مراکش میں موروثی شاہی نظام قائم ہے۔ دستور کی رُو سے بادشاہ ایک مقدس ہستی ہے۔ اُسے ایسے مطلق العنان اختیارات حاصل ہیں جو مقننہ ‘ عدلیہ اور انتظامیہ کے اختیارات سے بالاتر ہیں۔ اس کی طرف سے صادر ہونے والے کسی فیصلے‘ حکم یا رہنمائی پر تنقید کی جا سکتی ہے نہ اعتراض اور نہ اُسے منسوخ اور کالعدم کیا جا سکتا ہے۔ یہ صورت حال تو ہے تحریری قانون کی رُو سے۔ غیر تحریری مروجہ قوانین کے مطابق بادشاہ کے اختیارات لامحدود ہیں۔ شاہ حسن ثانی کی رحلت اور نوجوان بادشاہ محمد ششم کی تخت نشینی کے بعد حالات میں کوئی خاص تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔
نئے شاہ نے تخت نشینی کے بعد اپنے پہلے خطاب (۳۰ جولائی ۱۹۹۹ء) میں سابقہ پالیسی جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا۔ کچھ نعرے تبدیل ہوئے مگر پرانے دَور کی بنیادیں قائم ہیں اور گذشتہ کئی ادوار سے مراکش کی سیاسی زندگی پر مسلط ’’حفاظت و تحفظ‘‘ کی ذہنیت‘ اپنی اصل رُوح کے ساتھ برقرار ہے۔ ویسے تو ایک نمایندہ حکومت موجود ہے مگر یہ نمایندگی کے معروف سیاسی اصطلاحی مفہوم سے بالکل ہٹی ہوئی ہے۔عبدالرحمن یوسفی کی موجودہ حکومت بھی شاہی احکام کے نفاذ کی آلہ کار ہے۔ مراکش کے تحریری اور مروجہ قوانین کی رُو سے ‘ وزارتوں کا کام اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ بادشاہ کے احکام و ہدایات پر عمل درآمد کرائیں‘ بالخصوص حسّاس سیاسی امور کے وزرا تو براہِ راست بادشاہ کے ماتحت ہوتے ہیں جنھیں ’’وزرا ے سیادت‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ وزیر اول (وزیراعظم) کے ماتحت نہیں ہوتے‘ جیسے داخلہ‘ خارجہ‘ عدل‘ اوقاف اور قومی دفاع کے وزرا۔ مرحوم شاہ حسن ثانی کے بقول یہ بادشاہ کے مددگار ہوتے ہیں۔ اب ایک بے چارہ مددگار وزیر‘ شاہی احکام و ہدایات نافذ کرنے کے سوا اور کیا کر سکتا ہے!
مراکش میں حقیقی نمایندہ حکومت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘ اس لیے کہ یہ دستوری اصولوں اور جمہوری سیاسی قواعد کی رُو سے تشکیل نہیں پاتی‘ نہ ہی یہ شفاف حقیقی انتخابات کے نتیجے میں قائم ہوتی ہے۔ یوسفی کی موجودہ حکومت‘ مرحوم شاہ کے ارادے‘ تصور اور شرائط کے مطابق قائم ہوئی۔ یہ گذشتہ حکومتوں کے پیدا کردہ انحطاط ہی کی جانب رواں دواں ہے۔ مراکش کی معیشت سخت بحران کا شکار ہے اور موجودہ سیاسی حالات میں اس کی اصلاح ناممکن ہے۔ تمام امور کا باریک بینی سے جائزہ لے کر جرأت مندانہ فیصلے اور اقدامات کرنے کا اختیار وزارتی حکومت کے پاس نہیں۔
مراکش میں کسی بھی اسلامی سیاسی جماعت کو عملاً کام کرنے کی اجازت نہیں ہے‘ البتہ سیکولر پارٹیوں کو کھلی آزادی ہے۔ ڈاکٹر عبدالکریم الخطیب نے ۱۹۶۷ء میں الحرکۃ الشعبیۃ الدستوریۃ الدیمقراطیۃ کے نام سے پارٹی بنائی تھی۔ حکام نے جب ۱۹۹۲ء میں حرکۃ الاصلاح والتجدید کو کام کرنے کی اجازت نہ دی تو اُس نے ۱۹۹۶ء میں رابطۃ المستقبل الاسلامی کے ساتھ مل کر حرکۃ التوحید والاصلاح کے نام سے پارٹی بنا لی۔ جب اس نئی پارٹی کے مفادات‘ ڈاکٹر الخطیب کی پارٹی کے ساتھ ہم آہنگ ہوئے تو انضمام کے بعد‘ ایک نئی پارٹی حزب العدالۃ والتنمیۃ وجود میں آئی۔ حرکۃ التوحید والاصلاح کے افراد اب نئی پارٹی میں شامل ہو کر پارلیمنٹ میں پہنچ چکے ہیں۔ حکومت کے ذمہ دار افراد‘ سرکاری ذرائع ابلاغ اور عام فکری حلقے حزب العدالۃ والتنمیۃ کو مروجہ سیاسی مفہوم کی رُو سے اسلامی پارٹی نہیں سمجھتے‘ یعنی اس کی اسلامی خصوصیت اور اسلامی تشخص کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ اسے ایک عام سیاسی پارٹی سمجھا جاتا ہے جو گذشتہ ۴۰ برسوں سے کام کر رہی ہے اور موجودہ نظام پر راضی ہے۔
حقوق انسانی کی خلاف ورزیاں: مراکش کے نئے بادشاہ نے اگرچہ سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کا حکم دیا ہے مگر ملک کی جیلیں اب بھی سیاسی قیدیوں سے خالی نہیں۔ ان میں جماعت عدل و الاحسان کے ۱۲ طلبہ بھی ہیں جو قنیطرہ کی سنٹرل جیل میں ہیں‘ جو کسی فوجداری مقدمے میں نہیں بلکہ ایک خالص سیاسی مقدمے میں ۲۰‘ ۲۰ سال کی قید بھگت رہے ہیں۔ مراکش میں انسانی حقوق اور آزادیوں کے احترام کا زبانی کلامی تو بہت شہرہ ہے مگر عملاً حقوق اور آزادیاں سلب ہیں۔ بنیادی مسئلہ‘ قانون پر عمل درآمد کو یقینی بنانے اور حقوق اورآزادیوں کا تحفظ کرانے والے اداروں کی عدم موجودگی ہے۔ یوسفی کی حکومت نے تاحال ایسے کوئی اقدامات نہیں کیے جن سے یہ اطمینان ہو کہ مراکش‘ قانون کی حکمرانی اور ذمہ دار اداروں کا ملک ہے۔ ابھی تک افکار و آرا اور سیاسی پسند و ناپسند کی وجہ سے افراد کو ستایا جاتا ہے اور حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ گذشتہ برس کئی لوگوں کو حج پر جانے سے روک دیا گیا۔ پچھلے موسم گرما میں ’’اسلامی کیمپ‘‘ لگانے سے روکا گیا۔ ابھی تک ’’ہدایات و احکام‘‘ کی پالیسی سیاسی زندگی پر حاوی ہے۔ جماعت العدل والاحسان کے دو اخبارات العدل والاحسان اور رسالۃ الفتوۃ کی طباعت و اشاعت پر پابندی لگائی گئی جو اب تک قائم ہے۔
شیخ یاسین کی کتاب (العدل: الاسلامیون والحکم) بھی ممنوع قرار دے دی گئی ہے۔
یونی ورسٹیوں میں طلبہ کو خوف زدہ کیا جاتا ہے‘ ان پر تشدد کیا جاتا ہے‘ ان پر جھوٹے الزامات لگا کر ظالمانہ و سنگ دلانہ سزائیں دی جاتی ہیں۔ گذشتہ نومبر میں المحمدیہ شہر میں ۱۴ طلبہ کو دو دو سال کی قید کی سزائیں دی گئیں۔ اشخاص‘ اداروں اور گھروں کا وقار پامال کیا جا رہا ہے‘ حتیٰ کہ حکومت کا آزادیوں کے بارے میں تازہ ترین منصوبہ بھی‘ حقوق انسانی کے حامیوں کے نزدیک‘ حکام کو تشدد اور پابندیوں کی کھلی اجازت دینے اور انھیں عدالتی گرفت سے تحفظ فراہم کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ جماعت عدل و الاحسان کے مرشد عبدالسلام یاسین کو ایک ظالمانہ حکم کے تحت نظربند کر دیا گیا تھا۔ وکلا صفائی نے‘ اس اقدام کو ظالمانہ ثابت کر دیا مگر یہ فائل عدلیہ کی مجلس اعلیٰ میں دبی رہی۔
موجودہ شاہ کے دَور میں یہ محاصرہ جاری ہے‘ صرف اس کی شکل بدل گئی ہے۔ چنانچہ گذشتہ مئی میں مرشد کے گھر کی نگران پولیس نے اپنی پوزیشن بدل لی‘ اب وہ گھر سے ذرا ہٹ کر‘ آنے والے تمام راستوں اور اس محلے میں واقع جماعت کے مرکزی دفتر کے ارد گرد کی گلیوں کی نگرانی کرتی ہے۔ حقوقِ انسانی کے احترام کا بھرم اس وقت ٹوٹا جب ۹‘ ۱۰ دسمبر ۲۰۰۰ء کو انسانی حقوق کے عالمی اعلان کی مناسبت سے تقریبات منعقد ہو رہی تھیں اور مظاہرے ہو رہے تھے۔ ان دو دنوں میں حقوق انسانی کی مراکشی تنظیم کے بہت سے کارکنوں کو گرفتار کیا گیا۔ جماعت عدل و الاحسان کے سیکڑوں کارکنوں کو زد و کوب کیا گیا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ بہت سے گرفتار کیے گئے اور ان کے خلاف مقدمات بنے۔ ان میں شیخ یٰسین کے کئی قریبی عزیزاور رشتے دار بھی تھے۔
مراکش کی اسلامی تحریک: مراکش کی اسلامی تحریک کا نام جماعت العدل والاحسان ہے ‘ جس کے قائد عبدالسلام یاسین اور ترجمان فتح اللہ ارسلان ہیں۔ اس جماعت کی کئی ماتحت ذیلی تنظیمیں بھی ہیں جیسے نوجوانوں کی تنظیم‘ عورتوں کی تنظیم وغیرہ۔ یہ ایک دعوتی جماعت ہے۔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر اس کے اہم اصول ہیں۔ تربیت‘ تنظیم اور پیش قدمی اس کا شعار ہے۔ سیاسی تبدیلی کے لیے یہ عدل و احسان کے اصولوں پر پختہ یقین رکھتی ہے۔ جماعت کے قائد محترم نے عدل و احسان کے موضوع پر دو کتابیں لکھی ہیں جن میں امت اسلامیہ کو دعوت و ریاست کے معاملات میں درپیش مسائل و مشکلات کا عدل و احسان کی روشنی میں گہرا تجزیہ کیا گیا ہے۔ مسلمانوں کی معاشرت و معیشت کی اصلاح اور دین و دنیا میں کامیابی کے لیے جماعت اپنے افکار‘ پروگرامات اور اجتہادات پیش کرتی ہے۔ عدالت عالیہ نے جماعت کو قانونی قرار دیا ہے مگر مراکش میں قانون اور اس پر عمل درآمد دو الگ الگ چیزیں ہیں‘ یعنی جماعت کا مسئلہ ’’سیاسی‘‘ ہے‘ قانونی نہیں۔
مراکش کے سرکاری ذرائع ابلاغ‘ جماعت پر دہشت گردی اور حفاظتی دستوں کے ساتھ تصادم کا الزام لگاتے ہیں مگر جماعت اس کی سختی سے تردید کرتی ہے۔ جماعت کے ترجمان فتح اللہ ارسلان کے بقول: ’’ہاتھوں میں قرآن شریف اٹھا کر چلنے والے تشدد کرتے ہیں یا مسلح حفاظتی دستے جن کی زد سے عورتیں‘ بچے اور عمر رسیدہ افراد بھی محفوظ نہیں؟ ہم ہر طرح کے تشدد اور دہشت گردی کے خلاف ہیں۔ ہم خفیہ کارروائیوں اور غیروں کا آلہ کار بننے کے مخالف ہیں۔ ہم نے آٹھ بڑے شہروں میں پروگرام کرنے کا ارادہ کیا‘ پولیس نے مداخلت کی‘ بہت تشدد کیا‘ مار مار کر لوگوں کو لہولہان کر دیا مگر ہم نے اس کے باوجود صبر و برداشت کا مظاہرہ کیا۔ پولیس کے کسی ایک آدمی کا بال بھی بیکا نہیں ہوا‘ کسی سپاہی کی وردی کا بٹن تک نہیں ٹوٹا۔ جماعت عدم تشدد پر یقین رکھتی ہے‘ یہ ہماری باقاعدہ حکمت عملی کا حصہ ہے‘‘۔
انتخابی حکمت عملی : جماعت عدل و الاحسانتین وجوہ سے انتخابات میں شرکت کو مفید نہیں سمجھتی۔
۱- انتخابات میں شرکت کا مطلب‘ موجودہ نظام کو درست اور جائز قرار دینا ہے‘ جب کہ جماعت کے نزدیک یہ حقوق انسانی اور آزادیوں کے احترام کا نقیض ہے۔ انتخابات کا سب سے زیادہ فائدہ ملک کا سیکورٹی سسٹم اٹھاتا ہے‘ کیونکہ یہ ’’جمہوری تماشا‘‘ اس کے بنائے ہوئے قواعد و ضوابط کے مطابق ہوتا ہے۔ اس کے نتائج بھی وہی سمیٹتا ہے‘ لہٰذا انتخابات میں شرکت کا مطلب سیکورٹی سسٹم کو مضبوط کرنا اور تحفظ دینا ہے۔ جماعت کسی سیاسی کھیل کا حصہ نہیں بننا چاہتی ‘ وہ اصولوں پر سودے بازی کے لیے تیار نہیں۔
۲- انتخابات اگر دھوکا اور دھاندلی سے پاک ہوں تو بھی کامیاب ہونے والوں کے پاس دستوری‘ تحریری اور مروجہ قوانین کی رُو سے اپنے منصوبوں پر عمل درآمد کے اختیارات نہیں ہیں۔ پھر الیکشن میں حصہ لینے کا کیا فائدہ؟ اور رائے دہندگان کو ووٹ ڈالنے پر آمادہ کرنے کی کیا افادیت ہے؟
۳- قائم سیاسی نظام کے زیر سایہ‘ ایسی قوم میں‘ جس کی نصف سے زیادہ آبادی بالکل ناخواندہ ہو‘ سیاسی شعور سے بھی محروم ہو‘ جہاں سیکورٹی فورسز نے دہشت کی فضا پیدا کر رکھی ہو‘ انتخابات کے انعقاد کا مطلب جھوٹ‘ فریب اور مکر کی ترویج‘ قبائلی عصبیت کو مضبوط کرنا اور گروہ بندی اور طبقاتی تقسیم کو قوت بخشنا ہے جس سے انانیت‘ خود غرضی اور خواہشات نفسانی کو تقویت ملتی ہے‘ مفاد عامہ اور امت کی صلاحیتیں ضائع ہوتی ہیں۔
جماعت عدل والاحسان‘ اسلام کے حامیوں‘ اور سیکولر ذہن کے لوگوں کے ساتھ بھی‘ ہر قسم کے مواقع پر مذاکرات اور گفت و شنید پر یقین رکھتی ہے۔ استاد عبدالسلام نے گفت و شنید کے موضوع پر چار کتابیں لکھی ہیں‘ ایک فرانسیسی میں اور تین عربی زبان میں۔ انھوں نے برادرانہ و مخلصانہ جذبات کے ساتھ گفت و شنید اور مذاکرات پر زور دیا ہے۔
اسلامی تحریک مراکش کا یہ اصولی موقف ہے اور اسی پروگرام کو لے کر وہ چل رہی ہے کہ مراکش کے مختلف طبقات کو صرف اسلام ہی متحد رکھ سکتا ہے۔ ’’وطنیت‘‘ ، ’’زبان‘‘ اور ’’مفاد عامہ‘‘ میں یک جا رکھنے کی صلاحیت نہیں۔ مراکش کی مجموعی صورت حال اور مصائب و مشکلات کے پیش نظر تحریک اسلامی کا عزم اور حوصلے کے ساتھ‘ حکومتی تشدد کے باوجود عدم تشدد کی حکمت عملی پر ثابت قدمی سے آگے بڑھنا اور جدوجہد جاری رکھنا یقینا قابل ستایش ہے۔ بڑھتا ہوا عالمی دبائو‘ انسانی حقوق کے لیے جدوجہد اور تحریک اسلامی مراکش کی استقامت یقینا پیش رفت کا باعث بنے گی!
عبدالباقی خلیفہ
کوسووا اور مقدونیا کی مشترکہ سرحد پر موجود البانوی نژاد مسلمانوں کو کچلنے کے لیے مغربی اور یورپی ممالک کی تائید مقدونیا کو حاصل ہے۔ وجہ کیا ہے؟ کیونکہ یہ مسلمانوں کے خلاف جنگ ہے۔ اس لیے تمام یورپی ممالک کا فرض منصبی ہے کہ وہ مقدونیا کی پیٹھ ٹھونکیں۔ مقدونیا بھی مغرب کی نفسیات سے واقف ہے۔ اس لیے اس نے اعلان کیا کہ وہ ’’یورپ کے طالبان‘‘ کے خلاف برسرِپیکار ہے۔ اس سے پہلے سرب بھی یہ واویلا مچاتے رہے کہ وہ اسلامی بنیاد پرستی کے خلاف ’’جہاد‘‘ میں مصروف ہیں۔
یہ نعرہ یورپ کے بپھرے ہوئے بیل کو سرخ جھنڈی دکھانے کے مترادف ہے۔ اس لیے یورپی بیل اپنے سینگوں سے مسلمانوں کو کچلنے کے لیے متحد نظر آتے ہیں۔
مقدونیا کی حکومت کی دھمکیوںکے باوجود یہ مسلمان پرعزم اور بلند حوصلہ دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے ایک ترجمان نے کہا کہ اگر ان کے مطالبات نہ مانے گئے تو وہ جنگ جاری رکھیں گے یہا ں تک کہ وہ سب اس میں کام آجائیں۔ جنگ بندی کے حوالے سے انھوں نے کہا : ہم نے شکست نہیں کھائی بلکہ مذاکرات کا ایک موقع حکومت کو دینا چاہتے ہیں۔
مغربی ذرائع ابلاغ اور مقدونیا کی حکومت واویلا مچا رہی ہے کہ شدت پسند کو سووا سے در آئے ہیں حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ یہ مقدونیا کے باشندے ہیں جو کئی نسلوں سے مقدونیا میں آباد ہیں لیکن انھوں نے اپنے حقوق کی بات کی تو مقدونیا کے حکمرانوں نے انھیں کوسووا کے درانداز قرار دے دیا۔
ان مجاہدین کے خلاف کارروائی میں برطانیہ کے ماہرین‘ یوکرین کے پائلٹوں اور یورپی یونین کے ممالک نے حسب توفیق حصہ لیا۔ اس کے باوجود مقدونیا کی حکومت مزید امداد کے لیے بلغاریہ‘ یونان اور یوکرین کے آستانوں پر ہاتھ جوڑتی رہی۔دوسری طرف البانوی مسلمانوںکی بڑھتی ہوئی قوت سے اس اندیشے کو تقویت ملنے لگی کہ یہ خطہ ایک ہولناک جنگ کی لپیٹ میں آنے والا ہے‘ کئی ایک دیہات پر مسلمانوں کے قبضے کے بعد مقدونیا کی حکومت کے ہاتھ پائوں پھول گئے۔
البانوی مسلمانوں کی پے درپے کامیابیوں کو روکنے میں مقدونیا کی فوج مسلسل ناکام رہی اور اُسے بھاری مالی خسارے کا سامنا کرنا پڑا۔ سرحدی علاقوں کی ناکہ بندی‘ ممکنہ راستوں کا پہرہ اور رکاوٹیں کھڑی کرنے کے باوجود وہ ’’دراندازوں‘‘ کو آنے سے نہ روک سکی۔ اس علاقے میں کرفیو لگایا گیا‘ ایمرجنسی نافذ کی گئی لیکن حالات بدستور جوں کے توں رہے۔
البانوی نژاد مسلمانوں کے مطالبات جنھوں نے انھیں بندوق اٹھانے پر مجبور کیا‘ درج ذیل ہیں:
۱- البانوی قومیت کو تسلیم کیا جائے اور انھیں اپنی زبان میں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دی جائے۔
۲- ان کی ثقافت اور دینی تشخص کو تسلیم کیا جائے۔
۳- ان کے سیاسی حقوق تسلیم کیے جائیں اور ان کے تناسب کے مطابق انھیں حکومت میں شامل کیا جائے۔
۴- مقدونیا میں وفاقی نظام قائم کیا جائے ‘جس میں سلاوی اپنے معاملات کی دیکھ بھال کریں اور البانوی اپنے معاملات کی دیکھ بھال کریں۔
البانوی مسلمانوں نے یہ مطالبات منظور نہ ہونے کی صورت میں مقدونیا کو مستقبل کے حالات کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ البانوی مسلمانوں کی عسکری قوت حیرت انگیز ہے۔ گذشتہ دنوں انھوں نے دارالحکومت میں کارروائی کی اور ایک فوجی کو ہلاک اور دوسرے کو زخمی کر دیا۔ فی الحال اس خطے میں خاموشی نظر آتی ہے لیکن یہ خاموشی کسی طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔
(ہفت روزہ المجتمع ‘ شمارہ ۱۴۴۴ ۔ اخذ و ترجمہ: محمد احمد زبیری)