جون ۲۰۰۱

فہرست مضامین

کامیابی‘ عزم‘ آزمایش

ڈاکٹر نذیر شہید | جون ۲۰۰۱ | دعوت و تحریک

Responsive image Responsive image

ڈاکٹر نذیرشہیدؒ کی زندگی میں تحریک اسلامی کے کارکنوں کے لیے بہت سے نمونے ہیں۔ اپنے ذاتی مفاد کو راہِ حق میں ایک دفعہ نہیں بلکہ مسلسل قربان کرتے چلے جانا‘ اس راہ میں کام کرنے کی لگن بلکہ دھن‘ کام کے مواقع خود تلاش کرنا اور موقع ہاتھ آتے ہی آگے بڑھ کر اس سے کام لینا‘ عوام کے دلوں میں اپنے اخلاق‘ اپنی ہمدردی ‘ اپنے جذبہ خدمت‘ اور اپنی عملی سرگرمی سے جگہ پیدا کرنا‘ مخالف طاقتوں کے مقابلے میں نڈر اور بے خوف ہو کر کام کرنا‘ پے درپے چوٹیں کھا کر بھی جہاد سے منہ نہ موڑنا۔ یہ ان کی چند نمایاں خوبیاں ہیں جو اس تحریک کے ہر کارکن میں ہونی چاہییں۔

(سیدابوالاعلٰی مودودیؒ)


کامیابی کی شرائط: ’’دُنیا کی ہر تحریک خواہ وہ غلط نظریات کی آبیاری کے لیے اُٹھے یا صحیح نظریات کی نمایندگی کرے‘ جب تک اس میں عوام کے دل کی دھڑکنیں اور عوامی جذبات کی گرمی شامل نہ ہوگی‘ مخصوص کارکنان کے خلوص اور قربانی کے باوجود وہ تحریک کوئی محسوس انقلاب برپا نہیں کر سکتی۔ اللہ تعالیٰ اپنے خاص فضل و کرم سے آزمایش کے بعد کوئی راہ کھول دے تو وہ قادرِ مطلق ہے۔ لیکن یہ بات اس کی عمومی سنّت کے خلاف ہے۔

خود حضور پاکؐ کی اٹھائی ہوئی اوّلین تحریک اسلامی اس وقت کامیابی کے مراحل میں داخل ہوئی جب آپؐ کی نبوت اور رسالت اور آپؐ کا پیغام مدینہ کی معصوم بچیوں کی زبان پر جاری ہوگیا‘ اور عوامی جذبات تحریک سے ہم آہنگ ہو گئے۔ لیکن یہ کام کچھ یونہی نہیں ہو گیا تھا بلکہ حضور پاکؐ اور آپؐ کے صحابہؓ کو عوامی زبان پر اپنا پیغام لانے کے لیے کئی زبانیں کٹوانا پڑیں۔ اسلامی نظریات کو سربلند کرنے کے لیے کتنے سر دشمن کی تلوار سے نِگوں ہوئے۔ تحریک اسلامی کا پیغام عوامی دل کی دھڑکن اور جذبات کی گرمی اس وقت بنا جب کئی دل سینوں سے نکال لیے گئے اور چبا لیے گئے۔

علمی کاموں سے علمی تحریک ہوگی اور عملی کاموں سے عملی تحریک ہو گی۔ جہاں علم اور عمل میں مطابقت ہو جائے گی‘ کارکنان میں صبر و استقلال‘ ایثار و قربانی‘ اور پھر آخر میں خدا کا فضل و کرم ہوگا تو تحریک عوامی اور انقلابی بن جائے گی اور خدا تعالیٰ اس تحریک کے ذریعے ساری دنیا کو آزمایش میں ڈال دے گا۔ پھر لوگ اس تحریک کا ساتھ دے کر فلاح پائیں گے اور مخالفت کر کے سزا پائیں گے۔

اور پھر تحریک کا انجام خدا کے ہاتھ میں ہے‘ چاہے تو دنیا میں اس کے ذریعے انقلاب مکمل کر دے اور حالات کو یکسر بدل دے‘ چاہے تو تحریک کے سرفروشوں کو درمیان سے اُٹھا لے اور قوم کو ذلّت و رسوائی کے لیے جابر و ظالم حاکموں کے سپرد کر دے‘‘۔

صاحبانِ عزیمت کا کردار:  ’’کل تاریخ دعوت و عزیمت کا باب لکھ رہا تھا‘ بار بار خیال آتا کہ تاریخ اسلامی کا جو ورق پلٹ کر دیکھو‘ اصحابِ علم و فضل کی قطاریں لگی ہیں۔ رشد و ہدایت کے سلسلے چل رہے ہیں۔ دعوت اور سلوک کی منزلیں طے ہو رہی ہیں لیکن دوسری طرف قوت و اقتدار کے جلو میں ظلم و طاغوت‘ جور و عصیاں کا سیلاب ہے کہ اُمنڈتا چلا جاتا ہے‘یا تو کوئی روکنے والا نہیں اُٹھا‘ یا پھر کسی کے روکے نہیں رُکتا۔

بڑوں بڑوں کا عذر ہوتا ہے کہ وقت ساتھ نہیں دیتا۔ اور سروسامان اور اسباب کار فراہم نہیں۔ لیکن وقت کا عازم و فاتح صاحب عزیمت اٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر وقت ساتھ نہیں دیتا تو میں اسے ساتھ لوں گا۔ اگر سروسامان نہیں تو اپنے ہاتھ سے تیار کر لوں گا۔ اگر زمین موافق نہیں تو آسمان کو اُترنا چاہیے۔ اگر ساتھ دینے والے آدمی نہیں ملتے تو فرشتوں کو بلاتا ہوں۔ اگر انسانوں کی زبانیں گنگ ہو گئی ہیں تو پتھروں کو بولنا چاہیے۔ اگر ساتھ چلنے والے نہیں تو کیا ہوا‘ درختوں کو ساتھ دوڑنا چاہیے‘ اگر دشمن بے شمار ہیں تو آسمان کی بجلیوں کا بھی کوئی شمار نہیں۔ اگر رکاوٹیں اور مشکلات بہت ہیں تو پہاڑوں اور طوفانوں کو کیا ہو گیا ہے کہ اُٹھیں اور راستہ صاف کریں کہ ایک صاحب عزیمت جادہ پیما ہے۔ وہ زمانہ کی مخلوق نہیں ہوتا کہ زمانہ اس سے اپنی چاکری کرائے‘ وہ وقت کا خالق اور عہد کا پالنے والا ہوتا ہے۔ زمانے کے حکموں پر نہیں چلتا بلکہ زمانہ اس کی جنبشِ لب کا منتظر رہتا ہے۔ وہ زمانے پر اس لیے نظر نہیں ڈالتا کہ یہاں کیا کیا ہے جس سے دامن بھر لوں‘ وہ یہ دیکھنے کے لیے آتا ہے کہ کیا کیا نہیں ہے کہ پورا کر دوں۔ یہ ان بزرگوں کا فیض ہے جن کے ذکر سے زبان لذّت لیتی ہے اور قلم باوجود بیماری کے صفحۂ قرطاس پر الفاظ بن کر بولتا ہے اور ذہن ان کی یادوں سے معمور ہے۔ یہ اصحاب عزیمت صرف اسلامی تاریخ ہی میں نہیں بلکہ تاریخ انسانی میں روشنی کے مینار ہیں۔ بھولے بھٹکے انسانی قافلوں کو راہ دکھاتے ہیں۔ آج کل طبیعت کا رنگ ہی کچھ اور ہے۔ دل چاہتا ہے‘ قدم اٹھتے رہیں اور

بازو حرکت کرتے رہیں کہ اُڑ کر ان نفوس قدسیہ کے قافلے میں شریک ہوجائوں۔ مجھ بدنصیب کو اگر ساتھ نہ بھی لے چلیں تو مجھے اس مقدس کارواں کی گرد راہ کا ایک ذرئہ حقیر بننا سوجان سے عزیز ہے‘‘۔

آزمایش اور نمود و نمایش: ’’راہِ حق میں بیٹھنا‘ کھڑے ہونا‘ چلنا اور بھاگنا‘ یہ سب ایک ہی حال کی مختلف کیفیتیں ہیں۔ راہِ حق کے مظاہرے جہاں جان لیوا ہوتے ہیں‘ وہاں اپنے اندر نمود و نمایش کی ایک خطرناک آزمایش بھی رکھتے ہیں۔ بڑے بڑوں کے قدم اس راہ پر ڈگمگا گئے۔ راہِ حق میں مار کھانا اور جسم و جان اور مال و منال کی بازی لگانا بہت مشکل ہے۔ لیکن اس سے بھی سخت مرحلہ اس کے بعد آتا ہے۔ وہ مرحلہ نمود و نمایش‘ نعرہ و تحسین‘ تعریف‘ توصیف‘ شہرت اور ناموری کا ہوتا ہے۔ اس لیے جہاں پہلے مرحلے میں حالات و مشکلات‘ مصائب و شدائد کا مقابلہ کرنے کے لیے صبر و حوصلہ‘ عزم وہمّت‘ جوش و استقلال‘ ثبات و استقامت کی ضرورت ہے وہاں دوسرے مرحلے میں صفاے قلب و نظر‘ صبر و استغنا‘ بے نیازی اور سیرچشمی‘ وسعت قلب و نظر اور وسیع الظرفی کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ ایسے مجاہد جو راہِ حق کے پہلے مرحلے سے ہنستے کھیلتے گزر گئے۔ کوڑے کھائے‘ بازو تڑوائے‘ قیدوبند کی صعوبتیں جھیلیں--- لیکن جب اس آزمایش میں ثابت قدم رہنے کی وجہ سے شہرت و ناموری ملی‘ تحسین و آفرین کے ڈونگرے برسے اور شاہانِ وقت کی طرف سے انعام و اکرام کی بارش ہوئی تو فضاے بسیط اور آسمان کی بلندیوں پر اڑنے والا شاہین دانے کے لالچ میں اندھا ہو کر گرا اور ہم رنگ زمین دام کو بھی نہ دیکھ سکا اور ہمیشہ کے لیے اسیرِدام ہوگیا۔ جو لوگ راہِ حق میں جان پر کھیل جانے کا عزم لے کر اٹھے اور وقت آنے پر چٹان کی طرح ڈٹ بھی گئے لیکن وہی لوگ نفس کی معمولی سی تحریک کے سامنے ہتھیار ڈال گئے‘‘۔

آخری نماز: ’’حضور پاکؐ فرمایا کرتے تھے: ’’تم نماز اس طرح پڑھو کہ زندگی کی آخری نماز ہے‘‘۔ کہنے کو تو یہ فرمان واعظوں سے سنتے ہیں اور خود لوگوں کو سناتے ہیں۔

ذرا اس نماز کا تصور تو کر کے دیکھو کہ فرشتہ اجل باہر دروازے میں دستک دے--- تمھارے پوچھنے پر وہ کہے کہ میں تمھاری روح قبض کرنے آیا ہوں اور تمھیں آخری نماز پڑھنے کی اجازت ہے۔ جتنا وقت چاہو اپنے ربّ کے حضور توبہ و استغفارکر لو۔ فرشتۂ اجل کا حکم سن کر تم اٹھتے ہو--- کیسے اٹھتے ہو--- پھر وضو کرتے ہو‘ کیسے وضو کرتے ہو۔ اور پھر اپنے ربّ کے حضور کھڑے ہو جاتے ہو۔ قیام‘ قعود‘ رکوع و سجود کی کیا کیفیت ہوگی--- میرا خیال ہے اوّل تو قیام ہی طویل ہوگا اور اگر اس نماز میں سجدہ نصیب ہو گیا تو پھر سجدے سے سر‘ حشر کے دن بلاوے پر ہی اٹھے گا۔ یہ تو نماز کا ظاہر ہوا۔ اور اس کے باطن کا حال اللہ ہی کو معلوم ہوگا‘‘۔

(سوانح ڈاکٹر نذیر احمد شہیدؒ  از ایم خالد فاروق چودھری)