آج سے تقریباً ۴۰ برس قبل‘ اس وقت کے پوپ نے دنیا کی دینی جماعتوں کے سربراہوں کے نام ایک خط لکھا تھا جس کا مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے جواب دیا تھا۔ جواب میں مسیحی بھائیوں کے طرزعمل سے مسلمانوں کو جو شکایات تھیں ان کی طرف توجہ دلائی گئی تھی۔ ہم اس میں سے صرف ایک نکتہ یہاں پیش کر رہے ہیں جو موجودہ پوپ کے بیان سے متعلق ہے۔ (ادارہ)
میں آپ کو چند ایسے اُمور کی طرف توجہ دلا رہا ہوں جو مسلمانوں کے لیے اپنے مسیحی بھائیوں سے وجہِ شکایت ہیں تاکہ کیتھولک چرچ کے پیشواے اعظم ہونے کی حیثیت سے جو غیرمعمولی اثرورسوخ آپ کو مسیحی دنیا میں حاصل ہے‘ اس سے کام لے کر آپ اُن کی اصلاح کے لیے سعی فرمائیں۔ اور میں اس بات کا خیرمقدم کروں گا کہ ہمارے مسیحی بھائیوں کے لیے ہمارے طرزِعمل میں اگر کوئی چیز معقول وجہِ شکایت ہو تو وہ ہمیں بتائی جائے۔ ہم ان شاء اللہ ان کو رفع کرنے کی کوشش میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھیں گے۔ دنیا میں امن اور صلح و آشتی کی فضا پیدا کرنے میں ہم سب اسی طرح مددگار بن سکتے ہیں کہ ایک دوسرے کے ساتھ انصاف کریں۔ دوسروں سے فیاضانہ سلوک کرنے کی فراخ حوصلگی اگر ہم میں موجود نہ بھی ہو تو کم از کم اتنا تو ہو کہ دوسروں کی حق تلفی کرنے یاان کو اذیت دینے سے تو ہم باز رہیں۔
مسیحی بھائیوں کے طرزعمل میں جو اُمور کسی ایک ملک یا قوم کے نہیں‘ پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے وجہِ شکایت ہیں‘ انھیں میں کسی لاگ لپیٹ کے بغیر مختصراً آپ سے بیان کیے دیتا ہوں۔
ایک مدت دراز سے مسیحی اہلِ علم اپنی تحریروں اور تقریروں میں سیدنا محمدصلی اللہ علیہ وسلم‘ قرآن اور اسلام پر حملے کر رہے ہیں اور آج بھی جن کا سلسلہ جاری ہے‘ وہ مسلمانوں کے لیے انتہائی مُوجبِ اذیت ہیں۔ میں ’حملے‘ کا لفظ قصداً استعمال کر رہا ہوں‘ تاکہ آپ کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ ہماری شکایت معقول علمی تنقید کے خلاف ہے۔ علمی تنقید اگر دلیل کے ساتھ اور تہذیب و شایستگی کے حُدود میں ہو تو خواہ وہ کیسے ہی سخت اعتراضات پر مشتمل ہو‘ ہم اس پر برا نہیں مانتے بلکہ اس کا خیرمقدم کرتے ہیں اور دلیل کا جواب دلیل سے دینے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن ہمیں بجا طور پر شکایت اُن حملوں کے خلاف ہے جو جھوٹے اور رکیک الزامات کی صورت میں اور نہایت دل آزار زبان میں کیے جاتے رہے اور اب تک کیے جا رہے ہیں۔ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے‘ وہ حضرت مریم علیہا السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا انتہائی ادب و احترام ملحوظ رکھتے ہیں اور ان کے متعلق کوئی خلافِ ادب بات زبان سے نکالنا ہمارے عقیدے میں کفر ہے۔ آپ کوئی مثال ایسی نہیں پاسکتے کہ کسی مسلمان نے کبھی سیدنا مسیح علیہ السلام اوران کی والدۂ ماجدہ کی شان میں کوئی بے ادبی کی ہو۔ اگرچہ ہم حضرت مسیحؑ کی اُلوہیت کے قائل نہیں ہیں‘ مگر ان کی نبوت پر ہمارا ویسا ہی ایمان ہے جیسا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر ہے‘ اور کوئی شخص مسلمان نہیں ہوسکتا جب تک وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اُن پر اور دوسرے انبیا پر بھی ایمان نہ لائے۔
اسی طرح ہم صرف قرآن ہی کو نہیں بلکہ تورات اور انجیل کو بھی خدا کی کتابیں تسلیم کرتے ہیں اور کوئی مسلمان ان مقدس کتابوں کی توہین کا خیال بھی نہیں کرسکتا۔ ہماری طرف سے اگر کبھی کوئی بحث ہوئی ہے تو اِس حیثیت سے ہوئی ہے کہ بائیبل جس شکل میں اب پائی جاتی ہے‘ یہ کہاں تک مستند ہے‘ اور یہ بحث خود مسیحی علما بھی کرتے رہے ہیں۔ کسی مسلمان نے کبھی اس کا انکار نہیں کیا کہ حضرت موسٰی ؑ و عیسٰی ؑاور بائیبل کے دوسرے انبیا ؑپر اللہ کا کلام نازل ہوا تھا‘ اور مسلمان چاہے یہ بات نہ مانتے ہوں کہ اِس وقت پائی جانے والی پوری بائیبل اللہ کا کلام ہے‘ مگر یہ ضرور مانتے ہیں کہ اس میں اللہ کا کلام موجود ہے۔ لہٰذا ہمارے مسیحی بھائیوں کو ہم سے یہ شکایت کرنے کا کبھی موقع نہیں ملا ہے کہ ہم اُن کے انبیا کی‘ یا اُن کی کتب مقدسہ کی توہین کرتے ہیں۔ بخلاف اس کے ہمیں آئے دن ان سے یہ رنج پہنچتا رہتا ہے‘ اور صدیوں سے اس دل آزاری کا سلسلہ چل رہا ہے کہ ان کے مصنفین اور مقررین ہمارے نبیؐ اور ہماری کتابِ مقدس اور ہمارے دین پر سخت حملے کرتے ہیں۔
دنیا کی اسلامی اور مسیحی برادریوںکے درمیان تعلقات کی خرابی کا یہ ایک اہم سبب ہے۔ اس سے شدید باہمی منافرت پیدا ہوتی ہے‘ اور مزیدبرآں اس ناروا پروپیگنڈے کا لازماً یہ نتیجہ بھی ہوتا ہے کہ مسیحی عوام کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت و تحقیر کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ آپ دنیا کے امن کی بہت بڑی خدمت انجام دیںگے اگر مسیحیت کے پیرووں کو اس طرزِعمل میں کم از کم اتنی اصلاح کرلینے کی نصیحت کریں کہ یہ دل آزاری اور نفرت انگیزی کی حد تک نہ پہنچے۔ (مکتوب بنام پوپ پال ششم‘ دسمبر ۱۹۶۷ئ‘ مکاتیب سید ابوالاعلٰی مودودی‘ جلد اوّل‘ مرتبہ: عاصم نعمانی‘ جون ۱۹۷۰ئ‘ ص ۲۱۶- ۲۱۹)