گوانتاناموبے ‘ کیوبا کے جنوب مشرق میں واقع ایک ۴۵ مربع میل جزیرے کا نام ہے ۔ ۱۹۰۳ء میں امریکا نے اس جزیرے کو کیوبا سے اجا رے پر لے کر یہاں ایک بحری فوجی اڈا قائم کیا جو تاحال قائم ہے ۔
ناین الیون کے سانحے کے بعد ہر اس فرد کو جو انصاف اور امن پر یقین رکھتا تھا ‘یہ امید تھی کہ امریکی حکومت سائنسی بنیادوں پر اس جرم کی تفتیش کرے گی‘ مکمل ثبوتوں اور شہادتوں کی روشنی میں ملزموں کو صفائی کا پورا موقع دے گی اور جرم ثابت ہو نے پرقرار واقعی سزا د ی جائے گی۔ اب پانچ سال بعد جو حقائق سامنے آرہے ہیں تومعلوم ہوتا ہے کہ ایسا کیوں نہیں ہوا‘ اور ایسا کیوں ہوا کہ ناین الیون کے وقوعے کے چند لمحوں بعد امریکا کے صہیونی نواز میڈیانے اعلان کر دیا کہ اس واقعے میں مسلمان ملوث ہیں‘ اور دو تین روز بعد امریکی صدر جارج بش نے اسلام کو نشانے پر لے کر صلیبی جنگوں کا اعلان کر دیا (بعد میں اس جنگ کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نام دیا گیا)۔ ساتھ ہی تباہی و بربادی ‘ آگ اور خون اورظلم و بربریت کا ایک نہ ختم ہو نے والا ایک ایسا سلسلہ شروع کر دیا گیا کہ دنیا ناین الیون کو بھول گئی ۔ چنگیزخان ‘ ہٹلر ‘ مسولینی ‘ پول پاٹ ‘ ملاسووچ اور ایرل شیرون جیسے سکّہ بند قاتل صدر بش کے سامنے بونے نظر آنے لگے ۔
مسٹربش کی اس شہرت میں یوں تو بہت سے واقعات اور کرداروں نے اہم کردار ادا کیا ہے‘ لیکن اس کی سرپرستی میں چلنے والے بدنام زمانہ قیدخانے گوا نتا ناموبے کو انسانیت کی تذلیل کے حوالے سے اہم مقام حاصل ہے۔
اس قید خانے کے تنگ و تاریک عقوبت خانوں اور اس سے قبل قندھار اور با گرام کے مذبح خانوں میں ‘ سورج کی روشنی اور تازہ ہوا کی لمس محسوس کیے بغیر زندگی کے تین سال گزار کر آنے والے ایک پاکستانی نژاد بر طانوی مسلمان معظم بیگ کی یادداشتوں پر مبنی ایک جامع خود نوشت٭ کا یہاں مختصر مطالعہ پیش کیا جا رہا ہے ۔ یہ کتاب ‘ ایک تاریخی دستاویز ہے۔ پاکستان میں کئی قیدی واپس آئے ہیں لیکن ابھی تک کسی نے اس نوعیت کی خودنوشت شائع نہیں کی ہے۔
اس کتاب کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ مصنف کے ساتھ پہلے دن سے لے کر آخری روز تک جو کچھ گزری ‘ اس کو اس نے پوری جرأت اور دانش سے قلم بند کردیا ہے۔اس کتاب کے مطالعے سے یہ معلوم ہو تا ہے کہ امریکا اور ان کے اتحادیو ں کی نظر میں مشکوک بننے کے بعد وہ کیسے چند ڈالروں کے عوض بیچا گیا ‘ پھر اسلام آباد ‘ قندھار اور باگرام میںکس کس انداز سے ’روشن خیال‘ مسلم حکمرانوں کی عزت افزائی کا مستحق ٹھیرا ۔ ساتھ ہی ان ممالک میں متعین امریکی فوجیوں کی ذہنیت سے بھی واقفیت حاصل ہوتی ہے۔
مصنف کے آباو اجداد پاکستانی تھے۔ ان کے والد بر طانیہ میں ایک بنک کار کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے ہیں ۔ گھر میں ایک علمی اور ادبی ماحول میسر آنے اور اچھی تربیت پانے کی وجہ سے معظم کی علمی استعداد ہمیشہ سے نمایاں رہی اور وہ معاشرے اور ہم جولیوں میں پائی جانے والی بہت سی برائیوں سے بچ گیا ۔ مصنف میں تبدیلی کے لیے جن واقعات نے اہم کردار ادا کیا‘ ان میں"Paki Go Home"ـ جیسے اشتعال انگیز نعرے‘ نیشنل فرنٹ کے گوروں کے ہاتھوں ایشیائی باشندوںکی بلا وجہ مار پیٹ‘ اور پردہ یا حجاب میں ملبوس مسلمان خواتین کے ساتھ بدتمیزی کے مشاہدات شامل تھے۔
اپنی تاریخ‘ اور شناخت کی خاطر وہ ایک دن سکول میں پہننے والی جیکٹ پر پاکستان کا سبزہلالی جھنڈا سلواتا ہے جس کو دیکھ کر استادحکم دیتا ہے کہ اسے جیکٹ سے اتاردو‘ لیکن وہ استاد کا یہ ناجائز مطالبہ ما ننے سے انکار کردیتا ہے ۔ مصنف نے اپنی ابتدائی زندگی کے بارے میں بہت تفصیل سے لکھا ہے۔ اس کے اندر ظالم کے مقابلے میں مظلوم کی حمایت کے لیے آواز بلند کرنے کی خوبی بدرجہ اتم پائی جاتی ہے ۔ اس کے دل میں فلسطین کی گلیوںمیںاسرائیل کے دیوہیکل ٹینکوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہونے والے گمنام اورمعصوم کرداروں کے لیے بڑا احترام ہے۔
بچپن میں وہ اسلام پر عمل کر نے میں اس قدر فعال دکھائی نہیں دیتا لیکن ۹۰ کے عشرے کے آغازمیں پہلی خلیجی جنگ اور بوسنیا ہرذی گووینا میں ہونے والے قتل عام پر امریکا ‘ مغرب اور بالخصوص برطانیہ کی سرد مہری اور خاموشی ‘اس کے ضمیر کو بیدار کر نے کا باعث بنتی ہے۔ اب وہ ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے کہ جہاں ضمیر یا اپنے وطن بر طانیہ میں سے کسی ایک کو انتخاب کرنے کا سوال ہے ۔ بالآخر وطنیت کے مقابلے میں ضمیر جیت جا تا ہے اور وہ پاکستان آتا ہے ۔کچھ دوستوں کے ساتھ جماعت اسلامی کے مرکز منصورہ کو دیکھتا ہے اور اپنے منصوبے کے مطابق افغانستان جاتا ہے۔ وہاں پر کشمیری مجاہدین کے ایک تربیتی مرکز الفجر میں کچھ دن گزارتا ہے ۔ یہاںپرکشمیری مہاجرین اس کو بھارتی فوج کے ہاتھوں کشمیر میں پیدا ہونے والی خوف ناک صورت حال اور اس بارے میں اقوام متحدہ کی خاموشی کے بارے میں تفصیل سے بتا تے ہیں ۔
مصنف یہاں پر تربیت پانے والے لوگوںکے سادہ طرز زندگی اور اسلام سے والہانہ محبت سے بہت متاثر ہو تا ہے ۔ اس کے بعد وہ بوسنیا کے مسلمانوں کی عملی مدد کے لیے کئی بار ادویات اور اشیاے خوردونوش لے کر جا تا ہے۔ وہاں پر ہونے والی تباہی اور بربادی کا بہ چشم خود مشاہدہ کرتا ہے۔ بوسنیا کی مسلمانوں کی مدد کے لیے دنیا بھر سے آئے ہوئے مجاہدین سے ملاقاتیں ہوتی ہیں اور بعد میں امن معا ہدے کے با وجود سرب اور کروٹس کے مقا بلے میں بوسنیا کا دفاع کرنے والے کمانڈروں کو ایک ایک کرکے قتل کرنے کے واقعات اس کی زندگی پر دور رس اثرات ڈالنے کا باعث بنتے ہیں۔پھر روس کے ہاتھوں چیچنیا میں جاری کشت وخون کے بارے میں جان کر وہ اپنے ایک دوسرے دوست کے ہمراہ کچھ نقدی اور سامان لے کر ترکی کے راستے چیچنیا جانے کی کوشش کرتا ہے لیکن جارجیا کی سرحد سے واپس کردیا جا تا ہے۔وہاں سے چیچنیا کے وزیر خارجہ کے ہاتھ عطیات بھجوا کر ترکی سے واپس بر طانیہ آتا ہے ۔
اب وہ افغانستان میں بچیوں کے لیے کچھ اسکول کھو لنے کے ساتھ ساتھ پینے کے لیے صاف پانی کی فراہمی کی غرض سے دستی نلکے لگا نے‘ کنویں کھودنے اور زمینوں کو سیراب کر نے کے لیے بڑی بڑی مشینیں لگانے جیسے فلاحی کاموں کی طرف پوری یکسوئی کے ساتھ متو جہ ہوتا ہے ۔ اس مقصد کے لیے وہ بر طانیہ میں دیگر دوستوں کے ساتھ مل کر عطیات جمع کرتا ہے۔
۲۰۰۱ء کے وسط میں وہ اپنے بیوی بچوں سمیت برمنگھم سے کابل منتقل ہوتا ہے تاکہ رفاہی منصوبوں کی براہ راست نگرانی کی جاسکے ۔ اسی دوران ورلڈ ٹریڈ سنٹر کا سانحہ ہو تا ہے اور تقریبا ًچند ہفتوں بعد افغانستان امریکی بم باری کی زد میں آجا تا ہے۔وہ بم باری اور حملوں کے خوف سے اپنے بچوں کو لوگر لے کر آتا ہے اور پھر تین ہفتے کے لیے وہ اپنے بیوی بچوں سے بچھڑجا تا ہے ۔ بالآخر بڑی مشکل سے ان کے بیوی بچے کسی نہ کسی طریقے سے اسلام آباد پہنچنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ۔ یہاں پر وہ ایک گھرمیں قیام کر لیتا ہے‘ جہاں سے کچھ مہینوں کے بعد رات کی تاریکی میں امریکی اور پاکستانی خفیہ اداروں کے اہلکار اسے اغوا کر کے کچھ وقت کے لیے پاکستان میں رکھتے اور پھر افغانستان میں واقع ایک تفتیشی مرکز قندھار منتقل کردیتے ہیں ‘ جہاں سے وہ باگرام اور پھر وہاں سے گوانتا ناموبے پہنچا دیا جا تا ہے۔
گوانتاناموبے کا یہ قیدخانہ بنیادی طور پر تین بڑے بڑے حصوں پر مشتمل ہے: پہلا حصہ کیمپ ڈیلٹا (Dalta) ہے۔ یہ سب سے بڑا اور مرکزی کیمپ ہے جس کو فروری سے لے کر اپریل ۲۰۰۲ء کے درمیان تعمیر کیا گیا۔ اس میں قیدیوں کو رکھنے کے لیے چھے بڑے ہال اور کیمپ ایکو (Echo) کے نام سے ایک الگ قید خانہ ہے ۔ ایکوکیمپ میں رکھے جانے والے قیدی کو صرف اپنی آواز کی گونج کے علاوہ کسی اور ذی روح کی آواز سنائی نہیں دیتی ۔اس میں کسی کھڑکی کے بغیر کنکریٹ سے بنی ہوئی چھوٹی چھوٹی پنجرہ نما کوٹھڑیا ں ہوتی ہیں ‘ جس میں ایک عام قدوقامت والے انسان کے لیے سہولت کے ساتھ کھڑا ہو نا‘ بیٹھنا‘ یا لیٹنا ممکن نہیں رہتا ۔ہر کوٹھڑی میں لوہے کی چھوٹی سی چارپائی اور ایک ٹائلٹ ہوتا ہے ۔ ان کوٹھڑیوں میںدن رات تیز روشنی ہوتی ہے۔ یہاں پر صرف ایسے انتہائی اہم قیدیوں کو رکھا جا تا ہے جن کو امریکی صدر کے حکم سے جیل میں لگنے والی خصوصی فوجی عدالت کے سامنے پیش کرنا ہوتا ہے۔ نیز یہاں پر قیدیوں کو غیر سر کاری وکلا سے رابطے کی اجازت ہوتی ہے۔ مصنف نے ‘گوانتاناموبے میں دو سال اسی کیمپ ایکو‘ میں گزارے۔ اس قید خانے میں بڑے سخت فوجی قوانین نافذ ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں پر سرے سے کوئی قانون نہیں ہو گا۔ یہاں پر لا ئے جانے والے ہر فرد کو انسان کے بجاے گندی نالے کے کیڑے سے زیادہ بدتر ‘سانپ سے زیادہ خطر ناک اور ایک چھپکلی سے زیادہ کم ترسمجھا جاتاہے۔
کیمپ ایگوانا(Iguana) نسبتاً چھوٹا کیمپ ہے اور بڑے مرکزی کیمپ کے حدود میں سمندر کی جانب تقریباً ایک کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔اس میں یاتوچھوٹی عمر کے قیدیوں رکھا جاتا ہے ‘ یا پھر ان قیدیوں کو رکھا جاتا ہے جن کو فوجی کمیشن ’کم خطرناک ‘ یا بالکل بے گناہ قرار دے چکے ہوتے ہیں ۔ ان کو نہ تو امریکا جانے کی اجازت ہو تی ہے اور نہ بعض قا نونی پیچیدگیوںکی وجہ سے اپنے آبائی وطن بھیجا جا سکتا ہے۔ گویاان کو یہاں پر قا نونی طور سے معلق کر کے رکھا جا تا ہے ۔
کیمپ ایکسرے (X-Ray) تشدد اور بربریت کے لیے مشہور ہے جس میں چھ سات سو کے درمیان قیدیوں کو رکھا جا تا تھا ۔ جو لائی ۲۰۰۳ء میں یہاں ۶۸۰ قیدی موجود تھے۔ یہاں پر کسی بھی قیدی کو اپنے وکیل سے ملنے کی اجازت نہیں ۔ ان قیدیوں کو لمبے عرصے تک جاگنے پر مجبور کر نا‘ سخت گرمی یا سردی میں رکھنا‘ کان کے پردے پھاڑنے والے شور میں رکھنا‘ بدترین جسمانی تشدد کے مختلف طریقوں سے گزارنا‘ الٹا لٹکانا‘ تیزروشنی میں رکھنا ‘ عزت نفس کو مجروح کر نے کی مختلف تراکیب آزمانااور اس جیسی دیگر بے شمار اذیتیں دینا شامل ہیں ۔
اس کتاب سے یہ حقیقت بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جاری اس جنگ کا نہ تو کوئی نصب العین ہے اور نہ امریکا اور اس کے اتحادی کسی اصول اور ضابطے کے پابندہیں۔ جس اہم مو ضوع پر مصنف نے زیادہ زور دیا ہے وہ اس جنگ کی قانونی حیثیت ‘ قندھار ‘ باگرام اور گوانتاناموبے میں تسلسل کے ساتھ جاری انسانیت کی توہین ‘ اور جینوا کنونشن کی بے دھڑک پامالی ہے۔ مصنف کا قندھار اور باگرام میں جن قیدیوں سے ملنا ہوا ہے‘ تقریباً ان سب میں یہ قدرِ مشترک پائی جاتی ہے کہ ان کو یا تو محض شک‘ شباہت (شلوارقمیص ‘ داڑھی اور پگڑی ) کی بنا پر دھرلیاگیا‘ یا پھر افغانستان کے مختلف سرداروں اور پاکستان کے خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں نے ان کو ڈالر بنانے کے چکر میں اُن کے اپنے گھروں سے ‘ راستوں سے ‘ بازاروں سے یا خدمت خلق کے مراکز سے کسی ثبوت کے بغیر‘ عمر ‘ صحت‘جنس ‘ مذہب ‘ رنگ ‘ نسل ‘زبان ‘علم‘ امن پسندی پر مبنی سابقہ کردار اور شجرہ نسب دیکھے بغیر‘ اس حالت میں اُٹھا یا کہ‘ ان کے قریبی رشتہ داروں تک کو ان کے مردہ یا زندہ ہونے کے بارے میں ہفتوں ‘مہینوں اور برسوں تک کوئی خبر نہیں ملی ۔ گرفتار کرنے کے بعد ان سب کو بدترین تشدد کا نشانہ بنا کر مکمل طو پریا نیم برہنہ کرکے آنکھوں پر پٹی کس دی جاتی ہے‘ اور پھرہاتھ پائوں باندھ کر بڑے بڑے دیوہیکل فوجی جہازوں میں بھیڑ بکریوں کی طرح ایک دوسرے سے باندھ کر قندھار یا باگرام پہنچا دیا جا تا ہے۔
مصنف لکھتا ہے کہ جب مجھے قندھار ائرپورٹ پر اتا را گیا تو منہ پر بندھی ہو ئی پٹی کی وجہ سے مجھے سانس لینے میں سخت دقت پیش آرہی تھی۔ اس لیے میں نے ایک سپاہی سے اپیل کی کہ وہ پٹی ڈھیلی کردے ۔ جب وہ سپاہی پٹی ڈھیلی کر دیتا ہے تو میں احساس تشکر کی وجہ سے اس کو’ شکریہ‘ کہتا ہوں ۔ یہ سنتے ہی وہ فوجی غراتا ہوا واپس آتا ہے۔ مجھے ننگی گالی بکتاہے اور پٹی کو پہلے سے بھی سخت کس کر کہتا ہے کہ’’ کمزور ی دکھا کر تمھیں میری ہمدردی لینے کا کوئی حق نہیں ‘‘۔
قندھار اور باگرام پہنچتے ہی فو جی وردیوں میں ملبوس ‘ سوچنے کی صلاحیت سے مکمل طور پر عاری ‘عیسائی اور یہودی مذہبی جنونی ‘ ان بے گناہ قیدیوں کی چمڑی ادھیڑنے یا تکہ بوٹی کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہوتے ہیں ۔ جیسے ہی یہ قیدی جہاز سے اتارے جاتے ہیں ‘ سب کو سر یا داڑھی کے بالوں سے پکڑ کر زمین پر گھسیٹتا جا تا ہے‘ پسلیوں میں پائوں کی ٹھوکریں ماری جاتی ہیں ‘ جسم کے نازک حصوں پر پلاسٹک کی موٹی موٹی لاٹھیوں سے ضربیں لگائی جاتی ہیں‘ گالیاں دی جاتی ہیں‘ خوف سے سہمے ہوئے ان قیدیوں کے سامنے اسلامی شعائر تو کیا خدا‘ قرآن اوررسول ؐکا بھی مذاق اڑا یا جا تا ہے ۔ قندھار ائرپورٹ پر اتارتے ہی جو امریکی حجام میرے سرکے بال مونڈ رہا تھا وہ جب میری داڑھی مونڈنے لگا تو کہنے لگا۔’’اسے مونڈتے ہوئے مجھے زیادہ مزا آتاہے ـ‘‘۔
ایک قیدی اپنی پنجرہ نما کوٹھڑی میں نماز پڑھ رہا تھا ۔ ایک امریکی سارجنٹ نے اُس کو کوئی حکم دیا ‘لیکن وہ نماز میں مصروف ہونے کی وجہ سے اس پر فوراً عمل نہ کرسکا تو اس امریکی فوجی نے نمازی کو سرکے بالوں سے پکڑ لیا اور کوٹھڑی کے آخری کونے تک گھسیٹتا ہوا لے گیااور چیختے ہوئے کہا: ’’گدھے کے بچے !اب تم میری عبادت کرو گے ۔ادھر میں ہی تمھارا خدا ہوں‘‘۔ اسلام سے ان کو کس قدر بغض‘ کینہ اور عناد ہے ‘ اس کی بڑی مثال یہ تھی کہ ان بدبختوں نے رفع حاجت کے لیے استعمال ہو نے والی عمارت پر جلی حروف سے لکھا ہوا تھا: Fuck Islam"ــ"
قیدیوں کی عزت نفس مجروح کرنے کے لیے تلاشی کے بہانے قیدیوں کی شرم گاہوں پر تشدد کیا جاتا اور آپس میں فحش گفتگو کی جاتی ہے ۔ مادرزاد ننگا کر کے ہر قیدی کی مختلف سمتوں سے تصویریں بنا ئی جاتی ہیں۔ بعض اوقات کچھ تصویریں یہ فوجی اپنے دوستوں کو انٹرنیٹ کے ذریعے محض اپنی بہادری کے ثبوت‘ یعنی ٹرافی کے طور پر دکھانے کے لیے ارسال کرتے ہیں۔ یہ قیدی جو پرائی عورتوں سے بات کر نے میں شرم اور حیا محسوس کرتے ہیں ‘ ان کو ذلیل کرنے کے لیے ان کے ساتھ فاحشہ فوجی عورتوں کو ایسی فحش حرکتیں کرنے کا حکم دیا جاتا ہے ‘ جس کو بیان کر نے کی ضرورت نہیں۔ اس تشدد اور توہین کے نتیجے میں کچھ قیدی جان سے چلے جاتے ہیں ‘ کچھ دماغی توازن کھو بیٹھتے ہیں ‘ کچھ اپنے بچوں اور رشتہ داروں سے دو بارہ ملنے کی موہوم سی امیدوں کے سہارے اپنے ناکردہ جرائم کا اقرار کر لیتے ہیں‘ اور کچھ مصنف کی طرح صبر اور استقامت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
ایک دفعہ سی آئی اے کا ایک ایجنٹ مصنف کو جیل سے رہائی دلانے کے ساتھ ساتھ مالی منفعت کا لالچ دے کر سی آئی اے کے لیے کام کرنے کی پیش کش کر کے چند دن بعد جواب دینے کے لیے کہتا ہے ۔ مصنف اس فیصلے پر پہنچتا ہے کہ یہ ایک آزمایش اورعقیدے کا امتحان ہے ۔ اس امتحان کو پاس کر کے ہی آزادی ملے گی ۔فیل ہونے کی صورت میں سب کچھ ہاتھ سے جائے گا‘ خاندان ‘وقار ‘عزت نفس اورآخرت۔پھر وہ قرآن میں سورۃ الممتحنہ (آزمایش ) کی ان آیات کو تصور میں لاتا ہے ‘ جن کا وہ صبح شام ورد کرتا رہتا ہے : ’’تم جہاں بھی ہو گے ‘موت تمھیں پاکر رہے گی‘‘ یعنی دنیا کی یہ زندگی تو چند دن کی عارضی زندگی ہے اور انسان اس زندگی میں جو کچھ کرتا ہے اس پر اس کی آخرت کا دارومدار ہے۔ اللہ فرماتا ہے: ’’اے ایمان لانے والو! میرے دشمنوں کو دوست مت بنائو۔ کیا تم اُن سے اس حالت میں بھی دوستی کرو گے‘ جب کہ وہ تمھارے پاس پہنچی ہوئی سچائی کو ٹھکراتے ہیں‘‘۔
گوانتاناموبے کے کیمپ ایکومیںمصنف سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی فوج کا ایک سپاہی کہتا ہے: ’’معظم! جس طرح کا سلوک تم لوگوں سے روا رکھا گیا ہے‘ اگر گرفتار ہوکر یہاں آنے سے قبل تم میںسے کوئی دہشت گردی میں ملوث نہیں بھی تھا ‘تو مجھے یقین ہے کہ رہائی کے بعد وہ ضرور دہشت گرد بنے گا ‘‘۔
مصنف کے بقول چونکہ نہانے پر پابندی تھی‘ اس لیے ان تنگ و تاریک کوٹھڑیوں میں ہفتوں بغیر نہائے رہنے کے نتیجے میں جسم سے بدبو آتی تھی ‘ جس کی وجہ سے امریکی ہم پر طنز کر نے کے لیے ہمیںبدبو دار لڑکے کہتے تھے۔ بعض قیدیوں کو ذلیل کرنے کے لیے ‘اُن کو تنگ کمرے میں ایک وزنی لوہے کی زنجیر کے ساتھ یوں باندھ دیا جاتاکہ وہ رفع حاجت کے لیے سیل کے اندر بنی ہوئی لیٹرین تک بھی نہ پہنچ سکتے تھے ۔صرف ایک دائرے کے اندر جس حد تک حرکت ممکن تھی‘ اسی جگہ کو سونے اور اجابت‘ دونوں کے لیے استعمال پر مجبور تھے۔
قیدی افراد کو امریکی حکومت کی طرف سے جنگی قیدی کی حیثیت نہ دینے اور اس قید خانے پر امریکی عدالتوں کے قوانین کے نفاذ سے انکار کے موضوع پر بعض وکلا کی طرف سے اٹھائے جانے والے ایک دل چسپ نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مصنف لکھتا ہے : وکلا نے امریکی سپریم کورٹ کے سامنے یہ موقف رکھا کہ اگر گوانتاناموبے کے جزیرے پر رہنے والی جنگلی چھپکلی Iguana (اس کے نام پر ایک قید خانے کا نام بھی رکھا گیا ہے) کے تحفظ کے لیے امریکی قوانین پر عمل درآمد کیا جاسکتا ہے‘ تو پھر وہاں کسی فرد جرم کے بغیر قید کیے جانے والے انسانوں پر وہی قوانین کیوں لاگو نہیں کیے جاتے؟
اس کتاب کے آخر میں مصنف اپنے دوستوں اور بہی خواہوں اور سب سے بڑھ کر اپنے اہل خانہ کے ساتھ ساتھ حق اور سچائی کے لیے آواز اٹھانے والے ان سب لوگوں کو سلام پیش کرتا ہے جنھوں نے آزمایش کی ان گھڑیوں میں اس کا ساتھ دیا ‘ اس کی حو صلہ افزائی کی اور انھی کی اَن تھک کوششوں سے اس کی رہائی ممکن ہوسکی۔
مصنف دنیا بھر میں پھیلے ہوئے انصاف پسند اور امن پسند لوگوں سے یہ اپیل کر تا ہے کہ گوانتاناموبے‘ قندھار ‘ باگرام اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے امریکی اتحادیوں کی نگرانی میں قائم خفیہ فوجی قید خانوں میں کسی فرد جرم کے بغیر گلنے سڑنے والے قیدیوں کو نہ بھولیں۔