اکتوبر۲۰۰۶

فہرست مضامین

کلام نبویؐ کی کرنیں

مولانا عبد المالک | اکتوبر۲۰۰۶ | فہم حدیث

Responsive image Responsive image

حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعدبن معاذؓ کے ہاں روزہ افطار فرمایا۔ اس کے بعد آپؐ نے دعا کرتے ہوئے فرمایا:  اَفْطَرَ عِنْدَ کُمُ الصَّائِمُوْنَ وَاَکَلَ طَعَامَکُمُ الْاَبْرَارُ وَصَلَّتْ عَلَیْکُمْ الْمَلٰٓئِکَۃُ ، تمھارے ہاں روزے دار افطار کریں‘ تمھارا کھانا نیک لوگ تناول کریں اور تمھارے لیے فرشتے دعاے رحمت کریں۔ (ابن ماجہ، کتاب الصیام)

کوئی روزہ افطار کروائے تو اس کو دعا ضرور دی جائے کہ اس میں اتباع رسولؐ کا ثواب بھی ہے۔ دعا کے یہ تین نکات بھی پیش نظر رہیں۔

o

حضرت سلمانؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری کی عیادت کرنے نکلے۔ جب اس کے پاس پہنچے تو اپنا ہاتھ اس کی پیشانی پر رکھا اور پوچھا کہ آپ کی طبیعت کیسی ہے؟ انھوں نے اس کا کچھ جواب نہ دیا۔ کہا گیا: یارسولؐ اللہ! تکلیف کی وجہ سے ان کو آپ ؐ کو جواب دینے کی سکت نہیں۔ آپؐ نے فرمایا: آپ لوگ مجھے اور اسے تنہا چھوڑ دیں‘ تب لوگ اور ایک روایت میں ہے کہ خواتین اس کے پاس سے اُٹھ کر باہر چلی گئیں اور رسولؐ اللہ کو اس کے پاس چھوڑ دیا۔

رسولؐ اللہ نے ان کی پیشانی پر ہاتھ رکھا ہوا تھا‘ آپؐ نے اپنا دستِ مبارک ان کی پیشانی سے ہٹا دیا‘ تب مریض نے اشارہ کیا کہ آپؐ اپنا دستِ مبارک اسی جگہ رکھ دیجیے جہاں رکھا ہوا تھا۔ چنانچہ آپؐ نے اپنا ہاتھ مبارک ان کی پیشانی پر رکھ دیا۔ پھر آپؐ نے پوچھا: اے فلاں! کیا محسوس  کر رہے ہو؟ انھوں نے جواب دیا: میں اپنے آپ کو خیریت میں پا رہا ہوں۔ میرے پاس دو اشخاص آئے‘ ایک سیاہ اور دوسرے سفید۔ رسولؐ اللہ نے پوچھا: دونوں میں سے کون تمھارے زیادہ قریب ہے؟ انھوں نے جواب دیا: سیاہ۔ آپؐ نے فرمایا: خیر تھوڑا ہے اور شر زیادہ دکھائی دیتا ہے۔ بیمار نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! مجھے اپنی دعا سے نفع پہنچا دیجیے‘ تب آپؐ نے دعا فرمائی: اے اللہ! برائیاں جو زیادہ ہیں انھیں معاف فرما دیجیے اور نیکیاں جو تھوڑی ہیں انھیں بڑھا دیجیے۔ دعا کے بعد آپؐ نے مریض سے پوچھا: اب کیا محسوس کر رہے ہو؟ توانھوں نے جواب دیا: میرے ماں باپ آپؐ پر قربان! اچھی حالت ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ خیر بڑھ رہا ہے اورشر کمزور ہورہا ہے۔ سیاہ شخص مجھ سے دُور ہٹ گیا ہے۔

آپؐ نے پوچھا: تمھاراکون سا عمل تمھاری نظر میں زیادہ مؤثر ہے؟ انھوں نے عرض کیا: میں پانی پلاتا تھا (مجھے امید ہے کہ وہ عمل زیادہ موثر ہے)۔پھررسولؐ اللہ نے فرمایا: سلمان میری بات سنو! کیا تم میری حالت میں کوئی انوکھی بات پاتے ہو؟ سلمان نے عرض کیا: ہاں یارسولؐ اللہ! میرے ماں باپ آپؐ پر قربان‘ میں نے آپؐ کو بہت سے مواقع پر دیکھا ہے لیکن آپؐ کو جس حالت میں اب دیکھ رہا ہوں ایسی حالت میں کبھی نہیں دیکھا (خوف و خشیت ِالٰہی کی حالت کے عجیب و غریب آثار ہیں)۔ آپؐ نے فرمایا: اس لیے کہ مجھے اس تکلیف کا علم ہے جو مرنے والا گزار رہا ہے۔ اس کی ہر رگ موت کے درد کو محسوس کر رہی ہے۔ (مجمع الزوائد‘ ج ۲ ‘ص ۳۲۲)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کواپنے صحابہؓ کرام میں سے ایک ایک کا کتنا فکر تھا اوراس کے لیے آپؐ کس قدر وقت نکالتے اور ان کی حاجات اور ضروریات اورمسائل میں شریک ہوتے تھے‘ اس کا اندازہ اس ایک واقعے اور اس طرح کے بے شمار دوسرے واقعات سے ہوجاتاہے۔ اس میں اہلِ ایمان کے لیے بہترین نمونہ ہے۔ اہلِ ایمان کو چاہیے کہ وہ دینی بہن بھائیوں اور عزیز واقارب سے صرف زبانی نہیں بلکہ عملی محبت کریں اور ان کی دنیاوی اور اخروی بھلائی کے لیے اپنے اندر طلب اور تڑپ پیدا کریں۔ اپنے بھائیوں کے دکھ سکھ‘ بیماری اور جانکنی کے عالم میں ان کے پاس جائیں اور ان کی ہر ممکن مدد کریں۔

ہرمسلمان کو موت کی سختی کی فکر کرنا چاہیے اور سختی سے بچائو کا سامان بھی کرنا چاہیے۔ برائیوں اور ظلم سے باز آنا چاہیے ورنہ موت کے وقت اللہ کی پکڑ سے جو دوزخ کے فرشتے کی شکل میں ہوتی ہے‘ بچانے والی کوئی چیز نہیں ہوگی۔ نبی کریمؐ پر اس وقت جو کیفیت طاری ہوئی اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نبیؐ کی ذات پر بھی اگر موت کی سختیوں کے مشاہدے کا اثر ہوتا ہے درآں حالیکہ آپؐ جنتیوں کے سردار ہیں تو پھر عام مسلمانوں پر کتنا اثر ہونا چاہیے (فاعتبروا یااولی الابصار)۔ کیا آج ہمیں موت اور اس کی سختیوں کی فکر ہے‘ اور کیا کسی بھائی کی موت کے مشاہدے کا ہم پر اثر ہوتا ہے؟

o

حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ سے روایت ہے ‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

اللہ تعالیٰ نے کچھ لوگوں کو اپنی نعمتوں سے نوازا ہوتا ہے‘ ان نعمتوں کو وہ ان کے پاس اُس وقت تک برقرار رکھتا ہے‘ جب تک وہ مسلمانوں کی حاجتیں پوری کرنے میں لگے رہتے ہیں اور اُکتا نہیں جاتے۔ جب وہ اُکتا جائیں تو اللہ تعالیٰ ان نعمتوں کو دوسروں کی طرف منتقل کر دیتا ہے۔ (طبرانی)

اللہ تعالیٰ دنیا میں اپنے بندوں کو نعمتوں سے نوازتا ہے تو یہ دراصل آزمایش ہوتی ہے۔ جو لوگ خوش دلی سے ان نعمتوں سے مسلمانوں کی ضرورتیں پورا کرتے ہیں اور کرتے رہتے ہیں‘ ان کو نعمتیں ملتی رہتی ہیں۔ انسان کو سمجھنا چاہیے کہ اسے جو کچھ مل رہا ہے‘ اس لیے مل رہا ہے کہ دوسروں کا حق انھیں پہنچائے۔ وہ یہ نہیں کرتا تو اسے ان نعمتوں سے محروم کردیا جاتا ہے۔ یہ نقطۂ نظر ہو تو معاشرے کے مسائل آسانی سے حل ہوجاتے ہیں۔ کوئی مصیبت کے وقت تنہا نہیں ہوتا۔

o

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے‘نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام نے    اللہ رب العالمین سے عرض کیا: اے میرے رب! مجھے اس شخص کے بارے میں بتلا دیجیے جو آپ کی مخلوق میں آپ کے ہاں زیادہ قدرومنزلت والا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وہ شخص جو میری مرضی کو پورا کرنے میں اس طرح اُڑے جس طرح باز اپنی خواہش کو پورا کرنے کے لیے اُڑتا ہے‘ اور جو میرے نیک بندوں سے اس طرح عشق و محبت کرتا ہے جس طرح بچہ ماں باپ کے ساتھ محبت سے چمٹ جاتا ہے‘ اور وہ شخص جو میری حرمتوں کی پامالی کے وقت غصے سے بھڑک اُٹھتا ہے جس طرح چیتا   اپنی ذات کی خاطر غصے سے بھڑک اُٹھتا ہے۔ جب وہ غضب ناک ہوجاتا ہے تو اس بات کی پروا نہیں کرتا کہ لوگ تھوڑے ہیں یا زیادہ۔ (مجمع الزوائد‘ ج ۷‘ ص ۲۶۵)

باز‘ بچہ اور چیتے کی تین مثالوں سے اللہ کی مرضی پوری کرنے کا جذبہ و شوق‘ نیک بندوں سے عشق و محبت اور اللہ کے احکامات کی خلاف ورزی پر غصے کی کیفیت کو کیا خوب بیان کیا گیا ہے۔ پھر ان سب پر یہ کہ جب وہ غضب ناک ہوجاتا ہے تو اس بات کی پروا نہیں کرتا کہ لوگ تھوڑے ہیں یا زیادہ۔ اللہ تعالیٰ سے محبت کی بلند ترین شکل یہی ہے۔ اس کی مرضی‘ یعنی اس کے دین سے محبت کرنے والوں سے عشق اور لگائو ہو۔ اللہ کے دین کی سربلندی اور غلبے کی تڑپ ہو۔ اسلامی شعائر اور اقدار کی پامالی کو برداشت نہ کیا جائے۔

مومن غصے سے بے قابو نہیں ہوجاتا۔ وہ اپنا غصہ شریعت کے طے کردہ ضابطے اور طریقے کے مطابق نکالتا ہے۔ اس غصے کے ذریعے عدل و انصاف قائم ہوتا ہے‘ حق دار کو اس کا حق دلایا جاتا ہے‘ محرمات کی حرمت بحال کی جاتی ہے۔ آج کا دور اسی عشق و محبت اور غیرت و حمیت کے اظہار کا دور ہے۔ آج مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کون اللہ تعالیٰ کی مرضی کے لیے اُڑ رہا ہے اور کون اللہ کی خاطر غصے سے بھڑک اُٹھتا ہے۔ کون ہے جو اس معیار کی روشنی میں اپنا جائزہ لے کر اللہ تعالیٰ کے نزدیک اپنی قدرومنزلت بڑھانے کے لیے سرگرمِ عمل ہوجائے!

o

حضرت ضمرہ بن ثعلبہؓ فرماتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس حال میں حاضر ہوا کہ میں نے یمنی کپڑوں کا جوڑا زیب تن کیا ہوا تھا۔ مجھے دیکھ کر آپؐ نے فرمایا: ضمرہ! تمھارا کیا خیال ہے، تیرے یہ کپڑے تجھے جنت میں داخل کرادیں گے؟‘‘ یہ سنتے ہی ضمرہؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! اگر آپؐ میرے لیے اس کوتاہی پر جو مجھ سے سرزد ہوگئی ہے، استغفار کریں تو مجھے    اس وقت تک چین نہ آئے گا جب تک ان کو اُتار نہ دوں۔ اس پر آپؐ نے دعا دیتے ہوئے فرمایا: ’’اے اللہ! ضمرہؓ بن ثعلبہ کے گناہ معاف فرمادیجیے۔ یہ سن کر ضمرہؓ تیز رفتاری سے چلے گئے اور   ان کپڑوں کو اتار دیا (یہ کپڑے ریشم کے بنے ہوئے تھے‘ اس لیے آپؐ نے انھیں اُتارنے کا حکم ترہیبی انداز میں دیا)۔(الفتح الربانی، باب ماجاء فی فضائل ضمرہؓ)

اس واقعے میں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ ریشم کے استعمال کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ممانعت کے باوجود بھی ایک صحابیؓ یہ پہنے ہوئے آپؐ کے پاس تشریف لائے۔ دوسری بات یہ کہ آپؐ نے اس پر پیار بھرے اندازسے توجہ دلائی‘ اور تیسری بات یہ کہ صحابیؓ نے فوراً ہی جاکر اسے اُتاردیا۔ اگر ہم کو اس طرح کی کسی خلاف ورزی پر توجہ دلائی جائے‘ یا ہمارے علم میں ایسے کسی عمل کے بارے میں کوئی حدیث آجائے تو ہمارا رویہ کیا ہوتا ہے!