خدا کی لاٹھی بے آواز ہے۔زمین و آسمان کے مالک کو انسان کا جو رویہّ سب سے زیادہ ناپسند ہے‘ وہ غرور‘ تکبّراور نخوت ہے۔ یہی وہ مرض ہے جس نے ابلیس کو شیطان بنایا۔ یہ بات بلاخوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ پوری انسانی تاریخ میں ہر شیطانی کھیل میں ان صفاتِ بد کا کلیدی کردار رہا ہے۔ معاملہ افراد کا ہویا قوموں کا‘ اگر عجز و انکسار اور حقیقت پسندی ترقی کا زینہ ہیں تو غرور و تکبّر بالآخر تصادم اور تباہی کی طرف لے جانے والے ہیں۔ اللہ کی سنت ہے کہ جلد یا بدیر غرور کا سر ضرور نیچا ہوتا ہے--- یہ اور بات ہے کہ جن میں خیراور صلاح موجود ہو وہ چوٹ پڑنے پر اصلاح اور سدھار کا راستہ اختیار کر لیتے ہیں‘ اور جن کی سرشت میں بدی غالب ہو اور جن کے مقدر میں ہزیمت اور بالآخر تباہی لکھی ہو وہ ہر انتباہ پرمزیدسرکش ہو جاتے ہیں۔ان کا معاملہ قوم نوح علیہ السلام سے مختلف نہیں ہوتا کہ اللہ کی طرف سے ان کو تنبیہ پر تنبیہ کی جاتی ہے مگر ہر تنبیہ
ان کی سرکشی میں اضافے کا ذریعہ بن جاتی ہے (وَنُخَوِّفُھُمْ لا فَمَا یَزِیْدُھُمْ اِلاَّ طُغْیَانًا کَبِیْرًا o
بنی اسرائیل ۱۷:۶۰)
مئی ۲۰۰۱ء کے پہلے ہفتے میں اقوام متحدہ کے ایوانوں میں مغرب اور مشرق کے سبھی ممالک کی طرف سے امریکہ کو ایسی ہی دو تنبیہات کا مخاطب بنایا گیا۔ یہ عالمی راے عامہ کے حقیقی رجحان کی مظہر ہیں اور امریکہ کے لیے ہوش میں آجانے کی دعوت کی حیثیت رکھتی ہیں‘ بشرطیکہ وہ ہوا کے رُخ کو سمجھنے کی کوشش کرے اور تاریخ سے کوئی سبق لینے کو تیار ہو۔
امریکہ اپنی طاقت کے گھمنڈ میں تو دوسری عالمی جنگ کے بعد ہی سے مبتلا ہے اور اس رجحان میں برابر اضافہ ہوتا رہا ہے لیکن افغانستان سے روس کی پسپائی‘ اشتراکیت کے زوال اور دیوار برلن کے انہدام کے بعد سے اس کا غرور اور غرّہ آسمان سے باتیں کرنے لگا۔ ان ۱۲‘ ۱۳ برسوں میں نئے عالمی نظام کی لَے کچھ زیادہ ہی بلند ہوئی ہے اور امریکی صدی کے آغاز کے دعوے عالمی فضا کو معمور کرنے لگے ہیں۔ امریکہ کی قیادت کو یہ زعم ہو گیا کہ اب وہ ناقابل تسخیر ہے‘اسے عقلِ کل کا مقام حاصل ہے اور وہ ’شہنشاہ عالم‘ کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔
نئے امریکی صدر جارج بش جونیر اور ان کی ٹیم نے ذمہ داری سنبھالنے کے بعد تنہا پرواز کے اشارے دینا شروع کر دیے اور گلوبلائزیشن پر امریکیت کی چھاپ لگانے میں مصروف ہوگئے۔ امریکی بالادستی کی
ننگی جارحیت پر اقوام متحدہ‘ عالمی اداروں اور دوست ممالک سے مشاورت کا جو پردہ موجود تھا ‘ وہ اس سے بھی نجات پانے میں لگ گئے۔معاملہ میزائل کے مقابلے کے لیے قومی دفاعی ڈھال کا ہو یا ماحول کے تحفظ (global warming)کا‘ کروڑوں کی تعداد میں بارودی سرنگوںسے درپیش خطرات کا ہو یا ایڈز اور دوسرے مہلک وبائی امراض کے خلاف انسانیت کی مشترک جنگ کا‘ نیوکلیرپالیسی کے مسائل کا ہو یا توانائی پالیسی اور اس کے اثرات کا‘ سابقہ عالمی معاہدات کی پاسداری کا مسئلہ ہو یا نئے معاہدات کے لیے عالمی برادری میں مفاہمت اور اتفاق رائے پیدا کرنے کا‘ معاملہ تجارتی پابندیوں کا ہو یا دوسرے ممالک کی حدود میں دخل اندازی اور جاسوسی کا‘ پرانے دوستوں سے وفاداری کی بات ہو یا نئے دوستوں کی تلاش کی--- سب ہی معاملات میں
بش انتظامیہ نے اپنے اقتدار کے پہلے ہی چار مہینوں میں اپنی خود پسندی اور یک طرفہ کارروائی کا ایسا آہنگ اختیار کیا کہ مشرق و مغرب ہر سمت اقوام و ممالک میں اضطراب کی لہریں اٹھنے لگیں۔ احساس کی اسی نئی جہت کا اظہار نیویارک میں اقوام متحدہ کے دو اہم کمیشنوں کے انتخاب کے موقع پر ہوا۔ مئی ۲۰۰۱ء کا پہلا ہفتہ تاریخ کی نئی کروٹ کا عنوان بن گیا۔
اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا کمیشن (U.N. Human Rights Commission)ایک متحرک اور باوقارادارہ ہے‘ جو ۱۹۴۷ء میں امریکہ کی تحریک پر سابق صدر روز ویلٹ کی اہلیہ کی قیادت میں قائم ہوا تھا۔ یہ ادارہ نہ صرف حقوق انسانی کا اہم ترین پلیٹ فارم ہے بلکہ اقوام متحدہ کے ان چند اداروں میں سے ہے جن کا کام صرف قراردادیں پاس کرنا نہیں‘بلکہ عملاً شکایات کی تحقیق کرنا اور پالیسی اقدام تجویز کرنا بھی ہے۔ یہ ۵۳ ممالک کے نمایندوں پر مشتمل ہے۔ امریکہ گذشتہ ۵۴ سال سے اس میں کلیدی کردار ادا کرتا رہا ہے بلکہ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اس پر امریکہ ہی چھایا رہا ہے۔ انگریزی محاورے میں اسے America used to call shots کہا جا سکتا ہے۔ ایسے ادارے میں بالکل غیر متوقع طور پر نئے انتخاب کے دوران (جس میں ۱۴ ارکان کا نیا انتخاب ہوا جن میں تین عمومی نشستیں بھی تھیں جو مغربی ممالک کے لیے مخصوص ہیں ۔یہ انتخاب خفیہ راے دہی کی بنیاد پر ہوئے) امریکہ کو نصف صدی میں پہلی مرتبہ شکست ہوئی۔ انتخابی ادارہ اقوام متحدہ کی سوشل اینڈ اکنامک کونسل تھی ۔ اس مقابلے میں فرانس سب سے زیادہ ووٹ لے کر کامیاب ہوا (۵۴ میں سے ۵۲ووٹ)‘ آسٹریا دوسرے نمبر پر (۴۱ ووٹ)‘ اور سویڈن تیسرے نمبر پر (۳۲ ووٹ)۔ ان کامیاب ممالک کے مقابلے میں امریکہ کو صرف ۲۹ ووٹ ملے اور وہ یہ انتخاب ہار گیا۔ اقوام متحدہ کے ان اداروں میں نصف صدی کے دوران یہ امریکہ کی پہلی شکست ہے ‘جس نے امریکہ سمیت سب کو متحیر کر دیا۔
۴ مئی ۲۰۰۱ء کی اس چوٹ سے ابھی امریکہ سنبھلے بھی نہیں پایا تھا کہ تین ہی دن کے بعد ایک اور شکست کا زخم لگ گیا۔ اقوام متحدہ کے ایک دوسرے اہم ادارے International Narcotics Control Board (عالمی ادارہ تحدید منشیات) میں بھی امریکہ اپنی نشست سے محروم ہو گیا۔ اقوام عالم کی طرف سے ایسے دو عالمی اداروں سے جو بظاہر امریکہ کی خارجہ پالیسی کے سب سے اہم ستونوں یعنی ’حقوق انسانی‘ اور ’منشیات کی روک تھام‘ کے لیے سب سے کلیدی ادارے تھے اس کا بیک بینی و دوگوش اس طرح رخصت ہو جانا امریکہ کی عالمی ساکھ کے لیے بڑی شرم ناک شکست‘ اہل بصیرت کے نزدیک قدرت کا سنگین انتقام اور خود امریکی قیادت کے لیے بڑا چشم کشا انتباہ ہے ؎
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے
ان واقعات پر امریکہ کی قیادت‘ پریس اور کارفرما عناصر کا ردعمل وہ آئینہ ہے جس میں بحیثیت
سوپر پاور امریکہ کی مختلف تصویریں دیکھی جا سکتی ہیں۔
فطری طور پر سب سے پہلا ردّعمل صدمہ‘ تعجب‘ حیرانی اور تحیر کا تھا۔ امریکی قیادت ششدر تھی کہ یہ ناقابل یقین واقعہ کیسے رونما ہو گیا۔ صدمے کے بعد شکوہ و شکایت اور غصہ بلکہ غیظ و غضب کا اظہار شروع ہوا۔سب سے زیادہ غم و غصہ اس بات پر تھا کہ خود مغربی ممالک نے امریکہ کا ساتھ نہیں دیا اور جن پہ تکیہ تھا انھی کے ووٹوں سے یومِ شکست دیکھنے کی نوبت آئی! سویڈن اور آسٹریا پر بہت دبائو ڈالا گیا مگر وہ میدان سے
نہ ہٹے۔ ۴۳ ممالک نے ووٹ کا وعدہ کیا تھا اس لیے فتح کا یقین تھا مگر خفیہ رائے میں صرف ۲۹ ووٹ ملے۔ ستم بالاے ستم یہ کہ اپنے اپنے علاقائی حلقوں سے جو ممالک اس انتخاب میں کامیاب ہو کر کمیشن کے رکن بنے ہیں ان میں سوڈان‘ بحرین‘ جنوبی کوریا‘ چلی‘ میکسیکو‘ پاکستان اور یوگنڈا شامل ہیں۔ امریکہ کے ساتھ دوسرے ہارنے والوں میں سعودی عرب اور ایران بھی شامل ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ جس کی شکست پر کہرام مچا ہے وہ صرف امریکہ ہے۔ دنیا بھر کے اخبارات‘ رسائل اور الیکٹرانک میڈیا میں ایک طوفان سا برپا ہے کہ ایک انہونی بات کیسے حقیقت کا رُوپ اختیار کر گئی اور ایک ہی ہفتے میں امریکہ جیسی سوپر پاور‘ جسے فرانس کے نمایندے نے فیاضی سے کام لیتے ہوئے hyper powerکا لقب دیا ہے‘ کس طرح دو سیاسی شکستوں کا نشانہ بن گئی۔ اس شکست کے آئینے میں امریکہ کے پورے سیاسی کردار اور عالمی رول پربحث و گفتگوہو رہی ہے اورتجزیہ نگار اس میں آنے والے دَور کی تصویر تلاش کر رہے ہیں۔ ایک آزاد معاشرے کی یہ خوبی ہے کہ اس میں ایسے اہم معاملات پر کھل کر بحث و گفتگو ہوتی ہے اور محض ایک سرکاری نقطۂ نظر ذہنی افق پر مسلّط نہیں ہو جاتا!
امریکی اور عالمی سیاسی اور صحافتی حلقوں میں ہونے والے مباحث کا تجزیہ کیا جائے تو اس شکست پر چار واضح ردّعمل سامنے آتے ہیں:
غم و غصہ : پہلا اور فوری ردّعمل استخفاف اور استہزا کا ہے۔ امریکہ کے کچھ بااثر حلقے‘ اور حکومت کے چندذمہ دار افراد اور ان کے ہم نوا عناصر بظاہر بڑی بے اعتنائی اور یک گونہ رعونت کے ساتھ کہہ رہے ہیں:
پھر کیا (so what?)۔ اقوام متحدہ کے ایک یا دو کمیشنوں کی اوقات ہی کیا ہے؟ خود اقوام متحدہ ہی کون سی اہم ہے؟ محض نشستند و گفتند کی ایک محفل‘ ایک چوپال۔ اگر اس میں امریکہ جیسا اہم ملک نہ بھی آیا تو کون سا آسمان گر جائے گا۔ ان کے خیال میں اس سے اقوام متحدہ ہی بے وقار ہوگی۔ امریکہ کو کوئی ٹھیس نہیں پہنچے گی۔
اقوام متحدہ کی سوشل اینڈ اکنامک کونسل (انتخاب کرنے والے ادارے) میں امریکی نمایندے جیمزکننگم نے کہا : بلاشبہ ہم بہت مایوس ہوئے ہیں۔ صدر امریکہ اور کانگریس کے ارکان کی جانب سے مایوسی کے ساتھ غم و غصّے کااظہار بھی کیا گیا۔ کانگریس کے ترجمان نے کہا: کانگریس کی نگاہ میں یہ اقوام متحدہ کے وقار اور اعتماد کو مجروح کرنے والی بات ہے۔
صدر کی قومی سلامتی کی مشیر کون ڈولیزا رائس کی نگاہ میں یہ سخت توہین آمیزہی نہیں ‘بلکہ خود اقوام متحدہ کے مقام کو مجروح کرنے والا اقدام ہے۔ ڈیفنس سیکرٹری ڈونالڈ رمس فیلڈ نے اسے ایک ’’نہایت غیر دانش مندانہ اقدام‘‘ (notably unwise)قرار دیا۔سرکاری ترجمانوں ہی نے نہیں بڑی تعداد میں اخبارات اور سیاسی تبصرہ نگاروں نے بھی اس پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا ہے کہ امریکہ کو تو کمیشن سے ۵۴ سال کے بعد نکال دیا گیا اور چین‘ کیوبا‘ لیبیا اور سوڈان ’’جیسے‘‘وہاں موجود ہیں!
امریکہ کے ایوان نمایندگان کے اکثریتی قائد ڈک آرمی نے اسے مضحکہ خیز قرار دیا ہے ۔ کانگریس بحیثیت مجموعی اس تاثر کا اظہار کر رہی ہے کہ خود اقوام متحدہ کو اب کون ایک سنجیدہ ادارہ سمجھے گا؟ ارکان کانگریس نے اسے ایک ہتک (insult)قرار دیا ہے۔ (ٹائم ‘ ۲۱ مئی ۲۰۰۱ء)
فلوریڈا کے ایوان نمایندگان کی رکن الیانا راس کا کہنا ہے: یہ ایک ایسی مضحکہ خیز بات ہے جواقوام متحدہ کے نظام کی سالمیت اور جواز کی بنیاد ختم کر دیتی ہے۔
انتقامی ردّعمل: مایوسی اور غم و غصے کے ساتھ دوسرا ردّعمل انتقامی نوعیت کا ہے۔ اقوام متحدہ اور اتحادی ممالک سے صرف شکایت ہی کا اظہار نہیں کیا جا رہا بلکہ کہا جا رہا ہے کہ اقوام متحدہ کو سبق سکھانے کی ضرورت ہے اور اس کا طریقہ اقوام متحدہ کے مالی واجبات کی ادایگی کو روک دینا ہے۔ پہلے ہی امریکہ اقوام متحدہ کے ایک ارب ۷۰ کروڑ ڈالر کا نادہندہ ہے۔ کئی برس سے جھگڑا چل رہا تھابالآخر صدرکلنٹن کے دَور میں بڑے ردّ و کد کے بعد طے ہو گیا تھا کہ اقوام متحدہ کے کل بجٹ کے ۲۵ فی صد کے بجائے (جو امریکہ کی اصل ذمہ داری اور وعدہ تھا) اسے ۲۲فی صد کر دیا جائے اور اس طرح امریکہ واجبات کی مد میں ۲ ارب نہیں صرف ایک ارب ۷۰ کروڑ ڈالر ادا کرے گا جس میں سے ۵۸ کروڑ ۲۰ لاکھ ڈالر اس سال ادا کرنا تھے ۔لیکن اس شکست کے بعد امریکی کانگریس نے فوری طور پر انتقامی کارروائی کرتے ہوئے ۲۵ کروڑ ۴۰لاکھ ڈالرکی وہ ادایگی روک دی ہے جو اسی مہینے اقوام متحدہ کو دینا طے تھی۔کانگریس نے یہ بھی کہا ہے کہ جب تک انسانی حقوق کے کمیشن پر امریکہ کی نشست بحال نہیں ہوتی (جس کا امکان اگلے سال نئے انتخاب ہی میں ہو سکتا ہے) اس وقت تک اقوام متحدہ کو کوئی ادایگی نہ کی جائے۔ امریکی انتظامیہ نے کانگریس کی بڑی خوشامد کی تھی کہ اس شکست کے باوجود یہ انتقامی کارروائی نہ کی جائے ‘لیکن کانگریس نے ایک نہ سنی اور اپنے اس غضب ناک ردّعمل کا اظہار ضروری سمجھا۔
الزامی ردّعمل : تیسرا ردّعمل الزامی ہے۔ اس میں امریکہ اور اسرائیل پیش پیش ہیں۔ جو کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ امریکہ حقوق انسانی کے معاملات کو اٹھا رہا تھا اور دوسرے اس پر چیں بجبیں تھے۔ ان کی جانب سے چین اور فرانس کو خصوصیت سے ہدف بنایا جا رہا ہے۔ سرکاری ترجمان اور امریکی اخبارات یہی لَے آگے بڑھا رہے ہیں اور اس طرح شکست پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وزارت خارجہ کا اعلان ہے کہ یہ سب حقوق انسانی کے بارے میں امریکی پالیسی کا نتیجہ ہے۔ اخبار فنانشل ٹائمز ‘ لندنلکھتا ہے:
اس نتیجے کو واشنگٹن اور اقوام متحدہ میں انسانی حقوق‘ خصوصاً چین اور کیوبا کے بارے میں امریکہ کے سخت موقف کے جواب میں جھڑکی کی حیثیت سے دیکھا جا رہا ہے۔ (۵ مئی ‘ ۲۰۰۱ء)
خاتون رکن کابینہ کونڈولیزا رائس کا موقف ہے:
یہ دھچکا اس لیے لگا کہ امریکی قیادت حقوق کے مسئلے پر بعض ممالک کے لیے کچھ زیادہ ہی سخت تھی۔ میری دانست میں یہ ان قوتوں کی طرف سے شدید ردّعمل تھا جو نہیں چاہتی ہیں کہ ان پر تنقید کی جائے۔ شاید امریکہ انسانی حقوق کے کمیشن میں کچھ زیادہ ہی سرگرم تھا۔
واشنگٹن پوسٹ‘ نیویارک ٹائمز‘ انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون کے مقالہ نگار دوسرے ممالک پر برس رہے ہیں کہ وہ حقوق انسانی کے باب میں سمجھوتے کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں‘ جب کہ امریکہ ڈٹا رہتا ہے اور اسی لیے اسے کمیشن سے نکال دیا گیا ہے۔ فرانس پر تجارتی مفادات کی پھبتی کسَی جا رہی ہے۔ چین‘ کیوبا اور دوسرے ممالک کو حقوق انسانی کے باب میں ’’مجرم‘‘ ثابت کرنے کے لیے دلائل کے انبار لگائے جا رہے ہیں۔ اسرائیلی لابی تلملا تلملا کر کہہ رہی ہے کہ چونکہ امریکہ نے ہمارا ساتھ دیا ہے اور اسرائیل کے خلاف تادیبی کارروائیاں روکنے کے لیے سدِّسکندری بن گیا ہے ‘اس لیے اسے سزا دی گئی ہے۔ حالانکہ حقیقت جیسا کہ خود جریدہ اکانومسٹ کے ادارتی کالموں میں اعتراف کیا گیا ہے ‘یہ ہے کہ سویڈن اور آسٹریا جو اس انتخاب میں امریکہ کے مقابلے میں کامیاب رہے ہیں حقوق انسانی کے بارے میں نہایت مضبوط موقف اختیار کرنے والوں میں سے ہیں۔ اگر مسئلہ حقوق انسانی کے بارے میں مضبوط موقف کا ہے تو سویڈن کا ریکارڈ امریکہ کے مقابلے میں کہیں بہتر ہے ۔لیکن وہ منتخب ہو گیا اور امریکہ رہ گیا!
الزامی ردّعمل کا ہدف صرف تیسری دنیا کے ممالک ہی کو نہیں بنایا جا رہا‘ بلکہ خود یورپ کے دوست ممالک پر بھی تیرونشترکی بارش ہے۔ اور ایک اسرائیل نواز کالم نگارولیم سافائز نے تو انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون میں یہاں تک کہہ دیا ہے:
کمیونسٹ چین اور کمیونسٹ کیوبا کی قیادت میں‘ فرانسیسی سفارت کاروں کی حمایت سے‘ جن کے پیچھے افریقی اور عرب آمر تھے‘ اقوام متحدہ نے امریکہ کو انسانی حقوق کمیشن سے نکال باہر کیا۔ (۸ مئی‘ ۲۰۰۱ء)
جب کہ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کی شکست میں فیصلہ کن کردار خود یورپی ممالک کا تھا ۔ خود اسی کالم نگار نے اپنے مضمون میں اعتراف کیا ہے کہ ’’۱۴ ممالک جنھوں نے امریکہ کو ووٹ دینے کا وعدہ کیا تھا وقت پر دغا دے گئے‘‘۔ اس نے مطالبہ کیا ہے کہ ’’خفیہ رائے دہی کے سارے آداب کو خیرباد کہہ کر ان ممالک کا پتا چلایا جائے اور انھیں سامنے لایا جائے خواہ اس کے لیے سی آئی اے کی مدد لینی پڑے یا صحافتی آداب کو بالاے طاق رکھ کر تفتیشی(investigative) صحافت سے کام لیا جائے! گویا ایک ہی سانس میں حقوق انسانی کے بارے میں اصول پرستی کے سارے دعوے اور مسلمہ جمہوری آداب کو پارہ پارہ کرنے کی دعوت دی جا رہی ہے!
خود احتسابی: ردّعمل کی ان تین جہتوں کے ساتھ ایک جہت وہ بھی ہے جس میں اس شکست کو ایک تازیانہ عبرت قرار دیا جا رہا ہے اور امریکہ کو خود احتسابی کی اور ساری دنیا کو امریکہ کی پالیسیوں کے بے لاگ جائزے اور تجزیے کی دعوت دی جا رہی ہے۔ اس شکست کو امریکہ کے بارے میں عالمی راے عامہ کی بے اطمینانی کا مظہر قرار دیا جا رہا ہے۔ امریکی سینٹیر جان کیری نے اپنے ۶ مئی کے خطاب میں کہا ہے کہ دنیا میںامریکہ سے بے زاری (anti-Americanism)کی یہ ایک لہر ہے جو امریکی حکومت میں احساسِ دیانت میں کمی (lack of a sense of honesty) کی غماز ہے۔ ییل یونی ورسٹی کے بین الاقوامی قانون کے پروفیسر ہیرالڈہونگ جوکوہ نے انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون میں اپنے مضمون America Gets a Wake-up Call on Human Rights میں بڑے معتدل اور مدلل انداز میں امریکہ کو اپنے احتساب اور جائزے کی دعوت دی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
گذشتہ ہفتے دنیا بھونچکا کر رہ گئی جب پہلی دفعہ یہ ہوا کہ امریکہ کو اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کمیشن کے لیے ووٹ حاصل نہ ہو سکے۔ یہ ایک واضح سی بات ہے کہ دنیا امریکہ کو سبق سکھانا چاہ رہی ہے۔ لیکن کیا امریکی صحیح سبق سیکھ لیں گے؟ آیئے سب سے پہلے ہم امریکہ کے دو متوقع ردّعمل کا جائزہ لیں:
پہلا یہ کہ یہ ذلت آمیز سفارتی شکست کوئی خاص معنی نہیں رکھتی۔ اس لیے کہ کمیشن ایک بے معنی گفت و شنید کی جگہ ہے۔ دوسرا زیادہ سنگین ردّعمل یہ ہو سکتا ہے کہ امریکہ اپنے ذمے واجبات کی ادایگی روک کر یا اقوام متحدہ کے خلاف دوسرے تعزیری اقدامات کر کے اسے سبق سکھائے--- گذشتہ ہفتے کا ووٹ ایک بیدارکرنے والی آواز ہے کہ حقوق انسانی کے مسئلے پر امریکی قیادت کو جو عالمی احترام حاصل تھا اس کا دَور ختم ہو گیا ہے۔ (۹ مئی‘ ۲۰۰۱ء)
اس کے بعد انھوں نے بہت سے عالمی مسائل کا ذکر کیا ہے‘ جن کے بارے میں ان کے خیال میں امریکہ نے عالمی برادری کے جذبات کا لحاظ نہیں کیا۔ جن میں خصوصیت سے ایڈز کے مریضوں کی مدد‘
غریب ممالک کو خوراک کی فراہمی‘ بین الاقوامی معاہدات کی توثیق‘ بین الاقوامی فوج داری عدالت
کے بارے میں امریکہ کے تحفظات وغیرہ شامل ہیں۔ پروفیسر ہیرالڈ نے مشورہ دیا ہے کہ امریکہ ‘ بے اعتنائی (indifference) یا غصہ و انتقام (anger)کا راستہ اختیار نہ کرے بلکہ دوسرے ممالک سے تعاون اور
اعتماد باہمی کا راستہ اختیار کرے۔ موصوف نے اپنے مضمون کا خاتمہ ان الفاظ پر کیا ہے:
گذشتہ ہفتے کی شکست کے باوجود دنیا انسانی حقوق کے میدان میں امریکی قیادت کی خواہاں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا امریکی بھی یہ قیادت فراہم کرنے کا حوصلہ اور وژن رکھتے ہیں؟
فنانشل ٹائمز کا نمایندہ بھی واشنگٹن کے سیاسی اور سفارتی حلقوں کی بحث کا خلاصہ اور پیغام کچھ یوں بیان کرتا ہے:
یہ واقعہ بش انتظامیہ کو بیدار کرنے والی آواز ہے تاکہ وہ آج کی دنیا کے ساتھ زیادہ متعلق ہو جائے (مئی ۵‘ ۶‘ ۲۰۰۱ء)۔
نیویارک ٹائمز کے ایک مضمون نگار لیونارڈ گارمنٹ نے جسے قانون اور سفارت کاری دونوں میدانوں کا تجربہ ہے‘ لکھاہے:
ہمیں نہیں معلوم کہ یہ ووٹ کس بڑے عمل کا عکاس ہے۔ کیا یہ صرف محض ایک انتخابی شکست ہے؟ کیا امریکہ کے حلیفوں نے حقوق انسانی پر غیر یقینی موقف کا اظہار کرتے ہوئے روسیوں کے بجائے چینیوں کو خوش کرنا پسند کیا؟ کیا یہ ووٹ عالم گیریت کے خلاف احتجاج تھا یا ایک اجتماعی نارضامندی کا اظہار؟ کیا ہم ایک ایسے ردّعمل کا آغاز دیکھ رہے ہیں‘ جس کے نتیجے میں‘ چاہے یہ مقصود نہ ہو‘ امریکہ میں لاتعلقی کی سیاست کو فروغ ملے؟ ( انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون‘۱۶ مئی‘ ۲۰۰۱ء)
اقوام متحدہ میں امریکہ کی سابق سفیر جین کرک پیٹرک مستقبل کے بارے میں چند اہم سوال اٹھاتی ہیں:
انسانی حقوق کمیشن پر ووٹ سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا جمہوری ممالک میں امریکہ کے
قابل اعتماد دوست اور حلیف ہیں بھی؟ یہ طے ہے کہ گذشتہ عشرے میں امریکہ اور اس کے معاہدہ شمالی اوقیانوس (NATO)کے حلیفوں کے درمیان فاصلے بڑھ گئے ہیں۔ یورپی پریس میں ناراضی کا اظہار ان تحریروں کے مستقل سلسلے سے ہوتا ہے جو امریکہ اور امریکی طریقوں پر سخت تنقید کرتے ہیں (انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون‘ ۹ مئی ۲۰۰۱ء)
نیویارک ٹائمز نے اپنے اداریے میں اعتراف کیاہے:
بغاوت کا آغاز ہوتے ہی پتا چلانے اور اسے فرو کرنے میں انتظامیہ کی ناکامی پریشان کن شکست کا ایک پہلو ہے۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات اقوام متحدہ کے لیے امریکہ کے سرپرستانہ رویے کے خلاف بڑھتا ہوا غصہ ہے‘ جوماحولیات سے لے کر بارودی سرنگوں تک جیسے مسائل پر عالمی معاہدوں کے بارے میں واشنگٹن کی بے حسّی کی دلیل ہیں۔ ( انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون‘ ۷مئی‘ ۲۰۰۱ء)
ایک اور کالم نگار ڈیوڈ اگناشیس نے اپنے اضطراب کا اس طرح اظہار کیاہے:
۹۰ کے عشرے میں امریکہ عالمی معیشت کو اپنی مٹھی میں سمجھنے کا عادی ہو گیا۔ امریکہ کے پا س پیسہ بھی ہے اور نظریات بھی‘ اور دوسری اقوام کوبس امریکہ کی ہدایات کے مطابق کھیلنا ہے۔ لیکن
امریکی بالادستی کے یہ آسان دن اب ختم ہو رہے ہیں۔ خارجہ پالیسی میں بھی یہ جوابی کارروائی کا وقت ہے۔ اس کی ایک واضح اور قابل ذکر مثال امریکہ کو حقوق انسانی کمیشن سے باہر نکالنے کا عمل تھا۔ بعض مبصرین نے کہا کہ یہ ووٹ اس حقیقت کا اظہار تھا کہ دنیا کے ممالک میزائل دفاع کے حق میں اور موسموں کی تبدیلی کے کویوٹو معاہدے کے خلاف امریکہ کے یک طرفہ موقف سے تنگ آگئے ہیں۔ یہ دو واضح حالیہ مثالیں ہیں۔ ... امریکہ کے لیے اس میں یہ سبق ہے کہ عالم گیریت دو طرفہ راستہ ہے اور جیسا کہ پرانا مقولہ ہے کہ آپ اوپر جاتے ہوئے لوگوں سے اچھا سلوک کیجیے۔ اس لیے کہ واپسی میں بھی ان سے ملاقات ہو سکتی ہے۔ (انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون‘ ۷مئی ۲۰۰۱ء)
فرانس کے سفیر نے اپنی کامیابی کا سہرا اس بات کو قرار دیا کہ ہماری پالیسی کی بنیاد مکالمہ اور
باہمی احترام ہے۔برطانیہ کے سفیر سر جرمی گرین اسٹاک نے اپنے مخصوص انداز میں کہا: حالیہ ووٹ باقی دنیا کے ساتھ امریکہ کے تعلقات پر ایک تبصرہ تھا۔ (ٹائم‘ ۲۱ مئی ۲۰۰۱ء) ۔ چین نے زیادہ ہی کھل کر کہا : اس ووٹ کے ذریعے امریکہ کی اس کوشش کو کہ نام نہاد انسانی حقوق کے مسائل کو اپنی طاقت کی سیاست اور دنیا پر غلبے کے لیے دبائو کے آلے کے طور پر استعمال کرے‘ سختی سے مسترد کر دیا گیا ہے۔
امریکہ اوردوسرے ممالک کے دانش وروں اور سفارت کاروں کے اس نوعیت کے ردّعمل کی روشنی میں یہ کہنا درست ہوگا کہ اقوام متحدہ میں امریکہ کی ان شکستوں کو سرسری طور پر نہیں لینا چاہیے۔ خود پسندی اور محض دفاعی انداز میں بات کو ٹالا جا سکتا ہے مگر زمینی حقائق کو اس طرح نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ امریکہ کا
عالمی کردار صرف امریکہ ہی کے لیے اہم نہیں ہے۔ یہ آج کی دنیا کے لوگوں کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔ استخفاف‘ استہزا‘ انتقام اور الزام کا ردّعمل قابل فہم ہے لیکن یہ خود امریکہ کے لیے ایک سانحہ ہوگا کہ وہ اپنا دفاع کرنے کا اسیر ہو جائے اور گہرائی میں جا کر عالمی برادری کے جذبات و احساسات کا تجزیہ کرنے سے گریز کرے۔ یہ خود فریبی کا راستہ ہوگا جس کا خمیازہ دوسروں کے ساتھ اسے بھی بھگتنا پڑے گا۔ اقوام متحدہ کے اہم اداروں کے یہ ووٹ صرف ہوا کے رخ ہی کا پتا نہیں دیتے ‘بلکہ عالمی سطح پر پائی جانے والی خرابیوں اور چیلنجوں کی بھی نشان دہی کرتے ہیں۔ توجیہ اور لیپاپوتی سے حالات صرف بگڑ سکتے ہیں‘ بنائو کی کوئی صورت پیدا نہیں ہو سکتی۔
کئی اعتبار سے یہ ایک اہم موقع ہے‘ جب باقی دنیا کے اہل دانش کو آگے بڑھنا اور امریکہ اور روس کی قیادت کو صاف صاف بتانا چاہیے کہ اصل خرابی کیا ہے اور کہاں ہے؟ امریکہ محض امریکی حکومت یا اسٹیبلشمنٹ کا نام نہیں۔ امریکہ ایک اہم عالمی قوت اور ۳۰ کروڑ انسانوں کا ملک ہے‘ جو مادی وسائل سے مالا مال اور سائنس اور ٹکنالوجی کی اعلیٰ ترین مہارتوں کی آماجگاہ ہے۔ بلاشبہ امریکہ میں اقتدار کی کنجیاں جن کے ہاتھ میں ہیں وہ ایک خاص ذہن کے علم بردار اور مخصوص مفادات کے محافظ ہیں۔ دنیا بھر میں لوگوں کی شکایات کا اصل منبع یہی اسٹیبلشمنٹ ہے ۔اس کی گرفت خود امریکہ کی آبادی پر بھی ہے اور جس نے پوری دنیا میں اپنے مفادات کے لیے تباہی مچا رکھی ہے۔ خود امریکہ کے عوام کی ایک بڑی تعداد بھی مظلوم ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ ایک دن دنیا کے دوسرے مظلوموں کے ساتھ وہ بھی ہم آواز ہو کر ظلم کے خلاف نہ اٹھ کھڑی ہو۔ آخر ویت نام کی جنگ کے خلاف امریکی قوم کی خاموش اکثریت اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔اب امریکہ میں خود مسلمانوں کی تعداد روز افزوں ہے اور ۷۰‘۰ ۸لاکھ مسلمان‘ قوم کے ضمیر کو بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ آج میڈیا اتنا طاقت ور ہے کہ دنیا کے کسی بھی گوشے سے ساری انسانیت کو مخاطب کیا جا سکتا ہے۔ ان حالات میں یہ خود امریکہ کے مفاد میں ہے کہ وہ خود پسندی کے خول سے نکلے اور ان اسباب و عوامل کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لے جو امریکہ کو دنیا کے تمام لوگوں سے کاٹ رہے ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہونے کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ اسی طرح پورے عالم انسانی کا مفاد بھی اس میں ہے کہ تلخی‘ صف آرائی اور جنگ جوئی کے بجائے افہام و تفہیم اور مکالمے کا راستہ اختیار کرے اور دلیل اور شہادتوں کے ساتھ ان اسباب کی نشان دہی کرے جو بگاڑ کا ذریعہ ہیں۔
بلاشبہ امریکہ نے جمہوریت‘ آزاد ی اور حقوق انسانی کے لیے آواز بلند کی ہے مگر کیا وجہ ہے کہ
عالمی برادری کی اکثریت ان باتوں کو اخلاص‘ دیانت اور شفافیت کے رنگ و بو سے محروم پاتی ہے۔ امریکہ خود برطانوی اور فرانسیسی استعمار کا دَور دیکھ چکا ہے۔اس نے استعماری شکنجوں کو توڑ کر آزادی حاصل کی تھی اور
اس وجہ سے دنیا کی مظلوم اقوام اسے اپنا ہم سفر سمجھنے لگی تھیں۔ آخر کیوں وہی اقوام اب خود امریکہ کو ایک استعماری قوت سمجھ کر اس سے فاصلہ پیدا کر رہی ہیں۔ امریکہ کبھی قوموں کے حق خود ارادیت کا علم بردار سمجھا جاتا تھا‘ اب اسے کیوں انسانی حقوق کی پاس داری کے بارے میں اعتماد سے محروم کیا جا رہا ہے؟ بات صرف بارودی سرنگوں (land mines)کے بارے میں سردمہری‘ماحولیات کے خطرات کے باب میں تساہل اور بین الاقوامی معاہدات سے گلوخلاصی کی کوشش تک محدود نہیں۔ جن اہل علم نے مخالفت کے اسباب کی تان ان مسائل پر توڑی ہے انھوں نے بہت سہل انگاری کا مظاہرہ کیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عالم اسلام اور اس کی سیاسی اور فکری قیادتوں کو اس نازک تاریخی موقع پر کسی مدا ہنت سے کام نہیں لینا چاہیے اور حالات کا بے لاگ تجزیہ کر کے امریکہ کی قیادت کو اور پوری دنیا کے سوچنے سمجھنے والے لوگوں کو ان اسباب و عوامل کا احساس دلانا چاہیے جو عالمی سیاست میں بگاڑکا باعث اور انسانی معاشرے میں ظلم و استحصال کا ذریعہ ہیں۔
بلاشبہ امریکہ آج سیاسی‘ معاشی اور عسکری اعتبار سے دنیا کا سب سے طاقت ور ملک ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس قوت و سطوت کے باوجود امریکہ دنیا کا محبوب اور پسندیدہ ترین ملک نہیں۔ مادّی خوش حالی میں اس کا درجہ کتنا ہی بلند کیوں نہ ہو‘ لیکن انسانیت کی میزان میں اس کا وزن بڑا ہلکا ہے۔ اچھے انسان دنیا کے ہر ملک اور ہر معاشرے میں پائے جاتے ہیں‘ لیکن بحیثیت مجموعی جو امیج امریکہ کا دنیا میں ہے وہ اجڈ امریکیوں (The Ugly American)کی تصویر سے قریب تر ہے۔جمہوریت‘ آزادی اور حقوق انسانی کے تمام دعوے اپنی جگہ‘ اور امریکہ کی سرزمین پر ان کے تجربات کے کچھ مثبت پہلوئوں کے اعتراف کے ساتھ‘ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ دنیا کے جن جن ممالک پر امریکی اثرات پڑے ہیں یا پڑ رہے ہیں ان کے دامن میں پھول کم اور کانٹے زیادہ ہیں۔ ماضی کی سامراجی قوتیں جس ننگی جارحیت‘ جبر‘ غلامی اور لوٹ کھسوٹ کی تھیں‘ آج وہی کھیل امریکہ خوش نما نظریات اور دل فریب وعدوں کے ساتھ کھیل رہا ہے۔ ظلم کی شکلیں بدل گئی ہیں‘ اس کی حقیقت میں کوئی فرق واقع نہیں ہوا۔ اس لیے ضروری ہے کہ حقائق کو بے نقاب کیا جائے اور امریکہ کے عالمی کردار کے اصل خدوخال کو بلاکم و کاست پیش کیا جائے‘ تاکہ آج کے انسان کے اصل مسائل اور اس کی روح کے حقیقی اضطراب کو سمجھا جا سکے۔ امریکہ کو سمجھنا چاہیے کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ محض انتقامی سیاست کے مظاہرنہیں ہیںبلکہ اس کی اپنی پالیسیوں اور کارکردگی کے خلاف اعلانِ بغاوت ہے۔ اگر وہ
فی الحقیقت دنیا کے تمام انسانوں کے ساتھ دوستی اور تعاون کا رشتہ استوار کرنا چاہتا ہے تو اسے اپنی فکر اور اپنے نظامِ کار میں بنیادی تبدیلیاں لانا ہوں گی۔ مسئلہ محض بڑے اور چھوٹے اور طاقت ور اور کمزور کانہیں بلکہ ان اصولوں‘ قوموں اور ملکوں کے درمیان تعلق کی بنیادوں کا ہے جن کے نتیجے میں دنیا میں حقیقی امن اور انصاف قائم ہو سکے اور دنیا کے وسائل تمام انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال ہو سکیں۔ کوئی کسی کا محتاج نہ ہو‘ سب عزت اور وقار سے زندگی گزاریں ع
کس نہ گردد در جہاں محتاج کس
یہی وہ کسوٹی ہے جس پرکامیاب اور ناکام نظام‘ صحت مند اور مریض معاشرہ‘ صالح اور ظالم تہذیب کو پرکھا جاسکتا ہے۔
امریکہ پر بے اعتمادی اور اس سے بے زاری کی پہلی اور سب سے اہم وجہ امریکہ کا عالمی بالادستی کا عزم اور ہدف ہے۔نظریات کی دنیا میں آزاد مسابقت‘ معیشت میں تجارت اور تعاون‘ سیاسی معاملات میں اشتراک اور مشترک مقاصد کے لیے معاونت اور مفاہمت دنیا کے تمام انسانوں کے لیے مفید اور ضروری ہیں۔ لیکن اگر ایک قوم یا ملک محض اپنی قوت کے بل پر دوسروں کو اپنے قابو میں رکھنے کی کوشش کرے اور محض اپنے مفاد کے لیے دوسروں کو دائو پر لگا دے تو یہ عالمی برادری کے لیے سّمِ قاتل اور سامراج کی ایک مکروہ شکل ہے۔
امریکہ آج ایک سامراجی قوت ہے اور اس کی تمام سیاسی‘ معاشی‘ ثقافتی اور عسکری پالیسیاں سامراجی مقاصد کا آلہ کار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جمہوریت‘ آزادی‘ انسانی حقوق اور معاشرتی ترقی کے نعرے نہ دلوں کو مسخر کر پاتے ہیںاور نہ قوموں کی زندگی میں کسی خیر اور فلاح کا پیغام لاتے ہیں۔ ایک قوم کی طرف سے دوسروں پر بالادستی کے قیام کی کوشش تو تصادم اور کش مکش ہی کو جنم دے سکتی ہے اور دے رہی ہے۔ کاروبارِ حیات کو بدلے بغیر محض کردار بدلنے سے حالات کیسے بدل سکتے ہیں۔ ہسپانوی‘ پرتگالی اور ولندیزی سامراج کا دَور ہو یا برطانوی اور فرانسیسی سامراج کا‘ روسی استعمار ہو یا امریکی استعمار‘ جرمنی وجاپان بالادستی کے قیام کے لیے برسرِجنگ ہوں یا اسرائیل اور بھارت ملک گیری میں مصروف--- اصل ایشو ایک ہی ہے: دوسروں کو اپنا محکوم بنانا اور انسانوں پرقوت کے ذریعے حکمرانی اور بالادستی کا قیام۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ آزادی اور حقوق انسانی کے تمام دعووں کے باوجود دنیا کے دوسرے ممالک اور اقوام پراپنے مفادات کے تحفظ اور حصول کے لیے بالادستی قائم کرنے کے لیے سرگرم ہے ۔جب تک یہ صورت حال تبدیل نہیں ہوتی‘ خوش نما الفاظ اور
دل کش وعدوں سے غلامی کی زنجیریں پھولوں کی لڑیاں نہیں بن سکتیں۔
امریکی تہذیب اور سیاست جن تضادات کا شکار رہی ہے‘ ان پر اس وقت گفتگو پیش نظر نہیں۔ اس وقت ہمارا موضوع امریکہ کی سرزمین پر یورپی اقوام کا قبضہ‘ وہاں کی اصل مقامی آبادی (ریڈ انڈین) سے سلوک‘ افریقہ سے غلاموں کی تجارت اور نسل اور رنگ پر مبنی معاشرے کا قیام نہیں ہے۔ ہمارے زیر بحث ان کی جنگ آزادی‘ دستور پر مبنی جمہوریت اور آزاد معیشت کا قیام یا منروڈاکٹرائن بھی نہیں ہے۔ ہم بات کا آغاز بیسویں صدی میں پہلی جنگ عظیم (۱۸-۱۹۱۴ء) کے بعد سے کر رہے ہیں۔ اس وقت امریکہ‘ دنیا کے سامنے کچھ اصولوں کے علم بردار اور خصوصیت سے محکوم اقوام کی آزادی اورعالمی برادری کے لیے بین الاقوامی قانون اور بین الاقوامی اداروں کے ذریعے آزادی اور امن کے داعی کی حیثیت سے آیا تھا۔ صدر ووڈرو ولسن کے اصول سیاست اور لیگ آف نیشنز کا قیام ایک اچھا آغاز تھا۔ لیکن دوسری جنگ عظیم (۴۵-۱۹۳۹ء)کے بعد سے جو دَور شروع ہوا وہ شفاف نہیں۔
جمہوریت‘ آزادی‘ حقوق انسانی اور اقوام متحدہ کے ذریعے ایک عالمی سلامتی کے نظام کا قیام‘ اس دَور کے اعلان شدہ مقاصد رہے مگر عملاً سردجنگ کی سیاست نے دنیا کو صرف نظریات ہی نہیں ‘سیاسی اور معاشی مفادات کا اکھاڑہ بنا دیا۔ امریکہ ایک کالونی کی تنگنائے سے نکل کر ایک عالمی طاقت بن گیا اور اس کے ساتھ اس کی سیاست نے بھی وہی سامراجی رنگ و روپ اختیار کر لیے جو ماضی کی استعماری قوتوں کا وطیرہ رہے ہیں۔ بظاہر یہ جنگ اشتراکیت کی ظلمتوں سے دنیا کو بچانے اور آزادی کی روشنیوں سے روشناس کرانے کے لیے تھی لیکن اس جمہوری قبا میں چنگیزیت ہی چھپی ہوئی تھی۔ گذشتہ ۶۰ سال کی سیاست جن تضادات‘ تناقضات اور تباہ کاریوں سے عبارت ہے اس کی جڑیں سرد جنگ کے اس خمیر میں پیوست ہیں۔ گویا ؎
میری تعمیر میں مضمر ہے ایک صورت خرابی کی
دوسری جنگ کے بعد جو حکمت عملی نئے عالمی نظام کے لیے وضع کی گئی‘ اس میں ایک طرف اقوام متحدہ کا قیام‘ انسانی حقوق کے اعلان کا اجرا‘ عالمی عدالت انصاف کا قیام‘ نئے عالمی مالیاتی اداروں کا قیام تھا تو دوسری طرف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جو اصل بااختیار ادارہ تھا‘ پانچ ملکوں کا ویٹو اور امریکہ اور روس کی عالمی بالادستی کے لیے اپنی اپنی منصوبہ بندی اہم ہے۔ امریکہ کی خارجہ سیاست کی فکری بنیادیں جارج کینان نے مرتب کیں ‘جس کے تین ستون تھے:
۱- عالمی قوت کی حیثیت: امریکہ کو اصل مسئلہ یہ درپیش ہے کہ وہ ایک متحارب دنیا میں ایک عالمی قوت کی حیثیت سے کس طرح اپنے کو مستحکم کرے۔ کینان نے صاف الفاظ میں کہا کہ حقیقی خارجہ پالیسی کا تعلق سیدھے سیدھے قوت کے حصول و استحکام سے ہے۔ امریکہ کی سلامتی اس میں ہے کہ قوت کے حصول کو مرکزیت دے اور ’’حقوق انسانی‘ معیارِ زندگی کی بلندی اور فروغ جمہوریت کے غیر حقیقی اور غیر واضح تصورات کی بات چھوڑ دے‘‘۔
۲- معاشی اور سیاسی بالادستی: معاشی اور سیاسی طاقت میں عدم توازن ایک حقیقت ہے۔ دوسری جنگ کے بعد امریکہ میں دنیا کی آبادی کا صرف ۳.۶ فی صد تھا ‘جب کہ دنیا کی دولت کے ۶۰ فی صد پر اسے قبضہ حاصل تھا۔ جارج کینان کے الفاظ میں: دنیا کے نئے اُبھرتے ہوئے نظام میں امریکہ کا اصل ہدف تعلّقات کار کا ایک ایسا نظام وضع کرنا ہے جن کے نتیجے میں قوت کا یہ عدم توازن اس طرح برقرار اور محفوظ رکھا جا سکے کہ امریکہ کی قومی سلامتی کے لیے کوئی خطرہ اور رکاوٹ رونما نہ ہو۔
اس کے لیے امریکہ کو ان وسائل تک رسائی حاصل ہونی چاہیے جو اس کے معاشی اور سیاسی استحکام کے لیے ضروری ہیں۔
کینان نے دنیا کا جو نیا سیاسی نقشہ تجویز کیا اس میں اپنے وسائل کے تحفظ (the protection of our resources) کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ بین الاقوامی راستے محفوظ ہوں‘ تجارت اور فوجی نقل و حمل کی راہیں کھلی رہیں‘ جن ممالک سے خام مال اور انرجی درکار ہے وہاں ایسی حکومتیں ہوں جو تعاون کریں اور سپلائی لائن برقرار رہنے کی ضمانت حاصل ہو۔اس سلسلے میں قومی تحریکوں سے خطرہ ہو سکتا ہے جو قومی اور ملکی مفاد کی بات کریں۔ اس کے لیے ضروری ہوگا کہ ان ملکوں کو اشتراکی عناصر سے محفوظ رکھا جائے اور اگر ایسی حکومتیں ہمارے مفید مطلب ہوں جو چاہے سخت گیر ہوں مگر ہمارے مفادات محفوظ ہوں تو ہمیں ایسی ناخوش گوار
صورت حال کو ضمیر کی کس خلش کے بغیر ترجیحاً قبول کرنا چاہیے۔ البتہ نجی سرمایہ کاری‘ بیرونی سرمائے کی آمدورفت اور منڈی کی معیشت کو فروغ دینا چاہیے۔ (بحوالہ: Deterring Democracy‘از نوئم چومسکی‘ ص ۴۹ اور Brave New World Order از جیک نلسن‘ ص ۴۳)
۳- عسکری حصار: اشتراکی ممالک کے گرد ایسا سیاسی اور عسکری حصارتعمیر کر دیا جائے جس کے نتیجے میں اشتراکی انقلاب دوسرے ممالک تک نہ پہنچ سکے۔ یہ کام دفاعی اور معاشی معاہدات کے جال بچھا کر انجام دیا جا سکتا ہے۔ اسے حصار بندی کی حکمت عملی (strategy of containment)کہا جاتا ہے۔ جس کے تحت ناٹو (NATO)‘ سیٹو (SEATO) ‘ سینٹو (CENTO) ‘ بغداد پیکٹ اور ایسے ہی دوسرے عسکری بلاک تشکیل دیے گئے۔ (جاری)