ڈاکٹر عطاء الرحمن کا مقالہ: مرنے کا قانونی حق (مئی ۲۰۰۱ء) اُردو میں اس نوعیت کی پہلی مفصّل تحریر ہے‘ جس میں قرآن‘ احادیث اور مسلم فقہ کی روشنی میں استدلال کر کے ’’قتلِ خیرخواہی‘‘ کو (حسب ِتوقع) ’’قتلِ عمد‘‘ یا ’’خودکشی‘‘ کے زمرے میں ڈال دیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خودکشی کی ممانعت پر اب تک اجماع ہے‘ اور کسی انسان کی زندگی کو اس کی یا اس کے عزیزوں کی رضا سے ختم کر دینا‘ یا اس میں مدد دینا بھی عموماً ’’قتلِ نفس‘‘ ہی کے دائرے میں شامل کیا جاتا ہے‘ لیکن چند تامّلات پر غور کر لینا نامناسب نہ ہوگا۔
حضرت ایوب ؑ کا سخت تکلیف اور بیماری کو برداشت کر لینا (اور اپنی سخت اذیت کی زندگی کو ختم نہ کرنا‘ بے شک عزیمت کی راہ ہے‘ اور ایک پیغمبرکا یہی امتیاز ہے‘ لیکن جیسا کہ صاحب ِ مقالہ (بجا طور پر) تفہیم القرآنکے حوالے سے حضرت عمار بن یاسرؓ کے بارے میں اس روایت کا ذکر کرتے ہیں‘ جس کے مطابق ناقا بلِ برداشت اذیت میں انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا بھی کہہ دیا اور کفّار کے جھوٹے معبودوں کا ذکرِ خیر بھی کیا‘ جب کہ اُن کا دل ایمان پر پوری طرح مطمئن تھا‘ تو رسولؐ اللہ نے اس طرزِعمل پر صاد کیا‘ اور فرمایا: اگر پھر یہی صورت پیش آئے تو یہی کرنا۔ یہ امر ایک استثنائی رخصت کے استحسان پر دلالت کرتا ہے۔
توجہّ کے لائق یہ بات ہے کہ شدید اذیت اور تکلیف پر ایک طرزِعمل حضرت ایوب ؑکا ہے‘ ایک رویہّ خود حضرت عمارؓ کے والد حضرت یاسرؓ کا ہے (جو مصائب کو برداشت کرتے ہیں‘ حق پر قائم رہتے ہیں‘ اس کا اعلان کرتے ہیں‘ اور اس پر جان‘ جانِ آفریں کے سپرد کر دیتے ہیں) اور دوسرا ان کے صاحب زادے اور نہایت لائقِ احترام صحابی--- حضرت عمارؓ --- کا‘ اور نبی ؐ ان کے اس فعل کو بھی غلط نہیں--- بلکہ درست قرار دیتے ہیں‘ اور فرماتے ہیں کہ یہ صورت حال ہو‘ تو پھر یہی کرنا۔ اگر اس واقعے اور حکم کو انسانی جان بچانے کے لیے ایک حکم تصور کیا جائے‘ تو پھر حضرت یاسرؓ کا جان بچانے کی کوشش نہ کرنا کیا شمار ہوگا؟ کیا نبیؐ کے حکم کو دفعِ اذیت کا حکم تصور نہیں کیا جا سکتا؟ ایسا حکم جو عام حالات میں ممنوع فعل کی بھی اجازت دے دیتا ہے۔
شدید بھوک پیاس کی حالت میں زندگی بچانے کے لیے حرام کھا لینا ہمارے سبھی فقہا کے نزدیک جائز (بلکہ واجب!) ہے۔ لیکن کیا بھوک کا اضطرار اور اذیت‘ سرطان اور دوسری بیماریوں کی اذیت اور تکلیف سے زیادہ ہیں؟ جب کہ بھوک کی اذیت کو رفع کرنے کے لیے ’’حرام‘‘ کی اجازت دے دی گئی ہے؟
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قتلِ نفس اور خودکشی کو جو فعلِ قبیح قرار دیا ہے‘ وہ عمومی طور پر درست تسلیم کر لینے کے باوجود‘ کیا اس میں کوئی استثنائی صورتیں نہیں ہو سکتیں!
مغربی فکری مغا لطوں میں سے ایک یہ بھی ہے (اور اس کی ابتدا ایمینول کانٹ سے ہوتی ہے) کہ انسانی جان غائی طور پر قا بلِ قدرہے- حُرمتِ نفس انسانی میں اور اس کے قا بلِ قدرہونے میں شک نہیں‘ جن کا مقالے میں مذکورہ آیات سے حوالہ دیا گیا ہے‘ مگر کیا ہر محل اور ہر صورت میں‘ بہرحال ا س کا تحفّظ مطلوب اور راجح ہے؟ اگر یوں ہے‘ تو کسی معرکہء جہاد میں یقینی موت کی طرف پیش قدمی اور بالارادہ جامِ شہادت نوش کرلینا--- ’’مردود خودکشی‘‘ کے زمرے میں آئیں گے؟شاید ایسا نہیں ہے‘ کیوں کہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ اللہ کی راہ میں جان دے دینا‘ خودکشی نہیں ہے۔
اس میں شک نہیں کہ حتی الامکان انسانی جان بچانے کی کوشش کرنی چاہیے‘ لیکن غور طلب امر یہ ہے کہ آیا اس کی کوئی حدُود ہیں یا نہیں‘ اور اس قاعدئہ کلیہ میں کچھ استثنیٰ بھی ہو سکتے ہیں یا نہیں۔
کسی انسان کی شدید اذیت‘ اور پھر آخرکار یقینی موت کو آسان کرنے کی کوشش جس میں ماہر معالجین کی آرا اوراس کے اعزا کا ایما بھی شامل ہوں‘ کیا قتلِ عمدشمار ہوگی؟ کیا زندگی برقرار رکھنے والے آلات کا کسی مرحلے پر سلسلہ منقطع کر دینا کہ بے ہوش مریض کئی ماہ یا کئی سال سے اس حال میں ہے‘ یا جب کہ ’’طبّی موت‘‘ واقع ہو چکی ہے--- انسانی جان کے تلف کر دینے کے مترادف ہوگا؟
یہ اور اس طرح کے بہت سے سوال غوروفکر کے متقاضی ہیں‘ جن پر میری کوئی حتمی رائے نہیں۔ مصائب اور اذیتوں پر جزع و فزع اور موت کی آرزو‘ بے شک ہمّت اور حوصلے کی کمی کے مظہر ہیں اور خودکشی کو (غالباً رومیوں کے علاوہ) کسی نے بھی بہ نظرِ استحسان نہیں دیکھا ہے‘ لیکن کیا پیش آمدہ مسئلے پر اور زیادہ گہرائی سے نظر ڈالنے اور بحث کی گنجایش نہیں ہے؟ کیا یہ مناسب نہیں ہوگا کہ کوئی تحقیقی ادارہ‘ روایتی اور غیر روایتی علما‘ ماہرین‘ اور اصحابِ فکر کو جمع کرے اور کھلے دل سے بحث و تمحیص کے بعد کسی نتیجے تک پہنچنے کی کوشش کی جائے؟ ]نہ ہوئے کوئی ابوحنیفہؒ![۔ میرے خیال میں قطعیات کے علاوہ (جن کی نص میں وضاحت ہے‘ اور ایسے احکام بہت کم ہیں)ہر قانون سازی‘ زمان و مکان کی اسیر اور حالات و ظروف سے داغ دار ہے: