ضعف ایمان کے باوجود مسلمانوں پر روز بروز الحاد و زندقہ کا بڑھتا ہوا طوفان زیادہ واضح ہوتا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بلاجرم ضعیفی کی پاداش میں ان پر نازل ہوئی تھی لیکن جب وہ آئی تو جن کے سینے میں حَبِّ خَرْدَل [رائی کے دانے] کے برابر بھی ایمان تھا‘ اس کا آخری دم تک مقابلہ کرتے رہے۔ بخارا کی نئی حکومت کا بننا تھا کہ علما نے زور وشور سے اپنی تبلیغ جاری کردی۔ انھوں نے اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ لیں اور بخارا کے اردگرد گوریلا جنگ جاری کردی۔ انھوں نے نواحی علاقوں کے تمام قبائل میں بے چینی اور تڑپ پیدا کردی۔ تمام قبائل نے متحد ہوکر بالشوزم کے مقابلے کی ٹھان لی۔ ابراہیم بک جو ایک مشہور دلیر اور جری جوان تھا‘ ان کا رہنما بن گیا۔ اب آئے دن بخارا اور اس کے قریبی علاقوں پر حملے ہونے لگے۔ ان ترکتازیوں نے ان کی ایسی دھاک بٹھا دی کہ وسطی ایشیا کے تمام وہ قبیلے جو ابھی تک بڑھتی ہوئی بالشویکی قوت کو سہمی ہوئی نظروں سے دیکھ رہے تھے‘ دلیر ہوگئے‘ اور ان علما اور مسلمان گوریلا گروہوں کی مدد پر کمربستہ ہوگئے۔
امیرعالم خاں بخارا سے سیدھا افغانستان پہنچا جہاں اس نے مسلمانوں کی حالت کا پورا نقشہ ان کے سامنے پیش کرکے وہاں کے لوگوں سے ان بے یارومددگار مسلمانوں کی مدد کے لیے اپیل کی اور زندقہ کے اس بڑھتے ہوئے سیلاب سے آگاہ کیا۔ اس کا یہ اثر ہوا کہ جونہی افغان عوام پر اصل حالات کھلے وہ گوریلا گروہوں کی یلغاروں میں شامل ہونے کے لیے پہنچنے لگے یہاں تک کہ سرخ فوج سے ان لوگوں نے دو ایک شہر بھی واپس لے لیے۔ (’صبح سمرقند‘، جیلانی بی اے‘ ترجمان القرآن‘ جلد ۲۹‘ عدد ۵‘ ذی القعدہ ۱۳۶۵ھ‘ اکتوبر ۱۹۴۶ئ‘ ص ۴۶-۴۷)