سوال: روزے میں اِن ہیلر (inhaler) کے استعمال کے بارے میں دو طرح کی آرا سامنے آتی ہیں۔ کچھ علما بالخصوص برعظیم پاک و ہند کے علما کی راے یہ ہے کہ دوران روزہ اِن ہیلر کے استعمال سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے‘ جب کہ سعودی عرب کے علما کی راے میں اس کا استعمال جائز ہے اور روزہ نہیں ٹوٹتا (ترجمان القرآن‘ جنوری ۲۰۰۱ئ)۔ ڈاکٹر صاحبان کی راے بھی یہی ہے کہ اس کے استعمال سے صرف پھیپھڑوں میں کشادگی پیدا ہوتی ہے اور سانس لینے میں آسانی ہوتی ہے جس سے روزے پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اس اختلاف راے سے میں ذہنی الجھن کا شکار ہوگیا ہوں۔ کیا کسی ایک متفقہ موقف پر ہم نہیں پہنچ سکتے‘ رہنمائی فرمایئے۔
جواب: آپ نے سعودی عرب کے علما کی راے اور فتویٰ کے حوالے سے تحریر فرمایا ہے کہ وہ روزہ کے دوران اِن ہیلر (inhaler) کے استعمال کو جائز قرار دیتے ہیں‘ جب کہ پاکستان کے بعض علما اسے ناجائز قرار دیتے ہیں اور اس بنا پر آپ ذہنی پریشانی کا شکار ہیں۔ صورت واقعہ یوں ہے کہ اِن ہیلر جیسے بہت سے معاملات میں نہ صرف علما بلکہ خود صحابہ کرامؓ کے درمیان اختلاف پایا جاتا تھا لیکن ان میں سے کسی نے یہ اصرار نہیں کیا کہ صرف اور صرف ان کی راے درست ہے اور باقی سب کی راے غلط ہے۔
دین اسلام کی یہ خوبی ہے کہ وہ فقہی معاملات میں اپنے اندر ایک سے زائد تعبیرات کی گنجایش رکھتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ امام ابوحنیفہ ؒ کا پورا احترام کرتے ہوئے امام مالکؒ نے ان کی بعض آرا سے اختلاف کیا‘ اور ان دونوں کا احترام کرتے ہوئے امام شافعیؒ نے دونوں کی رائے سے الگ راے قائم کی‘ جب کہ ان سب کی بنیاد قرآن و سنت کے واضح احکامات ہی تھے۔
اجتہادی اور قیاسی مسائل میں ایسا ہونا بالکل فطری ہے۔ جہاں تک اِن ہیلر کا تعلق ہے آپ نے خود یہ بات تحریر فرمائی ہے کہ اس میں نہ کوئی غذا جسم میں داخل ہورہی ہے‘ نہ کوئی چیز نگلی یا پی جارہی ہے‘ جب کہ اس غبار سے جو مثل بھاپ ایک غبار ہے ایک مریض کے پھیپھڑے اسے سانس لینے میں سہولت فراہم کردیتے ہیں تو اس میں کون سا پہلو حرام کا نکلتا ہے۔ اگر یہ بات مان بھی لی جائے اِن ہیلر کے غبار میں کسی بے مزہ کیمیکل کی منتقلی ہوتی ہے‘ تو کیا روزے کے دوران وضو کرتے وقت جب کلی کی جاتی ہے تو زبان کے مسام اس سے تر نہیں ہوتے۔ چونکہ اس کا مقصد اور نیت زبان کو تر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ سے چوری کرنا نہیں ہے اس لیے ان چند قطروں کے زبان پر لگنے سے روزہ متاثر نہیں ہوتا۔
یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ اگر آپ سعودی عرب کے علم و تقویٰ پر اعتبار کرکے ایک عمل اختیار کررہے ہیں تو آپ صرف جس بات پر یقین رکھتے ہیں اور تحقیق کرنے کے بعد مطمئن ہیں اسی کے لیے جواب دہ ہیں۔
قرآن نے صاف حکم دیا ہے کہ مشورہ کرو اور جس پر مطمئن ہوجائو تو عزم کرنے کے بعد گومگو میں مبتلا نہ ہو۔ اگر آپ سعودی علما کی راے سے مطمئن نہیں ہیں تو جس کی بات پر یقین ہو‘ اور آپ نے تحقیق کر کے اس بات کو اختیار کیا ہو اسی پر قائم ہوجایئے۔ بال کی کھال اُتارنے میں نہ پڑیں‘ حدیث میں اس سے منع کیا گیا ہے۔
یہ فیصلہ کرنے کے لیے کہ کس کی راے زیادہ بہتر ہے‘ کوشش کریں کہ قرآن و حدیث کا براہ راست مطالعہ کریں اور فقہا جن بنیادوں پر غور کرنے کے بعد ایک راے قائم کرتے ہیں ان کے بارے میں ابتدائی معلومات ضرور حاصل کرلیں تاکہ اختلاف راے کو برداشت کرنے کی تربیت ہوسکے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)
س: میرے شوہر کا کپڑوں کی سلائی کا یونٹ ہے جہاں پر وہ برآمد کے لیے مال تیار کرتے ہیں‘ مثلاً جیکٹ‘ ٹی شرٹ‘ ٹرائوزر وغیرہ۔ بعض اوقات لیڈیز آئٹم کا بھی آرڈر آجاتا ہے۔ میراسوال یہ ہے کہ کیا خواتین کے مختصر لباس سینا گناہ کے زمرے میں آتا ہے؟ میرے شوہر کا کام صرف سلائی کی حد تک ہے‘ آگے فروخت کرنے کا کام نہیں ہے۔ کیا یہ کاروبارجائز ہے؟
ج: اکلِ حلال دین کے بنیادی مطالبات میں سے ایک مطالبہ ہے اور ایمان کے تحفظ و ترقی کے لیے شرط کی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ کے سوال سے یہ جان کر بہت اطمینان ہوا کہ الحمدللہ اس دورِ انحطاط میں بھی ہمارے معاشرے میں اللہ کے ایسے بندے موجود ہیں جو اپنے ہاتھ کی محنت کی کمائی کو حلال ذرائع سے حاصل کر کے دنیا اور آخرت کی کامیابی کے خواہش مند ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اور آپ کے شوہر کو ہمیشہ اکلِ حلال کے حصول کی توفیق دے اور رزق میں برکت دے۔ آمین!
جہاں تک کپڑوں کے سینے کے حوالے سے جواب دہی کا تعلق ہے‘ اگر ایک شخص ملازمت کے حصول یا کسی کاروباری معاہدے سے پہلے شرائط میں یہ بات شامل کرلے کہ وہ کس قسم کے کام کرے گا اور کس قسم کے کام سے معذور سمجھا جائے‘ تو یہ اسلام کی روح کے عین مطابق ایک عمل ہوگا۔ لیکن اگر ملازمت اختیار کرتے وقت یا کاروباری معاملہ طے کرتے ہوئے ایسی کوئی شرط نہیں طے کی گئی اور کپڑوں کی سلائی کا مدت یا تعداد کے لحاظ سے ایک معاوضہ طے کرلیا گیا کہ اتنے دن کام کرنے پر‘ یا اتنی تعداد میں کپڑے سینے پر یہ ادایگی ہوگی تو اس شکل میں ایک کارکن کے ہاتھ میں یہ اختیار نہیں رہتا کہ وہ کپڑوں کے سینے میں اپنے انتخاب کی بنیاد پر کپڑے سیئے۔ اسے معاوضہ سینے کا مل رہا ہے‘ تراشنے یا کپڑوں کو کسی خاص طور پر ڈیزائن کرنے کا نہیں‘ اور نہ ان کپڑوں کے سلنے کے بعد استعمال میںاس کا کوئی دخل یا اختیار ہے۔
اگر ایک درزی ایک چست کپڑا سیتا ہے کیونکہ اسے تراشنے کے بعد جو کپڑا سینے کو دیا گیا اس کی شکل وغیرہ اس کے مشورے اور علم و نیت کے بغیر کسی اور نے کی ہے‘ اسے صرف اس کپڑے کو مشین کے ذریعے سینا ہے‘ تو گو وہ ایک چست قمیص سیتا ہے لیکن چست کپڑا پہننے کی معصیت میں اسے شریک تصور نہیں کیا جائے گا۔ کیونکہ اس بات کا پورا امکان ہے کہ ایک فرد چست لباس پہننے کے باوجود اُوپر سے ایسا لباس پہن لے جس سے جسم کی نمایش نہ ہو۔ تاہم‘ یہ بہتر ہوگا کہ کوئی کاروباری معاہدہ کرتے ہوئے یا شرائط ملازمت کا تعین کرتے ہوئے پہلے سے یہ طے کرلیا جائے کہ کوئی نازیبا لباس نہ سیا جائے گا۔ اس کے نتیجے میں ان شاء اللہ آپ کے کام یا کاروبار میں اللہ اتنی برکت دے گا کہ آپ کو کمی محسوس نہ ہوگی۔
خیال رہے کہ جو شخص خواتین کے لیے ایسے لباس ڈیزائن کرتا ہے جس سے عریانیت کا فروغ ہو‘ وہ لازمی طور پر معصیت میں شریک تصور کیا جائے گا۔ عالمی شہرت کے بہت سے فیشن ایجاد کرنے والے ادارے اور افراد جو عریاں لباس ڈیزائن کرتے ہیں‘ یا جو اخبارات اور ٹی وی نیٹ ورک پر ایسے لباسوں کی نمایش کرتے ہیں‘ یا جو ماہرین ایسے لباسوں کی مارکیٹنگ کرتے ہیں‘ وہ سب معصیت میں برابرکے شریک تصور کیے جائیں گے۔ واللّٰہ اعلم بالصواب (ا-ا)