کامل پندرہ سال ایسے افراد کی تیاری میں صرف کر کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حق پرستوں کی ایک مُٹھی بھر جماعت تیار کی‘ جو صرف عرب کے لیے نہیں بلکہ تمام دنیا کی اصلاح کے لیے سچا عزم رکھتی تھی اور جس میں عرب کے علاوہ دوسری قوموں کے بھی افراد شامل تھے۔ اس جماعت کو منظم کرنے کے بعد انھوں نے وسیع پیمانے پر سماج کی اصلاح کے لیے عملی جدوجہد شروع کی اور صرف آٹھ برس میں پندرہ لاکھ مربع میل پھیلی ہوئی سرزمین عرب کے اندر مکمل اخلاقی‘ معاشی‘ تمدنی اور سیاسی انقلاب برپا کر کے رکھ دیا۔ پھر وہی جماعت جسے انھوں نے منظم کیا تھا عرب کی اصلاح سے فارغ ہو کر آگے بڑھی اور اس نے اس زمانہ کی مہذب دُنیا کے بیشتر حصے کو اس انقلاب کی برکتوں سے مالا مال کردیا جو عرب میں رُونما ہوا تھا۔
آج ہم نئے نظام نئے نظام (نیوآڈر) ]یوں ہی لکھا ہے[کی آوازیں ہر طرف سے سُن رہے ہیں لیکن یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی کہ جن بنیادی خرابیوں نے پرانے نظام کو آخرکار فتنہ بنا کر چھوڑا وہی اگر صورت بدل کر کسی نئے نظام میں بھی موجود ہوں تو وہ نیا نظام ہوا کب؟ وہ تو وہی پرانا نظام ہوگا جس کے کاٹنے اور ڈسنے سے جاں بلب ہو جانے کے بعد ہم نئے نظام کا تریاق مانگ رہے ہیں۔ انسانی اقتدار اعلیٰ ‘ خدا سے بے نیازی و بے خوفی‘ قومی و نسلی امتیازات‘ ملکوں اور قوموں اور طبقوں کی سیاسی و معاشی خود غرضیاں‘ اور ناخدا ترس افراد کا دنیا میں برسرِاقتدار ہونا‘ یہ ہیں وہ اصلی خرابیاں جو اس وقت تک نوع انسانی کو تباہ کرتی رہی ہیں اور آیندہ بھی اگر ہماری زندگی کا نظام انھی خرابیوں کا شکار رہا تو یہ ہمیں تباہ کرتی رہیں گی۔ اِصلاح اگر ہو سکتی ہے تو اُنھی اصولوں پر ہو سکتی ہے جن کی طرف انسانیت کے ایک سچے بہی خواہ نے اب سے صدیوں پہلے ہماری محض رہنمائی ہی نہ کی تھی بلکہ عملاً اصلاح کر کے دکھا دی تھی۔ (یہ تقریر ۳۰ مارچ ۱۹۴۲ء کو نشرگاہ لاہور سے نشر کی گئی تھی اور باجازت آل انڈیا ریڈیو یہاں نقل کی جاتی ہے)
(’’میلاد النبیؐ ‘‘، ابوالاعلیٰ مودودی‘ ماہنامہ ترجمان القرآن‘ جلد ۲۰‘ عدد ۲‘ صفر۱۳۶۱ھ‘ اپریل ۱۹۴۲ء‘ ص ۵۸)