سوال: نماز پڑھنے کے دوران میری کیفیت یہ ہو جاتی ہے کہ میں گریہ و زاری کے انداز میں روسکتا ہوں لیکن مسجد میں نماز پڑھتے ہوئے میں اپنے آپ کو اس لیے روکتا ہوں کہ یہ ریاکاری کے دائرے میں آجائے گا۔ میں یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ جب میں تصنع نہیں کر رہا اور بناوٹی طور پر نہیں رورہا‘ فی الواقع میری یہ کیفیت ہے‘ کیا تب بھی اس پر ریاکاری کا اطلاق ہوگا؟ مجھے عملاً کیا کرنا چاہیے؟ کیا اس کیفیت کے اظہار کو گھر کی تنہائی کی نمازوں تک محدود کر لوں؟
جواب: نماز کے اندر آپ کی یہ کیفیت تو مطلوب و محمود کیفیت ہے۔ سورہ انفال میں اہل ایمان کی یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ ان کے دل اللہ کا ذکر سن کر لرز جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے رب پر بھروسا کرتے ہیں (۸:۲)۔ سورہ زمر میںہے کہ قرآن سن کر ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں‘ جو اپنے رب سے ڈرنے والے ہیں اور پھر ان کے جسم اور ان کے دل نرم ہو کر اللہ کے ذکر کی طرف راغب ہو جاتے ہیں (۳۹: ۲۳)۔ سورہ بنی اسرائیل میں ہے: اور وہ منہ کے بل روتے ہوئے گر جاتے ہیں اور اسے سن کر ان کا خشوع اور بڑھ جاتا ہے (۱۷:۱۰۹)۔ سورہ مریم میں ہے: ان کا حال یہ تھا کہ جب رحمان کی آیات ان کو سنائی جاتیں تو روتے ہوئے سجدے میں گر جاتے تھے۔ (۱۹:۵۸)
جب ایک شخص نے دور جاہلیت میں اپنی بیٹی کو کنویں میں دھکا دینے کا واقعہ بیان کیا تو آپؐ رو دیے اور آپؐ کے آنسو بہنے لگے۔ آپؐ نے اس سے فرمایا کہ اپنا قصہ پھر بیان کرو۔ اس نے دوبارہ بیان کیا اور آپؐ اسے سن کر اس قدر روئے کہ آپؐ کی داڑھی آنسوئوں سے تر ہوگئی۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں بھی روتے تھے۔ حضرت عبداللہؓ بن شخیرسے روایت ہے‘ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپؐ کے سینے سے رونے کی آواز اس طرح سے آتی تھی جیسے کہ ہنڈیا کے جوش مارنے کے وقت کی آواز ہوتی ہے۔ (مسند احمد‘ ابوداؤد‘ ترمذی‘ نسائی)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الوفات میںفرمایا: ابوبکرؓ سے کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں‘ تو حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! ابوبکرؓ رقیق القلب ہیں۔ اپنے آنسو نہیں روک سکتے۔ وہ جب قرآن پاک پڑھتے ہیں تو روتے ہیں۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوبکرؓ کو کہو کہ نماز پڑھائیں۔ چنانچہ آپؐ کی بیماری کے دوران میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ ہی نے امامت کرائی۔ اسی طرح حضرت عمرؓ کے واقعات میں آتا ہے کہ وہ صبح کی نماز میں سورہ یوسف پڑھ رہے تھے۔ جب اس آیت پر پہنچے: اِنَّمَآ اَشْکُوْا بَثِّیْ وَحُزْنِیْٓ اِلَی اللّٰہِ (میں اپنی پریشانی اور اپنے غم کی فریاد اللہ کے سوا کسی سے نہیں کرتا۔ ۱۲:۸۶)‘تو ان کے رونے کی آواز سنی گئی۔ (بخاری)
اسی بنا پر فقہا کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر ایک شخص نماز کے دوران اللہ کے جلال‘ قرآن پاک کی آیات یا دوزخ کے تصور سے آواز سے رو پڑے تو اس کی نماز نہیں ٹوٹے گی۔ لیکن یہ اس وقت ہے جب بے اختیار آواز نکل آئے اور تلاوت قرآن پاک سننا اور سنانا متاثر نہ ہو۔ جب ایک آدمی امام کے پیچھے کھڑا ہوتا ہے تو اسے دوسروں کے خشوع و خضوع اور نماز اور امام کی قرأت کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ تمام احتیاطی تدابیرکے باوجود رقت کا اس قدر غلبہ ہو جائے کہ آواز سے رونا شروع کردے تو اس سے نماز میں فرق نہیں پڑے گا۔
اس لیے نماز باجماعت میں کوشش یہی کرنی چاہیے کہ بلند آواز سے نہ روئے تاکہ دوسروں کی نماز خراب نہ ہو اوروہ رونے والے کی طرف متوجہ ہوکر اپنی نماز کی طرف توجہ نہ چھوڑ دیں‘ نیزاس کے نتیجے میں اس بات کا بھی خطرہ ہے کہ ریاکاری کا مرض پیدا ہو جائے۔ اس لیے بھی احتیاط کرنا چاہیے۔
ریاکاری کے حوالے سے توانسان خود ہی اپنے بارے میں فیصلہ کر سکتا ہے۔ ریاکاری کے اندیشے سے نیک کام چھوڑتے چلے جانا‘ شیطان کی تدبیر بھی ہو سکتی ہے۔ انفاق کے بارے میں بھی حکم ہے کہ خفیہ کرو اور اعلانیہ بھی کرو۔ نیک اعمال کے مشاہدے سے نیک اعمال کی ترغیب ہوتی ہے۔ اس کی اپنی اہمیت ہے لیکن جو شخص اپنے دل کا مرض محسوس کرے‘ اسے احتیاط کرنا چاہیے۔
ریاکاری کا تعلق دل سے ہے‘ اپنے دل پر نظر رکھنا چاہیے۔ ریاکار وہ ہوتا ہے جو لوگوں کے سامنے ایک کام کو کرے لیکن جب لوگ دیکھ نہ رہے ہوں تو اسے نہ کرے۔ لوگوں کی موجودگی میں خشوع و خضوع کرے‘ عمدہ اور اعلیٰ کھانوں کو ہاتھ نہ لگائے‘ لیکن گھر میں سب کچھ کرے۔ لوگوں کے سامنے روزہ دار‘ نمازی‘ تہجدگزار کی شکل میں پیش ہو لیکن فی الحقیقت روزہ‘ نماز اور تہجد سے اسے کوئی شغف نہ ہو‘ جیسے کہ مدینہ کے منافقین کا طرزعمل تھا۔ ریاکار بھی دراصل منافق ہوتا ہے۔ حقیقی کیفیات اور ظاہر و باطن میں ہم آہنگی ہو توپھر ریاکاری نہیں ہوتی۔
رہی یہ بات کہ لوگوں کے سامنے کیا کام کرنا ہے اور تنہائی میں کیا کام‘ تو اس کا ضابطہ یہ ہے کہ ہرجائز کام اور ہر عبادت لوگوں کے سامنے کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح جو کیفیت جائز اور مستحسن ہے اسے لوگوں کے سامنے لایا جا سکتا ہے۔ رونا بھی اسی قسم کی کیفیات میں سے ایک کیفیت ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ‘ صحابہ کرام اور سلف صالحین نے کھلے عام بھی اس سے پرہیز نہیں کیا۔ نماز میں ایسی کیفیت طاری ہو اور نماز میں آنسو بہنے لگیں تو انھیں روکنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ ریاکاری نہیں ہے۔ آدمی مغلوب ہو جائے اور رونے کی آواز نکل آئے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔ ریاکاری یہ ہے کہ رونا نہ آتا ہو لیکن لوگوں کے سامنے بزرگی‘ تقویٰ اور ولایت ظاہر کرنے کے لیے روئے‘ اور گھر میں جب کوئی نہ دیکھ رہا ہوتو اس وقت نماز میں خشوع وخضوع بھی نہ ہو‘ آنسو بھی نہ آئیں اور بے اختیار آواز بھی نہ نکلے۔ آپ نے اپنا جو حال لکھا ہے یہ ریاکار کا حال نہیں ہے بلکہ نیک لوگوں کا حال ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کیفیت میں ترقی فرمائے۔ (مولانا عبدالمالک)
س: ایک تحریکی بزرگ کی بیٹی سے میری شادی ہوئی ہے۔ میں نے اپنی برادری سے باہر تحریک کی بنیاد پر شادی کی تھی۔ ذہن میں یہ خاکہ تھا کہ میں تحریکی کام کروں گا تو میری اہلیہ میرا ہاتھ بٹائے گی اور میرا گھر اسلام کا ایک خوب صورت گلدستہ ہوگا۔ مگر شادی کے بعد میرا سارا تصور خاک میں مل گیا۔ میری اہلیہ ایم ایس سی ہیں۔ نماز بھی وقت کی پابندی سے ادا نہیں کرتیں۔ میں نے بڑی حکمت سے اسلام کی بنیادی تعلیم سکھانے کی کوشش کی اور حلقہ خواتین کے اجتماع میں بھی بھیجا۔ گھریلو کام میں بھی تعاون کیا مگر بہتری کے بجائے خرابی ہو رہی ہے۔ میرا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے۔ گھر کا ماحول ناخوش گوار ہو گیا ہے۔ ازدواجی تعلقات بھی تنائو کا شکار رہتے ہیں۔میری اہلیہ ملازمت کرتی ہیں‘ وہ ساری تنخواہ اپنی مرضی سے خرچ کرتی ہیں۔ میں نے اس پر بھی کبھی اعتراض نہیں کیا ہے۔ میری اہلیہ کبھی کبھی رات کا کھانا بھی نہیں پکاتیں اور مجھے کھانا خود پکانا پڑتا ہے۔ ان حالات میں میرے سوال یہ ہیں:
۱- مجھے اپنی اہلیہ کے رویے پر خاموش رہنا چاہیے‘ یاان کو طلاق دے دینی چاہیے؟ کیوں کہ اصلاح کا بظاہر کوئی امکان نہیں۔
۲- کیا جب بیوی اپنے خاوند کی جائز خواہش پوری نہ کرے‘ تو مرد کو دوسری شادی کر لینی چاہیے تاکہ گناہ سے بچ سکے۔
۳- اگر ان میں سے کوئی صورت بھی ممکن نہ ہو تو کیا ایک فرد اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ کر گوشہ نشین ہو سکتا ہے؟
ج: آپ نے اپنے خط میں جو سوالات اٹھائے ہیں وہ ہمارے معاشرے کے بعض بنیادی مسائل اور تضادات کی نشان دہی کرتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ سمجھ لیجیے کہ آپ نے نیک نیتی کے ساتھ یہ چاہا کہ آپ کی شادی ایک تحریکی خاتون سے ہو تاکہ وہ دعوتی کام میںآپ کی معاون ہو سکے۔ ان شاء اللہ اس نیک نیت کا اجر آپ کو اس دنیا میں اور آخرت میں بھی ضرور ملے گا چاہے آپ کی اہلیہ نے آپ کی توقعات پوری نہ کی ہوں کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ خلوص نیت کو ضائع نہیں فرماتے۔ البتہ جو بات تشویش طلب ہے وہ یہ کہ اگر ایک تحریکی گھرانے میں پرورش پانے والی اور ایم ایس سی تک تعلیم یافتہ خاتون کا رویہ وہی ہے جو آپ نے تحریر فرمایا ہے تو ہمارے نظام تربیت میں لازماً کوئی بنیادی خامی ہے۔ اس کا حل دورحاضر کا معروف نعرہ یعنی خواتین کا empowerment نہیں ہو سکتا۔ اصل مسئلہ اقدار حیات اور مقصد حیات کا ہے جو محض اختیارات کی منتقلی سے حل نہیں ہو سکتا۔
یہ بات بھی غور طلب ہے کہ معاشرتی ظلم و استحصال کا دائرہ محض خواتین تک محدود نہیں ہے‘ بعض مرد بھی اس استحصال کا شکار ہیں جو ایک وسیع تر معاشرتی بحران کی علامت ہے۔ اگر اسے نظرانداز کیا گیا تو پھر تباہی کے ریلے کو روکنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ ہمیں اپنے خاندان کے نظام تربیت اور اہل خانہ میں مقصدحیات کے شعور کو بیدار کرنے کے لیے ان تھک محنت کرنی ہوگی ورنہ تحریکی گھرانے بھی اس لاعلاج مرض سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔
آپ نے جو سوالات اٹھائے ہیں ان کا مختصر جواب یہ ہے کہ اگر ایک شخص اپنے خاندانی معاملات میں اصلاح کی تمام کوششوں کے باوجود کامیابی حاصل نہ کر سکے تو انبیا کرام کے اسوہ کی پیروی کرتے ہوئے تجرد اختیار نہیں کر سکتا۔ حضرت نوح اور حضرت لوط علیہما السلام کے اسوہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمہ وقت اصلاح و دعوت کے عمل میں مصروف رہنے کے باوجود وہ اپنے اہل خانہ کو تبدیل نہ کر سکے لیکن اس بنا پر نہ کسی جنگل میں جا کر بیٹھ گئے‘ نہ ان سے قطع تعلق کرلیا بلکہ آخر وقت تک صبرواستقامت کے ساتھ اصلاح کی کوشش میں لگے رہے۔ اس لیے نہ تجرد اس کا حل ہے نہ ازدواجی تعلق منقطع کردینا اور نہ خاموش رہنا۔ ایک داعی کو بار بار اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ دعوت حق کو پہنچانے کے لیے جو اسلوب اور طریقہ اس نے اختیار کیا ہے اس میں کس طرح مناسب تبدیلی کی جائے کہ بات زیادہ موثر ہو جائے۔ گو قلب کی دنیا کو بدلنا اللہ رب العالمین ہی کے ہاتھ میں ہے لیکن ہر داعی کو مسلسل اپنے طریق دعوت کا تنقیدی جائزہ لیتے رہنا چاہیے۔ بعض اوقات اصلاح کے لیے اچھے انداز میں زبانی طور پر متوجہ کرنا پڑتا ہے۔ بعض اوقات خاموش رہ کر بھی یہ کام کیا جا سکتا ہے لیکن یہ خاموشی مستقل نہیں ہوتی۔ صرف کسی خاص موقع پر حکمت کے پیش نظر خاموش ہونا اور بعد میں اس پہلو کی طرف متوجہ کرنا بھی دعوت کا ایک طریقہ ہے۔
آپ کی اہلیہ اگر کام کرتی ہیں تو جو کچھ معاوضہ انھیں ملتا ہے وہ ان کی ملکیت ہے اور انھیں اسے خرچ کرنے کا پورا حق ہے۔ گھر میں کھانا پکانا آپ دونوں کا باہمی رضامندی کا معاملہ ہے۔ رواجی طور پر ہم نے یہ تصور کرلیا ہے کہ ایک اچھی بیوی کو لازماً کھانا پکانے کا ماہر بھی ہونا چاہیے اور گویا یہ شوہر کا ایک حق ہے۔ ہماری معلومات کی حد تک شریعت نے ایسی کوئی پابندی عائد نہیں کی ہے۔ یہ محض باہمی خوشی کا معاملہ ہے۔ ایک بیوی شوہر سے اس کی استطاعت کے مطابق گھریلو کاموں کے لیے ایک خدمت گار کا مطالبہ بھی کر سکتی ہے۔
اگر معاملہ اتنا حد سے گزرگیا ہے کہ آپ طلاق دینے پر غور کر رہے ہیں تو یہ یاد رکھیے یہ جائز کاموں میں سے وہ کام ہے جو اللہ تعالیٰ کو غضب میں لانے والا ہے۔ اس لیے نہ صرف آپ کو بلکہ آپ کی اہلیہ کو بھی اللہ تعالیٰ کو غضب میں لانے سے بچنا چاہیے اور دونوں کو اپنے طرزعمل کی اصلاح کی سنجیدہ کوشش کرنی چاہیے۔
دوسری شکل جو آپ نے لکھی ہے وہ بلاشبہہ شریعت کی ایک جائز شکل ہے۔ لیکن اس کے بارے میں بھی آپ کی اہلیہ کو یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ اگروہ اپنا طریقہ تبدیل نہیں کریں گی تو آپ مجبوراً عقدثانی پر غور کریں گے تاکہ حالات خراب نہ ہوں اور خاندانی مودت و رحمت میں کمی نہ آئے۔ بعض اوقات حالات سے متاثر ہو کرہم ایک کام کر بیٹھتے ہیں اور پھر بچوں کا مستقبل اور خود دو گھروں کی ذمہ داری کو صحیح طور پر ادا نہیں کر پاتے۔ اس لیے جو حالات بعد میں پیش آنے والے ہیں ان پر غور کرکے اپنے وسائل کا حقیقی انداز میں جائزہ لے کر ہی کوئی فیصلہ کرنا مفید ہوگا۔
اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ ایسے مواقع پر بھی جب بظاہر ایک شخص کے سامنے کوئی راستہ نہیں ہوتا‘ اصلاح حال کی پرخلوص کوشش کی جائے تو خاندان میں دوبارہ سکون و محبت قائم ہو جاتا ہے۔ اگر انتخاب گناہ کی زندگی اور جائز شرعی طریقے میں ہو تو لازماً جائز ہی کو اختیار کیا جائے گا۔ لیکن ایسے تمام فیصلے اہل خانہ کو پورے اعتماد میںلے کر ہی ہونے چاہییں تاکہ اتمامِ حجت پوری وضاحت کے ساتھ ہو اور محض ایک قانونی نکتے کے طور پر نہ ہو۔ (ڈاکٹر انیس احمد)