اکتوبر۲۰۰۶

فہرست مضامین

کتاب نما

| اکتوبر۲۰۰۶ | کتاب نما

Responsive image Responsive image

وحی، علم اور سائنس، ڈاکٹر محمد ریاض کرمانی۔ ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز‘ نئی دہلی‘ بھارت۔ صفحات: ۱۵۲۔ قیمت: ۷۰ بھارتی روپے۔

مذہب‘ انسانی علم و عمل کے لیے ایک ماورائی طریق ہے‘ جب کہ تجربی علم اور سائنس کی بنیاد‘ مشاہدہ اور تجربہ ہے۔ مذہب‘ انسان کو اس کی اپنی ذات اور کائنات کے بارے میں جو علم دیتا ہے‘ اور اس کے لیے جو راہِ عمل بتاتا ہے‘ ضروری نہیں کہ انسان کی اپنی فکر اور محسوسات و مشاہدے سے ہم آہنگ ہو۔ مذہب اور عقل‘ مذہب اور سائنس میں ہم آہنگی تلاش کرنے کی کوششیں بہت سے اہلِ مذہب اور سائنس دانوں نے کی ہیں۔ مسلمانوں میں سب سے پہلے اس طرح کی کوششیں معتزلہ نے کی۔ آج کل قرآن اور سائنس‘ اسلام اور نظریۂ ارتقا اور کائنات کی سائنسی تشریح اور اسلام جیسے موضوعات پر بے شمار مضامین اور کتابیں شائع ہو رہی ہیں۔ زیرتبصرہ کتاب اس سلسلے کی ایک منفرد تصنیف ہے۔ انھوں نے الہامی دعوؤں اور مشاہداتی علم کو خلط ملط کرنے سے اجتناب  کیا ہے۔

مصنف نے پہلے تو اسلامی نقطۂ نظر سے علم کے بنیادی مصدر ’وحی‘ کی تشریح کی ہے۔ اُن کے نزدیک وحی کی دو قسمیں ہیں: وحیِ الٰہی اور جناتی وحی۔ وحی کے حاملین میں ارض و سما‘ حیوانات‘ فرشتے‘ جِن اور انسان شامل ہیں۔ گویا یہ وحی کے وصول کنندہ ہیں۔ تاہم حصولِ علم میں وحیِ الٰہی ہی ایک یقینی ذریعہ علم ہے اور انسان چونکہ اس زمین پر اللہ کا خلیفہ/نائب ہے‘ اس لیے اُس کی ہدایت کے لیے رسولوں کے ایک سلسلے کے ذریعے ہدایت و رہنمائی کا سامان پیدا کیا گیا ہے‘ جس کی آخری‘ حتمی اور غیرمشکوک صورت قرآن مجید ہے جو اللہ کے آخری پیغام بر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے تمام انسانوں کو عطا کیا گیا۔

وحی کی دوسری صورتیں‘ ان کے خیال میں وجدان‘ ضمیر اور جبلّت ہیں‘ جو پیغمبر اور عام لوگوں‘ سب کو حاصل ہیں۔ اس طرح الہام بھی صالحین اور غیرصالحین سب کو ہوسکتا ہے۔یہ جنوں کی طرف سے بھی ہوسکتا ہے‘ اوراس صورت میں اِسے وسوسہ کہہ سکتے ہیں۔ وجدان‘ ضمیر‘ جبلّت‘ الہام‘ اِلقا اور وسوسے سے جو علم حاصل ہوتا ہے‘وہ صحیح بھی ہوسکتاہے اور غلط بھی۔ لیکن وحیِ رسالت سے جو علم حاصل ہوتا ہے‘ وہ قطعی اور یقینی ہوتا ہے۔ یہ علم صرف پیغمبر کا نصیب ہے۔

مصنف کہتے ہیں کہ احادیث کے مضامین میں وحیِ رسالت بھی شامل ہوتی ہے‘ اور اس کے علاوہ ان میں پیغمبر کے اپنے مشاہدات‘ تجربات اور غوروفکر کے نتائج اور ظنیات بھی شامل ہوتے ہیں۔ وحیِ رسالت اور اِن مشاہدات و تجربات کے نتائج میں فرق کرنا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں: ’’احادیث کے مضمون پر کسی بھی علمی یا سائنسی تجزیے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ مضمونِ حدیث کی نوعیت طے کرلی جائے کہ وہ وحیِ رسالت ہے یا… صرف تجربے اور غوروفکر کا نتیجہ‘‘۔ چونکہ کلام اللہ (قرآن مجید) کے بعد کلامِ رسولؐ (حدیث) ہی سب سے زیادہ یقینی اور اہم ذریعۂ علم ہے‘ اس لیے حدیث کی نوعیت کا تعین نہایت ضروری ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’اگر وحی کا استعمال بغیر تجربے کے کیا جائے تو ہمیشہ ناقص معاشرہ وجود میں آئے گا‘ اور اگر تجربے ہی پر بھروسا کیا جائے تو معاشرے میں دوسرے قسم کے نقائص پیدا ہوں گے۔ اس لیے اسلامی معاشرے میں اعمال کا تعین وحی اور تجربے‘ دونوں کی روشنی میں ہونا چاہیے‘‘۔

قرآن اور سائنسی علم کے بارے میں مصنف بجاطور پر کہتے ہیں کہ قرآن کے ’خبریہ جملوں‘ کی صحت جانچنے کے لیے سائنس کو کسوٹی نہیں بنایا جا سکتا۔ مصنف کے نزدیک اسلام اور سائنس کے درمیان ربط کی پانچ بنیادیں ہیں: قرآن‘ محسوسات اور معقولات کو ایک ذریعۂ علم کی حیثیت سے پیش کرتا ہے‘ وہ وحی کو ایک اچھا ذریعۂ علم قرار دیتا ہے‘ وحی کے بہت سے پیغامات کو محسوسات اور معقولات کی مدد سے مدلل کرتا ہے‘ قرآن اوہام سے پاک ہے‘ چنانچہ علمی عقائد سے اس کا ٹکرائو نہیں‘ اور جہاں قرآن اور سائنس میں ٹکرائو نظر آتا ہے‘ وہ اصل میں سائنس دانوں کے توہمات اور ظنّیات پر جمے رہنے کی ضد کی بنا پر ہے۔

کتاب میں ’نیچری طرزِفکر‘ سے اجتناب برتا گیا ہے۔ ہمارے بعض علما اور مصنفین کی عادت ہے کہ جہاں کوئی نیا سائنسی انکشاف سامنے آیا‘ جھٹ قرآن مجید ے استشہاد کر کے یہ دکھا دیتے ہیں کہ یہ تو ہمارے ہاں بھی موجود ہے۔ ایٹم کا تصور‘ اجرامِ سماوی کی گردش‘ دن رات کی پیدایش وغیرہ۔ یہ کتاب اس معذرت خواہانہ رویّے سے پاک ہے۔ مصنف اس رویّے کو بجا طور پر ’سائنس زدگی‘ قرار دیتے ہیں اور اس سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں۔ لیکن اس کوشش میں کہیں کہیں وہ علماے قدیم سے اس طرح اتفاق کرتے ہیں کہ اس کا دفاع مشکل ہے‘ مثال کے طور پر ’رتق‘ کی  تفسیر میں۔ قرآن مجید کے مطابق پہلے آسمان اور زمین ’رتق‘ تھے۔ پھر انھیں ’فتق‘ کیا گیا (الانبیاء ۲۱:۳۰)۔ ابن عباس‘ ابن عمر اور بعض دوسرے اس سے یہ مطلب نکالتے ہیں کہ آسمان سے بارش نہ ہوتی تھی‘ اور زمین‘ روئیدگی نہ دیتی تھی۔ پھر اللہ نے انھیں کھول دیا‘ بارش ہونے لگی اور جان دار چیزیں پیدا ہونے لگیں۔ جدید کونیات کہتی ہے کہ یہ وسیع کائنات جو ہرلمحے وسیع تر ہوتی جارہی ہے‘ ابتداً ایک چھوٹے سے ’مادہ توانائی مرکزے‘ پر مشتمل تھی جو ایک بڑے انفجار (big bang) کے نتیجے میں کائنات کے وجود میں آنے کا باعث ہوا (فتق)۔ اگر قرآن مجید کی یہ تفہیم‘ جدید نظریاتِ کائنات سے قریب تر ہے‘ تو اِسے قبول کرنے میں کیا حرج ہے؟ بہرحال وحیِ الٰہی کی تفسیر وتشریح اور مشاہداتی علم میں توافق تلاش کرنے میں احتیاط کی ضرورت ہے۔

مصنف بنیادی طور پر سائنس دان ہیں۔ وہ نباتیات میں پی ایچ ڈی ہیں۔ کتاب کا مطالعہ عام لوگوں کے علاوہ ہمارے علما کے لیے بھی مفیدہوگا۔ (پروفیسر عبدالقدیرسلیم)


آخری سورتوں کے درس -۲ (سورۃ العصر تا سورۃ الناس)‘ مؤلف: خرم مراد۔ صفحات: ۳۱۶۔ قیمت: ۱۳۰ روپے۔

یہ قرآن حکیم کی آخری ۱۲ سورتوں (العصر تا الناس) کے ان دروس پر مشتمل ہے جو خرم مراد مرحوم نے مسجد بلال‘ گارڈن ٹائون لاہور کے خطاب جمعہ میں ایک تواتر سے دیے تھے۔ انھیں کیسٹ سے اتار کر تدوین کے بعد کتابی شکل میں شائع کیا گیا ہے۔ مدرس کے نزدیک ان سورتوں کے انتخاب کی وجہ یہ ہے کہ: ان سورتوں میں اس کائنات میں انسان کے مقام کو واضح کیا گیا ہے‘ دین کی بنیادی تعلیمات اجمالاً بیان کی گئی ہیں‘ نیز اللہ اور انسان کے مابین تعلق جو قرآن کا مرکزی موضوع ہے‘ زیربحث آیا ہے۔ حضوؐر بھی ان سورتوں کو اکثر تلاوت فرماتے تھے اور صحابہؓ کو بھی اس کی تاکید فرماتے۔اگر ان سورتوں کا مفہوم ذہن میںرکھ کر نماز میں پڑھا جائے تو مختصر بولوں میں دین کی بنیادی تعلیمات تازہ ہوتی رہتی ہیں اور ذہن نشین بھی ہوجاتی ہیں۔

دروس کا اسلوب سادہ اور عام فہم ہے۔ چھوٹے چھوٹے جملے اور فقرے‘ سمجھانے کا انداز‘ آیات کے اسباق کا عصری حالات پر انطباق اور آیات و الفاظ کے سیاق و سباق اور سورتوں کے مجموعی نظم کے حوالے سے توضیح‘ ان کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ سورہ کے آغاز میں اس کا مختصر تعارف اور پھر اس کی اہمیت بیان کی گئی ہے۔ اس کے بعد ایک ایک آیت کی الگ الگ وضاحت‘ اور جہاں ضرورت محسوس ہوئی وہاں اہم الفاظ کی تشریح بھی کی گئی ہے۔ مختلف مفسرین کی آرا بھی بیان کی گئی ہیں۔ آیت کا ماسبق آیت سے اور سورہ کا ماسبق سورہ سے بالعموم ربط بیان کیا گیا ہے۔

مرحوم نے چونکہ مشرق و مغرب کی تہذیبی اقدار کا گہرا مشاہدہ کیا تھا اور قرآن فہمی میں بھی ان کو خصوصی دل چسپی تھی‘ اس لیے ان کے درس قرآن کا انداز جدید تعلیم یافتہ طبقے کی ذہنی اپروچ سے ہم آہنگ ہے۔ قرآن فہمی کے سامان کے ساتھ ساتھ مدرسینِ قرآن کے غوروفکر کے لیے اہم نکات بھی سامنے آتے ہیں۔ اس کے حصہ اوّل کا انتظار ہے۔ (ڈاکٹر اختر حسین عزمی)


بلوچستان میں شورش، نصرت مرزا۔ ناشر: رابطہ پبلی کیشن‘ ۷۱۰-یونی شاپنگ سنٹر‘ صدر‘ کراچی۔ صفحات: ۲۸۸۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔

بلوچستان آج توجہ کا مرکز ہے۔ اس موقع پر معروف کالم نگار نصرت مرزا نے بلوچستان کی بگڑتی ہوئی صورت حال کے پیش نظر‘ ایک ہمہ جہتی جامع مطالعہ ’بلوچستان میں شورش، چھاپہ مار جنگ، سرداری نظام‘ کے عنوان سے نہایت بروقت پیش کیا ہے۔ کتاب کیا ہے‘ بلوچستان کے   قدیم و جدید حالات پر جامع انسائی کلوپیڈیا‘ جس میں مختلف مواقع پرطبع ہونے والے کالموں کا انتخاب‘ نواب اکبر بگٹی کے انٹرویو سے لے کر ان کی تحریر: ’بلوچوں کا فسانۂ زندگی‘ سردار اسلم رئیسانی‘   مولانا حسین احمد شرودی‘ سردار یعقوب ناصر‘ میر نصیرمینگل اور ڈاکٹر شعیب سڈل کے انٹرویو شامل ہیں۔ کتاب میں قوم پرستوں کے موقف کے ساتھ ساتھ پاکستان اور حکومت پاکستان کا موقف بھی شامل کیا گیا ہے۔ پاکستان‘ بلوچستان اور گوادر کے بارے میں بنیادی معلومات کتاب کا حصہ ہیں‘ جب کہ بلوچستان پر پارلیمانی کمیٹی کی رپورٹ‘ بلوچستان میں انسانی حقوق اور صوبائی حقوق‘ ڈاکٹر شازیہ کیس کی تحقیقاتی رپورٹ سے کتاب کی اہمیت دوچند ہوجاتی ہے۔

بحیثیت مجموعی اس کتاب سے بلوچستان کی صورت حال کی صحیح تصویرکشی ہوتی ہے۔ مختلف نقشہ جات‘ تصاویر اور معلومات پر مبنی چارٹس سے کتاب کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔ بلوچستان کے تازہ ترین حالات تاریخی پس منظر کے ساتھ جاننے کے خواہش مندوں کے لیے یہ کتاب ایک قیمتی تحفہ ہے۔ (عمران ظہور غازی)


زلزلہ داستان، بشیر سومرو۔ ناشر: فہم پبلی کیشنز‘ کراچی۔ صفحات: ۱۷۱۔ قیمت: ۱۸۰ روپے۔

۸ اکتوبر ۲۰۰۵ء کو پاکستان میں آنے والا زلزلہ بلاشبہہ جانی و مالی نقصان کے اعتبار سے معلوم انسانی تاریخ کے عظیم زلزلوں میں سے ایک تھا۔ اہلِ پاکستان و کشمیر کبھی بھی اس زلزلے کی  تباہ کاریوں کو شاید فراموش نہ کرپائیں۔ بشیر سومرو نے کمال یہ کیا ہے کہ ان علاقوں میں ازخود جاکر حالات کا بچشم خود نہ صرف مشاہدہ کیا بلکہ متاثرین سے ملاقاتیں کر کے اَن گنت واقعات میں سے بہت سے واقعات کو مروجہ رپورٹنگ کے بے جان انداز کے بجاے وہ انداز اختیار کیا جس میں یوں لگتا ہے کہ گویا واقعات قارئین کی نظروں کے بالکل سامنے ہیں۔ روزنامہ اُمت کراچی کے رپورٹر کی حیثیت سے انھوں نے متاثرہ علاقوں سے یہ دل گداز اور پُرسوز داستانیں رقم کیں جسے کتابی صورت میں پیش کر کے ایک اہم فریضہ سرانجام دیا ہے۔ کتاب میں بہت سی رنگین تصاویر بھی شامل ہیں جن سے قاری کے ذہن پر ان افراد کے چہرے بھی نقش ہوجاتے ہیںجن کی کہانیاں اس کتاب میں درج ہیں۔ یوں ایک مؤثر زلزلہ داستان ہمارے سامنے ہے۔ بشیر سومرو نے الفاظ کا صحیح استعمال کیا ہے‘ مثلاً ’’شہر جس کا نام بالاکوٹ تھا اور وہ اب تہہ و بالا ہوکر بکھرا پڑا تھا‘‘ (ص ۱۹)۔ ’’پہلے والا مظفرآباد نہ تھا بلکہ یہ تو ’مظفربرباد‘ لگتا تھا‘‘۔ (ص ۲۱)

پھر نہایت جامعیت کے ساتھ لفظوں میں تصویرکشی قاری کی توجہ اپنی طرف کھینچ لیتی ہے‘ مثلاً: ’’بالاکوٹ ہو یا مظفرآباد‘ ان شہروں اور قصبوں میں ہر شخص کہانی ہوچکا ہے۔ جس کو کھولو‘ اس کا کلیجہ چھلنی دکھائی دیتا ہے۔ یہ لوگ اپنے اتنے پیاروں کے صدمے اُٹھا چکے ہیں کہ اب ان کے  دل دکھوں کی ہر سرحد سے گزر چکے ہیں‘‘۔ (ص ۵۰)

مظفرآباد کے حوالے سے فاضل مصنف ص ۵۳ پر رقمطراز ہیںکہ ’’زمین نے اپنی چھاتی کھول کر اس شہر کو اپنی پناہ میں لے لیا ہے‘‘۔ ’’یہاں زخمی عورتوں پر دہری ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے زخموں اور صدموں کا خیال بھی رکھتی ہیں اور بچوں کو بھی سنبھالتی ہیں‘‘۔ (ص ۵۸)

حکومتی پروپیگنڈا‘ کراچی کی ایک لسانی تنظیم جسے پروپیگنڈے میں کمال حاصل ہے کا   کچا چٹھا اور دینی تنظیموں کا زبردست اور قابلِ تعریف جذبہ و کام‘ سبھی کچھ قاری کو اس کتاب میں ساتھ ساتھ مل جاتا ہے اور یوں یہ کتاب ایک قاری پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔ یہ ایک تاریخ ہے جسے محفوظ رکھنا اور اس سے سبق حاصل کرتے ہوئے آیندہ کے لیے کسی ایسے ممکنہ خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے تیاری رکھنا ضروری ہے۔(محمد الیاس انصاری)