کسی کتاب کا تعارف اُس کے نام سے بھی ہوتا ہے‘ اس لیے کہ نام اُس کے موضوع کا عکاس ہوتا ہے ‘ اور اکثر موضوع کے عنوان سے بھی کتاب کا نام رکھا جاتا ہے۔ اس لیے کہ نام اُس کتاب کی جہاں وضاحت کر رہا ہوتا ہے وہاں اُس کی صفات سے متصف بھی ہوتا ہے۔ جس طرح ایک مصنف اپنی کتاب کا نام رکھتا ہے اُسی طرح اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی کتاب کے مختلف ’اسما‘ قرآن مجیدمیں بیان کیے ہیں۔ قرآن اللہ کی تصنیف نہیں بلکہ تنزیل ہے‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی جانب سے انسانیت کی خیرخواہی کے لیے نازل کیا گیا ہے۔
قرآن مجید کے جتنے بھی اسما خود قرآن میں بیان ہوئے ہیں اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ تمام اسما قرآن کی مختلف صفات کی توضیح کر رہے ہیں‘ مثلاً قرآن کی یہ صفت ہے کہ وہ راہِ ہدایت ہے تو قرآن کو ’ہدیٰ‘ کہا اور فرمایا: ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ۔ قرآن کی ایک صفت کہ یہ نصیحت ہے لوگوں کے لیے تو قرآن کو ’ذکر‘ کہا اور فرمایا: اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہُ لَحٰفِظُوْنَ (الحجر ۱۵:۹)۔قرآن کی ایک اور صفت ہے کہ یہ حق اور باطل کے درمیان تمیز کرنے والی کتاب ہے‘ تو قرآن کو ’فرقان‘ کہا اور فرمایا: تَبٰرَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ لِیَکُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرنِ ا o (الفرقان ۲۵: ۱)۔ قرآن اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب ہے اور یہ بھی اُس کی صفت ہے۔ اِسی لیے قرآن کو تنزیل کہا اور فرمایا کہ تَنْزِیْلُ الْکِتٰبِ مِنَ اللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِo (الزمر ۳۹:۲)۔ غرض قرآن کے جتنے بھی اسما ہیں تمام قرآن کی مختلف صفات کو بیان کر رہے ہیں۔
قرآن کے کُل کتنے اسما ہیں؟ اس بارے میں علما کے مختلف اقوال ذکر ہوئے ہیں۔ کسی نے قرآن کے ۵۵ اسما ذکر کیے ہیں تو کسی نے ۸۸ اور کسی نے ۹۰ نام شمار کیے ہیں۔مگر اِس حوالے سے اکثر علما کا متفقہ فیصلہ یہ ہے کہ قرآن کے اصل نام صرف پانچ ہیں‘ باقی اُس کے صفاتی نام ہیں۔ علامہ جلال الدین سیوطیؒ نے الاتقان فی علوم القرآن میں ابوالمعالی کے حوالے سے ۵۵ نام بحوالہ آیات ذکر کیے ہیں۔ علامہ ابوالحسن حرالیؒ نے قرآن کے ۹۰ سے کچھ زیادہ نام ذکر کیے ہیں‘ لیکن بدرالدین زرکشیؒ نے صحیح فرمایا کہ ان میں اکثر نام دراصل قرآن کی صفات ہیں‘ اعلام نہیں۔ امام فخرالدین رازیؒ نے بھی ۵۵ ناموں میں سے ۳۲ نام تشریح کے ساتھ نقل فرمائے ہیں۔
محمد بن جریر الطبریؒ نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی نازل کردہ کتاب کو چار نام دیے ہیں۔ ان میں سے ایک نام القرآن ہے‘ دوسرا الفرقان‘ تیسرا الکتاب اور چوتھا الذکر ہے۔ ابن عطیہ غرناطیؒ نے بھی یہی چار نام ذکر کیے ہیں‘ اور علامہ زرقانی نے چار پر التنزیل کے نام کا اضافہ کیا ہے اور کہا ہے کہ قرآن کے یہی پانچ نام ہیں۔ لہٰذا قرآن کے اصل نام پانچ ہیں: ۱-القرآن ۲- الذکر ۳- الکتاب ۴- التنزیل ۵-الفرقان۔ اس کے علاوہ جتنے بھی نام ہیں وہ سب صفاتی نام ہیں۔ اس قول کی مزید وضاحت علامہ محمد علی الصابونی نے فرمائی ہے اور القرآن‘ الذکر‘ الکتاب‘ التنزیل‘ الفرقان کو اسم کہا ہے اور دیگر اسما کوصفات کہا ہے۔اس حوالے سے مولانا محمد تقی عثمانی لکھتے ہیں کہ علامہ ابوالمعالیؒ نے قرآن کریم کے ۵۵ نام شمار کیے ہیں‘ اور بعض حضرات نے ان کی تعداد ۹۰سے متجاوز بتائی ہے‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے قرآن کریم کی صفات، مثلاً مجید‘ کریم‘ حکیم وغیرہ کو نام قرار دے کر تعداد اس حد تک پہنچا دی ہے ورنہ صحیح معنوں میں قرآن کریم کے نام کُل پانچ ہیں: القرآن‘ الفرقان‘ الذکر‘ الکتاب اور التنزیل۔ خود قرآن کریم نے اپنے لیے یہ پانچوں الفاظ اسم علم کے طور پر ذکر فرمائے ہیں۔ مذکورہ بالا بحث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ قرآن مجید کے کُل اسما پانچ ہیں۔
سب سے پہلے ان اسماے خمسہ کے بارے میں معلومات حاصل کرنا اور ان کا علم حاصل کرنا ضروری ہے۔ چنانچہ یہاں پہلے اِن اسماے خمسہ کو بیان کیا جائے گا اور بعد میں بقیہ اسما کے علوم و معارف پر بھی بحث کی جائے گی۔
شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ (البقرہ۲: ۱۸۵)
اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ (النساء ۴:۸۲)
اِنَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ یَھْدِیْ لِلَّتِیْ ھِیَ اَقْوَمُ (بنی اسرائیل ۱۷:۹)
قرآن کو قرآن کیوں کہتے ہیں؟ اِس لفظ کے دو معنی ہیں: ۱- جمع کرنا‘ ۲- پڑھنا۔ اس بارے میں اہلِ علم کے مختلف اقوال ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ یہ ’قرنت‘ سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں’جمع کرنا‘ جوڑنا۔ بعض نے اسے ’القرئ‘ سے مشتق قرار دیا اور اس کے معنی بھی جمع کرنا ہیں۔ بعض اسے ’قرائن‘ کا مشتق بتاتے ہیں۔اس حوالے سے اس مفہوم کی صحیح ترجمانی اور وضاحت مشہور تابعی ’قتادہ بن دعامہ سدوسیؒ (م: ۱۱۷ھ) کا قول ہے۔ ان کے نزدیک قرآن ’ق-ر-ئ‘ سے ماخوذ ہے‘ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ قرء ت الشَّی(میں نے اس چیز کو جمع کیا)۔ اس کی دلیل وہ یہ دیتے ہیں کہ چونکہ قرآن کی سورتیں اور آیات جمع ہیں اور آپس میں مربوط و یک جا ہیں اور اس سے قبل‘ یعنی نزول سے پہلے لوح محفوظ میں بھی وہ یک جا اور جمع تھیں‘ لہٰذا اس بنا پر قرآن کو ’جمع‘ کہا جائے گا۔
مذکورہ بالا آیت میں ’قرآن الفجر‘ سے مراد نماز فجر کی قراء ت ہے۔ ایک اور مقام‘ یعنی سورۂ قیامہ میں تو بالکل واضح انداز میں یہ معنیٰ فرمایا ہے۔ فرمایا: اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰنَہٗ o فَاِذَا قَرَاْنٰہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہٗ (القیٰمۃ: ۱۷-۱۸) ’’اس کا جمع کرنا اور پڑھانا ہمارے ذمے ہے‘ جب ہم پڑھا کریں تو تم (اُس کو سنا کرو اور) پھر اُسی طرح پڑھا کرو‘‘۔ یہاں دونوں آیات میں قرآن قراء ت یعنی پڑھنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی یہ کتاب چونکہ پڑھنے کے لیے نازل ہوئی ہے اور سب سے زیادہ پڑھی جاتی ہے‘ اس لیے اس کا نام ’قرآن‘ ہے۔ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے: اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰنَہٗ(قیامہ۷۵: ۱۷) ’’بلاشبہہ اس (کتاب) کا جمع کرنا اور پڑھوا دینا ہمارے ہی ذمے ہے‘‘۔ پھر عربی زبان میں کبھی کبھی مصدر کو اسم مفعول کے معنی میں استعمال کرلیا جاتا ہے۔ کلام اللہ کو ’قرآن‘ اِسی معنیٰ میں کہا جاتا ہے‘ یعنی پڑھی ہوئی کتاب۔ کتاب اللہ کا یہ نام کفارِ عرب کی تردید میں رکھا گیا ہے۔ وہ کہا کرتے تھے: لَا تَسْمَعُوْا لِھٰذَا الْقُرْاٰنِ والْغَوْا فِیْہِ (حم السجدہ۴۱:۲۶) ’’اس قرآن کو ہرگز نہ سنو اور جب یہ سنایا جائے تواس میں خلل ڈالو‘‘۔ اِن کفار کے علی الرغم ’قرآن‘ نام رکھ کر اشارہ فرما دیا گیا کہ قرآن کریم کی دعوت کو ان اوچھے ہتھکنڈوں سے دبایا نہیں جا سکتا۔ یہ کتاب پڑھنے کے لیے نازل ہوئی ہے اور قیامت تک پڑھی جاتی رہے گی۔ چنانچہ یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ قرآن کریم ساری دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے۔
فرقان کا مادّہ یا اصل ’ف- ر- ق‘ ہے اور اس کے معنی ہیں: ’’دو چیزوں کے درمیان تمیز‘ فرق اور جدائی کرنا اور دونوںکو ایک دوسرے سے الگ الگ کرنا‘‘۔ جب یہ معنیٰ کلام اللہ کے ساتھ خاص ہوں گے تو معنی ہوگا ’’حلال و حرام‘ سچ و جھوٹ‘ حق و باطل‘ معروف و منکر‘ نیکی و بدی‘ نفع و نقصان کے درمیان فرق‘ یعنی امتیاز اور جدائی کرنا۔ قرآن کا مقصدِ نزول بھی صرف یہی تھا کہ انسان ان دونوں راستوں کو پہچان جائے اور ان میں واضح فرق کو محسوس کرتے ہوئے اچھی باتوں کو اختیار کرے اوربرے کاموں سے خود کو دُور رکھے۔ اسی طرح قرآن کھرے اور کھوٹے کو پرکھنے کی کسوٹی ہے اور اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس کا نام ’فرقان‘ رکھا‘ یعنی کھرے اور کھوٹے کو پرکھنے کی کسوٹی۔ علامہ ابن جریر طبریؒ نے فرمایا کہ قرآن کو فرقان کا نام اس لیے دیا گیا ہے کہ یہ اپنی دلیلوں‘ حدود‘ فرائض اور اپنے حکم کی ساری وجوہات کے ذریعے حق و باطل کے درمیان فرق و امتیاز کرتا ہے۔ امام بدرالدین محمد بن عبداللہ الزرکشی اپنی کتاب البرھان فی علوم القراٰن میں فرقان کے معنی کے تحت فرماتے ہیں کہ قرآن کا نام فرقان اس لیے رکھا گیا ہے کہ یہ حق و باطل‘ مسلمان و کافر‘ مومن و منافق کے درمیان فرق و امتیاز کرتا ہے۔ اِسی وجہ سے حضرت عمرؓ ابن خطاب کو ’فاروق‘ کہا جاتا تھا کہ وہ حق و باطل کے درمیان واضح فرق فرماتے تھے۔
علامہ جوہری (م: ۳۹۳ھ) اور علامہ ابن منظور افریقی نے لکھا ہے کہ ’’فرقان ہر اُس چیز کو کہا جاتا ہے جو حق و باطل کے درمیان تمیز کرنے والی ہو‘‘۔ فرقان کے ایک معنی ’نصرۃ‘ بھی ہے کہ جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًا (الانفال۸: ۲۹) ’’اے ایمان والو! اگر تم گناہوں سے پرہیز کرو گے تو اللہ تم کو فیصلہ کن فتح دے گا‘‘۔ حضرت عبداللہ ابن عباسؓ اور حضرت مجاہدؒ سے فرقان کے معنی ’مخرج‘ یعنی کسی پریشانی سے نکلنے کا راستہ بھی منقول ہے۔
مولانا مالک کاندھلوی نے تفسیرکبیر کے حوالے سے لکھا ہے کہ امام رازیؒ نے عکرمہؒ اور سدیؒ کا قول فرقان کے بارے میں نجات کے معنوں میں بھی نقل کیا ہے۔ اسی طرح ’فرقان‘ فراست اور دانش مندی کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے‘ تاہم علامہ ابن جریر طبریؒ نے لکھا ہے کہ یہ سارے معنی ’متقاربہ‘ ہیں، یعنی ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں۔
اسماے خمسہ میں سے تیسرا نام الکتاب ہے جسے عام طورپر کتاب ہی کہتے ہیں۔ اس لفظ کا اصل یا مادّہ ’ک- ت-ب‘ یعنی کَتَبَ ہے۔ کلام اللہ کے حوالے سے سب سے زیادہ مشہور نام تو ’قرآن‘ ہی ہے لیکن اس کے بعد جو نام سب سے زیادہ اہم اور مشہور ہے وہ ’کتاب‘ ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر کلام اللہ کو صرف دو ناموں سے موسوم کیا جاتا ہے یا تو کہنے والا ’قرآن‘ کہتا ہے یا ’کتاب‘۔ اس کو کتاب اللہ کے نام سے بھی لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔ سورۂ بقرہ کی دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: الٓمّٓ o ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ ج فِیْہِ ، ’’ا،ل، م‘ یہ اللہ کی کتاب ہے اس میں کوئی شک نہیں‘‘۔ اس آیت کا ایک اور طریقے سے بھی ترجمہ کیا جاتا ہے وہ اس طرح کہ ’’اِس (بات) میں کوئی شک نہیں کہ یہ (قرآن) الکتاب ہے ‘‘۔ جمہور اہلِ علم نے ’الکتاب‘ کو اختیار کیا ہے۔ الکتاب‘ چونکہ اس کا مصدر ’کتب‘ ہے اور ’کتب‘ کے تین معنیٰ آتے ہیں: ۱- لکھنا ۲-جمع کرنا ۳- فرض کرنا‘ مقرر کرنا۔ اگر ہم پہلے والے معنیٰ کو لیں تو یہ غلط نہیں ہوگا‘ اگرچہ قرآن مجید تورات کی طرح لکھا ہوا نازل تو نہیں ہوا لیکن نزول سے قبل لوحِ محفوظ پر لکھا ہوا تھا اور نزول کے بعد حضوؐر نے اپنی نگرانی میں کاتبانِ وحی سے لکھوایا تھا۔ اسی وجہ سے اسے ’کتاب‘ کا نام دیا گیا‘ یعنی وہ کلامِ الٰہی جو لکھنے اور پڑھنے کے لیے نازل ہوا۔
ان تمام مثالوں میں ’کتب‘ کا مطلب ’فرض‘ لیا گیا ہے۔ علامہ جوہریؒ نے الصحاح میں اور علامہ ابن منظور افریقیؒ نے لسان العرب میں ’کتب‘ کے معنیٰ ’الفرض والحکم‘ ذکر کیے ہیں۔ رسولؐ اللہ نے ایک شادی شدہ عورت کے رجم کا حکم دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ لَاقضِیَنَّ بَیْنَکُمَا بِکتَابِ اللّٰہِ ، میں تمھارے درمیان کتاب پر فیصلہ کروں گا (بخاری)۔ اس حدیث میں کتاب اللہ دراصل حکم اللہ کے معنوں میں آیا ہے۔ اس لیے کہ رجم کا حکم قرآن میں مذکور نہیں ہے مگر چونکہ وَمَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدَ اَطَاعَ اللّٰہِ (جس نے رسولؐ کی اطاعت کی اُس نے اللہ کی اطاعت کی) کی بنا پر رسولؐ اللہ کا حکم‘ اللہ کا حکم ہے‘ اس لیے آپؐ نے اپنے حکم کو اللہ کی کتاب‘ یعنی اللہ کا حکم قرار دیا۔ سابقہ آسمانی کتابوں کو بھی کتاب کہا گیا ہے‘ مثلاً وَاٰتَیْنَا مُوْسٰی الْکِتٰبَ وَجَعَلْنٰـہُ (بنی اسرائیل ۱۷:۲)‘ وَلَقَدْ اٰتَیْنَا بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ الْکِتٰبَ (الجاثیہ:۱۶)‘ یٰیَحْیٰی خُذِ الْکِتٰبَ بِقُوَّۃٍ (مریم۱۹: ۱۲)۔
خود اللہ تعالیٰ نے قرآن کو قرآن میں مختلف مقامات پر ’کتاب‘ کے نام سے ذکر کیا ہے۔ ان تمام معنوں پر غور کرتے ہوئے ’کتاب‘ کا جامع معنیٰ ہوگا کہ ’یہ اللہ کا حکم اور قانون ہے اور اس کے احکام و فرائض کا مجموعہ ہے‘۔
کلام اللہ کے اسماے خمسہ میں سے چوتھا نام الذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کو ’ذکر‘ کا نام بھی دیا ہے‘ اور قرآن مجیدمیں مختلف مقامات پر اللہ تعالیٰ خود قرآن کو ’ذکر‘ کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ ’ذکر‘ کا اصل‘ یعنی مادہ ’ذ- ک-ر‘ ہے۔ اس کے معنیٰ کے بارے میں مختلف اقوال آتے ہیں۔ عام طور پر اس کے تین معانی بیان کیے جاتے ہیں۔ کسی نے اس کے معنی ’یاد دہانی‘ لکھا تو کسی نے ’تذکرہ اُمت ِسابقہ‘ بیان کیا ہے‘ اور کسی نے اس سے مراد ’شرف و عزت‘ لیا ہے۔
قرآن مجید کی سورۂ زخرف میں اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ وَاِنَّہٗ لَذِکْرٌ لَّکَ وَلِقَوْمِکَ وَسَوْفَ تُسْئَلُوْنَ (۴۳:۴۴)، ’’حقیقت یہ ہے کہ یہ کتاب تمھارے لیے اور تمھاری قوم کے لیے ایک بڑا شرف ہے اور عنقریب تم لوگوں کو اس کی جواب دہی کرنی ہوگی‘‘۔ اس آیت میں ذکر کے معنی شرف‘ یعنی عزت کے بیان کیے ہیں کہ یہ قرآن بڑی عزت والی کتاب ہے اور اسی وجہ سے تمھاری عزت ہے کہ قرآن تمھاری طرف نازل کیا گیا ہے۔ اسی لیے ہمیں تمام اُمتوں پر فضیلت بھی دی گئی کہ ہمارے پاس قرآن مجید‘ یعنی اللہ کی سب سے زیادہ عزت والی کتاب موجود ہے۔ مولانا مودودیؒ اس آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں کہ ’’یعنی اس سے بڑھ کر کسی شخص کی کوئی خوش قسمتی نہیں ہوسکتی کہ تمام انسانوں سے اُس کوا للہ تعالیٰ اپنی کتاب نازل کرنے کے لیے منتخب کرے‘ اور کسی قوم کے حق میں بھی اِس سے بھی بڑی کسی خوش قسمتی کا تصور نہیں کیا جا سکتا کہ دنیا کی دوسری سب قوموں کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ اُس کے ہاں اپنا نبی پیدا کرے اور اُس کی زبان میں اپنی کتاب نازل کرے اور اُسے دنیا میں پیغامِ خداوندی کی حامل بن کر اُٹھنے کا موقع دے۔ اس شرفِ عظیم کا احساس اگر قریش اور اہلِ عرب کو نہیں ہے اور وہ اس کی ناقدری کرنا چاہتے ہیں تو ایک وقت آئے گا جب اُنھیں اِس کی جواب دہی کرنی ہوگی‘‘(ترجمۂ قرآن مجید‘ سورئہ زخرف‘ آیت ۴۴‘ حاشیہ ۷)۔ اس تشریح سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ بڑی عزت کا مقام ہے کہ عرب میں قرآن نازل ہوا‘ لہٰذا لوگوں پر لازم تھا کہ وہ فوری طور پر اس پر ایمان لے آتے۔ چونکہ وہ ایمان نہیں لائے‘ یعنی اس عزت مند کلام کی توقیر نہیں کی‘ لہٰذا اس بے قدری کا حساب قیامت کے دن دینا ہوگا۔
حافظ ابن کثیرؒ نے لکھا ہے کہ ’’یہ کتاب شرف و عزت والی بھی ہے اور نصیحت و یاد دہانی کے مضامین پر مشتمل ہے‘‘۔ مذکورہ بحث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ’الذکر‘ کا لفظ نصیحت‘ یاد دہانی اور یادداشت کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے‘ اور شرف و عظمت اور شہرت و رفعت کے معنوں میں بھی آتا ہے اور قرآن اِن دونوں صفات کا حامل ہے‘ اسی لیے اس کو ذکر کا نام دیا گیا ہے۔ علامہ ابن جریر طبریؒ ذکر کی وجۂ تسمیہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’الذکر نام رکھنے کی توجیہہ میں دو معنوں کا احتمال ہے___ ایک یہ کہ قرآن اللہ کی جانب سے نصیحت ہے جس کے ذریعے اُس نے اپنے بندوں کو یاد دہانی کرائی ہے اور اس میں اُن کو اپنے حدود و فرائض اور دوسرے حکم و مصالح سمجھائے ہیں‘ اور دوسرے یہ کہ یہ کتاب اُن لوگوں کے لیے نیک نامی‘ شرف‘ رفعت اور فخر کا ذریعہ ہے جو اِس پر ایمان لائے ہوں اور جنھوں نے اس کے احکام و ہدایات کی تصدیق کی ہو‘ جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ قرآن تیرے لیے اور تیری قوم کے لیے شرف ہے‘‘۔
ابن عطیہ غرناطیؒ نے اس نام کی تین وجوہ بیان کی ہیں۔ قرآن کا نام ذکر اس لیے رکھا گیا ہے کہ اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو ان کی آخرت‘ ان کا معبود اور ہرچیز یاد دلائی ہے جس سے وہ غافل تھے۔ بعض نے لکھا ہے کہ اس نام کی وجہ یہ ہے کہ اس میں گذشتہ قوموں اور گذشتہ انبیا کا تذکرہ کیا گیا ہے‘ اور بعض نے کہا ہے کہ اس نام کی وجہ یہ ہے کہ یہ کتاب محمدؐ ، اِن کی قوم اور اس کا علم رکھنے والے سارے علما کے لیے شرف و رفعت کا موجب ہے۔ مولانا مودودیؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ’’یعنی اس میں کوئی خواب و خیال کی باتیں تو نہیں ہیں‘ تمھارا اپنا ہی ذکر ہے‘ تمھاری ہی نفسیات اور تمھارے ہی معاملاتِ زندگی زیربحث ہیں‘ تمھاری ہی فطرت و ساخت اور آغاز و انجام پر گفتگو ہے‘ تمھارے ہی ماحول سے وہ نشانیاں چُن چُن کر پیش کی گئی ہیں جو حقیقت کی طرف اشارہ کر رہی ہیں‘ اور تمھارے ہی اخلاقی اوصاف میں سے فضائل اور قبائح کا فرق نمایاں کر کے دکھایا جا رہا ہے جس کے صحیح ہونے پر تمھارے اپنے ضمیر گواہی دیتے ہیں۔ ان سب باتوں میں کیا چیز ایسی گنجلک اور پیچیدہ ہے کہ اس کو سمجھنے سے تمھاری عقل عاجز ہو‘‘(ترجمۂ قرآن مجید‘ سورۂ انبیائ‘ آیت ۱۰‘ حاشیہ ۲)۔ علامہ جلال الدین سیوطیؒ بیان کرتے ہیں کہ قرآن کو ذکر اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں نصیحت ہے اور سابقہ اُمتوں کے احوال ہیں اور ذکر کے معنی شرف بھی ہیں۔ پھر ’شرف‘ کی دلیل سورۂ زخرف کی آیت نمبر ۴۴ سے دیتے ہیں۔ مولانا گوہر رحمن نے لکھا ہے کہ ’’زیادہ مشہور اور متبادر توجیہہ یہی ہے کہ یہ کتاب انسان کو زندگی کا مقصد‘ یعنی عبادت و بندگی اور آخرت یاد دلاتی ہے اور خوابِ غفلت سے بیدار کرتی ہے‘‘۔(علوم القرآن‘ ج ۱‘ ص ۵۴)
اسماے خمسہ میں سے پانچواں اور آخری نام ’التنزیل ‘ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں مختلف مقامات پر قرآن کو تنزیل کہا ہے‘ مثلاً: تَنْزِیْلُ الْکِتٰبِ لَا رَیْبَ فِیْہِ مِنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ (السجدہ۳۲:۲)، تَنْزِیْلُ الْکِتٰبِ مِنَ اللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْحَکِیْمِ (الزمر۳۹:۱)، تَنْزِیْلُ الْکِتٰبِ مِنَ اللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ (المومن ۴۰:۲)