اکتوبر۲۰۰۶

فہرست مضامین

عیدسعید: چند غورطلب پہلو

ڈاکٹر بشری تسنیم | اکتوبر۲۰۰۶ | اسلامی معاشرت

Responsive image Responsive image

اللہ تعالیٰ کا بے شمار شکر و احسان ہے کہ اس نے ہمیں رمضان المبارک کو پانے کا موقع  عطا فرمایا اور اس میں مقدور بھر نیکی کمانے اور روزے کے اجر و ثواب حاصل کرنے کی توفیق عطافرمائی۔ مبارک باد کے مستحق ہیں وہ سب روزہ دار جنھوں نے قرآن پاک سے منسوب اس  ماہ مبارک میںقرآن کا فہم حاصل کرنے کی کوشش بھی کی۔ روزہ داروں کی کوششوں کواللہ تعالیٰ رحمت خاص سے نوازتا ہے اور قرآن پاک پانے والوں کی خوشیوں میں ایک اور اضافہ عیدالفطر کا دن ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہرقوم کے لیے عید اور خوشی کے دن ہیںاور آج‘ یعنی اختتام رمضان پر ہماری عید کا دن ہے‘‘۔ نبی اکرم محمد صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو فرمایا: ’’تم سال میں دو دن خوشی منایا کرتے تھے۔ اب خدا نے تم کو ان سے بہتر دو دن عطا فرمائے ہیں‘ یعنی ’’عیدالفطر اور عیدالاضحی‘‘۔

  • شبِ عید: عیدالفطر کی رات کو فرشتوں میں بوجہ خوشی کے دھوم مچ جاتی ہے اور    اللہ رب العزت ان پر جلوہ فرماتے ہوئے دریافت کرتے ہیں کہ بتائو‘ مزدور اپنی مزدوری پوری کرچکے تو اس کی جزا کیا ہے؟ وہ عرض کرتے ہیں کہ اسے پوری پوری اُجرت ملنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’فرشتو! تم گواہ رہو میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے روزہ داروں کو بخش دیا اور ان کے لیے جنت واجب کردی‘ اسی لیے اس رات کا نام فرشتوں میں لَیْلَۃُ الْجَائِزَۃِ  یعنی ’انعام کی رات‘ ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو دونوں عیدوں کی شب بیداری کرے گا‘ نیک نیتی اور اخلاص کے ساتھ تو اس بندے کا دل نہیں مرے گا‘ جس دن اوروں کے دل مُردہ ہوجائیں گے (ابن ماجہ)۔ ایک اور موقع پر آپؐ نے فرمایا: ’’جو ان پانچ راتوں کو جاگے گا تو اس کے لیے جنت واجب ہوجائے گی: ۱- ذی الحجہ کی آٹھویں رات ۲- ذی الحجہ کی نویں رات ۳- ذی الحجہ کی دسویں رات ۴-عیدالفطر کی رات ۵- شعبان کی پندرھویں رات۔

  • چاند رات: ہمارے معاشرے میں ایک خاص قسم کا تاثر رکھتی ہے جس میں خوشی و مسرت اور دوستوں‘ رشتہ داروں کی ملاقاتوں پر دلی خوشی کا احساس پایا جاتا ہے۔ وہ رات جس کو ’انعام کی رات‘ کا نام دیا گیا وہ گھروں‘ بازاروں میں ’قید سے نجات‘ کا تاثردیتی ہے۔ لگتا ہے وہ تمام جکڑے ہوئے شیطان اپنے لائولشکر اور تمام تر ہتھیاروں‘ چال بازیوں کے ساتھ مسلمانوں کے گھروں‘ محلوں‘ بازاروں پر پل پڑتے ہیں۔ عید کا چاند نظر آتے ہی نہ ذہن وہ جگمگاتے ہوئے لگتے ہیں نہ دلوں میں وہ نور کا سماں ہوتا ہے۔

الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا فحاشی و بے حیائی کے علم بردار بن کر سامنے آتا ہے۔ گویا کہ شیطان کی فوجیں حملہ کرنے کو تیار بیٹھی تھیں۔ اوراب ذہنوں‘ دلوں اور نظروں کو گندگی اور نجس میں مبتلا کرنے کا حکم آگیا۔ کتنے نادان ہیں ہم کہ سارا ماہِ مبارک جتنی مزدوری کی وہ ضائع کردی۔ بازاروں میں شیطان خوب کھیل کھیلتا ہے۔ مردوں اور عورتوں سے حیا‘ پاکیزگی‘ حرمت‘ غیرت دبے پائوں رخصت ہوجاتی ہے۔ چاند رات میں بازاروں کی رونق دیکھنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ مسلمانوں میں رمضان المبارک کے کچھ اثرات رہ گئے ہیں۔

ہم سب کو اپنے معمولات کا جائزہ لینا چاہیے کہ ہم ان مقدس ساعات میں کہاں اور کیا کرنے میں مصروف ہوں گے‘ جب اللہ رب العزت روزہ داروں میں اپنی رحمت خاص سے انعامات تقسیم فرما رہے ہوں گے۔ کیا ہم دنیا کی چیزوں کی طلب میں اخروی انعام کو بھول جاتے ہیں؟ کیا اللہ تعالیٰ کی طرف سے نظرعنایت اور خصوصی انعام کی اہمیت نہیں ہے؟ عید کی تیاری کے سب مراحل اگر پہلے پورے کرلیے جائیں تواس مقدس‘ عظیم رات کے ایک ایک لمحے سے بخوبی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔

  • عید کا دن: ترغیب منذری میں درج ہے کہ: ’’عید کی صبح کو اللہ تعالیٰ بہت سارے فرشتوں کو شہروں میں بھیجتا ہے۔ وہ گلی کوچوں‘ راستوں میں کھڑے ہوکر پکارتے ہیں جن کی پکار کو انسان اور جنات کے علاوہ سب سنتے ہیں۔ فرشتے کہتے ہیں: اے اُمت محمدیہ کے لوگو! تم اپنے رب کریم کی طرف نکلو‘ جو بہت انعام دیتا ہے اور بڑے بڑے گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ جب روزے دار عیدگاہ میں پہنچ جاتے ہیں توا للہ تعالیٰ ان فرشتوں سے فرماتا ہے: ان مزدوروں کا کیا بدلہ ہونا چاہیے جنھوں نے اپنے کام احسن طریقے سے انجام دے دیے ہیں؟ فرشتے جواب دیتے ہیں: اے ہمارے آقا! ان کا بدلہ یہی ہے کہ ان کی پوری پوری مزدوری دے دی جائے۔

اللہ تعالیٰ فرماتاہے: اے فرشتو! تم گواہ رہو ان کے رمضان کے روزے اور نماز کی وجہ سے میں ان سے خوش ہوگیا اور ان کو بخش دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے میرے بندو! تم مجھ سے مانگو میںاپنی عزت اور جلال کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ اس اجتماع میں دنیا و آخرت کی جو کچھ بھی بھلائی مجھ سے مانگو گے میں دوں گا اور تمھارا خصوصی خیال رکھوں گا‘ اور جب تک میری ناراضی سے ڈرتے رہو گے تمھاری خطائوں اور لغزشوں سے درگزر کرتا رہوں گا اورمجھے اپنی عزت و بزرگی کی قسم ہے! نہ تمھیں رسوا اور ذلیل کروں گا اور نہ مجرمین کے سامنے تمھاری رسوائی ہونے دوں گا۔ تم سب کو   میں نے معاف کردیا۔ تم نے مجھے راضی کرنے کی کوشش کی‘ میں تم سے راضی ہوگیا۔ یہ اعلان اور انعامِ بخشش سن کر فرشتے جھوم اُٹھتے ہیں اور مومنین کی کامیابی پر جشن مناتے ہیں‘‘۔

حضرت ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زکوٰۃ الفطر فرض ہے جو لوگوں کو ان گناہوں سے پاک کرے گا جو رمضان میں روزے کے ساتھ دانستہ یا نادانستہ سرزد ہوئے۔ جو نماز عید سے قبل ادا کرے گا اس کی زکوٰۃ الفطر قبول ہوگی۔ جو عید کی نماز کے بعد ادا کرے گا تو اسے صدقہ و خیرات کا ثواب مل جائے گا۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ کے گلی کوچوں میں ایک آدمی بھیج کر یہ اعلان کرایا کہ: ’’آگاہ ہوجائو‘ صدقہ فطر ہر مسلمان مرد‘ عورت‘ آزاد‘ غلام چھوٹے بڑے پر واجب ہے‘‘۔ (ترمذی)

جو لوگ زکوٰۃ لینے کے مستحق ہیں وہ صدقہ فطر لینے کے بھی مستحق ہیں۔ گھر کا سربراہ اپنے گھر کے ہر فرد کی جانب سے صدقہ فطر ادا کرے‘ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا۔ بچہ اگر ایک دن کا بھی ہو تب بھی صدقہ فطر دینا ہوگا۔

عید کی صبح اُٹھ کر روز مرہ کی ضروریات سے فارغ ہو کر عید کی نماز کے لیے تیاری کرنا واجب ہے۔ اگر اس دن حسبِ عادت رمضان المبارک کی طرح سحری کے وقت اُٹھے اور نماز تہجد  ادا کرے‘ اپنے رب سے مزدوری لینے کی رات اور ان مبارک ساعات کواپنے لیے توشۂ آخرت بناسکتا ہے۔ شب ِ عید کی بہت فضیلت ہے۔ جو عید کی رات جاگ کر عبادت کرے گا وہ جنت میں داخل ہوگا اور قیامت کے دن اس کا دل زندہ رہے گا۔

شب ِعید کو آج ہمارے گھر‘ گلیاں اور بازار جو نقشہ پیش کرتے ہیں ان کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں محاسبۂ نفس کی اشد ضرورت ہے۔ مزدور اپنی مزدوری لینے کے بجاے شیطانی مشغولیات سے دلوں کو مُردہ کر رہے ہوتے ہیں‘ اور وہ تمام اجر و ثواب جو پورے رمضان المبارک میں سمیٹا ہوتا ہے‘ ضائع ہوجاتا ہے۔

عید کی نماز سے پہلے میٹھی چیز کھاکر گھر سے روانہ ہونا سنت ِ نبویؐ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طاق عدد عموماً سات کھجوریں کھا کر گھر سے عید کے لیے روانہ ہوتے تھے۔ (طبرانی)

عیدگاہ پیدل جانا احسن ہے بوجہ عذر سواری پر جانا بھی جائزہے۔ (ترمذی)

مرد ‘ خواتین‘ بچے‘ سب عیدگاہ جائیں۔ اس نماز کو شہر سے باہر ادا کرنا سنت ہے۔ بلاعذر شرعی اس نماز کو شہر میں پڑھ لینا خلافِ سنت ہے۔ سارے شہر کی گلی کوچوں اور راستوں سے مسلمان اپنے رب کی کبریائی کا اعلان کرتے ہوئے ایک کھلے میدان میں جمع ہوتے ہیں۔ سب قوموں کے تہوار ہوتے ہیں اور بالعموم وہ اپنے تہوار مناتے وقت کھیل تماشے‘ پینے پلانے اور ناچ گانے وغیرہ میں کھوجاتی ہیں۔ مسلمانوں کے تہوار اپنے رب کی حمدوثنا سے شروع ہوتے ہیں اور جائز حدود میں سیروتفریح‘ کھیل کود‘ میل جول‘ کھانے پکانے‘ دعوتِ طعام کے ساتھ جاری رہتے ہیں۔ غرض‘ اسلام کی بنیادی باتوں سے کسی بھی موقع پر صرفِ نظر نہیں کیا جاتا۔ ایسی حرکات جو انسانوں کو حیوانوں کے درجے پر لے آئیں قطعی منع ہیں۔ مومنوں کا اپنی افرادی قوت کا مظاہرہ کرنا بھی خوشی کے موقع پر جائز ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے گروہ کی شکل میں عیدگاہ کی طرف جانے اور بلند آواز سے تکبیر پڑھنے کی تلقین کی اور یہ کہ ایک راستے سے جائو تو واپسی پر دوسرے راستے سے آئو۔

  • نمازِ عید اور خواتین: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمام گھر والے جشن عید منانے اور خوشی و مسرت کے موقع پر عیدگاہ میں حاضر ہوں۔ آپؐ نے مزید تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر کسی عورت کے پاس چادر (برقعہ) نہ ہو تو کوئی دوسری عورت اپنی چادر میںاس کو لے جائے (بخاری‘ مسلم)۔ جو عورت عذر شرعی کی بنا پر نماز کے لیے نہ جاسکتی ہو‘ اس کو بھی ساتھ لے جانے کا حکم ہے۔ وہ بھی مسلمانوں کے اس خوشیوں بھرے میلے میں ضرور شریک ہو۔

عید کے دن بیش تر گھرانوں میں خواتین کو عیدگاہ لے جانے کا رجحان نہیں پایا جاتا۔ ان کو اس طرف ضرور توجہ دینی چاہیے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امر کی کتنی تاکید کی ہے۔ رحمتوں اور بخششوں کی اس دولت سے خواتین کیوں محروم رہیں جو نمازِعید اوراجتماع عید پر اللہ کی طرف سے خصوصی طور پر نچھاور ہوتی ہے۔ تاہم اس بات کا خصوصی خیال کیاجائے کہ خواتین باپردہ ہوں اور بنائو سنگھار‘ زیور پہننے کے معاملے میں احتیاط برتیں۔ پردہ فرض عبادت ہے۔ اس سے روگردانی حکم الٰہی کی صریح نافرمانی ہے۔ گھر میں محرم مردوں کے سامنے عید کا بنائو سنگھار وغیرہ احسن طریقہ ہے۔ اجتماع عید میں نیا لباس سنت ہے۔ خوشبو بھی وہ ہونی چاہیے جو رنگت میں نمایاں ہو۔

نبی کریمؐ نے فرمایا ہے کہ نماز کے بعد امام اپنی جگہ پر کھڑا ہو کر لوگوں کی طرف متوجہ ہوکر خطبہ دے اور ہرشخص باادب ہوکر خطبہ سنے۔ اگر عورتوں تک امام کی آواز نہ پہنچتی ہو تو امام الگ انھیں دوبارہ خطبہ سنائے (بخاری و مسلم)۔ اس تاکید سے خواتین کا عیدگاہ میں حاضر ہونے کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔

  • عید، شعائر اسلام: جمعہ کی طرح عید بھی شعائر اسلام ہے۔ اس کا احترام اور اس کے تقاضے سنت ِ نبویؐ کے مطابق پورا کرنا ہر مومن‘ مرد عورت اور بچے پر واجب ہے۔

عید کے دن نماز سے پہلے گھر سے روانہ ہونے سے لے کر (تمام راستے) اور نماز کھڑی ہونے تک زیادہ سے زیادہ تکبیریں پڑھنا چاہییں۔ ساری فضا ایک نورانی احساس اور پاکیزہ جذبے سے معمور ہوجائے اور دشتِ و جبل نامِ حق سے گونج اُٹھے۔

عید کے دن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس دعا کو پڑھاکرتے تھے:

اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْئَلُکَ عِیْشَۃً نَّقِیَّۃً وَّمِیْتَۃً سَوِیَّۃً وَّمَرَدًّا غَیْرَ مَخْزِیٍّ وَّلَا فَاضِحٍ … اَللّٰھُمَّ لَا تُھْلِکْنَا فُجَآئَ ۃً وَلَا تَاْخُذْنَا بَغَتَۃً وَلَا تَعْجَلْ عَنْ حَقٍّ وَّلَا وَصِیَّۃٍ … اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْئَلُکَ الْعَفَافَ وَالْغِنٰی وَالْبَقَـآئَ وَالْھُدٰی وَحُسْنَ عَاقِبَۃِ الْاٰخِرَۃِ وَالدُّنْیَا وَنَعُوْذُبِکَ مِنَ الشَّکِّ وَالشِّقَاقِ وَالرِّیَائِ وَالسَّمْعَۃِ فِیْ دِیْنِکَ - یَامُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْھَدَیْتَنَا وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً اِنَّکَ اَنْتَ الْوَھَّاب o

خدایا! ہم تجھ سے پاک و صاف زندگی اور ایسی ہی عمدہ موت طلب کرتے ہیں۔ خدایا! ہمارا لوٹنا ذلت و رسوائی کا نہ ہو۔ خدایا! ہمیں اچانک ہلاک نہ کرنا‘ نہ اچانک پکڑنا اور نہ ایسا کرنا کہ ہم حق ادا کرنے اور وصیت کرنے سے بھی رہ جائیں۔ خدایا! ہم تجھ سے حرام سے اور دوسروں کے سامنے سوال بننے کی فضیحت سے بچنے کی دعا کرتے ہیں۔ اے اللہ‘ ہم تجھ سے پاکیزہ زندگی‘ نفس کا غنٰی‘ بقا‘ ہدایت و کامیابی اور دنیا و آخرت کے انجام کی بہتری طلب کرتے ہیں۔ اے ہمارے رب‘ ہم شکوک و شبہات اور آپس میں نفاق‘ ریا‘ بناوٹ اور دین کے کاموں میں دکھاوے کے عمل سے پناہ چاہتے ہیں۔  اے دلوں کے پھیرنے والے رب! ہمارے دل ہدایت کی طرف پھیرنے کے بعد ٹیڑھے نہ کرنااور ہمیں اپنی طرف سے خاص رحمت عطا فرمانا۔ بے شک تو سب کچھ دینے والا ہے۔

اسلامی تہواروں میں نہ شراب و قمار ہے نہ لہو و لعب اور نہ انسانیت سوز نظارے بلکہ خاکساری و خشیت الٰہی کے جلوے ہیں۔ ایثار و مساوات کے مجسمے اور ہمدردی و غم خواری کے نمونے ہیں۔ اتحاد و اتفاق کی جیتی جاگتی عملی تصویرنظرآتی ہے۔ مسلمانوں کی عیدوں میں نہ کھیل تماشا ہے نہ وقت کے ضیاع کا کوئی عمل‘ بلکہ ان خوشی کے دنوں میں بھی عبادتِ الٰہی اور ذکر و تسبیح و تہلیل ہے۔ مومن اپنی دنیا کی آسایشوں کے بجاے آخرت کے لیے ہرلمحہ فکرمند رہتا ہے۔ اسی لیے عید کی تیاریوں میں مگن ہوکر ایسا ہوش و خرد سے بے بہرہ نہیں ہوجاتا کہ فرائض کی بجاآوری تک بھول جائے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ شب عید‘ شاپنگ‘ مہندی‘ چوڑیوں‘ سلائیوں اور میچنگ کی فکر میں گزر جاتی ہے اور نمازفجر سے غفلت میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ یہ گھڑیاں رب کی رضا کے حصول کی خصوصی گھڑیاں ہیں‘ اور تحائف خصوصاً عید کارڈز کا انتخاب تو ایمان کا امتحان ہوتا ہے۔ وہ لوگ جو کارڈز اور ٹی وی‘ ویڈیو‘ سی ڈی کے ذریعے فحاشی پھیلاتے ہیں اور جو لوگ ان کو خرید کر فحاشی پھیلانے میں ممدومعاون بنتے ہیں‘ سب کے لیے دنیا و آخرت میں ذلت و رسوائی مقدر ہے۔ یہ قرآن کا صریح حکم ہے۔

  • عید اور فکرِ آخرت: عید کی حقیقی خوشیوںکو محض دنیاوی خوشیوں کا محور نہیں جاننا چاہیے بلکہ توشۂ آخرت پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ مومن کی پانچ عیدیں ہیں:

۱- جس دن گناہ سے محفوظ رہے اور کوئی گناہ سرزد نہ ہو۔

۲-جس دن دنیا سے اپنا ایمان سلامت لے جائے اس کی وہ عید ہے۔

۳- جس دن وزخ کے پُل سے سلامتی کے ساتھ گزر جائے۔

۴- جس دن دوزخ سے بچ کر جنت میں داخل ہوجائے۔

۵- جس دن اپنے رب کی رضا کو پالے اور اس کے دیدار سے اپنی آنکھیں روشن کرے وہ عید کا دن ہے۔

حضرت علیؓ کوکسی نے عید کے دن دیکھا کہ آپ خشک روٹی کھا رہے ہیں۔ دیکھنے والے نے کہا: اے ابوترابؓ! آج عید ہے۔ آپؓ نے فرمایا: ہماری عید اس دن ہے جس دن کوئی گناہ نہ کیا ہو۔

وہب بن منبہؓ کو کسی نے عید کے دن روتے دیکھا تو کہا: آج تو مسرت و شادمانی کا دن ہے۔ حضرت وہبؓ نے فرمایا: یہ خوشی کادن اس کے لیے ہے جس کے روزے مقبول ہوگئے۔

حضرت شبلیؒ نے عید کے دن لوگوں کو کھیل کود میں مشغول دیکھ کر فرمایا: لوگ عید میں مشغول ہوکر وعید کو بھول گئے۔

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ عید کے آداب و فضائل کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

عید ان کی نہیں جنھوں نے عمدہ لباس سے اپنے آپ کو آراستہ کیا۔ عید توان کی ہے جو خدا کی وعید اور پکڑ سے بچ گئے۔

عید ان کی نہیں جنھوں نے آج بہت سی خوشبوؤں کا استعمال کیا‘ عید تو ان لوگوںکی ہے جنھوں نے گناہوں سے توبہ کی اور اس پر قائم رہے۔

عید ان لوگوں کی نہیں جنھوں نے بڑی بڑی دیگیں چڑھا دیں اور بہت سے کھانے پکائے‘ عید تو ان کی ہے جنھوں نے حتی الامکان نیک بننے کی کوشش کی اور نیک بنے رہنے کا عہد کیا۔

عید ان کی نہیں جو دنیاوی زینت کے ساتھ نکلے‘ عید تو ان کی ہے جنھوں نے تقویٰ و پرہیزگاری کو زادِ راہ بنایا۔

عید ان کی نہیں جنھوں نے عمدہ عمدہ سواریوں پر سواری کی‘ عید توان کی ہے جنھوں نے گناہوں کو ترک کر دیا۔

عید ان کی نہیں جنھوں نے اعلیٰ درجے کے فرش سے (قالینوں سے) اپنے مکانوں کو آراستہ کرلیا‘ عید تو ان کی ہے جو دوزخ کے پُل سے گزر گئے۔

عید ان کی نہیں جو کھانے پینے میں مشغول ہوگئے‘ عید ان لوگوں کی ہے جنھوں نے اپنے اعمال میں اخلاص پیدا کیا۔

اللہ رب العزت اُمت مسلمہ کوحقیقی عید سے ہم کنار فرمائے۔ آمین!