]ترجمہ[ اے ایمان والو‘ اپنے اسلحہ سنبھالو اور جہاد کے لیے نکلو‘ ٹکڑیوں کی صورت میں یا جماعتی شکل میں۔ اور تم میں ایسے لوگ بھی ہیں جو ڈھیلے پڑ جاتے ہیں‘ پس اگر تم کو کوئی گزند پہنچ جائے تو کہتے ہیں کہ مجھ پر اللہ نے فضل کیا کہ میں ان کے ساتھ شریک نہ ہوا ۔ ]النساء ۴:۷۱-۷۲[
’حذر‘ کے اصل معنی کسی خطرہ اور آفت سے بچنے کے ہیں۔ اپنے اسی مفہوم سے ترقی کر کے یہ لفظ ان چیزوں کے لیے استعمال ہوا جو جنگ میں دشمن کے حملوں سے بچنے کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ مثلاً زرہ بکتر‘ سپر‘ خود وغیرہ۔اس کا خاص استعمال تو دفاعی آلات ہی کے لیے ہے‘ لیکن اپنے عام استعمال میں یہ ان اسلحہ پر بھی بولا جاتا ہے جو حملے کے کام آتے ہیں مثلاً تیر‘ تفنگ‘ تلوار وغیرہ۔ یہاں یہ لفظ اپنے عام مفہوم ہی میں معلوم ہوتا ہے۔ ... ’ثبات، ثُبَۃٌ‘ کی جمع ہے۔ ثُبَۃٌ،کے معنی سواروں کی جماعت‘ٹکڑی اور دستے کے ہیں۔
عرب میں جنگ کے دو طریقے معروف تھے۔ ایک منظم فوج کی شکل میں لشکر آرائی‘ دوسرا وہ طریقہ جو گوریلا جنگ [guerilla warfare]میں اختیار کیا جاتا ہے یعنی ٹکڑیوںاور دستوں کی صورت میں دشمن پر چھاپہ مارنا۔ یہاں ’ثبات‘ کے لفظ سے اسی طریقے کی طرف اشارہ ہے۔ مسلمانوں نے یہ دونوں طریقے استعمال کیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منظم فوج کشی بھی فرمائی اور وقتاً فوقتاً سریّے بھی بھیجے۔
’بَطّا یُبَطّیُ‘ کے معنی ڈھیلے پڑنے‘ سست پڑنے اور پیچھے رہ جانے کے بھی ہیں اور دوسروں کو سست کرنے کے بھی۔ ... ایک حدیث میں ہے کہ مَنْ اَبَطَأ بِہٖ عَمَلُہٗ لَمْ یُسْرِعْ بِہٖ لَسَبُہٗ ]مسند احمد‘ ج۲‘ ص ۲۵۲[ جس کا عمل اس کو پیچھے کر دے گا اس کا نسب اس کو آگے نہ بڑھا سکے گا۔
]ترجمہ[پس چاہیے کہ اللہ کی راہ میں جنگ کے لیے وہ لوگ اٹھیں جو دُنیا کی زندگی آخرت کے لیے تج چکے ہیں اور جو اللہ کی راہ میں جنگ کرے گا تو خواہ مارا جائے یا غالب ہو ہم اس کو اجر عظیم دیں گے۔ ]النساء ۴:۷۴[
یہ مسلمانوں کو من حیث الجماعت خطاب کر کے مسلح ہونے اور جنگ کے لیے اُٹھنے کا حکم دیا ہے۔ فرمایا کہ اگر دستوں اور ٹولیوں کی صورت میں دشمن پر چھاپے مارنے کی نوبت آئے تو اس کے لیے بھی نکلو‘ اور اگر منظم ہو کر جماعتی شکل میں فوج کشی کی ضرورت پیش آئے تو اس سے بھی دریغ نہ کرو۔
پھر فرمایا کہ تم میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو جنگ سے خود بھی جی چراتے ہیں اور دوسروں کو بھی پست ہمت کرتے ہیں۔ ان کا حال یہ ہے کہ اگر تمھیں کسی مہم میںکوئی گزند پہنچ جائے تو خوش ہوتے ہیں کہ اللہ نے ہمیں خوب بچایا کہ ہم اس مہم میں ان کے ساتھ شریک نہیں ہوئے اور اگر تمھیں کامیابی حاصل ہوتی ہے تو حاسدانہ کہتے ہیں کہ کاش ہم بھی اس میں شامل ہوتے تاکہ خوب مالِ غنیمت حاصل کرسکتے۔ اس دوسری بات کے ساتھ کَاَنْ لَّمْ تَکُنْ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَہٗ مَوَدَّۃ کے الفاظ اس بات کے کہنے والوں کے باطن پر عکس ڈال رہے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اگر یہ اپنی شامت ِاعمال سے کسی مہم میں شامل نہیں ہوتے تو ایمانی و اسلامی اخوت کا کم از کم تقاضا یہ ہے کہ مسلمانوں کی کامیابی پر خوش ہوں کہ اللہ نے ان کے دینی بھائیوں کو سرخرو کیا۔لیکن انھیں اس بات کی کوئی خوشی نہیں ہوتی‘ بلکہ جس طرح حریف کی کسی کامیابی پر آدمی کا دل جلتا ہے کہ وہ اس میں حصہ دار نہ ہو سکا‘ اسی طرح یہ لوگ اس کو اپنی کامیابی نہیں بلکہ حریف کی کامیابی سمجھتے ہیں اور اپنی محرومی پر سر پیٹتے ہیں۔ گویا اسلام اور مسلمانوں سے ان کا کوئی رشتہ ہی نہیں۔...
آیت کا مطلب یہ ہے کہ یہ منافقین تو صرف اس جنگ کے غازی بننا چاہتے ہیں جس میں نکسیر بھی نہ پھوٹے اورمالِ غنیمت بھی بھرپور ہاتھ آئے۔ خدا کے دین کو ایسے نام نہاد غازیوں کی ضرورت نہیں ہے۔ خدا کی راہ میں جہاد کے لیے وہ اٹھیں جو آخرت کے لیے اپنی دنیا تج چکے ہوں۔ جو لوگ دنیا کو تج کر صرف آخرت کی کامیابی کے لیے جہاد کریں گے وہ مارے جائیں یا فتح مند ہوں‘ دونوں ہی صورتوں میں ان کے لیے اجر ِعظیم ہے۔ رہے یہ لوگ جو صرف اس وقت تک کے لیے مجنوں بنے ہیں‘ جب تک لیلیٰ کی طرف سے ان کو دودھ کا پیالہ ملتا رہے‘ خونِ جگرکا مطالبہ نہ ہو‘ تو ایسے مجنوں یہاں درکار نہیں ہیں۔
]ترجمہ[ اور تمھیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان بے بس مردوں‘ عورتوں اور بچوں کے لیے جنگ نہیں کرتے جو دعا کر رہے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ‘ہمیں اس ظالم باشندوں کی بستی سے نکال اور ہمارے لیے اپنے پاس سے ہمدرد پیدا کر اور ہمارے لیے اپنے پاس سے مددگار کھڑے کر۔ ]النساء ۴:۷۵[
تمھیں کیا ہو گیا ہے کا اسلوب کسی کام پر اُبھارنے اور شوق دلانے کے لیے ہے--- مُسْتَضْعَفسے مرادمظلوم‘ مجبور اور بے بس کے ہیں۔ مُسْتَضْعِفین کا عطف ’فی سبیل اللہ‘پر اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ جو لوگ دین کی وجہ سے ستائے جا رہے ہوں ان کی آزادی کے لیے جنگ ’قتال فی سبیل اللہ‘ میں سب سے اول درجہ رکھتی ہے۔ ... اسلامی جہاد کا اصلی مقصد دنیا سے فتنہ (persecution)کو مٹانا ہے۔ ’قریہ‘ کو یہاں صرف مکّہ کے لیے خاص کر دینے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ ان آیات کے نزول کے زمانے میں مکّہ کے علاوہ اور بھی بستیاں تھیں جن میں بہت سے مرد‘ عورتیں اور بچے مسلمان ہو چکے تھے اور وہ اپنے کافر سرپرستوں یا اپنے قبیلے کے کافر زبردستوں کے ظلم و ستم کا نشانہ بنے ہوئے تھے۔ ’مِنْ لَّدُنْکَ‘ کا موقع استعمال اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ ظاہر حالات تو بالکل خلاف ہیں‘ کسی طرف سے امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی لیکن اللہ تعالیٰ اپنی قدرت اور اپنی عنایت سے کوئی راہ کھول دے تو کچھ بعید نہیں۔
تم ان مردوں‘ عورتوں اور بچوں کو کفار کے ظلم و ستم سے نجات دلانے کے لیے کیوں نہیں اُٹھتے جو کفار کے اندر بے بسی کی حالت میں گھرے ہوئے اور ان سے چھوٹ کر مسلمانوں سے آملنے کی کوئی راہ نہیں پا رہے ہیں؟ جن کا حال یہ ہے کہ رات دن نہایت بے قراری کے ساتھ یہ دُعا کر رہے ہیں کہ: اے پروردگار ہمیں ان ظالم باشندوں کی بستی سے نکال اور غیب سے ہمارے ہمدرد پیدا کر اور غیب سے ہمارے مددگار کھڑے کر۔
اس آیت ]النساء:۷۵[ سے کئی باتیں ظاہر ہو رہی ہیں:
]ترجمہ[جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں اور جنھوں نے کفر کیا وہ طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں۔ تو تم شیطان کے حامیوں سے لڑو‘ شیطان کی چال تو بالکل بودی ہوتی ہے۔ ]النساء۴:۷۶[
یہ آیت اہل ایمان کی حوصلہ افزائی کے لیے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اہل ایمان کی جنگ خدا کی راہ میں ہوتی ہے اور خدا ان کے سر پر ہوتا ہے۔ برعکس اس کے اہل کفر کی جنگ شیطان کی راہ میں ہوتی ہے اور شیطان ان کے سر پر ہوتا ہے۔ گویا مقابلہ اصلاً رحمن اور شیطان کے درمیان ہوتا ہے۔ چونکہ خدا نے شیطان کو بھی ایک محدود دائرے کے اندر مہلت دی ہے‘ اس وجہ سے وہ اپنے حامیوں کو کچھ چالیں بتاتا اور سکھاتا ہے لیکن آخر خدا کے کیدمتین کا مقابلہ وہ اور اس کے اولیا کیا کر سکتے ہیں؟ اس وجہ سے اہل ایمان کو ان سے ڈرنا نہیں چاہیے۔ اگر انھوں نے خدا کی وفاداری میں کوئی کمزوری نہیں دکھائی تو بہرحال کامیابی انھی کی ہے۔
...کسی کام کی کوئی مضبوط بنیاد اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتی جب تک وہ بنیاد حق پر نہ ہو۔ شیطان کے ہر کام کی بنیاد چونکہ باطل پر ہوتی ہے‘ اس وجہ سے اس کے مستحکم ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
آگے انھی منافقین کی مزید کمزوریاں اور شرارتیں واضح کی جا رہی ہیں‘ تاکہ مسلمان ان کے فتنوں سے آگاہ ہو جائیں اور ان کی وسوسہ اندازیوں سے مسلمانوں کے اندر جو غلط اور منافی ء توحید و اسلام رجحانات اُبھر سکتے ہیں ان کا اچھی طرح ازالہ ہو جائے:
پہلے ان منافقین کے اس رویے پر توجہ دلائی کہ اب تک تو یہ اپنے ایمان و اخلاص کی دھونس جمانے کے لیے بہت بڑھ چڑھ کر جہاد کے لیے مطالبہ کر رہے تھے‘ معلوم ہوتا تھا کہ ان میں سے ایک ایک شخص جہاد کے عشق سے سرشار ہے لیکن پیغمبرؐ کی طرف سے ان کو صبر و انتظار کی ہدایت کی جاتی تھی کہ ابھی اس کا وقت نہیں آیا ہے‘ ابھی نماز اور زکوٰۃ کے اہتمام کے ذریعے سے اپنے آپ کو مضبوط اور منظم کرو‘ تاکہ وقت آنے پر پوری مومنانہ شانِ استقامت کے ساتھ خدا کی راہ میں لڑ سکو۔ لیکن جب جنگ کا حکم دے دیا گیا ہے تو چھپتے پھرتے ہیں اور خدا سے زیادہ انسانوں سے ڈرتے ہیں اور شاکی ہیں کہ اتنی جلدی جہاد کا حکم کیوں دے دیا گیا ہے۔
اس کے بعد ان کو مخاطب کر کے فرمایا کہ فرائض سے فرار موت سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔موت اپنے وقت ہی پر آئے گی اور جب اس کا وقت آجائے گا تو وہ ہر شخص کو ڈھونڈ نکالے گی خواہ وہ کتنے ہی مضبوط قلعوں کے اندر چھپا بیٹھا ہو۔
اس کے بعد منافقین کی ایک شرارت کا ذکر فرمایا کہ یہ لوگ مسلمانوں سے متعلق امن یا خطرے کی کوئی بات سنتے ہیں تو اس کو لے اُڑتے ہیں اور لوگوں کے اندر سنسنی پیدا کرنے کے لیے اس کو پھیلادیتے ہیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ ملت کے بدخواہ اور اس کے اندر انتشار کے خواہاں ہیں۔ اگر یہ خیرخواہ ہوتے تو اس طرح کی کوئی بات اگر ان کے علم میں آتی تو پہلے اس کو رسولؐ اور امت کے ارباب حل و عقد کے سامنے لاتے تاکہ وہ اس کے تمام پہلوئوں پر غور کر کے فیصلہ کر سکتے کہ اس صورت میں کیا قدم اٹھانا چاہیے۔
فرمایا کہ جنگ کا جو حکم تمھیں دیا جا رہا ہے اس میں تم پر اصل ذمہ داری تمھارے اپنے ہی نفس کی ہے‘ تم خود اٹھو اور مومنین مخلصین کو اٹھنے کی ترغیب دو۔ اللہ چاہے گا تو تمھارے ہی ذریعے سے وہ ان کفار کا زور توڑ دے گا۔ اللہ بڑی زبردست طاقت والا ہے۔ رہے یہ منافقین تو ان کو ان کے حال پر چھوڑو۔ جو کسی کارِخیر میں تعاون کرتا اور اس کے حق میں لوگوں کو اُبھارتا ہے‘ وہ اس میں سے حصہ پائے گا اور جو کسی کارِخیر سے خود رکتا ہے اور دوسروں کو روکنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ اپنے اس عمل سے حصہ پائے گا۔
]ترجمہ[ تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن سے کہا جاتا تھا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز کا اہتمام رکھو اور زکوٰۃ دیتے رہو‘ تو جب ان پر جنگ فرض کر دی گئی تو ان میں سے ایک گروہ لوگوں سے اس طرح ڈرتا ہے جس طرح اللہ سے ڈرا جاتا ہے‘ یا اس سے بھی زیادہ۔ وہ کہتے ہیں‘ اے ہمارے ربّ‘ تو نے ہم پر جنگ کیوں فرض کر دی‘ کچھ اور مہلت کیوں نہ دی۔ کہہ دو‘ اس دنیا کی متاع بہت قلیل ہے اور جو لوگ تقویٰ اختیار کریں گے ان کے لیے آخرت اس سے کہیں بڑھ کر ہے‘ اور تمھارے ساتھ ذرا بھی حق تلفی نہ ہوگی۔ ]النساء ۴: ۷۷[
اس دور میں کفار کے علاقوں میں مسلمانوں کی مظلومیت اور بے بسی... ]کے[ ان حالات سے مدینہ کے مسلمانوں کے اندر جنگ کا احساس پیدا ہونا ناگزیر تھا۔ مسلمان اپنے اس احساس کا ذکر نبیؐ سے کرتے تو منافقین بھی پورے جوش و خروش سے جذبۂ جنگ کا اظہار کرتے ‘بلکہ اپنی کمزوریوں پر پردہ ڈالنے کے لیے کچھ زیادہ ہی جوش و خروش کا اظہار کرتے۔ قاعدہ یہ ہے کہ جس کا عمل کمزور ہو وہ ایک قسم کے احساسِ کہتری میں مبتلا ہو جاتا ہے‘ جس کے سبب سے اسے لاف زنی کا سہارا لینا پڑتا ہے‘ تاکہ اس کی بزدلی کا راز دوسروں پر کھلنے نہ پائے۔ چنانچہ منافقین بھی زبان سے بڑے ولولے کا اظہار کرتے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم انھیں روکتے کہ ابھی انتظار کرو اور نماز کے اہتمام اور زکوٰۃ کے ذریعے سے اپنے تعلق باللہ‘ اپنی تنظیم اور اپنے جذبۂ انفاق کو ترقی دو۔ لیکن جب اس کا وقت آگیا اور جنگ کا حکم دیا گیا تو زبان کے ان غازیوں کا سارا جوش سرد پڑ گیا‘ اب یہ چھپنے کی کوشش کرتے اور دل میں جو رُعب اور خشیت خدا کے لیے ہونی چاہیے اس سے زیادہ دہشت ان کے دلوں پر انسانوںکے لیے طاری تھی۔ ...فرمایا ‘ ان سے کہہ دو کہ اس دنیا کی زندگی اور اس کا عیش و آرام تو چند روزہ ہے۔ اس کے لیے اتنی بے قراری کیوں ہے۔ عیشِ دوام تو آخرت میں ہے‘ جو لوگوں سے ڈرنے والوں کے بجائے اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے ہے۔ اس کے لیے کمر باندھیں اور اطمینان رکھیں کہ جو کریں گے اس میں سے رتی رتی کا صلہ پائیں گے۔ ذرا بھی ان کے ساتھ کمی نہیں کی جائے گی۔
اس آیت سے یہ بات نکلتی ہے کہ اسلامی جنگ کی روح اور نماز و زکوٰۃ میں نہایت گہری مناسبت ہے۔ جو لوگ خدا کی راہ میں لڑنے کے لیے تیار ہو رہے ہوں‘ ان کے لیے اسلحہ کی ٹریننگ سے زیادہ ضروری اقامت صلوٰۃ اور ایتائے زکوٰۃ ہے۔ جہاد میں جو للہیت‘ اخلاص اور نظم و طاعت کی جو پابندی مطلوب ہے ‘اس کی بہترین تربیت نماز سے ہوتی ہے ۔ اس کے لیے انفاق فی سبیل اللہ کا جو جذبہ درکار ہے‘ وہ ایتائے زکوٰۃ کی پختہ عادت سے نشوونما پاتا ہے۔ ان صفات کے بغیر اگر کوئی گروہ جنگ کے لیے اٹھ کھڑا ہو تو اس جنگ سے کوئی اصلاح وجود میں نہیں آ سکتی‘ اس سے صرف فساد فی الارض میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ یہی حکمت ہے کہ اسلامی جنگ کے سخت سے سخت حالات میں بھی نماز کے اہتمام و التزام کی تاکید ہوئی۔
]ترجمہ [ اورموت تم کو پالے گی تم جہاں کہیں بھی ہو گے‘ اگرچہ مضبوط قلعوں کے اندر ہی ہو۔ اور اگر ان کو کوئی کامیابی حاصل ہوتی ہے تو کہتے ہیں‘ یہ خدا کی طرف سے ہے‘ اور اگر کوئی گزند پہنچ جائے تو کہتے ہیں‘ یہ تمھارے سبب سے ہے۔ کہہ دو‘ ان میں سے ہر ایک اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ ]النساء ۴:۷۸[
منافقین کے خوفِ موت کی علّت بھی واضح فرمائی ہے اور اس عقیدے کو بھی بیان فرمایا ہے‘ جو اس خوف کا واحد علاج ہے۔ فرمایا کہ موت سے کسی کے لیے مفر نہیں ہے‘ جس کی موت جس گھڑی‘ جس مقام اور جس شکل میں لکھی ہے وہ آکے رہے گی‘ آدمی مضبوط سے مضبوط قلعوں کے اندر چھپ کے بیٹھے وہاں بھی موت اس کو ڈھونڈ لے گی‘ اس وجہ سے اس سے ڈرنا اور بھاگنا بے سود ہے۔ آدمی پر جو فرض جس وقت عائد ہوتا ہے‘ اس کو عزم و ہمت سے ادا کرے اور موت کے مسئلے کو خدا پر چھوڑے۔ آدمی کے لیے یہ بات تو جائز نہیں ہے کہ وہ تدابیر اور احتیاطوں سے گریز اختیار کرے‘ اس لیے کہ اس کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ خداکو آزمائے ۔ لیکن ساتھ ہی یہ بات بھی جائز نہیں ہے کہ وہ یہ گمان رکھے کہ وہ اپنی تدابیر سے اپنے آپ کو موت سے بچا سکتا ہے۔
پھر منافقین کی ایک اور حماقت کی طرف بھی اشارہ فرمایا جس کو ان کی اس بزدلی کی پرورش میں بڑادخل تھا وہ یہ کہ حق و باطل کی اس کش مکش کے دوران میں جو نرم و گرم حالات پیش آرہے تھے وہ ان سب کو خدا کی طرف سے نہیں سمجھتے تھے‘ بلکہ کامیابیوں کو تو خدا کی طرف سے سمجھتے‘ لیکن کوئی مشکل یا کوئی آزمایش پیش آجائے تو اسے پیغمبر کی بے تدبیری پر محمول کرتے ۔
]ترجمہ[ جب ان کو کوئی بات امن یا خطرے کی پہنچتی ہے تو وہ اسے پھیلا دیتے ہیں... پس اللہ کی راہ میں جنگ کرو۔ تم پر اپنی جان کے سوا کسی کی ذمہ داری نہیں ہے اور مومنوں کو اس کے لیے اُبھارو۔توقع ہے کہ اللہ کافروں کے دبائو کو روک دے ... اور اللہ ہر چیز کی طاقت رکھنے والا ہے ]النساء ۴:۸۴-۸۵[
منافقین چونکہ ملّت کے خیرخواہ نہیں تھے‘ اس وجہ سے افواہیں پھیلانے کے معاملے میں بڑے چابک دست تھے۔ امن یا خطرے کی جو بات بھی ان کو پہنچتی آن کی آن میں جنگل کی آگ کی طرح ان کے ذریعے سے لوگوں میں پھیل جاتی۔ جماعتی زندگی میں افواہیںعام حالات میں بھی بڑے خطرناک نتائج پیدا کر سکتی ہیں اور جب حالات جنگ کے ہوں‘ تب تو ان کی خطرناکی دوچند ہو جاتی ہے۔ منافقین ان افواہوں سے یوں تو مختلف فائدے اُٹھانے کی کوشش کرتے لیکن خاص طور پر مسلمانوں‘ بالخصوص کمزور مسلمانوں کے حوصلے پست کرنے کے لیے یہ ان کا خاص حربہ تھا۔ بعض مرتبہ وہ اس طرح کی افواہوں سے مسلمانوں کے اندر غلط قسم کا اطمینان بھی پیدا کرنے کی کوشش کرتے اور ظاہر ہے کہ بے جا تشویش کی طرح غلط اطمینان بھی ایک خطرناک چیز ہے۔
منافقین‘ قرآن کی دعوتِ جہاد کے لیے لوگوں کو اُبھارنے کے بجائے لوگوں کا حوصلہ پست کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس وجہ سے قرآن نے ان کی اس کوشش کو شفاعت سیئہ سے تعبیر کیا۔
اس مجموعۂ آیات کا آغاز اس مضمون سے ہوا تھا کہ پہلے تو منافقین بہت بڑھ بڑھ کر جنگ و جہاد کی باتیں بناتے تھے‘ لیکن اب جب کہ جنگ کا حکم دے دیا گیا ہے تو چھپتے پھرتے ہیں اور دوسروں کا حوصلہ بھی پست کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔... یہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کر کے فرمایا جا رہا ہے کہ آپ ؐ پر ذمّہ داری صرف اپنے نفس کی ہے‘ آپؐ خود جنگ کے لیے اُٹھیے اور مسلمانوں کو اٹھنے کے لیے اُبھاریے‘ جس کو توفیق ہوگی‘ وہ اُٹھے گا‘ جو نہیں اُٹھے گا اس کی ذمہ داری آپ ؐپر نہیں ہے۔ ... وہ آپؐ کے اور آپؐ کے مخلص ساتھیوں ہی کے اندر اتنی قوت پیدا کر دے گا کہ اسی سے کفار کا زور ٹوٹ جائے گا۔
اس کے بعد فرمایا کہ منافقین جو ریشہ دوانیاں اور افواہ بازیاں مسلمانوں کا حوصلہ پست کرنے اور جہاد سے روکنے کے لیے کر رہے ہیں‘ اس کی پروا نہ کیجیے۔ جو آج حق کی تائید و حمایت میں اپنی زبان کھولیں گے وہ اس کا اجر پائیں گے اور جو اس کے خلاف کہیں گے وہ اس کی سزا بھگتیں گے۔ خدا سب کچھ دیکھ رہا ہے اور ہر چیز پر قادر ہے۔ (تدبر قرآن‘ ج ۲‘ ص ۳۳۳-۳۴۹۔ ترتیب: سلیم منصور خالد)