگئی ہیں۔
برٹش کونسل کے زیراہتمام پاکستانی نوجوانوں کے ایک سروے کے مطابق جو The Next Generation Report (نئی نسل کے بارے میں رپورٹ)کی شکل میں ۲۱ نومبر ۲۰۰۹ء کے اخبارات میں شائع ہوا ہے، نوجوانوں کے صرف ۱۵ فی صد نے حکومت کے رُخ اور کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا ہے، جب کہ ۸۵ فی صد غیرمطمئن ہیں اور ۷۲ فی صد نے کہا ہے کہ اس زمانے میں ہمارے معاشی حالات بگڑے ہیں۔ رپورٹ کے الفاظ میں:
نتائج زیادہ تر تشویش ناک ہیں۔ یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ نوجوانوں کی اکثریت یقین رکھتی ہے کہ بیش تر پاکستانی ادارے بدعنوانی سے آلودہ ہیں۔ زیادہ تر یہی سمجھتے ہیں کہ حکومت کسی بھی سطح پر کچھ کرنے میں ناکام ہے۔ (دی نیوز انٹرنیشنل، ۲۲نومبر ۲۰۰۹ء)
یوں تو اس حکومت کی کارکردگی روزِ اول ہی سے مایوس کن تھی، لیکن گذشتہ دو ماہ میں حالات نے بڑی فیصلہ کن کروٹ لی ہے۔ ایک طرف امریکا کے شدید دبائو کے تحت سوات اور مالاکنڈ کے بعد جنوبی وزیرستان میں فوجی آپریشن کا آغاز، اور اس کے ردعمل میں صوبہ سرحد ہی میں نہیں اسلام آباد، راولپنڈی اور لاہور میں بھی تشدد کا لاوا کچھ اس طرح پھٹا ہے کہ ان دو مہینوں میں سیکڑوں افراد لقمۂ اجل بن گئے ہیں اور پورے ملک کا سیکورٹی کا نظام درہم برہم ہے، حتیٰ کہ تعلیمی ادارے تک محفوظ نہیں رہے ہیں۔
اس پس منظر میں دو اہم ترین واقعات ایسے ہیں، جنھوں نے وطن عزیز کو ایک فیصلہ کن موڑ پر لاکھڑا کیا ہے۔ پہلا ’کیری لوگر بل‘ کی شرمناک شرائط اور اس کے بعد امریکا کا منظور کیا جانے والا اسی نوعیت کی شرائط سے بھرپور فوجی امداد کا قانون۔ دوسرا این آر او (’قومی مفاہمتی آرڈی ننس‘) کے بدنامِ زمانہ قانون کا سپریم کورٹ کے فیصلے کے تقاضے کے نام پر قومی اسمبلی میں پیش کرنا، پھر اسے واپس لینا۔ عوامی دبائو کے تحت ہزار پس و پیش کے بعد ۸۰۴۱ این آر او زدہ افراد کی فہرست کی اشاعت، جس میں صدرِ مملکت سے لے کر مرکزی اور صوبائی وزرا تک اور پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے لیڈر سرفہرست ہیں۔ اس میں متعدد سفیر اور بیورو کریسی کے بڑے بڑے نام بھی شامل ہیں۔ پہلے نے ہماری سیاسی حاکمیت کو پارہ پارہ کیا تو دوسرے نے ملک کی اخلاقی ساکھ اور عزت کو خاک میں ملا دیا۔
ان تمام ایشوز پر جس بھونڈے انداز میں اور جس بے غیرتی کے ساتھ معاملہ کیا گیا ہے اس نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا ہے، اور حکومت بلکہ خصوصیت سے صدر زرداری، پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کی قیادت کو بے نقاب کر دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں آج پاکستان اپنی سیاسی تاریخ کے پست ترین مقام پر پہنچا دیا گیا ہے۔ اور اگر این آر او کے آئینے میں اس بدقسمت ملک کی قیادت کی بدنما شکل میں کوئی کسر رہ گئی تھی تو وہ ۲۰۰۹ء کی ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ نے پوری کر دی ہے۔
وقت آگیا ہے کہ ان حالات کا بے لاگ جائزہ لے کر خرابی کی اصل جڑ کا تعین کیا جائے۔ اب لیپاپوتی سے کوئی کام نہیں چل سکتا۔ تلخ حقائق کا کھل کر سامنا کرنا ہوگا۔ قوم کو اور خود اپنے کو دھوکا دینے کے لیے اس وقت مفادپرست قیادت جو تین بڑی گمراہ کن باتیں کر رہی ہے، ان کی حقیقت کو سمجھنا ضروری ہے۔
ہم صاف لفظوں میں کہنا چاہتے ہیں کہ آمریت فوجی ہو یا سول، تباہی کا راستہ ہے اور پاکستانی قوم باربار کے تجربے کے بعد یکسو ہے کہ فوج کی سیاسی مداخلت یا خفیہ قوتوں کا سیاسی کھیل کسی شکل میں بھی قابلِ قبول نہیں ہوگا۔ قوم اور اعلیٰ عدلیہ نے پہلی بار دوٹوک انداز میں فوجی مداخلت کے امکان (option) کو رد کر دیا ہے اور متفقہ طور پر طے کر دیا کہ آیندہ کسی کو یہ کھیل کھیلنے کا موقع نہیں دیا جائے گا۔ لیکن یہ بھی ناقابلِ برداشت ہے کہ آمریت اور خفیہ قوتوں کا نام لے کر سیاسی قیادت اپنی مجرمانہ حرکتوں کے لیے سندِجواز یا رعایت حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ بلاشبہہ بدترین جمہوریت بہترین آمریت پر قابلِ ترجیح ہے، لیکن بدترین جمہوریت خود جمہوریت کی تباہی کا راستہ بناتی ہے۔ جمہوریت کو عوام کے لیے خیروفلاح اور عدل و ترقی کا ذریعہ بننا چاہیے۔ اس لیے کہ جمہوریت محض پرچی کے ذریعے اقتدار میں آنے کا نام نہیں۔ جمہوریت دستور اور قانون کی حکمرانی، عوام کے مفادات، احساسات اور عزائم کی بالادستی، پارلیمنٹ کی حکمرانی، عدلیہ کی آزادی، بنیادی حقوق کی حفاظت اور پارلیمنٹ، میڈیا اور عوام کے سامنے حکمرانوں کی جواب دہی کا نام ہے۔ محض آمریت کا ہوّا دکھا کر جمہوریت کی خوبیوں سے قوم کو محروم کر کے زبانی جمع خرچ سے جمہوریت کا واویلا کرنا بھی ایک ایسا مجرمانہ فعل ہے، جسے کسی صورت برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ انتقام غلط ہے لیکن انصاف اور احتساب، جمہوریت کی روح اور اسلام کا تقاضا ہے اور جمہوریت ہی کے نام پر احتساب اور انصاف سے بچنے کی کوشش مجرمانہ فعل ہے۔ کرپشن ایک سرطان (کینسر) ہے اور محض یہ کہہ کر کہ: ’’ہمیں عوام نے ووٹ دیا ہے‘‘، کرپشن پر پردہ نہیں ڈالا جاسکتا اور نہ قانون اور انصاف کی گرفت سے بچا جاسکتا ہے۔
درمیانی مدت کے انتخابات (مڈٹرم الیکشن) بھی اس کا ایک ذریعہ ہیں اور یہ ایک معروف جمہوری و دستوری عمل ہے۔ دنیا کے تمام ہی جمہوری ممالک میں یہ عمل جاری و ساری ہے۔ امریکا میں تو دستوری نظام ہی ایسا ہے کہ ہر دوسرے سال قیادت کو عوام کی عدالت میں جانا پڑتا ہے۔ برطانیہ جسے پارلیمانی جمہوریت کا گہوارا کہا جاتا ہے وہاں ایک دو بار نہیں، دسیوں بار پارلیمنٹ کا انتخاب مقررہ مدت سے پہلے ہواہے۔ اس لیے درمیانی مدت کے انتخابات کو گالی بناکر پیش کرنا دراصل اپنی ناکامیوں اور مجرمانہ افعال کے احتساب سے بچنے کی کوشش ہے، جو ہر اعتبار سے جمہوریت کے مسلّمہ اصولوں اور روایات کے خلاف ہے۔ درمیانی مدت کے انتخابات ہی مسئلے کا حل نہیں اور نہ ابھی قوم نے اس کا مطالبہ کیا ہے۔ اس وقت تو مطالبہ صرف یہ ہے کہ: ’’پارلیمنٹ کو بالادست کیا جائے، عدالت کی آزادی اور غیر جانب داری کی مکمل حفاظت ہو، اور قانون کے مطابق ہر ایک کا احتساب اور جواب دہی ہو‘‘۔ لیکن ان معقول مطالبات پر ’نظام‘ کے ’درہم برہم‘ ہونے کی دہائی دی جانے لگتی ہے اور اس میں حکومت ہی نہیں دوسری سیاسی جماعتیں جن کو عوام کے حقوق اور دستور اور قانون کی پاس داری کا علَم بردار ہونا چاہیے، خود وہ بھی سخت الجھائو اور ذہنی انتشار کا شکار نظر آتی ہیں۔
اس لیے ہم یہ بات برملا کہنا چاہتے ہیں کہ دستور اور قانون کے مطابق مکمل، شفاف اور بے لاگ احتساب اور انصاف سے کسی نظام کو کوئی خطرہ نہیں ہے، بلکہ نظام کے تحفظ اوراستحکام کے لیے ضروری ہے کہ قانون کے سامنے سب برابر ہوں اور قانون کے مطابق ہر حکمران اور اس کے ہراقدام کا احتساب ہو، خصوصیت سے کرپشن کے باب میں کسی کے ساتھ کوئی رعایت نہ کی جائے۔ نہ کسی کو محض سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جائے اور نہ اصل مجرموں کو قانون کی گرفت سے فرار کا موقع دیا جائے۔ قانون اور عدالت کے سامنے سب کو پیش ہونے کا موقع ہو، تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب فوری طور پر احتساب کا ایک قابلِ اعتماد اور غیر جانب دار ادارہ قائم کیا جائے اور کھلی عدالت میں پورے شفاف انداز میں اُوپر سے نیچے تک ان تمام افراد کو جن پر یہ الزامات ہیں، اپنی صفائی کا پورا موقع ملے۔ ان کے اور قوم کے ساتھ انصاف کیا جائے۔ جو بے قصور ہیں وہ عزت سے بری ہوں اور جنھوں نے قوم کاسرمایہ لُوٹا ہے اور طاقت کا غلط استعمال کیا ہے ان کوقرار واقعی سزا ملے اور عوام کی دولت ان کو لوٹائی جائے۔ حق و انصاف کا یہی راستہ ہے اور اس سے انحراف کی جو کوشش بھی کی جائے گی، اسے قوم کبھی قبول نہیں کرے گی۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے بارے میں بھی پیپلزپارٹی کی قیادت بڑی بے سروپا باتیں کہہ رہی ہے، جس کے پردے کے پیچھے مجرم ضمیر کی جھلک دیکھی جاسکتی ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ آج نہیں آئی ہے، ۱۱ سال سے اس کی رپورٹیں آرہی ہیں۔ یہ محض پاکستانی ادارہ نہیں ایک عالمی تنظیم ہے جس کا طریقۂ کار معروف ہے۔ اس کی رپورٹ محض ہوائی خیالات و تصورات پر مبنی نہیں ہوتی۔ اس کے اپنے جائزے کے علاوہ اس بارے میں دوسرے بین الاقوامی اداروں کے تیار کردہ جائزوں سے بھی استفادہ کیا جاتاہے، جن میں عالمی بنک اور ایشیائی ترقیاتی بنک بھی شامل ہیں۔
یہ توایک آئینہ ہے۔ اگر اس آئینے میں آپ کی شکل بدنما اور داغ دار نظر آرہی ہے تو آئینے کو برا بھلا کہنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ فکر آپ کو اپنی کرنا چاہیے ع
زباں بگڑی سو بگڑی تھی، خبر لیجیے دہن بگڑا
اس وقت ’زرداری گیلانی حکومت‘ جن بحرانوں کے گرداب میں ہے، ان کی حقیقت کو سمجھنا نہایت ضروری ہے۔ ملک اور خصوصیت سے اس کی سیاسی قیادت جس بحران کا شکار ہے، وہ کثیرجہتی (multi-dimensional) ہے۔ ضروری ہے کہ قوم اور پارلیمنٹ دونوں کے سامنے اس بحران کے اہم ترین پہلو کھول کر رکھ دیے جائیں، تاکہ اصلاحِ احوال کی مؤثر تدبیر کی جاسکے۔
ہماری نگاہ میں اس کے مندرجہ ذیل پہلو اہم ہیں:
۱- اولین طور پر زرداری حکومت اپنی سندِ جواز کے بحران (crisis of legitimacy) کی گرفت میں ہے اور اس کے بھی تین پہلو ہیں: دستوری، سیاسی اور اخلاقی___ اور ہر ایک اپنے طور پر انتہائی اہم ہے۔
الحمدللہ ۱۵ مارچ ۲۰۰۹ء کو عدلیہ کی بحالی اور ۳۱ جولائی ۲۰۰۹ء کے عدالت عالیہ کے فیصلے نے ملک کی تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ کے ذریعے صحیح دستوری اور قانونی پوزیشن کو واضح کیا۔ لیکن جو بنیادی خرابیاں (deformities) دستور اور ملک کے سیاسی نظام پر مسلط کر دی گئی ہیں، وہ موجود ہیں اور اس کی بڑی ذمہ داری ’زرداری گیلانی حکومت‘ اور ان کے اتحادیوں پر ہے۔ میثاقِ جمہوریت میں دو بڑی جماعتوں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے دستور کو اس کی اصل شکل میں بحال کرنے کا وعدہ کیا تھا اور یہی ان جماعتوں کا انتخابی منشور تھا، جس پر ۱۸ فروری ۲۰۰۸ء کو عوام نے ان کو حکمرانی کا اختیار دیا۔ لیکن زرداری صاحب کی قیادت میں پی پی پی اور اس کے اتحادیوں نے ۲۰ماہ کے اقتدار میں اس سمت میں ایک قدم بھی نہیں اٹھایا اور یوں جنرل پرویز مشرف کے جرم میں برابر کے شریک بن گئے۔ زرداری صاحب نے دو بار پارلیمنٹ کے سامنے اعلان کیا کہ دستور کو اس کی اصل شکل میں بحال کیا جائے گا، مگر عملاً ساری قوت کو اپنے ہاتھوں میں مرکوز رکھا۔پارلیمنٹ اسی طرح بے اختیار ہے اور عدلیہ ہاتھ پائوں مار رہی ہے لیکن عملاً ایوانِ صدر اقتدار کا سرچشمہ بنا ہوا ہے، اور سارے بگاڑ کی وجہ ہے۔
بجاے اس کے کہ زرداری صاحب اس جواز کے فقدان (lack of legitimacy) کا مداوا کرتے، انھوں نے صدارت کے حلف کے بعد بھی پارٹی کی صدارت کو باقی رکھ کر اور صوبوں میں جنرل پرویز مشرف کے دور کے گورنروں کو باقی رکھ کر اپنے دستوری جواز کو اور بھی داغ دار کردیا۔ صدارتی انتخاب کے ڈرامے کے باوجود دستور کی زبان میں وہ منتخب صدر سے زیادہ عملاً غاصب کا نمونہ پیش کر رہے ہیں۔ اس چیز نے دستوری بحران میں اضافہ کر دیا ہے۔ ایوانِ صدر پارٹی کا دفتر بن گیا ہے اور تمام سیاسی کھیل وہیں سے کھیلا جارہا ہے۔
’کیری لوگر بل‘ کے بارے میں ان کے کردار نے اس تعلق کوبالکل الم نشرح کر دیا ہے۔ صدر اوباما نے اس بل کا اعلان زرداری صاحب کے دورۂ واشنگٹن کے موقع پر کیا اور زرداری صاحب نے اسے اپنا عظیم کارنامہ قرار دیا۔ پھر عوام، پارلیمنٹ، فوج، میڈیا سب کے منفی ردعمل کے باوجود ان کی حکومت نے اس بل کو گلے سے لگایا، اور بالآخر بھونڈے انداز میں پارلیمنٹ کو نظرانداز کر کے اس بل کو اس کی تمام شرمناک شرائط کے ساتھ قبول کرلیا۔ اس بل کے بعد ایک دوسرے فوجی امداد کے بل کو بھی بالکل ویسی ہی شرائط کے ساتھ قبول کیا۔ امریکی احکام کے مطابق جنوبی وزیرستان میں فوجی آپریشن کو شروع کیا اور پاکستان میں ’دہشت گردی‘ کے واقعات میں افغانستان کی ایجنسیوں اور افغانستان کے راستے بھارت کی ایجنسیوں کے کردار کو نظرانداز کیا۔ پھر انتخابی ڈھونگ کے نتیجے میںبرسرِاقتدار آنے والے افغانستان میں کٹھ پتلی صدر حامدکرزئی کی تقریب حلف برداری میں ذاتی طور پر شریک ہوکر امریکی منصوبے سے اپنی وفاداری کا ثبوت دیا ہے۔ ان سب اقدامات نے پاکستان میں زرداری صاحب کے سیاسی جواز کو اور بھی داغ دار کر دیا ہے۔ اسی لیے آج اہلِ پاکستان کی نگاہ میں ان کی عزت و وقار اپنی پست ترین سطح پر ہے۔
’سیاسی انتقام‘ کے الزام کا بھی اسی طرح جائزہ لیا جانا چاہیے جس طرح بدعنوانی اور اختیارات کے غلط استعمال کے الزام کا۔ زمینی حقائق این آر او زدہ افراد کے کردار کو بلاشبہہ مشکوک بناتے ہیں اور ان حضرات کی اخلاقی ساکھ اس وقت تک بحال نہیں ہوسکتی جب تک آزاد اور شفاف عدالت کی کسوٹی پر وہ پورے نہیں اُترتے۔
سرے محل ایک حقیقت ہے۔ اس سے زرداری صاحب اور خود بے نظیر صاحبہ کا انکار بھی ایک حقیقت ہے اور پھر زرداری صاحب کا برطانوی عدالت کے سامنے یہ دعویٰ بھی حقیقت ہے کہ یہ محل ان کا تھا اور اس کے نیلام سے حاصل ہونے والی رقم ان کو ملنا چاہیے اور وہ مل بھی گئی۔ سویس عدالت نے ان کو مجرم قرار دیا ہے اور سوئٹزرلینڈ کے بنک میں رقم کا وجود ایک حقیقت ہے۔ ۶۰ملین ڈالر این آر او کے تحت ان کو واپس کیے گئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ ۶۰ ملین اور دوسرے کروڑوں ڈالر جو ان کے بیرونی ممالک کے بنکوں میں موجود ہیں اور مغربی میڈیا حتیٰ کہ ایک معروف انسائیکلوپیڈیا وکی پیڈیا کی ویب سائٹ پر موجود ہیں۔ اسی طرح NASA کے ریکارڈ پر وہ ٹیلی فون گفتگو موجود ہے، جس میں ماں اور بیٹے کے درمیان بنکوں کی رقوم کے بارے میں بات چیت ہے۔ کیا قوم کو یہ حق حاصل نہیںکہ وہ صرف زرداری صاحب ہی نہیں، بلکہ ان سب اربابِ اقتدار سے پوچھیں جن کے باہر کے ملکوں میں حسابات میں یہ اربوں ڈالر ہیں کہ: ’’جناب،یہ رقوم آپ نے کیسے حاصل کیں؟ آپ کی جو آمدنی قومی اسمبلی اور سینیٹ کے گوشواروں میں ظاہر کی گئی ہے اس میں تو اس کا ذکر نہیں‘‘۔ آگسٹا آب دوز کی ناجائز کمیشن (kickbacks) ایک معروضی حقیقت ہے۔ آپ کے بنک کے حساب میں رقوم آئی ہیں۔ کیا قوم کو یہ حق نہیں کہ کم از کم یہ پوچھیں کہ یہ رقم کہاں سے آئی ہے اور آپ کی کون سی خدمات کا صلہ ہے؟ اسلام آباد میں آپ کے اور آپ کے صاحبزادے کی تجارتی کمپنی پارک لینڈ کو تین ہزار ایکڑ اراضی کوڑیوں کے مول دی گئی اور ملک کی صدارت کے دوران دستور کی پابندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آپ اس کے ڈائرکٹر ہیں۔
اسی طرح این آر او کے دوسرے مقدمات سے محض دستور کے آرٹیکل ۲۴۸ کے سہارے آپ کیسے پناہ لے سکتے ہیں۔ اخلاقی سندِجواز کے بغیر کوئی حکمران اور کوئی حکومت اپنے اقتدار کے لیے جواز حاصل نہیں کرسکتی۔
یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ این آر او کے زیربحث کے آتے ہی کتنے اربابِ اقتدار و سیاست ایسے ہیں جنھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ہم نے این آر او کے تحت کوئی رعایت حاصل نہیں کی۔ لیکن اب اسی حکومت کے وزیرمملکت نے جو فہرست شائع کی ہے، اس میں یہ سارے نام موجود ہیں۔ یہ فہرست کسی دشمن نے نہیں بنائی، آپ کی اپنی حکومت کی فراہم کردہ ہے۔ اور اس حالت میں ہے کہ ڈان کے نمایندے نے دعویٰ کیا ہے اور اپنے اس دعویٰ پر قائم ہے کہ اس فہرست میں یہ گڑبڑ کی گئی ہے کہ اصل فہرست میں ہرفرد کے نام کے ساتھ خردبرد کی جانے والی رقم درج تھی، مگر اس آخری فہرست میں سے رقم کا خانہ نکال دیا گیا ہے۔ گمان غالب ہے کہ یہ رقم ۱۰ کھرب سے زیادہ کی ہے۔ ایم کیو ایم کے قائدین نے اعلان کیا تھا کہ انھوں نے این آر او سے فائدہ نہیں اٹھایا لیکن اب جو نام آئے ہیں ان میں ایم کیو ایم کی پوری قیادت اور اس کے ۳ ہزار سے زیادہ کارکن شامل ہیں اور عملاً ان سب نے فروری ۲۰۰۸ء کے بعد اس بدنامِ زمانہ کالے قانون سے فائدہ اٹھایا ہے۔
وزیراعظم صاحب کی اہلیہ کا نام اس میں نہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انھوں نے دومختلف زرعی قرضوں کی شکل میں ۲۰۰ ملین روپے کے قرض لیے جو سود کے ساتھ نادہندگی کی وجہ سے ۵۷۰ ملین کا قرض بن گئے۔ پھر راضی نامے کے ذریعے ۵ء۴۵ ملین روپے کی ادایگی کے بعد پورے قرضے کو ساقط کر دیا گیا۔ گویا ۵۲ کروڑ سے زیادہ رقم معاف کر دی گئی۔
مسئلہ صرف این آر او کی زد میں آنے والی بدعنوانیوں کا نہیں، بدعنوانی کے پورے کلچر کا ہے جس کے نتیجے میں ملک دیوالیہ ہورہا ہے۔ امیر امیر تر بن رہے ہیں اور غریب دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں۔ صرف این آر او زدگان ہی نہیں تمام قرض معاف کرانے والے سرمایہ داروں، زمین داروں، جاگیرداروں، سرکاری افسروں، تاجروں اور جرنیلوں کا احتساب ہونا چاہیے۔
۲- دستوری، سیاسی اور اخلاقی جواز کی کمی کے ساتھ ساتھ ’زرداری گیلانی حکومت‘ ساکھ کے بحران (credibility crisis)کا بھی شکار ہے۔ زرداری صاحب وعدے توڑنے اور اعلان کر کے مُکرجانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ پھر یہ بھی کہنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے کہ سیاسی عہدوپیمان کوئی قرآن و حدیث ہیں کہ ان کو بدلا نہ جاسکے۔ وزیراعظم صاحب نے بھی پارلیمنٹ کے قائد منتخب ہونے کے وقت سے جو اعلانات کیے ہیں اگر ان کا جائزہ لیا جائے تو صاف نظر آتا ہے ع
دُور تک ڈھیر ہے ٹوٹے ہوئے پیمانوں کا
انھوں نے بار بار کہا کہ اصل فیصلے پارلیمنٹ میں ہوں گے، لیکن آج تک کسی اہم مسئلے پر پارلیمنٹ میں فیصلے کی نوبت نہیں آئی ہے۔ حتیٰ کہ ’کیری لوگر بل‘ پر بھی بحث تک مکمل نہ کی گئی، پارلیمنٹ میں فیصلے کا تو کیا سوال۔ نیز جن معاملات پر پارلیمنٹ نے واضح قرارداد متفقہ طور پر منظور کی، اس پر نہ صرف یہ کہ عمل نہیں ہوا بلکہ عمل اس کے برعکس ہوا اور پارلیمانی کمیٹی براے قومی سلامتی کے دیے ہوئے روڈمیپ پر عمل تو درکنار، کمیٹی کے اس فیصلے کے باوجود کہ حکومت اس رپورٹ پر کارکردگی رپورٹ ایک ماہ میں پیش کرے، آج تک کوئی رپورٹ تک نہیں دی گئی۔
پارلیمنٹ کے منظور کردہ ’مالیاتی ذمہ داری کے قانون‘ (Fiscal Responsibility Act) کی کھلی خلاف ورزی کی جارہی ہے اور ملک پر قرضوں کا بار آنکھیں بند کر کے بڑھایا جا رہا ہے۔ ان دو برسوں میں بیرونی قرضوں میں ۱۵ ارب ڈالر کا اضافہ ہوگیا ہے اور اب کُل بیرونی قرضوں پر سالانہ ۵ ارب ڈالر صرف سود وغیرہ کی ادایگی پر خرچ کرنے پڑ رہے ہیں، جو قرض لے کر ادا کیے جارہے ہیں۔ قول وفعل کا یہ تضاد شدید بحران پیدا کر رہا ہے۔
۳- بحران کا تیسرا بڑا پہلو حکمرانی کے بحران (crisis of governance) سے متعلق ہے۔ ایک طرف مرکز اور صوبوں میں وزیروںکی فوج ظفرموج ہے اور دوسری طرف حال یہ ہے کہ کسی شعبے میں بھی اچھی حکمرانی کا کوئی نشان دُور و نزدیک نظر نہیں آتا۔ قانون اور ضابطوں کو بے دردی سے توڑا جارہا ہے۔ پبلک سروس کمیشن کے سربراہ کا تقرر مارچ ۲۰۰۹ء میں ہوجانا چاہیے تھا اور اس وقت سے سیکڑوں اُمیدوار انتظار میں ہیں، لیکن حکومت کو اس کی کوئی فکر نہیں۔ وزیراعظم صاحب قواعد کو نظرانداز کر کے ۲۱ اور ۲۲گریڈ کی تقرریاں تھوک کے بھائو کررہے ہیں۔ ۵۰ سے زیادہ سینیر سرکاری افسر عدالت جانے پر مجبور ہوئے ہیں کہ جنھیں قواعد کے خلاف نظرانداز کر دیا گیا تھا۔ سفارش، اقرباپروری، دوست نوازی کا دور دورہ ہے۔ حکومت کے ہر شعبے میں میرٹ اور قاعدے قانون کا کھلے بندوں خون ہو رہا ہے، جس سے انتظامی ادارے تباہ ہو رہے ہیں۔ اے اہلِ نظر! نظام پر ضربِ کاری ان حرکتوں سے لگا کرتی ہے، بدعنوانیوں کو بے نقاب کرنے والی اطلاعات سے نہیں۔
۴- بحران کا ایک اہم ترین اور بے حد خطرناک پہلو حاکمیت کا بحران (crisis of sovereignty ) ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں امریکا کی بالادستی اور ملکی معاملات میں دراندازی کا دروازہ جس طرح کھلا، موجودہ حکومت نے اسے اور بھی چوپٹ کھول دیا ہے۔ اور اب امریکا، اس کے نمایندے، کارندے اور خفیہ ایجنسیوں کے کارپرداز، سیکورٹی اور معیشت دونوں میدانوں میں عملاً حکمرانی کر رہے ہیں۔ ’دہشت گردی‘ کے خلاف امریکا کی جنگ میں شرکت کی جوقیمت اس ملک نے ادا کی ہے، وہ تباہ کن ہے۔ ہماری سرزمین پر امریکا کے فوجی اڈے آج بھی قائم ہیں۔ افغانستان کی جنگ میں امریکا نے ۵۷ہزار سے زیادہ فضائی حملے پاکستان کی سرزمین سے کیے ہیں۔ افغانستان سے پاکستان پر ڈرون حملوں کا عدد ۱۰۰ کا ہندسہ عبور کرچکا ہے۔ جس میں امریکی ترجمان کے مطابق القاعدہ کے مبینہ طور پر ۱۸ یا ۲۰ افراد مارے گئے ہیں، لیکن پاکستان کے عام شہریوں کی ہلاکت ۸۰۰ افراد سے زیادہ ہے، جن میں عورتیں، بچے اور بوڑھے بھی شامل ہیں۔ اس میں سب سے شرمناک پہلو یہ ہے کہ مشرف کے زمانے میں حملہ امریکی کرتے تھے، مگر پاکستان کا حکمران ٹولہ اس کا سہرا اپنے سر باندھتا تھا اور بقول سیمور ہرش: ’’مشرف نے خود کہا کہ چاہے حملہ امریکی کریں لیکن اسے پاکستان کے کھاتے میں ڈال دیا کریں‘‘۔ ’زرداری گیلانی حکومت‘ میں پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر ڈرون حملوں کو ملک کی سالمیت اور حاکمیت پر ضرب قرار دیا اور انھیں روکنے کے لیے ہرراستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا، لیکن عملاً ڈرون حملے، امریکی صدر اوباما کے دورِحکومت میں بڑھ گئے۔ اب یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ امریکا کا یہ دعویٰ صحیح ہے کہ ان حملوں میں پاکستان کی حکومت اور اس کی ایجنسیوں کی معاونت موجود ہے۔ گویا یہ سب امریکا اور ’زرداری گیلانی حکومت‘ کی ملی بھگت کا نتیجہ ہے، جو قوم بھگت رہی ہے۔
دیکھیے خود امریکی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن نے کن صاف الفاظ میں پاکستان کی سرزمین پر امریکی فوجیوں کے وجود کا اعتراف کیا ہے۔ اپنے حالیہ دورے کے بعد موصوفہ نے کہا ہے: ’’انتہاپسندی اور دہشت گردی کو شکست دی جائے گی، کہ ہم نے افغانستان اور وزیرستان میں اپنے فوجی کھوئے ہیں‘‘۔ (دی نیوز، ۳۰؍اکتوبر ۲۰۰۹ء)
ڈان اخبار نے اپنی ۱۶ نومبر ۲۰۰۹ء کی اشاعت میں امریکی سی آئی اے کے ایک اعلیٰ افسر کا یہ اعتراف شائع کیا ہے: ’’ڈرون کے ذریعے میزائل حملوں کے لیے سی آئی اے، پاکستان کے تعاون پر انحصار کرتی ہے۔ ان حملوںسے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں درجنوں مشتبہ انتہاپسند ہلاک کیے گئے ہیں‘‘۔ نیز امریکی فوج کی مرکزی کمانڈ کے سربراہ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس نے واشنگٹن میں اپنے ایک بیان میں دعویٰ کیا ہے: ’’امریکا میزبان ممالک کی رضامندی کے بغیر ڈرون حملے نہیں کرتا‘‘۔ انھوں نے پاکستان میں ڈرون حملوں کی کامیاب کارکردگی کے دعوے کے ساتھ دیکھیے کیا کہا ہے:
جاسوس اور ڈرون طیاروں کے استعمال نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس قسم کے حملوں سے ۲۰ سے زائد انتہاپسند ہلاک ہوچکے ہیں۔ یہ حملے میزبان ملک کی مرضی کے خلاف نہیں کیے جاتے ہیں۔ وہاں [پاکستان میں] ہمارا کام پاکستانی فوجی ہم منصبوں کے ساتھ مکمل تعاون کرنا ہے۔ (نواے وقت، ۱۶نومبر ۲۰۰۹ء)
اس پس منظر میں اگر سیمور ہرش کے نیویارک کے مضمون کے مندرجات پر غور کیا جائے تو مجہول سرکاری وضاحتوں کے برعکس حقیقت سامنے آجاتی ہے۔ مشرف نے ہرش سے کہا: ’’میں نے امریکیوں سے کہا: ہمیں ڈرون طیارے دو۔ مجھے انکار کیا۔ میں نے امریکیوں سے کہا کہ صرف علانیہ طور پر کہہ دو کہ تم ہمیں یہ دے رہے ہو۔ تم ان سے حملے کرتے رہو، لیکن ان پر پاکستان ایئرفورس کے نشانات لگادو، مگر امریکیوں نے اس سے بھی انکار کیا‘‘۔ سیمور ہرش کا دعویٰ یہ بھی ہے کہ: ’’امریکا پاکستانی فوج سے پاکستان کے ایٹمی اسلحے کی سلامتی کے بارے میں انتہائی حساس نوعیت کے امور پر بات چیت کرتا رہا ہے‘‘۔ ہرش مزید کہتا ہے: ’’صدرمشرف نے تسلیم کیا کہ ان کی حکومت نے امریکا کے محکمۂ خارجہ کے عدم پھیلائو کے ماہرین کو پاکستانی اسلحے کے کمانڈ اور کنٹرول، اس کے برموقع تحفظ اور حفاظت کے طریقۂ کار کے بارے میں آگاہ کیا‘‘۔
اور اب ہرش کا یہ بیان بھی پڑھ لیجیے کہ صدر زرداری نے اپنی خدمات کا کس طرح اعتراف کیا ہے: "we give comfort to each other, and the comfort level is good". (ہم نے ایک دوسرے کو سہولت فراہم کی ہے، ایسی سہولت جس کی سطح بلند ہے)
جس قوم کی قیادت کا یہ حال ہو، وہ اس کے سوا کیا کہے کہ اناللّٰہ وانا الیہ راجعون!
جنرل مشرف اور پی پی پی کی قیادت میں تعاون اور این آر او سب اسی کہانی کے حصے ہیں۔
امریکی وزارتِ خارجہ کے ترجمان سین میک کورمڈ نے فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات کے موقع پر صاف لفظوں میں کہا تھا:
ہمارا بہت کچھ دائو پر لگا ہوا ہے اور پاکستان کا بھی بہت کچھ دائوپر لگا ہوا ہے، خصوصاً پاکستان کے مستقبل کے لیے فکرمندی بھی دائو پر لگی ہوئی ہے۔ پینٹاگان نے صدرکرزئی کے ساتھ طویل مدت تک معاملات کیے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ ایک ایسا شخص ہے کہ کوئی فوج بھی اس کے قریب رہ کر کام کرنا پسند نہیں کرے گی۔ (دی نیوز، انجم نیاز، Last Tango in Washington، ۲۸؍اکتوبر ۲۰۰۹ء)
اس سلسلے میں امریکی وزیرخارجہ کونڈولیزا کی قیادت میں این آر او کا ڈھونگ رچایا گیا۔ اسی لیے مضمون نگار نے دعویٰ کیا ہے: ’’این آر او کی پیدایش اسلام آباد میں نہیں، واشنگٹن میں ہوئی ہے‘‘۔اور یہ بھی کہ: ’’واشنگٹن جو چاہتا ہے اسے مل جاتا ہے‘‘۔
پاکستان کی سرزمین پر امریکی کمانڈروں اور خفیہ ایجنسیوں کے کارندوں کا وجود ایک حقیقت ہے جسے جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ وزیرداخلہ رحمن ملک جو بھی کہیں یہ حقیقت ہے کہ آج اسلام آباد، پشاور، کوئٹہ، کراچی ہر جگہ امریکیوں نے قدم جما لیے ہیں۔
امریکی اور ان کے زرخرید پاکستانی کارندے ہر طرف دندناتے پھر رہے ہیں۔ امریکی فوج اور کمانڈر بلاروک ٹوک ملک میں داخل ہوتے ہیں اور وزارتِ داخلہ ان کے اس داخلے میں سہولت فراہم کرتی ہے۔ اسلام آباد میں امریکی سفارت خانہ، سامراجی حکمرانی کا قلعہ بن چکا ہے۔ اسلام آباد میں ۳۰۰ سے زیادہ مکان امریکیوں کے تصرف میں ہیں۔ سہالہ کی پولیس ٹریننگ فیکلٹی کے ایک حصے پر بھی ان کا قبضہ ہے اور وہ وہاں تربیت کے نام پرفوجی اڈا قائم کیے ہوئے ہیں۔
محب وطن کالم نگار، دانش ور اور سیاسی قائدین اس امریکی یلغار پر احتجاج کر رہے ہیں، مگر حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
دی نیشن نے اپنی ۱۶ نومبر ۲۰۰۹ء کی اشاعت میں یہ خبر دی ہے:
اسلام آباد کے علاقے جی-۶/۳ میں مشتبہ غیرملکیوں کی موجودگی نے جو ’بلیک واٹر‘ کے اہل کار ہوسکتے ہیں، تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ ان میں سے ایک کو سڑک سے گزرنے والے ایک مقامی شخص سے لڑتے ہوئے دیکھا گیا۔ ’بلیک واٹر‘ جس کا نام ’ایکس ای سروسز‘ ہوگیا ہے کا عملہ نومبر کے پہلے ہفتے میں اسلام آباد پہنچا۔ ۲۰؍اگست ۲۰۰۹ء کے نیویارک ٹائمز کے مطابق سی آئی اے نے ۲۰۰۴ء میں القاعدہ کی اعلیٰ قیادت کو تلاش کرنے اور قتل کرنے کے خفیہ پروگرام کے لیے ’بلیک واٹر‘ کی خدمات حاصل کیں۔
دی نیشن ہی نے اپنی ۱۰ نومبر کی اشاعت میں سفارتی عملے کے ان افراد کی نشان دہی کی جو مسلح ہوکر شہر میں گھومتے پھرتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق: چار امریکی اور دو ڈچ سفارت کاروں کو اسلحہ اور گرنیڈ کے ساتھ پکڑا گیا مگر وزارتِ داخلہ نے انھیں فوراً رہا کرا دیا۔ ۲۸؍اکتوبر ۲۰۰۹ء کو اسلام آباد کے اخبارات نے ایف-۸/۳ میں ایسے مسلح امریکیوں کی پولیس کے ہاتھوں گرفتاری کی خبر دی، جو افغانوں کے لباس میں تھے اور مسلح گشت کر رہے تھے، لیکن امریکی سفارت خانے کی مداخلت پر ان کو رہا کر دیا گیا۔ ۴نومبر ۲۰۰۹ء کے دی نیشن نے ایکس ای سروسز کے ۲۰۲کمانڈوز کے پی آئی اے کی فلائٹ ۷۸۶-PK سے لندن ہیتھرو ہوائی اڈے سے اسلام آباد آنے کی خبر شائع کی، جنھیں کسی جانچ پرکھ کے بغیر وزارتِ داخلہ کی ہدایت کے مطابق ملک میں آنے دیا گیا۔ ایئرپورٹ پر متعلقہ افسر کا بے بسی سے یہ کہنا تھا: ’’ہمیں ہدایات ہیں کہ غیرملکیوں کو کسٹم کے بغیر داخلہ دیا جائے‘‘۔
اسلام آبادمیں امریکی سفارت خانے کی توسیع اور ۱۸؍ایکڑ مزید اراضی کا حصول ایک جانی بوجھی بات ہے۔ پشاور، لاہور، کوئٹہ اور کراچی میں بھی قونصل خانوں کو توسیع دی جارہی ہے۔ پاکستانی وزیرداخلہ نے اعتراف کیا ہے کہ امریکی پرائیویٹ سیکورٹی کی ایجنسی Dyn Corp (ڈین کور) کو پاکستان میں آنے اور امریکیوں کو حفاظت فراہم کرنے کی سہولت دی گئی ہے۔ سہالہ کے پولیس ٹریننگ کالج میں جو بہارہ کہو اور سملی ڈیم کے قریب ہے، امریکیوں کو ٹریننگ کے نام پر اڈا قائم کرنے کی سہولت دی گئی ہے۔ سہالہ پولیس کالج کے ذمہ داروں کو بھی اس جگہ پَر مارنے کی اجازت نہیں۔ امریکیوں کی مشتبہ سرگرمیوں سے پریشان ہوکر پولیس کالج کے سربراہ نے اس اڈے کو وہاں سے ہٹانے کا مطالبہ کیا، جس سے ہمارے پولیس کالج کے انچارج کی نوکری خطرے میں پڑگئی ہے۔ یہ سب کیا ہو رہا ہے اور ہمارے ملک کے حکمرانوں کا اس میں کیا کردار ہے؟ یہ سوالات اب نظرانداز نہیں کیے جاسکتے۔۱؎
جنوبی وزیرستان پر فوجی آپریشن امریکا کے دبائو اور مطالبے پر ہوا ہے اور اب امریکی صدر کا پیغام صدر زرداری کے لیے آیا ہے کہ اس کو شمالی وزیرستان اور اورکزئی ایجنسی تک بڑھایا جائے۔ امریکی صدر کے پیغام کے بعد سی آئی اے کے ڈائرکٹر لیون پینیٹا (Leon Panetta) کی آمد ہوئی ہے اور ان کا حکم ہے:’’پاکستان فوجی آپریشن سے قبائلی علاقوں کے تمام انتہاپسندوں کو نشانہ بنائے‘‘۔
اس خدمت کو انجام دینے کے لیے امریکا کی پوری قیادت پاکستان کے ’دفاعی نظام‘ اور ’خطرے کے تصورات‘ کو تبدیل کرنے کے لیے سرگرم ہے۔ اوباما، ہیلری کلنٹن، ایڈمرل مولن، ہال بروک سب ایک ہی راگ الاپ رہے ہیں کہ:’’ پاکستان کو اصل خطرہ بھارت سے نہیں، القاعدہ اور طالبان سے ہے‘‘۔
امریکا خود طالبان سے بات چیت کرنے اور افغانستان کے چھے صوبوں میں ان کو شریعت نافذ کرنے کی اجازت دینے کی باتیں کر رہا ہے۔ امریکا اور یورپ کے سوچنے سمجھنے والے ادارے اور راے عامہ کے جائزے سب اس سمت اشارہ کر رہے ہیں کہ افغانستان سے فوجوں کے انخلا اور سیاسی حل کے سوا کوئی حقیقی آپشن نہیں ہے۔ لیکن اس کے برعکس پاکستان کی افواج کو پشتون علاقے میں پھنساکر مسلسل اور مزید جنگ کی آگ میں جھونکنے کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔
یہ واضح ہے کہ امریکا اور ناٹو کو بہرصورت افغانستان سے جانا ہے۔ اس کے بعد کیا ہوگا؟ اس پر غور کرکے پاک افغان تعلقات اور خصوصیت سے پاکستان سے ملحق پشتون علاقوں کے درمیان تعاون اور تعلقات کیسے استوار ہوں گے؟ اس کے لیے فوری اور لمبے عرصے کی حکمت عملی بنانے کا یہ وقت ہے۔ خود افغانستان میں جو سوچ اور رجحانات اس وقت فروغ پارہے ہیں، ان کو سمجھنے اور ان کی روشنی میں اپنے ملکی اور ملّی مفاد کی روشنی میں حکمت عملی وضع کرنے اور نیا نقشۂ کار مرتب کرنے کی ضرورت ہے، لیکن ہم آنکھیں بند کرکے امریکی ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں اور یہ بھی نہیں دیکھ رہے کہ افغانستان میں حالات کس رُخ پر جارہے ہیں اوروہاں طالبان کا مستقبل میں کیا کردار ہونا ہے۔
خلیج ٹائمز نے اپنی ۱۶ مارچ کی اشاعت میں ایک چشم کشا حقیقت کا انکشاف کیا ہے کہ: ’’کیپٹن یا میجر سطح کا کوئی ایک افغان افسر بھی چھے سال کی جنگ میں ہلاک نہیں ہوا ہے، اس لیے کہ افغان اس جنگ کو اپنی جنگ نہیں سمجھتے‘‘۔ کیا اس میں ہمارے دفاعی حکام کے لیے کوئی سبق کا پہلو نہیں ہے!
پاکستان کی پارلیمنٹ نے اپنی ۲۲ اکتوبر۲۰۰۸ء کی قرارداد میں متفقہ طور پر یہ ہدایت دی تھی کہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کی پوری حکمت عملی اور ملک کی خارجہ پالیسی اور سلامتی کے مثالیے پر فوری نظرثانی کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے فوجی حل کی جگہ سیاسی حل اور قوت کے استعمال کے بجاے مذاکرات، ترقی اور سدّجارحیت کا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ امریکی ڈرون حملوں کا مقابلہ کرنے اور ان کو روکنے کی ضرورت ہے مگر حکومت نے وہ راستہ اختیار کیا ہے جو اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔ مسئلے کی اصل جڑ افغانستان پر امریکا اور ناٹو کی فوجوں کا قبضہ اور ہماری خارجہ پالیسی اور فوجی حکمت عملی کو امریکا کے مقاصد کے تابع کردینا ہے۔ ملک کے وجود اور اس کی حاکمیت اور سالمیت کو خطرہ امریکا کے ساتھ نتھی ہوجانے سے ہے اور دہشت گردی اور شدت پسندی بھی انھی حالات کی پیداوار ہے جس کے دیرپا حل کے لیے ان حقیقی اسباب کی طرف توجہ دینا ہوگی۔
معاشی اعتبار سے بھی ملک اس جنگ میں شرکت کی جو قیمت ادا کر رہا ہے وہ ہوش اُڑا دینے والی ہے۔ پاکستان ۲۰۰۲ء سے اب تک محتاط اندازے کے مطابق ۴۰ سے ۴۵ ارب ڈالر کی مالیت کا نقصان اُٹھاچکا ہے اور صوبہ سرحد اور فاٹا کے حالیہ آپریشن کے نتیجے میں عملاً سالانہ ۳ سے ۴ ارب ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے، جس میں انسانی جانی نقصان شامل نہیں۔ اس جنگ میں شرکت ہر پہلو سے ہمارے لیے خسارے اور تباہی کا سودا ہے جس سے جتنی جلد نجات حاصل کی جائے بہتر ہے۔
وزیراعظم صاحب آج امریکا سے بھیک مانگ رہے ہیں کہ اپنی افغان پالیسی کے بنانے میں ہم سے بھی مشورہ کرو اور ہم پر رونما ہونے والے اثرات کا بھی لحاظ رکھو۔ لیکن یہ مقصد بھیک مانگنے سے حاصل نہیں ہوسکتا، اس کے لیے حکمت اور خودداری کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے، جس سے جنرل مشرف کا دامن خالی تھا اور موجودہ حکومت کا بھی دامن خالی ہے۔
ملک کو درپیش بحران کے چار اہم پہلوئوں کا ہم نے ذکر کیا ہے۔ ان کے علاوہ معاشی بحران بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے اور بحران کے اس پورے عمل کا حصہ ہے اور اس کے ساتھ ملک شدید اخلاقی بحران اور نظریاتی شناخت کے بحران میں جھونک دیا گیا ہے۔ بحران کے یہ چھے پہلو باہم مربوط ہیں اور ان کے لیے مربوط حکمت عملی کی ضرورت ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ملک کی تمام سیاسی اور دینی قوتیں سرجوڑکر بیٹھیں اور ملک کو اس انتشار سے نکالنے کے لیے نئی حکمت عملی وضع کریں۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ ان تمام امور پر کھل کر بحث ہو اور اصول اور ملکی اور ملّی مفاد کی بنیاد پر قوم کو ایک واضح منزل کا شعور دے کر منظم اور متحرک کیا جائے۔ جس طرح برعظیم کی تاریخ میں ۱۹۴۰ء میں مسلمانوں نے ایک واضح منزل اور مقصد کا تعین کرکے جدوجہد کی، اسی طرح آج پاکستان کو بچانے، اس کو امریکا کی نئی غلامی کی زنجیروں سے نجات دلانے کے لیے منظم جدوجہد کی ضرورت ہے۔ جس طرح اس وقت برطانیہ کے ساتھ مقابلہ ان ہم وطنوں سے بھی تھا جو برطانیہ کے نقشے میں رنگ بھرنے اور اس کے مقاصد کو پورا کرنے میں اس کے آلۂ کار تھے، اسی طرح آج امریکا کے ساتھ امریکا کے پاکستانی حواریوں اور امریکی استعمار کو فروغ دینے والی این جی اوز کے خلاف بھی منظم سیاسی جدوجہد کی ضرورت ہے۔ ملک کے نوجوان اور غیور عوام ہماری اصل قوت ہیں اور ان کو بیدار اور منظم و متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ جماعت اسلامی نے اس تاریخی جدوجہد کاآغاز کر دیا ہے لیکن وقت کی ضرورت ہے کہ تمام محب وطن اور اسلام دوست قوتیں ایک ہوکر امریکی استعمار کی اس خطرناک یلغار کا مقابلہ کریں۔ مہلت کم ہے اور خطرات روزافزوں ہیں۔ زندگی اور عزت کا راستہ ایک ہی ہے اور وہ حق کی پہچان اور اس پر استقامت کا راستہ ہے۔ اور حق کے غلبے کے لیے مسلسل جدوجہد اور جہاد کا راستہ ہے۔ یہ وقت تذبذب اور انتظار کا نہیں، فیصلہ اور پیکار کا ہے۔ ہمیں ہرگز بھولنا نہیں چاہیے کہ ؎
یا مُردہ ہے یا نزع کی حالت میں گرفتار
جو فلسفہ لکھا نہ گیا خونِ جگر سے