مطلق اطاعت کا حق صرف رب ذو الجلال کے لیے ہے۔ باقی تمام اطاعتیں اسی بزرگ و برتر ہستی کی اطاعت سے مشروط ہیں۔ مذکورہ لشکر کا سربراہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقرر کردہ تھا، لیکن حکمت الٰہی نے اپنے حبیبؐ کے امتیوں کی تعلیم کا انتظام کرنا تھا۔ یہ واقعہ روپذیر ہوا اور صحابہ کرامؓ کے ذریعے پوری اُمت کو درس حاصل ہوگیا کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت سب پر مقدم ہے۔
اسی حدیث سے سمع و طاعت کی اہمیت بھی واضح ہوتی ہے، اگرچہ سربراہ کے حکم پر عمل نہیں کیا جاسکتا تھا لیکن کئی صحابۂ کرام جذبۂ اطاعت میں اس کے لیے بھی تیار ہوگئے۔ حکم چونکہ اللہ کی تعلیمات کے صریحاً منافی تھا، اس لیے سب صحابہ کرامؓ نے اتفاق راے سے اس پر عمل نہ کیا اور خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان کی تائید و تحسین فرمائی کہ اسلام اور اسلامی تحریک میں شمولیت کا اصل مقصد ہی رب کی اطاعت اور اس کی آگ سے بچنا ہے۔
حدیث یہ بھی واضح کرتی ہے کہ خودکشی کرنا اللہ کی صریح نافرمانی ہے۔ اللہ کی آگ سے بچنے کے اُمیدوار اس حرام فعل سے اجتناب کرتے ہیں۔
زندگی کے ہر گوشے کے لیے سنہری اور ابدی اصول عطا ہوگیا، خالق کی نافرمانی کرتے ہوئے مخلوق میں سے کسی کی ___ جی ہاں، کسی کی بھی اطاعت نہیں کی جاسکتی۔
زندگی اللہ کی امانت ہے۔ انسان کسی کی تو کجا، اپنی جان بھی نہیں لے سکتا۔ اگر کوئی اس جرم کاارتکاب کرلے تو یہ نہیں کہ بس مرگیا اور قصہ ختم، وہی اقدامِ خودکشی اس کی ابدی سزا بن جاتا ہے۔ دوسری احادیث میں ہے کہ کوئی بلندی سے خود کو گرا کر مرگیا تو وہ بار بار اسی طرح زندہ کیا جاتا رہے گا اور اسی طرح گر گر کر مرتا رہے گا۔ کسی نے تلوار یا کسی بھی ہتھیار سے خود کو قتل کرلیا وہ بھی اسی طرح___ زندگی کی پریشانیوں، مصیبتوں یا غصے کا علاج اور احتجاج کا راستہ خودکشی نہیں ہوسکتا، یہ تو ہمیشہ کا عذاب ہے۔
عہد کی پاس داری، قرآن اور حدیث کی پاس داری ہے۔ انسان کی معاشرتی، معاشی، سیاسی زندگی اور لاتعداد اجتماعی مسائل کا حل اسی ایک اصول کی پابندی کا مرہون منت ہے۔ عہد کی خلاف ورزی سے اختلافات پیدا ہوں گے اور بالآخر نتیجہ جھگڑوں اور قتل و خوں ریزی کی صورت میں نکلے گا۔یہ اصول ابدی اور جامع ہے۔
حدیث سے دوسری اہم بات یہ واضح ہوئی کہ حیاداری نہ رہے تو معاملہ انسانی ضمیر اور نسل انسانی کی موت تک جاپہنچتا ہے۔ ایڈز جیسی ہلاکتوں کا رونا رونے اور اس کا مقابلہ کرنے لیے معصوم بچوں میں بے حیائی کی تعلیم کا پرچار کرنے والے ذرا یہ نسخۂ ’حیاداری‘ آزما کر تو دیکھیں، رسول رحمتؐ کی حقانیت واضح ہوجائے گی۔
تیسرا اصول یہ عطا ہوا کہ زکوٰۃ کی ادایگی برکت ہی برکت ہے، رسول اکرمؐ فرماتے ہیں کہ صدقات سے مال ہمیشہ بڑھتا ہی ہے، کبھی کم نہیں ہوتا۔ ہاں، جو بندہ مال کی محبت میں گرفتار ہو کر سمجھے کہ مال روک کر رکھنے سے مال بڑھے گا، وہ جان لے کہ پھر صرف وہی نہیں، پورا معاشرہ قحط سالی کا شکار ہوجائے گا۔
پوری کائنات جس ہستی پر فدا ہونا اپنے لیے اعزاز سمجھے وہ خود کسی کو کہہ دے ’’میرے ماں باپ تم پر قربان‘‘۔ سبحان اللہ! اس اعزاز و مرتبے پر جتنا بھی شکر کیا جائے کم ہے، لیکن ہم امتیوں کے لیے اصل سوال یہ ہے کہ حضرت سعدؓ کو یہ مقام و مرتبہ کیوں کر حاصل ہوا؟ غزوۂ اُحد کے واقعات اسی سوال کا جواب ہیں۔ ایسے وقت میں کہ جب مسلمانوں پر انتہائی کڑا وقت تھا، لشکر اسلام پر اچانک دوبارہ ہلہ بول دیا گیا تھا___ صحابۂ رسول رضی اللہ عنہم شہید ہورہے تھے ___ حضرت سعدؓ تاک تاک کر دشمن پر تیر برسارہے تھے۔ یہی وہ لمحات تھے کہ جب حضرت سعد ؓ کو تاریخ کا سب سے منفرد اعزاز حاصل ہوگیا۔
آج جب پوری اُمت پر ادبار کا عالم ہے۔ دنیا کے سب ابلیس یک جا ہوکر حملہ آور ہیں،کون ہے جو حضرت سعدؓ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دفاعِ اُمت کے لیے انؓ کی سی مہارت حاصل کرے۔ اُس وقت کے تیر آج ہر نوع کی عسکری، علمی، اقتصادی قوت اور ٹکنالوجی کے تمام جدید ذرائع کی صورت اختیار کرچکے ہیں۔ قرآن نے ایک لفظ میں پورا مضمون سمو دیا:ما استطعتم ’’جو کچھ بھی تمھارے بس میں ہے‘‘ دشمن کے مقابلے کے لیے تیار کرو۔
جب قیامت ہی آجائے گی تو ظاہر ہے سب کچھ ختم ہوجائے گا، لیکن اس تمثیل کے ذریعے، معلم انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم عمل اور محنت کی عظمت بیان فرمارہے ہیں۔ رزق حلال کے حصول، اپنی ذمہ داریوں کی ادایگی، معاشرے کی تعمیر و ترقی، دفاع اُمت اور انسانیت کی خدمت و فلاح کی خاطر آخری سانس تک کوشش، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مطلوب و محبوب ہے۔
آزمایش اور مصیبت کے لمحات میں مسلمان ہی نہیں کفار بھی، اللہ ہی کو پکارنے لگ جاتے ہیں۔ بندے اور رب کے مابین تعلق کی اصل پرکھ، سُکھ کے لمحات میں ہوتی ہے۔ آسودہ حالی میں بندہ اپنے رب کو یاد رکھے، اس کے سامنے جھولی پھیلائے رکھے، اس کے ساتھ کیے گئے وعدوں کا پاس کرے، تو وہ غفور و رحیم ذات، تنگی، پریشانی اور مصیبت کے لمحات میں اپنے بندے کو یاد رکھتی ہے۔ پروردگار کی عطائیں جاری رہتی ہیں اور وہ بندے کی دُعاؤں کی لاج رکھتا ہے۔
عافیت کو عام طور پر صحت و تندرستی کا مترادف سمجھا جاتا ہے، لیکن اس کا مفہوم بے حد وسیع اور زندگی کے ہر گوشے کا احاطہ کرتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر دُعا فرمایا کرتے تھے: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِکَ وَ تَحَوُّلِ عَافِیَـتِکَ، ’’پروردگار میں تیری نعمتوں کے زوال اور تیری عافیت کے اُٹھ جانے سے تیری پناہ چاہتا ہوں‘‘۔ دُنیا میں کتنے انسان ہیں جو خوش و خرم زندگی بسر کررہے ہوتے ہیں اور اچانک عافیت سے محروم ہوجاتے ہیں۔ اس کا تصور ذہن میں لاتے ہوئے اب ذرا حدیث اور اس کے مفہوم کا دوبارہ مطالعہ کرکے دیکھیے، رب سے کس طرح کا تعلق مطلوب ہے۔
ہر بندے کو اصل فکر مندی اسی لمحے کی ہونی چاہیے جب رب ذو الجلال اس سے خود ہمکلام ہوگا۔ بندے کے ساتھ کچھ رہے گا تو صرف اس کا عمل اور رب رحیم کی رحمت۔ رحمتوں کی طلب اور آگ سے بچاؤ کے لیے رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے آسان راہ بتادی___ اللہ کی راہ میں، صرف اور صرف اس کی رضا کے لیے زیادہ سے زیادہ خرچ۔ اور کچھ نہیں تو کھجور کا ٹکڑا ہی سہی، وہ بھی نہیں تو خیرخواہی کے دو بول ہی سہی۔