دعوتِ حق اور تحریکِ اسلامی کے کارکنوں کا کام بالکل ایک کسان کا سا ہوتا ہے۔ ایک مدّت کھیتی کوتیار کرنے پر صرف ہوتی ہے، پھر اِسے سینچنا ہوتا ہے، پھر اِس میں بیج ڈالنا ہوتا ہے، پھر اِس کے گرد باڑکھڑی کرنی ہوتی ہے، پھر اس کی نلائی اور گوڈی کرنی ہوتی ہے، اور پھر صبر سے اُس ’اجل مسمّٰی‘ کا انتظار کرنا ہوتا ہے، جب کہ وہ اپنا حاصل دے۔ اگر کسان بے صبرا ہو اور ہل جوتنے کے ساتھ ہی زمین سے مطالبہ کرے کہ لافصل دے، یا بیج ڈالنے کے ساتھ ہی اس سے معاوضۂ محنت طلب کرے، تو زمین اسے مایوسی و نامرادی کے سوا اور کچھ نہ دے سکے گی! ایسے ہی اقامتِ دین کی جدوجہد کرنے والوں کوانسانی تمدن و سیاست کی کھیتی پر لمبے صبر کے ساتھ محنت کرنی ہوتی ہے اور نتائج کے لیے اجلِ مسمّٰی کا انتظار پورے سکون سے کرنا پڑتا ہے، تب کہیں جاکے کچھ حاصل پلّے پڑتا ہے۔ ورنہ اگر بے صبری کا یہ عالم ہو کہ ادھر آپ بیج ڈال کے فارغ ہوئے، ادھر آپ بورے خُرجیاں لے کے پہنچ گئے کہ بس اب پھلوں اور غلّے کو گھر پہنچانا ہے، تو ظاہر بات ہے کہ پھلوں اور غلّے کا تو کیا سوال، وہاں تو کھیتی میں کوئی کونپل بھی پھوٹتی ہوئی نظر نہ آئے گی۔ ایسا بے صبرا کسان بددل اور مایوس ہی تو ہوگا!....
اللہ نے تحریکِ حق کے کارکنوں کے لیے صبر سے محنت کرنے کو لازم ٹھیرایا ہے۔ اس مطالبے کو پورا کیے بغیر اگر آپ دن میں ہزار مرتبہ بھی اِس بات کے لیے دعائیں کریں کہ غیراسلامی نظام کا غلبہ ختم ہو اور اسلامی نظام غالب ہوجائے تو ایسی دعائیں موجبِ ثواب سہی ___ لیکن انقلابِ حق کے بپا کرنے میں یہ بالکل لاحاصل رہیں گی! ایسی دعائوں میں جان اسی وقت آسکتی ہے کہ جب تواصی بالحق کے فریضے کو تواصی بالصبر کے ساتھ کوئی منظم جماعت انجام دے رہی ہو!
پس آپ حضرات اللہ کے قوانین کا طریق کار اگر ذہن نشین کرلیں تو پھر آپ مایوسی کے نرغے سے نکل سکتے ہیں، ورنہ اگر آپ نے کلمٰت اللّٰہ [اللہ کے قوانین] کے مفہوم کو پیشِ نظر نہ رکھا اور ان کے تقاضے پورے نہ کیے تو آپ خود تو قنوطیت کا شکار رہیں گے ہی، نہ جانے اور کتنے حوصلہ مند افراد کے دل توڑ کے اس دنیا سے رخصت ہوںگے اور اس طرح اندیشہ ہے کہ آپ غلبۂ دین کی حمایت کے بجاے ایک طرح سے صد عن سبیل اللّٰہ کے مجرم قرار پا جائیں۔ وقت ہے کہ آپ اپنے طرزِ فکر کو بدل لیں اور اپنے دلوں میں اُمید اور یقین کے بیج بوئیں! (’ہمارا معاشرہ‘ ، نعیم صدیقی، ترجمان القرآن، جلد ۳۳، عدد ۱-۳، محرم، صفر، ربیع الاول ۱۳۶۹ھ، دسمبر ۱۹۴۹ء- جنوری ۱۹۵۰ء، ص۱ ۷-۷۲)