مکّہ میں اسلام کی دعوتِ عام شروع ہوئے ابھی دو ہی سال گزرے تھے کہ فضائوں میں ارتعاش پیدا ہو گیا‘ ایک ہلچل سی مچ گئی اور دعوت کو جاری رکھنا دشوار سے دشوار تر ہوتا چلا گیا۔ جو اصحابؓ اسلام قبول کر رہے تھے‘ ان کے لیے زمین اپنی وسعتوں کے باوجود تنگ ہونے لگی۔ ان حالات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اہم اور دُور رس اقدامات کیے ان میں ایک اہم قدم یہ تھا کہ آپؐ نے صحابہ کرامؓ کو حبشہ ہجرت کر جانے کا مشورہ دیا۔ یہ بعثت کے پانچویں سال کا واقعہ ہے۔
ہجرت حبشہ اسلام کی دعوت کی راہ میں ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتی ہے‘ اس لیے اسے کسی قدر تفصیل سے پیش کیا جا رہا ہے۔
ملکِ حبشہ: حبشہ ایک بڑی سلطنت تھی۔ اس کے حدود دُور تک پھیلے ہوئے تھے۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: ملکِ حبشہ یمن کے مغربی جانب واقع ہے۔ اس کی مسافت کافی طویل ہے۔ یہ کئی اجناس (قوموں) پر مشتمل ہے۔ سوڈان کے تمام فرقے حبشہ کے بادشاہ کی اطاعت کرتے ہیں۔ قدیم زمانہ میں وہاں کے بادشاہ کو نجاشی کہا جاتا تھا۔ اب اسے حَطِی کہا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ حبش بن کوش بن حام کی اولاد ہیں۔(فتح الباری: ۷/۵۸۷)
ہجرت حبشہ جن حالات میں ہوئی اس کی تصویر کشی امام زہری نے اس طرح کی ہے: ’’جب مسلمانوں کی تعداد بڑھنے لگی‘ ایمان کا برملا اظہار ہونے لگا‘ اس پر بحث و گفتگو کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا تو قریش نے سخت رویہ اختیار کیا۔ قبائل قریش میں سے جس قبیلے کے بھی افراد ایمان لاتے‘ ان پر (بالعموم) پورا قبیلہ ٹوٹ پڑتا‘ انھیں شدید اذیتیں پہنچائی جاتیں‘ قیدوبند میں رکھا جاتا اور انھیں اسلام سے پھیرنے کی کوشش کی جاتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان حالات میں صحابہ کرامؓ سے کہا کہ وہ مکہ سے کسی دوسری جگہ چلے جائیں۔ صحابہؓ نے عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسول! (صلی اللہ علیہ وسلم) ہم کہاں جائیں؟‘‘ آپؐ نے حبشہ کی طرف اشارہ فرمایا۔ ہجرت کے لیے آپؐ دوسرے ملکوں کے مقابلے میں اسے زیادہ پسند فرماتے تھے۔ اس کے بعد بہت سے مسلمانوں نے حبشہ ہجرت کی۔ (ابن سعد‘ الطبقات الکبریٰ: ۱/۲۰۳-۲۰۴)
مزید تفصیل ابن اسحٰق کے ہاں ملتی ہے۔ کہتے ہیں: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ آپ ؐ کے اصحاب سخت مصائب اور مشکلات میں گرفتار ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک آپؐ کو جو مرتبہ و مقام حاصل تھا اس کے باعث اور آپ ؐکے چچا ابوطالب کو آپؐ سے جو قلبی تعلق تھا اور آپؐ کو جس عزت و احترام سے وہ دیکھ رہے تھے‘ اس کی وجہ سے آپؐ ان مشکلات سے (کسی قدر)محفوظ ہیں۔ آپؐ کے صحابہ جن حالات سے گزر رہے ہیں اور جس طرح کی شدید تکلیفیں برداشت کر رہے ہیں‘ ان میں آپؐان کی مدد بھی نہیں کر پا رہے ہیں تو آپؐنے ان سے کہا کہ وہ حبشہ ہجرت کر جائیں۔ اس لیے کہ وہاں کا بادشاہ عدل پسند ہے‘ اس کے ہاں کسی پر ظلم نہیں ہوتا۔ حبشہ ’ارض صدق‘ (سچائی کی زمین) ہے۔ وہ وہاں اس وقت تک رہیں جب تک اللہ تعالیٰ کو ئی سبیل نہ نکال دے۔ اس کے بعد مسلمان حبشہ ہجرت کرنے لگے۔یہ ہجرت‘ دین کی راہ میں فتنے کے خوف سے تھی‘ یہ اپنے دین کی خاطر اللہ کی طرف ہجرت تھی۔ یہ اسلام کے لیے سب سے پہلی ہجرت تھی‘‘۔ (ابن ہشام‘ السیرۃ النبویہ: ۱ /۳۵۸-۳۵۹)
ابن اسحٰق کا بیان ہے کہ حبشہ کے مہاجرین کا پہلا قافلہ دس افراد پر مشمل تھا۔ ان کے نام بھی اس نے دیے ہیں۔ ابن سعد کی روایت ہے کہ یہ کل ۱۱ مرد اور ۴ خواتین تھیں۔(۱)
بیہقی کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مبارک سفر پر سب سے پہلے حضرت عثمان ؓ اپنی اہلیہ حضرت رقیہؓ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی) کے ساتھ روانہ ہوئے۔ ان کے بارے میں کوئی خبر نہیں ملی تو آپؐ کو تشویش ہوئی۔ پھر قریش کی ایک عورت نے جو اس طرف سے آرہی تھی‘ آپؐسے کہا کہ میں نے آپؐ کے داماد کو دیکھا کہ وہ اپنی بیوی کو ایک کم زور سے گدھے پر بٹھا کر خود اسے ہانکتے چلے جا رہے تھے۔ آپؐنے دعا کی‘ اللہ ان کے ساتھ ہو۔ فرمایا: حضرت لوط ؑ کے بعد عثمان پہلے شخص ہیں جنھوں نے اپنی بیوی کے ساتھ خدا کی راہ میں ہجرت کی ہے۔(۲)
اس سفر پر لوگ خاموشی سے (غالباً یکے بعد دیگرے) نکلے تاکہ کسی کو خبر نہ ہو۔(۳) ان میں سے بعض تنہا تھے‘ بعض کے ساتھ ان کی بیویاں تھیں۔ زیادہ تر پیدل تھے۔ شعیبہ (یمن کے راستے میں ساحل پر واقع ایک وادی) کے پاس پہنچے۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ اس وقت تاجروں کی دو کشتیاں لنگرانداز ہوئیں۔ نصف دینار کرایہ طے کر کے یہ ان میں سوار ہو گئے۔ قریش کو ان کے سفر کی اطلاع ملی تو انھوں نے اپنے آدمیوں کو دوڑایا‘ لیکن کشتیاں روانہ ہو چکی تھیں۔ (ابن سعد‘ طبقات: ۱/۲۰۴)
اس کے بعد حضرت جعفرؓ اور دوسرے اصحاب نے ہجرت کی۔ حبشہ ہجرت کرنے والوں کی کل تعداد ابن اسحٰق نے ۸۳ بتائی ہے۔ کہتے ہیں کہ اس تعداد میںحضرت عمار بن یاسرؓ بھی شامل ہیںلیکن ان کے بارے میں شبہ ہے کہ انھوں نے حبشہ ہجرت کی تھی یا نہیں؟ اس میں کم سن اور گود کے بچوں کا اور ان بچوں کا جو حبشہ میں پیدا ہوئے‘ شمار نہیں کیا گیا ہے (ابن ہشام‘ السیرۃ النبویہ: ۱/۳۶۷)۔ ان کے علاوہ خواتین تھیں جن کی تعداد اٹھارہ بتائی جاتی ہے۔(۴)
واقدی کا بیان ہے کہ جب حبشہ یہ خبر پہنچی کہ اہل مکّہ نے سجدہ کیا ہے اور وہ سب اسلا م لے آئے ہیں تو مہاجرین نے سوچا کہ اب مکّہ میں ان کا مخالف کون رہ گیا ہے؟ چنانچہ یہ مکّہ واپس لوٹنے لگے۔ یہ غلط فہمی کیسے ہوئی یا یہ افواہ کیسے پھیلی تو مورخین نے لکھا ہے کہ مشرکین کے سجدے کے واقعے کو جس کسی نے نقل کیا اس نے جب دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں مشرکین نے سجدہ کیا ہے تو اس نے سمجھا کہ وہ اسلام لے آئے ہیں اور آپؐ کے ساتھ ان کی صلح ہو گئی ہے اور کوئی نزاع باقی نہیں رہی۔
مہاجرین حبشہ کو جب یہ خبر پہنچی تو انھوں نے اسے صحیح سمجھ لیا‘ کچھ لوگ مکّہ واپس ہو گئے اور کچھ لوگ وہیں رہے۔ جو لوگ حبشہ سے مکّہ واپس ہوئے ان کی تعداد ۳۳ تھی۔ ابن ہشام نے فرداً فرداً اُن کا ذکر کیا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ اُن میں سے کس کا کس قبیلے سے تعلق تھا۔ (السیرۃ النبویہ: ۱/۴۰۷)
حبشہ سے جو اصحاب مکّہ واپس ہوئے قریش نے ان کے ساتھ پہلے سے زیادہ سختی شروع کر دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیںدوبارہ حبشہ ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔(۵) جو اصحاب حبشہ سے واپس ہوئے اُن میں سے بیشتر پھر حبشہ روانہ ہو گئے‘ اُن کے ساتھ کچھ نئے اصحاب بھی تھے۔(۶)
مہاجرین حبشہ جن حالات سے گزرے‘ اس کی روداد ہمیں حضرت ام سلمہؓ، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، حضرت جعفرؓ اور حضرت عمرو بن العاصؓ کی روایتوں میں ملتی ہے۔ یہ وہ اصحاب ہیں جن کا براہِ راست اس ہجرت سے تعلق تھا۔ پہلے تین اصحاب مہاجرین حبشہ میں سے ہیں اور حضرت عمرو بن العاصؓ مشرکین کی طرف سے سفیر کی حیثیت سے نجاشی کے پاس گئے تھے۔
حبشہ ان مہاجرین کے لیے اچھی پناہ گاہ ثابت ہوا اور وہ وہاں اطمینان اور سکون سے رہنے لگے۔ حضرت ام سلمہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ جب حبشہ پہنچے تو ہمارے ساتھ نجاشی کا سلوک بہت اچھا رہا‘ وہ ہمارے لیے بہترین پڑوسی تھے۔ دین کے معاملے میں ہم محفوظ و مامون ہو گئے۔ کوئی ہمیں کسی قسم کی تکلیف نہیں پہنچاتا تھا اور کوئی ناپسندیدہ بات ہمیں سننی نہیں پڑتی تھی۔
قریش کے علم میں جب یہ بات آئی تو ان کی عصبیتِ جاہلیہ بھڑک اٹھی‘ انھوں نے مشورہ کیا کہ اب کیا کیا جائے؟ طے پایا کہ نجاشی کے پاس سفیر بھیج کر درخواست کی جائے کہ وہ ان لوگوں کو اپنے ملک سے نکال باہر کرے اور ہمارے حوالے کر دے۔ سفارت کے لیے دو خوب مضبوط اور توانا افراد کا انتخاب کیا جائے۔ نجاشی کو مکّہ کی سب سے قیمتی چیزیں بطور تحفہ بھیجی جائیں۔ اس کے ایک ایک مذہبی رہنما کے لیے بھی تحائف کا انتظام کیا جائے۔ اہل حبشہ کو یہاں کے چمڑے بہت پسند تھے۔ عمدہ چمڑے جمع کیے گئے۔ اس کے ساتھ نجاشی کے لیے ایک گھوڑا اور ریشمی عبا (کرتا) بھی تھی۔ حبشہ کے مذہبی رہنمائوں کے لیے بھی تحفوں کا انتظام کیا گیا۔ ان تحائف کے ساتھ عبداللہ بن ابوربیعہ اور عمرو بن العاص کو سفارتی مہم پر روانہ کیا گیا ۔(۷)ان سفیروں نے حسب فیصلہ ہرسردار تک اس کا تحفہ پہنچایا اور اس سے کہا کہ ہمارے کچھ ناسمجھ نوجوان بادشاہ کی مملکت میں بھاگ آئے ہیں‘ اپنا دین چھوڑ دیا ہے‘ آپ کا دین (عیسائیت) بھی قبول نہیں کیا ہے‘ بلکہ ایک نیا ہی دین ایجاد کر رکھا ہے جس سے نہ ہم واقف ہیں نہ آپ حضرات۔ ہمارے اشراف اور سرداروں نے ہمیں بادشاہ کی خدمت میں بھیجا ہے تاکہ وہ انھیں واپس کر دیں۔ جب بادشاہ سے ہماری بات ہو تو آپ حضرات بادشاہ کو مشورہ دیں کہ وہ انھیں ہمارے حوالے کر دیں اور اُن سے اس سلسلے میں کوئی بات نہ کریں‘ اس لیے کہ اُن کے سردار اور ان کے بزرگ ان کے حالات سے زیادہ باخبر ہیں۔ ان پر دوسروں کے مقابلے میں زیادہ اعتماد کیا جاسکتا ہے۔ حبشہ کے مذہبی سرداروں نے اس سے اتفاق کیا۔
اب دونوں سفیروں نے براہِ راست نجاشی سے ملاقات کی اور تحفے تحائف پیش کیے۔ نجاشی نے تحفے قبول کیے۔ اپنی نشست کے دائیں بائیں دونوں سفیروں کو جگہ دی۔ آمد کا مقصد دریافت کیا۔ انھوں نے وہی باتیں دہرائیں جو کہ پادریوں سے کی تھیں کہ ہمارے کچھ ناسمجھ نوجوان آپ کی مملکت میں بھاگ آئے ہیں‘ اپنی قوم کے دین کو ترک کر دیا ہے اور آپ کے دین کو بھی قبول نہیں کیا ہے‘ ایک نیا ہی دین اختیار کر رکھا ہے۔ ان کی قوم کے سرداروں نے‘ اُن کے خاندانوں کے بزرگوں نے‘ ان کے باپوں اور چچائوںنے‘ ان کا جن قبائل سے تعلق ہے‘ ان کے نمایاں افراد نے ہمیں آپ کی خدمت میں بھیجا ہے تاکہ آپ انھیں ان کے وطن لوٹا دیں۔ سفیروں نے نجاشی کو بھی یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ اس مسئلے میں وہ ان مہاجرین سے کوئی بات نہ کرے‘ اس لیے کہ ان کی قوم ان کے غلط فکروعمل سے دوسروں کے مقابلے میں زیادہ واقف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں سفیروں کو یہ سخت ناگوار تھا کہ نجاشی سے مہاجرین کی گفتگو ہو۔ انھیں اندیشہ تھا کہ اس سے نجاشی متاثر ہو سکتا ہے۔ مجلس میں جو سردار اور مذہبی رہنما موجود تھے انھوں نے بھی سفیروں کے اس خیال کی تائید کی کہ مہاجرین سے گفتگو کی چنداں حاجت نہیں ہے۔ نجاشی نے اس سے اتفاق نہیں کیا اور کہا:‘قسم خدا کی‘ میں تحقیق حال کے بغیر انھیں اس طرح ان کے حوالے نہیں کروں گا۔ یہ بات سراسرناانصافی کی ہوگی کہ کچھ لوگوں نے میری ہم سائیگی اختیار کی‘ میرے ملک میں آئے‘ دوسروں کے مقابلے میں مجھے پسند کیا‘ میں ان سے بات چیت کیے بغیر ہی انھیں نکال باہر کروں۔ میں اُن سے معلومات حاصل کروں گا۔ اگر سفیروں کی بات درست نکلی تو انھیں ان کے حوالے کر دوں گا اور انھیں ان کی قوم کے پاس پہنچا دوں گا۔ لیکن اگر بات دوسری ہو تو میں انھیں ان سفیروں کے حوالے نہیں کروں گا۔ جب تک وہ میرے پاس ہیں ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے گا۔
مہاجرین سے گفتگو سے پہلے نجاشی نے مذہبی رہنمائوں (نصاریٰ کے علما و پادریوں) کو طلب کیا۔ وہ حاضر ہوئے تو اُن سے کہا کہ وہ اپنے صحیفے کھول لیں (غالباً اس خیال سے کہ دیکھیں ان مہاجرین کی باتوں کی ان صحیفوں سے تصدیق ہوتی ہے یا نہیں؟)۔
اب اس نے مہاجرین کو طلب کیا۔ قاصد اُن کے پاس پہنچا تو انھوں نے باہم مشورے سے طے کیا کہ بادشاہ کے سامنے وہی بات رکھی جائے جس کی تعلیم ہمارے پیغمبرحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے‘ چاہے اس کا نتیجہ کچھ بھی نکلے۔ حضرت جعفرؓ نے کہا ‘نجاشی کے سامنے میں تم سب کی نمایندگی کروں گا۔ سب نے اس سے اتفاق کیا۔
مہاجرین روانہ ہوئے۔ دربار میں پہنچنے سے پہلے حضرت جعفرؓ نے باہر سے آواز دی کہ جعفر دروازے پر ہے۔ اس کے ساتھ حزب اللہ ہے‘ کیا حاضری کی اجازت ہے؟ نجاشی نے کہا: ہاں۔ تمھیں اللہ کی امان اور اس کی پناہ حاصل ہے‘ اندر آسکتے ہو۔ حضرت جعفرؓ داخل ہوئے۔ ان کے پیچھے ان کے رفقا تھے‘ سلام کیا۔ دربار میں جو علما اور راہب موجود تھے‘ انھوں نے ان سے کہا کہ بادشاہ کو سجدہ کرو۔ حضرت جعفرؓ نے انکار کر دیا۔ (ابن کثیر‘ السیرۃ النبویۃ: ۲/۱۲)
عمرو بن العاص نے کہا کہ یہ بڑے متکبر اور نخوت بھرے لوگ ہیں۔ خود کو حزب اللہ کہتے ہیں۔ جس طرح دوسرے لوگ آپ کی تعظیم بجا لاتے ہیںاس طرح انھوں نے تعظیم نہیں کی اور سجدئہ تعظیمی بھی نہیں کیا۔ نجاشی نے اُن سے اس کی وجہ دریافت کی تو حضرت جعفرؓ نے کہا کہ ہم صرف اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتے ہیں‘ اس کے سوا کسی کو سجدہ نہیں کرتے۔ ہمارے پیغمبر نے ہمیں بتایا ہے کہ اہل جنت آپس میں سلام کریں گے۔ ہم بھی ایک دوسرے کو سلام ہی کرتے ہیں۔ چونکہ انجیل میں یہ بات موجود ہے‘ اس لیے نجاشی سمجھ گیا کہ یہ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ (حلبی‘ السیرۃ الحلبیہ: ۲/۲۸)
نجاشی اورحضرت جعفرؓ کے درمیان حسب ذیل گفتگو ہوئی:
نجاشی: تمھارا دین کیا ہے؟ کیا تم نصاریٰ ہو؟
حضرت جعفرؓ: نہیں۔
نجاشی: کیا تم یہود ہو؟
حضرت جعفرؓ: نہیں‘ ہم یہود نہیں ہیں۔
نجاشی: کیا تمھارا دین وہی ہے جو تمھاری قوم کا ہے؟
حضرت جعفرؓ: نہیں۔
نجاشی: آخر تمھارا دین کیا ہے اور اس کا لانے والا کون ہے؟
اس پر حضرت جعفرؓ نے ایک طویل تقریر کی:
’’اے بادشاہ ! ہم ایسے لوگ تھے جو جاہلیت میں گرفتار تھے۔ بتوں کی پرستش کرتے تھے‘ بے حیائی کے کاموں میں ملوث تھے۔ قطع رحم کا ارتکاب کرتے تھے‘ رشتوں کے حقوق نہیں ادا کرتے تھے‘ پڑوسیوںکے ساتھ برا سلوک کرتے تھے‘ ہم میں جو قوی تھا وہ کم زور کو کھائے جا رہا تھا۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے ہم ہی میں سے ایک رسول مبعوث فرمایا۔ ان کے حسب نسب‘ صداقت‘ امانت‘ عفت و عصمت سے ہم واقف تھے۔ انھوں نے ہمیں اللہ کی طرف دعوت دی کہ ہم اسے ایک مانیں‘ اسی کی عبادت کریں۔ ہمارے باپ دادا اللہ کو چھوڑ کر بتوں کی اور پتھروں کی جو پوجا پرستش کرتے ہیں‘ اسے ترک کر دیں۔ انھوں نے ہمیں راست گفتاری‘ امانت کی ادایگی‘ صلۂ رحمی اور پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم دی۔ حرام چیزوں سے رک جانے کا حکم دیا‘ قتل و خوں ریزی سے‘ فواحش اور منکرات سے‘ دروغ گوئی سے‘ یتیم کا مال کھانے سے اور پاک باز عورتوں پر تہمت لگانے سے منع کیا‘ نماز‘ زکوٰۃ (صدقہ و خیرات) اور روزے کا حکم دیا‘‘۔
حضرت ام سلمہؓ فرماتی ہیں کہ حضرت جعفرؓ نے اس طرح اسلام کی بہت سی تعلیمات کی وضاحت کی۔ اس کے بعد کہا: ’’ہم نے اللہ کے رسولؐ کی ان باتوں کی تصدیق کی‘ آپؐ پر ایمان لے آئے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپؐ جو تعلیمات لائے ہیں‘ انھیں ہم برحق مانتے ہیں۔ اللہ واحد کی عبادت کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے۔ اللہ کے رسولؐ نے جن چیزوں کو حرام قرار دیا ہے‘ انھیں حرام اور جن چیزوں کو حلال کہا‘ انھیں حلال سمجھ کر عمل کرتے ہیں۔ اس پر ہماری قوم نے ہمارے ساتھ ظلم و زیادتی کی روش اختیار کر رکھی ہے۔ اس نے ہمیں سخت سزائیں دیں‘ ہمیں اپنے دین سے پھیرنے کی کوشش کی تاکہ ہمیں اللہ واحد کی عبادت سے پھیر کر بت پرستی کی طرف لے جائیں۔ ہم جن خبیث حرکتوں کا ارتکاب کرتے تھے‘ پھر ان کا ارتکاب کرنے لگیں۔ جب انھوں نے ہم پر قہر و غضب ڈھایا‘ ظلم کیا‘ زندگی ہمارے لیے تنگ کر دی‘ ہمارے اور ہمارے دین کے درمیان رکاوٹ بن کر کھڑے ہو گئے‘ تو ہم نے دوسروں کے مقابلے میں آپ کے ملک کو ترجیح دی‘ آپ کے جوار میں رہنا پسند کیا‘ اس توقع پر کہ آپ کے ہاں‘ اے بادشاہ! ہم پر ظلم نہ ہوگا اور ہم زیادتیوں سے محفوظ رہیں گے‘‘۔
یہ بے مثال اور دل دہلا دینے والی تقریر سننے کے بعد نجاشی نے حضرت جعفرؓ سے دریافت کیا کہ تمھارے پیغمبر جو کلام خدا کی طرف سے پیش کرتے ہیں کیا اس کا کوئی حصہ تمھارے پاس ہے؟ حضرت جعفرؓ نے کہا: ہاں! نجاشی نے کہا: وہ مجھے سنائو۔ حضرت جعفرؓ نے سورہ مریم کا ابتدائی حصہ پڑھا۔ نجاشی کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔ یہاں تک کہ اس کی داڑھی تر ہوگئی۔ جو علما دربار میں موجود تھے ان کی آنکھیں بھی اشک بار ہو گئیں۔ ایک روایت میں ہے کہ نجاشی نے مزید کچھ سنانے کی درخواست کی تو حضرت جعفرؓ نے سورہ کہف سنائی۔ نجاشی نے کہا: یہ کلام اور حضرت عیسٰی ؑجو کلام لائے تھے دونوں ایک ہی چراغ سے نکلے ہیں۔ پھر عبداللہ بن ربیعہ اور عمرو بن العاص سے کہا: آپ لوگ یہاں سے جائیں۔ میں انھیں تمھارے حوالے نہیں کروں گا۔ (ابن ہشام ‘ السیرۃ النبویۃ : ۱ / ۳۷۳-۳۷۴۔ ابن اثیر‘ الکامل فی التاریخ: ۱/۵۹۹-۶۰۰)
عمرو بن عاص اور عبداللہ بن ربیعہ دربار سے باہر نکلے تو عمرو بن عاص نے کہا :کل ایک ایسی بات میں بادشاہ سے کہوں گا کہ وہ انھیںجڑ پیڑ سے اکھاڑ پھینکے گا۔ ان دونوں میں عبداللہ بن ربیعہ نسبتاً نرم تھے۔ انھوں نے کہا: ایسی کوئی بات نہ کرو۔ یہ لوگ چاہے ہمارے دین کے خلاف ہوں لیکن ان سے ہمارا خونی رشتہ ہے۔ عمرو بن عاص اس کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ چنانچہ وہ دوسرے دن بادشاہ کے پاس پہنچے اور کہا : اے بادشاہ! یہ لوگ عیسٰی ؑ بن مریم کے بارے میں بہت سخت بات کہتے ہیں۔ آپ ان سے اس سلسلے میں دریافت کریں۔ دوسرے دن اس نے پھر مہاجرین کو طلب کیا۔ حضرت ام سلمہؓ کہتی ہیں کہ یہ ہمارے لیے بڑا نازک معاملہ تھا۔ لوگ جمع ہوئے اور مشورہ کیا کہ ہمیں اس سوال کا کیا جواب دینا چاہیے؟ پھر یہی طے پایا کہ ہم وہی کہیں گے جو اللہ اور اس کے رسول ؐنے کہا ہے‘ چاہے اس کا نتیجہ کچھ بھی نکلے۔ چنانچہ یہ لوگ دربار میں پہنچے تو نجاشی نے سوال کیا کہ تم لوگ عیسٰی ؑبن مریم کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ حضرت جعفرؓ نے جواب دیا: ہم ان کے بارے میں وہی کہتے ہیں جو ہمارے پیغمبر نے ہمیں خدا کی طرف سے بتایا ہے۔ وہ اللہ کے بندے‘ اس کے رسول‘ اس کی روح اور کلمہ تھے جو مریم عذرا بتول سے بغیر باپ کے اللہ کے کلمہ سے پیدا ہوئے۔
نجاشی نے حضرت جعفر ؓکے اس بیان کو سننے کے بعد زمین سے ایک تنکا اٹھایا اور کہا: عیسٰی ؑبن مریم اس بیان سے اس تنکے کے برابر بھی زیادہ نہ تھے۔ (ابن ہشام‘ السیرۃ النبویۃ: ۱/۳۷۰-۳۷۵)
بعض روایات میں اس کی کچھ اور تفصیل ملتی ہے۔ حضرت جعفرؓ کی گفتگو کے ختم ہونے پر نجاشی نے دربار میں موجود عالموں اور راہبوں سے دریافت کیا کہ یہ جو کچھ کہہ رہے ہیں اس کے بارے میں تمھاری کیا رائے ہے؟ اس پر تم کیا اضافہ کرنا چاہتے ہو؟ انھوں نے جواب دیا: آپ ہی فرمائیں‘ آپ کا علمی مرتبہ اور مقام ہم سے اونچا ہے۔(۸)
نجاشی نے کہا : میں شہادت دیتا ہوں کہ حضرت محمدؐ اللہ کے پیغمبر ہیں۔ یہ وہی پیغمبر ہیں جن کی بشارت حضرت عیسٰی ؑ نے انجیل میں دی ہے۔
ایک اور روایت میں ہے کہ نجاشی نے علما اور راہبوں سے کہا کہ خداے تعالیٰ‘ جس نے حضرت عیسٰیؑ پر انجیل نازل کی‘ میں اس کی قسم دے کر تم سے پوچھتا ہوں کہ حضرت عیسٰی ؑ کے بعد قیامت کے آنے سے پہلے کسی نبی کا ذکر تمھیں انجیل میں ملتا ہے یا نہیں؟ انھوں نے جواب دیا: ہاں‘ ملتا ہے۔ حضرت عیسٰی ؑ نے اس کی بشارت دی ہے اور کہا ہے کہ جو اس پر ایمان لاتا ہے وہ مجھ پر ایمان لاتا ہے‘ اور جو اس کی رسالت کا انکار کرتا ہے وہ میرا انکار کرتا ہے۔ اس پر نجاشی نے کہا :اگر سلطنت کی ذمہ داری مجھ پر نہ ہوتی تو میں بذاتِ خود اس کی جوتیاں اٹھاتا اور اس کے ہاتھ پیر دھلاتا۔ (حلبی‘ السیرۃ الحلبیۃ: ۲/۲۹)
روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ نجاشی سے گفتگو کے دوران میں حضرت جعفرؓ نے نجاشی سے کہا کہ آپ ان سفیروں سے دریافت فرمائیں کہ ہم غلام ہیں یا آزاد؟ اگر غلام ہیں تو بے شک ہم نے اپنے مالکوں سے فرار کی راہ اختیار کی ہے‘ آپ ہمیں لوٹا دیں۔ عمرو بن عاص نے کہا: نہیں! یہ آزاد لوگ ہیں۔ حضرت جعفرؓ نے فرمایا: ان سے پوچھیں کہ کیا ہم نے ناحق کسی کا خون بہایا ہے کہ ہم سے قصاص کا مطالبہ کر رہے ہیں؟ کیا ہم نے ناروا کسی کا مال لے رکھا ہے اور اس کا ادا کرنا ہم پر ضروری ہو گیا ہے؟ عمرو بن عاص نے جواب دیا: ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ نجاشی نے سفیروں سے کہا: آپ حضرات واپس جائیں۔ میں کبھی انھیں آپ کے حوالے نہیں کروں گا۔ (حلبی‘ السیرۃ الحلبیۃ: ۲/۳۲۔ ابن کثیر‘ السیرۃ النبویۃ: ۲/۱۵)
اس طرح نجاشی کو یقین ہو گیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم واقعتا اللہ کے رسول ہیں۔ یہ مہاجرین ان کے اصحاب اور پیروکار ہیں۔ یہ کسی کے زرخرید غلام نہیں ہیں ‘بلکہ آزاد بندے ہیں۔ انھوں نے کسی کا حق نہیں مارا ہے‘ کسی کا مال نہیں کھایا ہے‘ بلکہ ان کے ساتھ سراسر زیادتی ہوئی ہے اور وہ یہاں پناہ کے طالب ہیں۔ اس یقین نے اس کے جذبۂ ہمدردی کو بڑھا دیا۔ اس نے مہاجرین سے کہا: جائو تم لوگ میری سلطنت میں مامون اور محفوظ ہو۔ جو کوئی تمھیں برا بھلا کہے گا اس پر جرمانہ عائد ہوگا۔ تم میں سے کسی کو تکلیف پہنچا کر مجھے سونے کاپہاڑ بھی مل جائے تو میں اسے پسند نہ کروں گا۔ درباریوں سے کہا: ان سفیروں کے تحفے واپس کر دیے جائیں۔ مجھے ان کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے بعد مہاجرین حبشہ میں سکون سے رہنے لگے۔ (ابن ہشام‘ السیرۃ النبویۃ: ۱/۳۷۰)
نجاشی نے مہاجرین سے پوچھا کہ کیا کوئی تمھیں تکلیف پہنچاتا ہے۔ انھوں نے جواب دیا: ہاں! (قریش کے سفیروں کے ورغلانے سے ہو سکتا ہے کچھ لوگوں نے ان کے ساتھ زیادتی کی ہو) اس پر نجاشی کے حکم سے منادی نے اعلان کیا کہ جو کوئی انھیں تکلیف پہنچائے گا اس پر چار دینارجرمانہ ہوگا۔ مہاجرین سے دریافت کیا کہ کیا یہ کافی ہے؟ انھوں نے اسے ناکافی بتایا تو نجاشی نے اسے دگنا کر دیا۔ (ابن کثیر‘ السیرۃ النبویۃ: ۲/۱۶۔ حلبی‘ السیرۃ الحلبیۃ: ۲/۲۹)
نجاشی نے بڑے نازک وقت میں مسلمانوں کو پناہ دی تھی۔ انھیں سکون اور اطمینان کے ساتھ دین پر عمل کے مواقع حاصل تھے۔ اس لیے اس کی سلطنت اور اقتدار کا باقی رہنا ان کے لیے فائدہ مند تھا۔ اس کے زوال اور خاتمے سے انھیں نقصان کا خطرہ تھا۔ چنانچہ اسی ہجرت کے دوران میں نجاشی کا ایک حریف سلطنت اٹھ کھڑا ہوا۔ دونوں کے درمیان جنگ کی نوبت آگئی۔ اس موقع پر مسلمانوں کی فطری خواہش تھی کہ نجاشی اس میں کامیاب ہو اور اس کا اقتدار قائم رہے۔
جنگ خیبر ۶ ہجری کے آخر میں یا بقول ابن اسحٰق محرم ۷ ہجری میںرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرو بن امیہ ضمریؓ کو نجاشی کے پاس بھیجا کہ جو اصحاب حبشہ میں رہ گئے ہیں انھیں مدینہ بھیج دے۔ نجاشی نے دو کشتیوں میں انھیںروانہ کیا۔ یہ حضرات فتح خیبر کے دن پہنچے۔ ان میں حضرت جعفرؓ بھی تھے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے چمٹ گئے اور پیشانی کو بوسہ دیا۔ فرمایا: مجھے نہیں معلوم کہ آج فتح خیبر کی زیادہ خوشی ہے یا جعفر کی آمد کی! اس قافلہ میں ۱۶ آدمی تھے۔ بعض کے ساتھ ان کی بیویاں اور چھوٹے بچے بھی تھے۔(۹) (جاری)
۱- اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ ابن سعد نے جن اصحاب کے اسماے گرامی دیے ہیں ان میں ابوسبرہ اور ابو حاطب بن عمرو بن عبدشمس بھی ہیں‘ لیکن ابن اسحٰق کہتے ہیں کہ ابوسبرہ اس سفر میں تھے‘ ان کی جگہ ابوحاطب کا بھی نام لیا گیا ہے۔ ان دونوں کا تعلق بنوعامر سے تھا۔ اس طرح ابن اسحٰق نے دونوں میں سے ایک کو شمار کیا ہے اور ابن سعد نے دونوں کو اس فہرست میں رکھا ہے۔ اسی طرح ابن ہشام نے خواتین کا الگ سے تذکرہ نہیں کیا ہے بلکہ جن مردوں کے ساتھ ان کا سفر ہوا تھا ان کے ذیل میں ان کا ذکر کر دیا ہے۔ ابن سعد نے ان کا الگ سے شمار کیا ہے۔ ابن ہشام ۱۰/۳۵۹-۳۶۰‘ ابن سعد‘ طبقات: ۱/۲۰۴‘ نیز ملاحظہ ہو ابن جریر طبری‘ تاریخ الطبری: ۱/۵۴۶۔
۲- ابن کثیر‘ السیرۃ النبویۃ: ۲/۴-۵۔ذہبی‘ السیرۃ النبویۃ: ۱/۱۸۳۔ ابن حجر‘ فتح الباری: ۷/۵۸۴۔ابن اسحٰق کہتے ہیں کہ بعض حضرات کے بقول ابوحاطب سب سے پہلے حبشہ پہنچے تھے۔ اس سلسلے میں بعض اور اقوال بھی ملتے ہیں۔ ملاحظہ ہو‘ زرقانی علی المواہب: ۱/۵۰۵۔ ہو سکتا ہے حضرت عثمانؓ کو اپنی اہلیہ کے ساتھ سب سے پہلے ہجرت کا شرف حاصل ہوا ہو اور دوسرے اصحاب تنہا رہے ہوں‘ السیرۃ الحلبیہ: ۲/۳-۴۔
۳- یہ ایک عمومی بات ہے ورنہ حضرت عمرؓ کے اسلام کے ذیل میں ذکر آچکا ہے کہ عامر بن ربیعہؓ کی بیوی لیلیٰ نے انھیں بتایا کہ ہم لوگ تم لوگوں کے ظلم و زیادتی کی وجہ سے مکّہ چھوڑ رہے ہیں۔ ان دونوں نے حبشہ ہجرت کی۔ غالباً یہ وہ افراد تھے جن کو اس بات کا خدشہ نہیں تھا کہ وہ سفر سے روک دیے جائیں گے۔ ملاحظہ ہو: تحقیقات اسلامی‘ جنوری‘ مارچ ۲۰۰۰ء‘ ص۱۶-۱۷۔
۴- ابن حجر‘ فتح الباری: ۷/۵۸۵۔ مورخین اور سیرت نگاروں کے درمیان یہ بحث رہی ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ ‘ جن کا تعلق یمن سے تھا‘ مہاجرین حبشہ میں ہیں یا نہیں۔ حافظ ابن حجر نے ان دونوں طرح کی روایات میں تطبیق دینے کی کوشش کی ہے۔ کہتے ہیں ہو سکتا ہے کہ حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا علم ہوا ہو اور وہ مکّہ پہنچ کر اسلام لے آئے ہوں۔ آپؐ نے انھیں مکہ سے حبشہ چلے جانے کا مشورہ دیا ہو۔ یمن حبشہ کے سامنے ہی پڑتا ہے اس لیے وہ اپنی قوم کے پاس چلے گئے ہوں۔ پھر جب مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مملکت قائم کر دی تو وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ (جو پچاس کے قریب تھے) ہجرت کے ارادے سے نکلے ہوں‘ لیکن ناموافق ہوائوں نے ان کی کشتی کو حبشہ پہنچا دیا ہو۔ یہاں ان کی ملاقات حضرت جعفر سے ہوئی ہوگی۔ ان سب کی مدینہ واپسی خیبر کے بعد ہوئی۔فتح الباری: ۷/۵۸۵۔ صحیح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ بعثت کے ابتدائی دَور میں مکّہ پہنچے اور اسلام لے آئے۔ پھر وہ یمن واپس ہوگئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ ہجرت کرنے کے بعد وہ وہاں سے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مدینہ روانہ ہوئے لیکن ہوا کا رخ مختلف ہونے کی وجہ سے حبشہ پہنچ گئے۔حضرت جعفرؓ نے انھیں وہیں روک لیا۔ انھوں نے حضرت جعفرؓ ہی کے ساتھ فتح خیبر کے بعد مدینہ ہجرت کی۔ دونوں کی کشتیاں ایک ساتھ پہنچیں۔ حضرت ابوموسٰیؓ کے سفر کے لیے ملاحظہ ہو‘ الاستیعاب: ۴/۳۲۷۔ اسد الغابہ: ۳/۳۶۴-۳۶۶۔ نیز: ۶/۲۹۹-۳۰۰۔ ابن کثیر‘ السیرۃ النبویۃ: ۲/۱۴۔
۵- سیرت حلبیہ میں ہے کہ حبشہ کی دوبارہ ہجرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شعب ابی طالب میں محصور ہونے کے بعد شروع ہوئی (السیرۃ الحلبیہ: ۲/۹)۔ مزید لکھتے ہیں ‘بعثت کے نویں سال محرم میں بنوہاشم شعب ابی طالب میں محصور ہوئے‘ اس وقت جو مسلمان مکّہ میں رہ رہے تھے انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حبشہ ہجرت کر جانے کا حکم دیا (السیرۃ الحلبیہ: ۲/۲۶)۔ لیکن واقدی کا بیان ہے کہ جو اصحاب حبشہ سے مکّہ واپس ہوئے اُن کے قبائل ان پر ٹوٹ پڑے اور ان کو سخت قسم کی اذیتیںدینے لگے‘ تو انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ حبشہ ہجرت کر جانے کی اجازت دے دی۔ (ابن سعد‘ الطبقات الکبریٰ: ۱/۲۰۷)
۶- واقدی کا بیان ہے کہ اس بار ہجرت کرنے والوں میں مردوں کی کل تعداد ۸۳ تھی‘ عورتوں میں گیارہ قریشی اور سات غیرقریشی تھیں (ابن سعد‘ الطبقات الکبریٰ: ۱/۲۰۷)۔ اس طرح حبشہ ہجرت کرنے والے کل ۱۰۲ تھے۔ (زرقانی‘ شرح المواہب اللدنیۃ: ۲/۳۱-۳۲)۔ اس طرح مورخین کے نزدیک حبشہ ہجرت کرنے والوں اور واپس ہونے والوں کی تعداد متعین ہے۔ لیکن کس ترتیب سے یہ واقعہ پیش آیا‘ واضح نہیں ہے۔ تمام تفصیلات کو سامنے رکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلی ہجرتِ حبشہ کے بعد کچھ لوگ مکّہ واپس ہوئے۔ مکّہ کی صورتِ حال دیکھنے کے بعد اُن میں سے بیشتر نے دوبارہ ہجرت کی اور بعض افراد مکّہ ہی میں رہ گئے‘ کچھ نئے افراد بھی دوسری ہجرت میں روانہ ہوئے۔ بنوہاشم کے شعب ابوطالب میں محصور ہونے کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ اس کے بعد ہجرتِ مدینہ کا واقعہ پیش آیا۔ کچھ لوگ براہِ راست مدینہ منورہ پہنچے اور کچھ نے مکّہ کا راستہ اختیار کیا۔ مکّہ والوں نے بعض کو مدینہ ہجرت کرنے نہیں دی۔ زیادہ تر نے مدینہ ہجرت کی اور جنگِ بدر میں شریک ہوئے۔
۷- بعض روایات میں عبداللہ بن ربیعہ کی جگہ عمارہ بن ولید کا ذکر ہے اور اس سفر میں دونوں کے کردار سے متعلق بعض تفصیلات بھی ملتی ہیں۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ قریش نے دو مرتبہ سفارتی کوشش کی تھی۔ پہلے سفر میں عمرو بن العاص کے ساتھ عمارہ بن ولید تھا اور دوسرے میں عمرو بن العاص کے ساتھ عبداللہ بن ابی ربیعہ تھے۔ (تفصیل کے لیے‘ حلبی‘ السیرۃ الحلبیہ: ۲/۳۲-۳۳)
۸- نجاشی کے بارے میں آتا ہے: کان النجاشی اعلم النصاریٰ بما انزل علٰی عیسٰی وکان قیصر یرسل الیہ علماء النصارٰی لتاخذ عنہ‘ حلبی‘ السیرۃ الحلبیہ: ۲/۲۹ (حضرت عیسٰی ؑ پر جو تعلیمات نازل ہوئیں‘ نجاشی ان کے سب سے بڑے عالم تھے۔ قیصر روم ان کے پاس علما نصاریٰ کو بھیجتا تھا تاکہ وہ ان سے علم حاصل کریں)۔
۹- مہاجرین حبشہ میں سے جو افراد بدر میں شریک نہیں ہو سکے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قیامِ مکّہ کے زمانہ میں مکّہ واپس نہیں آئے اور ہجرتِ مدینہ کے بعد مدینہ پہنچے ان کی تعداد ابن اسحٰق نے ان ۱۶ کے علاوہ ۳۴ بتائی ہے۔ خواتین خالص عرب کی ۱۳ اور باہر کی ۵ تھیں۔ (ابن ہشام‘ ۴/۵-۱۵)