دُنیا کے مختلف حصوں میں مسلمان آج جس پُرآشوب دور سے گزر رہے ہیں‘ اس کا ایک منظر بھارت کے صوبہ گجرات میں حالیہ مسلم کُش منظم قتل و غارت اور آتش زنی کا سلسلہ ہے۔ ذرائع ابلاغ نے ممکن بنا دیا ہے کہ دنیا میں ہر جگہ اپنوں اور غیروں سب کو معلوم ہو جائے‘ بلکہ وہ بچشم سر دیکھ لیں‘ کہ بے بس‘ بے گناہ اور معصوم مسلمان آبادیوں پر کس کس طرح کے کیا کیا ظلم روا رکھے گئے۔ سب سے بڑی جمہوریہ کہلانے کا دعویٰ رکھنے والی مرکزی اور صوبائی حکومت نے اپنے شہریوں کی جان و مال اور آبرو کی حفاظت کے لیے کچھ نہ کیا۔ نہ وہ عالمی ٹھیکے دار جاگے‘ جو خود چاہے کتنے ہی حقوق پامال کریں‘ لیکن دوسروں کو انسانی حقوق کے درس دیتے نہیں تھکتے۔ بھارت میں بسنے والے بے بس مسلمانوں پر ظلم کرنے والے بھارتی ہندو ان کے اپنے ہیں‘ اور نئے عالمی نظام میں اپنوں کو سب کچھ کرنے کی آزادی اور پھر اس پر مکمل تحفظ ہے۔ اتنا کہ کلنک کے ٹیکوں کے باوجود وہ بدنام بھی نہیں ہوتے۔
گودھرا کے واقعے کو بنیاد بنا کر ردعمل کے عنوان سے پوری ریاست میں وحشت و درندگی کا جو سوچا سمجھا کھیل کھیلا جا رہا ہے اس میں‘ متاثرہ لوگوںکے ایک گروپ کی ای میل کے مطابق ۱۲ مارچ ۲۰۰۲ء تک ۵ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں‘ ۵۰ ہزار بے گھر افراد ۲۵ ریلیف کیمپوں میں ہیں (اور یہاں بھی ان پر حملے کیے گئے)۔ برودہ میں ۱۲‘ احمدآباد میں ۱۰ اور متاثرہ دیہاتوں میں تمام مساجد شہید کر دی گئی ہیں‘ کئی کو مندر میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ ای میل میں تباہ شدہ محلوں اور دیہاتوں کی فہرست بھی دی گئی ہے۔ گلمرگ سوسائٹی میں ۷۲ افراد گھربار سمیت جلا دیے گئے۔ لوناوادا کی ہائی وے پر ۴۲ افراد ٹرک میں جلا دیے گئے۔ برودہ کی بیسٹ بیکری میں ۱۸ افراد جلائے گئے۔ نارودا پاٹا کے قریب ایک کنویں میں مسلمانوں کی ۳۵۰ لاشیں پھینکی گئیں۔ خواتین کی عصمت دری بھی کی گئی (جلانے کا کام تو اتنے فخر سے کیا گیا کہ باقاعدہ بینر لگایا گیا: Learn from us how to burn Muslims ۔ نیوز ویک‘ ۱۱ مارچ ۲۰۰۲ء‘ ص ۶)
منصوبے کے تحت املاک اور جایداد تباہ کی گئیں۔ اس رپورٹ کے مطابق شہر اورہائی وے پر مسلمانوں کے ۲۰۰ ہوٹل جلا دیے گئے۔ نواں بازار اور منگل بازار دو کپڑا مارکیٹ ہیں‘ یہاں ۱۶۳ دکانیں تباہ کر دی گئیں۔ جس جگہ مسلمان کم تعداد میں تھے ان کی جایداد جلا دی گئی۔ مکانات اور مسجدیں جلانے کے لیے ایل پی جی گیس اور آکسیجن سلنڈر استعمال کیے گئے۔ پٹرول کا ٹرک ساتھ چلتا تھا۔ فسادی گروہوں کو خوراک‘ اسلحہ اور طبی امداد پہنچانے کا مکمل انتظام تھا۔ ہر طرح کا اسلحہ مہیا کیا گیا۔ انھیں خوراک اور شراب کے علاوہ ۵۰۰ روپے روز کے دیے گئے۔ مارے جانے پر خاندان کو ۲ لاکھ روپے دیے گئے۔ گرفتاری کی صورت میں تمام اخراجات اور قانونی امداد وشوا ہندو پریشد کے ذمے ہے۔ نئے نئے طریقے ایجاد کیے گئے۔ ایک محلے کے چاروں طرف پانی جمع کر کے اس میں برقی رو چھوڑ دی گئی اور پھر گھروں پر آتشیں گولے پھینکے گئے‘ جو گھروں سے نکلے وہ برقی رو سے مارے گئے۔
اس سارے قتل و غارت کو گودھرا ریلوے اسٹیشن پر ایودھیا سے واپس آنے والے فسادی یاتریوں (کارسیوکوں) کی ریل کی بوگیوں کو جلانے کا ردعمل قرار دے کر جواز عطا کیا جا رہا ہے۔ یہ حادثہ سابرمتی ایکسپریس کے ساتھ ۲۷ فروری کی صبح پیش آیا۔ یہ حادثہ کیوں پیش آیا؟ واشنگٹن پوسٹ کے ہندو نامہ نگاروں نے اپنے اخبار کو جو رپورٹ ارسال کی (اور جس کا مکمل ترجمہ روزنامہ جنگ میں ارشاد احمد حقانی نے شائع کیا) اس کے مطابق آگ اتفاقیہ لگی اور اس وجہ سے پھیل گئی کہ بوگی میں سوار سیوک چولھے اور تیل ساتھ لیے ہوئے تھے۔ ایک دوسری رپورٹ کے مطابق ریل میں سوار کارسیوکوں نے ایک مسلمان کے ٹی اسٹال سے مفت چائے پینے کے بعد پیسے مانگنے پر اس کی مارپٹائی شروع کی تو اس کی بیٹی اسے بچانے آئی جسے کارسیوکوں نے بوگی S-6 میں لے جاکر بند کردیا اور ہر طرح کی کوشش کے باوجود بھی نہیں کھولا۔ ٹرین چل پڑی۔ کچھ نوجوانوں نے زنجیر کھینچی تو ٹرین اگلی آبادی میں رکی۔ لڑکی کو اب بھی واپس نہ کیا گیا تو کچھ نوجوانوں نے بوگی پر پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی۔ عینی شاہدوں کے مطابق ایودھیا سے گودھرا تک ٹرین میں اور اسٹیشنوں پر مسلسل غنڈا گردی کی جاتی رہی۔ جہاں گاڑی رکتی لوٹ مار کرتے۔ گودھرا اسٹیشن پر لوٹ مار کا سلسلہ پچھلے ۲۰ دن سے جاری تھا۔
ان رپورٹوں کے ہوتے ہوئے بھی‘ نیوزویک نے واقعے کو اس طرح لکھا ہے: ’’صبح کے کچھ دیر بعد جیسے ہی ٹرین گودھرااسٹیشن میں داخل ہوئی تو مقامی مسلمانوں کا ایک گروہ انتظار کر رہا تھا۔ پٹرول سے بھری بوتلیں پھینکیں گئیں جس سے بوگیوں میں آگ لگ گئی--- آنے والے دنوں میں اب ہندوئوں کی باری تھی۔ مسلم آبادیوں میں ہجوم پھیل گئے اور…‘‘ (۱۱ مارچ ۲۰۰۲ء)۔ بیرونی نامہ نگار فسادات کو ۴۷ء کے فسادات سے جوڑتے ہیں اور پھر ۹۲ء میں بابری مسجد کی شہادت پر ہونے والے فسادات سے ۔ ان کی نظروں سب کچھ جیسے معمول کی کارروائی ہے جو بھارت میں ہوتی رہتی ہے۔ حقائق معلوم کرنے کی بھلا کیا ضرورت ہے!
اگر ریاست میں کوئی ذمہ دار اور غیر جانب دار حکومت ہوتی تو گودھرا کے واقعے کے بعد احتیاطی اقدامات کرتی اور شہریوں کو جانی اور مالی نقصان سے بچاتی۔ بوکر پرائز جیتنے والی ناول نگار ارون دھاتی رائے نے درست کہا ہے کہ:’ ’جس بھارتی شہری کا بھی پولیس اور ریاست سے واسطہ پڑا ہے وہ جانتا ہے کہ اگر ذمہ داران حالات پر قابو پانا چاہتے تو صرف ایک گھنٹے میں پا سکتے تھے‘‘۔ (نیوزویک‘ ۱۸ مارچ ۲۰۰۲ء‘ ص ۵۸)
نہ صرف یہ کہ قابو نہیں پایا گیا بلکہ تمام اخباری رپورٹیں یہی بتاتی ہیں کہ ہر سطح سے حوصلہ افزائی کی گئی۔ ہندستان ٹائمزنے ۲ مارچ کے اداریے میں لکھا ہے: ’’انتظامیہ کو ممکنہ ردعمل کے خلاف تیاری کا پورا موقع ملا تھا۔ مناسب اقدامات سے بہت سی جانیں بچائی جا سکتی تھیں لیکن اس حکومت نے گذشتہ چند ہفتوں کے دوران ایودھیا تحریک کو تقویت پہنچانے میں وشوا ہندو پریشد کی سیاسی اور انتظامی دونوں لحاظ سے مدد کی۔ ایسی حکومت سے توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ مسائل پیدا ہونے پر جانب داری سے کام نہیں لے گی‘‘۔
قتل و غارت کی اس تازہ لہر کے پس منظر میں وشوا ہندو پریشد کی جانب سے ۱۵ مارچ کو ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے آغاز کا اعلان تھا۔ وشوا پریشد کی اس مہم میں آر ایس ایس‘ سنگھ پریوار‘ شیوسینا سب ہی ساتھ ہیں۔ بی جے پی اتحادیوں کی وجہ سے حکومتی مجبوریوں کے تحت کھلم کھلا تو ساتھ نہیں دیتی‘ لیکن اس کی مکمل حمایت اس مہم کو حاصل ہے۔ فی الاصل تو ان سب کا منصوبہ بھارت سے مسلمانوں کا نام و نشان مٹانا یا دوسرے درجے کا شہری بنا کر رکھنا ہے۔
انھی دنوں چار صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں بی جے پی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اترپردیش اور اترانچل جیسے اہم صوبے اس کے ہاتھ سے نکل چکے تھے۔ پنجاب میں بھی اس کے اتحاد کی کارکردگی اچھی نہیں رہی تھی۔ منی پور میں بھی اس کے مخالفین برسرِاقتدار آگئے تھے (اترپردیش میں ۴۰۳ کے ایوان میں‘ بی جے پی کو ۸۸ سیٹیں ملیں جو گذشتہ کے مقابلے میں ۶۶ کم ہیں۔ پنجاب میں ۱۱۷ کے ایوان میں ۳ نشستیں ہیں جو گذشتہ کے مقابلے میں ۱۵ کم ہیں)۔
ان انتخابات میں بی جے پی کو مسلمانوں کے ووٹ نہیں ملے اور وہ مسلمانوں کو اپنی شکست کا سبب گردانتی ہے۔ اس لیے گودھرا کے واقعے کو بہانہ بنا کر دراصل انتقام لیا گیا۔ اسی لیے قتل و غارت روکنے کی کوئی سنجیدہ کوشش سرے سے کی ہی نہیں گئی۔ دوسری طرف ۱۱ ستمبر کے بعد مسلمانوں کو ہراساں کرنے اور ان کا عزم و حوصلہ توڑنے کی ایک پالیسی نظر آتی ہے۔ گجرات کے دورے پر جانے سے پہلے وزیردفاع جارج فرنینڈس نے اس واقعے میں آئی ایس آئی کے ملوث ہونے کا شبہہ ظاہر کیا۔ دوسری طرف گجرات کے وزیراعلیٰ فریندر مودی نے واقعے کو منظم دہشت گردی قرار دے کر تحقیقات کے امکان کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ یہ آواز ملک کے کسی کونے سے نہیں اُٹھ رہی کہ گودھرا کے واقعات کی غیر جانب دارانہ تحقیقات کر کے ذمہ داروں کا تعین کیا جائے۔ اب عالمی سطح پر یہی روایت بنتی جا رہی ہے کہ ’’حادثات‘‘ سے اپنے مقاصد حاصل کیے جائیں اور حقیقت معلوم کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ جس طرح آج تک امریکہ میں کانگریس یا سینیٹ کمیٹی میں ۱۱ ستمبر کے حملوں کے لیے کسی خفیہ ایجنسی یا وزارت دفاع کو وضاحت پیش نہیں کرنا پڑی۔
ان حالات میں کہ گجرات کے ۲۶ شہروں میں کرفیو لگا ہے اور فسادات بھارت کے دوسرے علاقوں میں پھیلنے کی خبریں بھی آ رہی ہیں بھارت کے مسلمان تو اپنے تحفظ کے لیے کچھ نہ کچھ لائحہ عمل بنا رہے ہوں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ان کے کروڑوں مسلمان بھائیوں کا کیا فرض ہے؟ کیا وہ سب اتنے ہی بے بس اور بے اختیار اور بے وسیلہ ہیں کہ خبریں پڑھیں‘ دیکھیں ‘ افسوس کرلیں اور بس!
یقینا ایسا نہیں ہے۔ اس وقت دنیامیں دہشت گردی کے خلاف جو فضا ہے‘ اس میں مسلمان طاقتوں کو منظم کوشش کرنا چاہیے کہ اس کا رخ دہشت گردی کی ان حقیقی کارروائیوں کی طرف موڑیں۔ عالمی رائے عامہ کا دبائو ہی بھارت کو راہ راست پر لا سکتا ہے۔ اس کے لیے مسلمانوں کے ہر طرح کے اداروں کو منظم اور مسلسل کوشش کرنا ہوگی۔
اسلامی کانفرنس تنظیم (او آئی سی) نے افغانستان کے مسئلے پر اپنے غیر موثر اور بے جان ہونے کا ثبوت دیا ہے‘ لیکن اس کے باوجود یہ کہے بغیر نہیں رہا جاتا کہ اس کے پلیٹ فارم سے مسلم اقلیتوں کے تحفظ کا کافی کام کیا جا سکتا ہے۔ اس کے کسی وفد کو آکر حالات کا جائزہ لینا چاہیے اور رپورٹ تیار کرنا چاہیے اور بھارت کو تنبیہ کرنا چاہیے۔ اگر ۱۰‘ ۱۵ مسلم سربراہان مظلوم مسلمانوں کی ہمدردی میں صرف بیانات ہی دے دیتے تو شاید بھارت کو کچھ فرق پڑ جاتا۔ خادم الحرمین کا تو یہ فرض تھا کہ وہ اس پر اپنی آواز بلند کرتے۔
سب سے اہم ذمہ داری پاکستان کی ہے۔ حکومتی سطح پر بھی بہت کچھ ہو سکتا ہے اور ساری دنیا میں پھیلے ہوئے پاکستانی بیدار ہو کر‘ دوسرے مسلمانوں کو ساتھ لے کر بھارت کاناطقہ بند کر سکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے بیداری‘ شعور اور جدوجہد کی ضرورت ہے۔
اسلام آباد میںچرچ پر افسوس ناک حملہ (۱۷ مارچ) ہوا تو صدر بش نے فوراً ردعمل ظاہر کیا اور امریکہ کی سفیر نے پاکستان کے ٹی وی پر آکر سختی سے کہا: ’نو مور‘("No more")۔ کیا اتنی بڑی امت مسلمہ بھارت کو ’نو مور‘ نہیں کہہ سکتی؟
ان حالات پر سوچنے کا ایک نقطہء نظر یہ بھی ہے کہ تہذیب‘ جمہوریت اور انسانی اقدارکے بلند بانگ دعوئوں کے باوجود آج انسان اسفل السافلین ہونے کا مظاہرہ کیوں کر رہا ہے؟یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ ہدایت الٰہی کو مسترد کر کے جو راہ بھی اپنائی جائے گی وہ دنیا و آخرت کے خسران کی راہ ہوگی۔ یہ حالات --- اور دنیا بھر میں پیش آنے والے ایسے ہی واقعات جن میں کوئی کمی نہیں آئی --- پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ آج ‘انسانیت سکون سے محروم ہے۔ اس کی پیاس بجھانے کا سامان صرف اس کے خالق کے بتائے ہوئے راستے میں ہے!