مراد ہوف مین کے مقالے پر آپ نے میرا تبصرہ شائع کیا‘ شکریہ۔
تکثیریت (pluralism) اور رواداری جو ہوف مین کے خطبات کا مرکزی موضوع ہیں‘ اب بے موسم کی بارش کی طرح ہمارے اہل فکر‘ خصوصاً نوجوان ذہنوں کی ’’آب یاری‘‘کر رہے ہیں۔ ’’جدید جمہوری مہذب معاشرے‘‘ (civil society) کا آئیڈیل بے شک اسلام کے دائمی مہذب اصولوں سے ہم آہنگ ہے‘ مگر اس سے ایک ایسا معاشرہ مراد لینا ‘ جہاں ’’اخلاقی تکثیریت‘‘ ہو‘ اسلام کے دائمی آفاقی نظامِ اقدار کی نفی کرنا ہے‘ اور مغربی یلغار (مغرب‘ کوئی جغرافیائی تصور نہیں‘ بلکہ ایک فکری نظام ہے) کو خوش آمدید کہنا ہے۔
خصوصاًپاکستان میں اسی فکر کو ایک محدود دائرے میں رکھ کر تاریخ پاکستان‘ اسلامی ریاست اور معاشرے کے لیے جدوجہد کی نفی کرنے اور برعظیم کی ایک ’’مشترکہ تاریخ‘‘ ازسرنو تصنیف کرنے کے لیے کوشش ہو رہی ہے‘ تاکہ دو قومی نظریے کی نفی ہو‘ اور ایک ’’پرامن‘ ہم آہنگ اور مہذب‘‘ معاشرہ جنم لے کہ اس سے پہلے ہندوئوں کے ہیرو‘ مسلمانوں کے ولن اور مسلمانوں کے ہیرو‘ (محمود غزنوی‘ غوری‘ اورنگ زیب عالم گیر) ہندوئوں کے نزدیک ڈاکو‘ لٹیرے اور غاصب تھے۔ مفروضہ یہ ہے کہ اگر برعظیم میں تاریخ کا یکساں نصاب رائج کر دیا جائے تو تنائو‘نفرت اور جنگوں سے بچا جا سکتا ہے۔ ان حالات میں میرے خیال میں مداہنت مناسب رویہّ نہیں‘ بلکہ سورہ الممتحنہ پر غور وفکر اور اس کی عملی تلاوت ہی بہتر حکمت عملی ہے۔
اشارات (مئی ۲۰۰۱ء) بہت خوب ہیں۔ قرآن فہمی کے سلسلے میں سید مودودی ؒکے ’’مقدمہ‘‘ تفہیم القرآن کے بعد ایسی دل کش تحریر سے سابقہ پڑا۔ آپ نے کمال کیا کہ تصوف پر براہِ راست کسی قسم کا اعتراض کرنے کے بجائے ڈاکٹر اقبال کے مضمون کا حوالہ دیا جس میں انھوں نے ’شعورِ ولایت‘‘ اور ’’شعورِ نبوت‘‘ کی اصطلاحیں استعمال کر کے عربی اسلام اور عجمی اسلام کا فرق بتادیا ہے۔
’’کلام نبویؐ کی کرنیں‘‘ میں یہ پڑھ کر آنکھوں میں آنسو آگئے کہ نبی کریمؐ نے ایک بدو کے درشت رویے کے باوجود اس کے ایک اونٹ پر جو اور دوسرے پر کھجور کے بورے لدوا دیے۔ کون تصور کر سکتا ہے کہ حضورؐ اخلاق کے کس معیار پر تھے!
اپریل ۲۰۰۱ء کے شمارے میں بھکر سے محمد عبداللہ صاحب نے توراکینہ قاضی کے مضمون: ’’عالمی معاشرے میں شادی اور خاندان کا مرکزی کردار (مارچ ۲۰۰۱ء) میں اصل انگریزی الفاظ کو بغیر مناسب اصطلاحات کے شائع کرنے کو غیر مناسب سمجھا۔ آج کل عرب دنیا میں گلوبلائزیشن کے الفاظ کو العولمۃ سے ترجمہ کیا جا رہا ہے۔ گلوبل ازم کے لیے بھی العولمۃ کا لفظ مستعمل ہے۔ گلوبیانا کے بجائے مناسب عالمیانہ ہے۔ گلوبلائزیشن کے لیے عالم گیریت کے بجائے عالمیت بہتر محسوس ہوتا ہے اور انٹرنیشنل کے لیے عالمی۔
’’موثر اور کامیاب شخصیت‘‘ (مئی ۲۰۰۱ء) بہت مفید ہے۔ یہ تحریر ایک اہم تحریکی ضرورت پوری کرتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ داعی الی اللہ کی شخصیت ایسی ہو جسے دیکھ کر آدمی متاثر ہو اور وہ بات ایسے اچھے انداز میں کرے جو مخاطب کے دل میں اتر جائے۔ اپنی شخصیت کو موثر بنانے کے لیے تدابیر زیادہ تفصیل سے سامنے آنی چاہییں۔
’’موثر اور کامیاب شخصیت‘‘ (مئی ۲۰۰۱ء) جیسے مضامین ہر ماہ شائع ہونے چاہییں۔ ’’فروغ سائنس کی اہمیت اور ضرورت‘‘ میں مصنف نے سائنس کی اہمیت کوبڑے اچھے اندازمیں پیش کیا ہے ۔بیرون ملک جا کر واپس نہ آنے والے طلبہ کو کس طرح مادرِ وطن کی فلاح و بہبود کے لیے واپس بلایا جا سکتا ہے؟ اس بارے میں مصنف خاموش ہیں۔
’’اسلامی پارٹی ملایشیا کی پیش قدمی‘‘ بہت پسند آئی۔ البتہ اس کے ساتھ ’’جماعت اسلامی‘‘ کا موازنہ کیا جاتا اور اُن اسباب کا جائزہ لیا جاتا جن کی بدولت جماعت اسلامی‘ پاکستان میں‘ ملایشیا کی اسلامی پارٹی کے برعکس‘ وہ کامیابی حاصل نہ کر سکی۔
’’اسلامی پارٹی ملایشیا کی پیش قدمی‘‘ (مئی ۲۰۰۱ء) سے تحریک اسلامی کے کارکن میں ایک حوصلہ افزا امید پیدا ہوتی ہے۔ دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں میں’’جمہوریت کے راستے سے پیش قدمی‘‘ ایک رہنما اصول ہے۔ اس کے ذریعے مختصر عرصے میں رائے عامہ کو ساتھ لے کر اسلام کو برسرِاقتدار لایا جا سکتا ہے۔ جو مسلم لیڈر جمہوری راستے سے اسلام کے نفاذ کی سرتوڑ مخالفت کرتے ہیں ‘ وہ حقیقت میں بدکردار اور منافقانہ چالیں اختیار کرنے والے حکمرانوں کی مدت اقتدار میں طوالت کو پسند کرتے ہیں اور آمریت کو تقویت دیتے ہیں۔
اکیسویں صدی میں اگر ایک طرف اسلام کا رجحان بڑھ رہا ہے اور اسلام ایک نظامِ زندگی کی حیثیت سے اپنی قوت منوا رہا ہے‘ تو دوسری طرف اسلام کی آڑ میں اور مذہب کے لبادے میں انتہا پسندی اور دہشت گردی بھی بڑھ رہی ہے۔ فرقہ واریت‘ معمولی باتوں پر ایک دوسرے کی تکفیر‘ اور نت نئی عسکری تنظیمیں مستقبل میں عالمی اسلامی تحریک کے لیے کئی مسائل کھڑے کر سکتی ہیں اور عالمی سطح پر اسلام کا چہرہ مسخ ہو سکتا ہے۔ اس محاذ پر صحیح رہنمائی کی ضرورت ہے۔ کشمیر کے ساتھ ساتھ غربت‘ بے روزگاری‘ ظالمانہ ٹیکس اور تعلیم کی ابتری وغیرہ بھی اشارات کا موضوع بننا چاہییں۔
’’اکیسویں صدی اور ہماری ذمہ داریاں‘‘ (اپریل ۲۰۰۱ء) میں یوسف القرضاوی نے ۱۰ نکات پر مشتمل مناسب ایجنڈا دیا۔ یہود نے ’’فرات سے دریاے نیل تک اسرائیل تیری سرحدیں ہیں‘‘ کے نعرے کو پے درپے کوششوں سے اپنے حامیوں کے دلوں میں ڈال دیا ہے۔ اسرائیل کے نعرے فرضی ہیں ان پر تو ان کو اتنا اعتماد کہ وہ جھوٹ کو سچ کرنے پر تلے ہوئے ہیں‘ اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشن گوئیاں جو کہ سچی بشارتیں ہیں اس پر مسلمانوں کو کامل یقین نہیں۔ لگتا ہے کہ ہم صرف قولی مسلمان ہیں اور عمل سے دُور ہیں۔ کفار تو اپنے کفر کے لیے ان تھک کوششیں کر رہے ہیں اور ہم مسلمان لہو و لعب میں مبتلا ہیں بلکہ دشمنان دین کی چالوں کو سمجھ نہیں رہے ہیں اور ان کی سازشوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ ہماری آنکھیں آخر کب کھلیں گی اور ہم اپنی ذمہ داریوں کو کب سمجھیں گے!!
’’کلام نبویؐ کی کرنیں‘‘ (مئی ۲۰۰۱ء‘ ص ۱۷) میں ادب گا ہیست … شعر علامہ اقبال کا لکھا گیا ہے۔ یہ عزت بخاری کا ہے۔