...فاقہ کش‘ غریب اور مفلس عرب جو اپنے ملک کے خاص حالات کے لحاظ سے ایام جاہلیت میں معاشی حیثیت سے انتہائی سخت کوشیوں کا شکار بنا ہوا تھا‘ تعیش و رفاہیت کی زندگی کا تو کیا ذکر ہے‘ ضروری معاشی رسد کی تکمیل میں بھی ان کو آسمان و زمین کے قلابے ملانے پڑتے تھے۔ ساری عمر عرب کے چٹیل ریگستانی اور سنگستانی صحرائوں میں بے چارے صرف اس لیے دوڑتے پھرتے تھے کہ دو وقت کی خشک روٹی خواہ کسی شکل میں ہو ‘ مل جائے اور وہ بھی بہ مشکل میسر آتی تھی‘ لیکن اسلام نے ایک طرف ان کے باطنی قویٰ اور ذہنی طلب میں یہ طوفان برپا کیا‘ دوسری طرف ۱۵‘۲۰ سال کی مدت میں جسمانی اور معاشی مطالبوں کے لیے رسد کا ایک ایسا بے تھاہ سمندر ان کے اس غیرآباد‘ قلیل التعداد ملک میں ٹھاٹھیں مارنے لگا کہ سچ یہ ہے کہ اس کی نظیر بھی عرب کے آسمانوں نے نہ اس سے پہلے دیکھی تھی‘ اور نہ آج تک پھر وہ تماشا دیکھنا اسے نصیب ہوا۔ اُن خزائن اور دفائن‘ غنائم اور نفل کے سوا جو قرنہا قرن سے کسریٰ ایران کے خزانے میں جمع ہو رہے تھے‘ یا وہ دولت جو زمینِ فرعون (مصر) سے یا ارض شام سے آئی تھی‘ ستون فی ستین (یعنی ۶۰ گز لمبا ‘۶۰ گز چوڑا) والا جواہر نگار بہار نامی ایرانی غالیچہ جس کے تمام نقش و نگار‘ جن کا تعلق مختلف مناظراور موسموں سے تھا‘ انمول جواہرات کے ذریعے سے کاڑھے گئے تھے‘ کسریٰ کا وہ مرصع تاج جو اپنے قیمتی اور وزنی پتھروں کی وجہ سے بجائے سر پر رکھنے کے سونے کی زنجیر سے لٹکا دیا جاتا تھا اور کج کلاہ ایران اسی میں اپنا سر داخل کر دیتا تھا‘ کھجوروں کے تنے پر مدینہ میں جو مسجد کھڑی تھی اس میں یکے بعد دیگرے یہ سب کچھ ہر طرف سے چلا آ رہا تھا۔ خوراکی رسد کا یہ حال تھا کہ عام رمادہ کے قحط میںحضرت عمرؓ نے مصر کے والی عمرو بن عاصؓ کو غلے کے لیے جب لکھا تو انھوں نے جواب دیا کہ اونٹوں کی ایسی قطار غلے سے لاد کر پایۂ تحتِ خلافت میں بھیجتا ہوں جس کا پہلا اونٹ مدینہ میں ہوگا اور آخری اونٹ کی دُم میرے ہاتھ میں ہوگی۔...
ذہبی نے لکھا ہے کہ عہد فاروقی تک پہنچتے پہنچتے مدینہ کے بازار کی یہ حالت ہو گئی تھی کہ عہد نبوتؐ میں جس گدھے کی قیمت ۱۵درہم تھی‘ اب وہ ۱۵ سو میں ملتا تھا۔ بخاری کی مشہور روایت ہے کہ حضرت زبیرؓ نے غابہ کی زمین جومدینہ کے پاس ہے کل ایک لاکھ ۷۰ ہزار درہم میں مول لی تھی‘ لیکن ان کے بیٹے حضرت عبداللہؓ نے اسے جب فروخت فرمایا تو اس کی قیمت ۱۶ لاکھ ملی تھی۔ حضرت زبیرؓ کی جایداد کی قیمت جیسا کہ بخاری میں ہے ۵۰ کروڑ ۲ لاکھ لگائی گئی تھی--- صحابہ اور صحابہ کی اولاد جو وہی عرب تھے جن کے پاس ہزار کے اوپر عدد کے لیے کوئی لفظ ہی نہ تھا‘ لاکھوں اور کروڑوں کی تعداد میں ایک ایک وقت میں صرف خیرات کرتی تھی‘ یا اپنے ملنے جلنے والے احباب و اعزہ کو دے ڈالتی تھی۔ (’’تدوین حدیث‘ ‘ ، مناظر احسن گیلانی‘ ماہنامہ ترجمان القرآن‘ جلد ۱۸‘ عدد ۴‘ ۵‘ ۶‘ ربیع الآخر‘ جمادی الاولیٰ‘ جمادی الآخرہ ۱۳۶۰ھ‘ جون‘ جولائی‘ اگست ۱۹۴۱ء‘ ص ۱۵۲- ۱۵۴)