ہر جانے والا بہت سوںکو سوگوار چھوڑتا ہے لیکن ایسے کم ہی ہوتے ہیں جو پورے عالم کو سوگوار چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہوں۔ ۳ستمبر ۲۰۰۶ء کو اُمت مسلمہ سے جداہونے والا مجاہد شیخ ابوبدرعبداللہ علی المطوع ایسے ہی چند نفوس میں سے تھا جس کے غم کو دنیاکے گوشے گوشے میںمحسوس کیا گیا‘ اور اُمت مسلمہ کا شاید ہی کوئی طبقہ یا گروہ ہو جس نے اس جدائی کو ذاتی غم کی طرح نہ محسوس کیا ہو۔ اس کی بنیادی وجہ شیخ ابوبدرؒ کی دعوت اسلامی اور خدمت خلق کی وہ مساعی ہیں جو ۶۰سال کے عرصے پر محیط ہیں اور جن کا مرکز و منبع خواہ کویت ہو مگر ان کی وسعت اور اثرانگیزی مشرق و مغرب اور شمال و جنوب‘ اس کرئہ ارض کے چپے چپے تک پھیلی ہوئی تھی۔ میرے علم میں نہیںکہ گذشتہ ۶۰ سالوں میں کسی ایک فرد کی مساعی اور اس کے ثمرات کو خصوصیت سے انفاق فی سبیل اللہ اور تعاونوا علی البر والتقوٰی کے میدان میں یہ وسعت حاصل ہوئی ہے۔ دنیاے اسلام میں جہاں کوئی کارخیر انجام دیا جا رہا ہے‘ اس میں ابوبدرؒ کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور ہے ع
یہ رتبۂ بلند ملا‘ جس کو مل گیا
الاخ ابوبدر ۱۹۲۶ء میں کویت کے ایک خوش حال اور نہایت دین دار گھرانے میں پیداہوئے۔ ابتدائی تعلیم ایک عام اسکول احمدیہ میںحاصل کی اور نوجوانی ہی میں اپنے والد محترم کے کاروبار میں ان کا ہاتھ بٹانے کے لیے سرگرم ہوگئے۔ عنفوان شباب ہی میں حسن البناشہیدؒاور ان کی تحریک اخوان المسلمون سے نسبت کا رشتہ استوار ہوگیا۔ وہ اوران کے بڑے بھائی شیخ عبدالعزیز المطوع ‘امام شہیدؒ کی دعوت سے متاثر تھے اور حج بیت اللہ کے موقع پر غالباً دوسری جنگ عظیم کے فوراً بعد ان سے ملے اور پھر انھی کے ہوکر رہ گئے۔ کویت کے مخصوص حالات کی روشنی میں اخوان المسلمون کا باقاعدہ قیام تو عمل میں نہیں آسکا لیکن تحریک اخوان کا ایک مؤثر حلقہ وجود میں آگیا اور اسے ہر میدان میں روز افزوں ترقی حاصل ہوئی۔ اس کے قائد اور روح رواں الاخ ابوبدرؒ ہی تھے۔ اس حلقے نے اجتماعی تحریک کی شکل بھی اختیار کی مگر مقامی رنگ کے ساتھ۔ ۱۹۵۲ء میں جمعیۃ الارشاد کے نام سے کام کا آغاز کیا جس نے بالآخر ۱۹۶۳ء میں جمعیۃ الاصلاح الاجتماعی کی شکل اختیار کرلی اور یہ جمعیت کویت کی تحریک اسلامی کا گڑھ بن گئی۔ فکری‘ تربیتی‘ تعلیمی‘ دعوتی‘ سماجی‘ خدمتی اور بالآخر سیاسی جدوجہد کا مرکز و محوربنی اور کویت کی اجتماعی زندگی پر گہرے اثرات ڈالے۔ اس وقت کویت کی پارلیمنٹ میں سب سے بڑا منتخب گروپ اسی فکر کا علم بردار ہے۔
شیخ ابوبدر کی دل چسپی‘ تعلیم اور تبلیغ میں پہلے دن سے رہی۔تعلیمی اداروں کے قیام کے ساتھ انھوں نے دینی مجلوں کے اجرا کا بھی اہتمام کیا۔ سب سے پہلے الارشاد الاسلامیہ کا اجرا کیا۔ نوجوانوں کے لیے جمعیۃ کے نام سے ایک رسالہ نکالا لیکن ان کا سب سے اہم اور تاریخی کارنامہ ۱۹۷۰ء سے ہفت روزہ المجتمع کا اجرا ہے۔ یہ رسالہ کویت ہی نہیں پورے عالمِ عرب میں اسلامی دعوت اور فکر کا نقیب ہے اور وقت کے تمام مسائل پر اسلامی نقطۂ نظر کا مؤثر ترین ترجمان ہے۔ شیخ ابوبدرؒنے کوشش کی کہ اس کی ادارت قابل ترین ہاتھوں میں ہو۔ عالمِ اسلام کے تمام ہی چوٹی کے اہلِ قلم اس کے لکھنے والوں میں شامل ہیں۔
الاخ ابوبدر عالم اسلام کی اہم ترین تنظیموں میں مرکزی کردار ادا کرتے رہے اور ان کا شمار عالمی اسلامی تحریکوںکے ممتاز ترین قائدین میں ہوتا تھا۔ کویت کی جمعیۃ الاصلاح الاجتماعی کے وہ صدر تھے۔ رابطہ عالم اسلامی اور عالمی مساجدکونسل کے بانی ارکان میں سے تھے۔ کویت کی اہم ترین فلاحی تنظیم الہیئہ الخیریۃ الاسلامیۃ العالمیۃ کے بانی رکن اور اس کی مجلس منتظمہ کے رکن تھے۔ بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد کے بانی رکن اور اس کے قیام اور ترقی میں ان کا نمایاں کردار ہے۔ اسلامی دنیا کا کوئی اہم دعوتی‘ رفاہی‘ خدمتی‘ تعلیمی منصوبہ ایسا نہیںجس کی مالی معاونت اور فکری سرپرستی میں ابوبدر کا حصہ نہ ہو۔ وہ کویت کے متمول ترین افرادمیں سے تھے لیکن انھوں نے اپنی دولت کو صرف اپنے اور اپنے خاندان کے لیے استعمال نہیں کیا بلکہ اس سے ساری دنیا کی دعوتی‘ رفاہی اور جہادی خدمات کی آبیاری کی۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں کویت ہی نہیںپورے عالمِ عرب میں بجاطور پرامام خیرالعمل کی حیثیت سے یادکیا جاتا ہے۔
الاخ ابوبدر سے میری پہلی ملاقات ۱۹۵۹ء میں ہوئی جب وہ پاکستان تشریف لائے اور محترم چودھری غلام احمد مرحوم کے ساتھ میرے غریب خانے پر کراچی جماعت کے قائدین کی ایک نشست میں شریک ہوئے۔ گذشتہ ۵۸سالوں میں مجھے ان سے دسیوں بار ملنے‘ ان کے ساتھ سفروحضر میں وقت گزارنے‘ سیمی ناروں‘ کانفرنسوں اور مخصوص نشستوں میں شریک ہونے کا موقع ملا اور اس پورے زمانے میںایک بھی موقع شکایت اور رنجش کا پیدا نہ ہوا۔ حتیٰ کہ ان پُرآشوب ایام میں بھی جب کویت ایران پر عراق کے حملے کی حمایت کر رہا تھا اور ہم ایران کی تائید اور صدام کی مذمت کر رہے تھے لیکن یہ ابوبدر کا ظرف اور حق پرستی تھی کہ ہمارے تعلقات اورتعاون پر کوئی حرف نہ آیا۔ جہاد افغانستان‘ بوسنیا کی جدوجہد آزادی‘ فلسطین کا جہاد‘ کشمیر کی اسلامی مزاحمتی تحریک‘ ہرہرجدوجہد میں وہ دل و جان سے شریک تھے۔ صرف مالی معاونت ہی نہیں بلکہ ہر سطح پر مشورے‘ شرکت اور رہنمائی میں وہ پیش پیش ہوا کرتے تھے۔
میں نے ابوبدر کو ایک بڑاعظیم انسان پایا۔ ان کے ظاہر و باطن میںکوئی فرق نہ تھا۔ ان کے سینے میں ایک دل دردمند‘ ان کا دماغ مشکل کشا‘اور ہمت ہمہ جوان تھی۔ دولت و ثروت نے ان کواور بھی انکساری کا نمونہ بنا دیا تھااور انھوںنے مال و دولت کو ایک خادم اورخیر کے فروغ کے لیے وسیلے کے طور پر استعمال کیا۔ سادگی‘ ملنساری‘خدمت اور ایک حدتک عرب بدوانہ درویشی ان کا شعار تھی۔ وہ بڑی محبت کرنے والے انسان تھے اور ان کی شخصیت میں وہ شیرینی تھی کہ وہ بہت جلد سب کی محبت کامرکزو محور بن جاتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ بڑے کھرے انسان اوراصولوں کے معاملے میں سمجھوتہ نہ کرنے والے‘ اورحق بات کا پوری بے باکی سے اظہار کرنے والے تھے۔ دولت مند بالعموم بزدل ہوجاتے ہیں لیکن ابوبدر حق کے معاملے میں بڑے جری تھے اور بڑے سے بڑے حکمران کے سامنے حق بات کہنے میں ذرا بھی باک نہ محسوس کرتے تھے۔
پاکستان‘ مولانا مودودی ؒاورجماعت اسلامی سے ان کو بڑی محبت تھی‘ اور پاکستان پر آنے والی ہر آفت کادکھ انھوں نے ہمیشہ محسوس کیا جس طرح ایک محب وطن پاکستانی محسوس کرتا ہے۔ کشمیر کی آزادی کی تحریک سے انھیں بے پناہ لگائوتھا‘ اور وہاں کے حالات‘ مسائل اور ضروریات میں وہ خود دل چسپی لیتے تھے۔
الاخ ابوبدر کی رسمی تعلیم زیادہ نہ تھی لیکن اپنے ذاتی ذوق اور خداداد صلاحیت سے انھوں نے علم و عمل‘ دونوں میدانوں میں ممتاز مقام حاصل کیا۔ سیاسی امور میں ان کی بصیرت کسی بڑے سے بڑے ماہر سے کم نہ تھی۔ حالات کا تجزیہ کرنے اور عالمی مسائل اور تحریکات پر ان کی نظر بڑی گہری تھی۔ میں نے مخصوص اجتماعات سے لے کر علمی مجالس اور کانفرنسوں میں ان کو بڑی سلجھی ہوئی مدلل بات کرتے ہوئے دیکھا‘ اور وہ ایک کامیاب تاجر ہی نہیں‘ ایک بالغ نظر سیاسی رہنما اور اسٹرے ٹیجک امور پر قادرالکلام مبصر بھی تھے۔
شیخ ابوبدر نے تجارت میں بھی نام پیدا کیا۔ وہ عرب دنیا کے چوٹی کے کامیاب تاجروں میں سے ایک تھے۔ لیکن ان کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ ایک طرف انھوں نے تجارت میں کبھی بددیانتی‘ اور کاروباری ہیرپھیر کا سہارا نہیںلیا اورحقیقی اسلامی اخلاق کا دامن نہیں چھوڑا‘ اور دوسری طرف ان کے کاروبار میں سود کی رتی بھر ملاوٹ نہ تھی۔ اس طرح انھوں نے یہ مثال قائم کر دی کہ سود کے بغیر بھی ایک تاجر اعلیٰ ترین مقام پر پہنچ سکتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے جو کثیر دولت ان کو دی اس کا بڑا حصہ انھوں نے دین حق کے پھیلانے‘ غریبوں اورفلاحی اداروں کی معاونت اور اقامت ِ دین اور جہاد آزادی کی تحریکوں کی آبیاری کرنے میں صرف کی۔ یوں ہمارے اپنے دور میں سلف صالحین کے دور کی وہ مثال قائم کی جس کے بارے میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بشارت دی تھی کہ سچا ایمان دار تاجر قیامت کے روز نبیوں‘ صدیقوں اور شہدا کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔
الاخ ابوبدر اللہ کے ان مخلص بندوں میں سے تھے جنھوں نے اپنے رب سے جو عہد ِ وفا کیا تھا‘ اسے عملاً نبھا دیا اور آنے والوں کے لیے ایک روشن مثال قائم کر دی۔
مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ ج فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَـہٗ وَمِـنْھُمْ مَّنْ یَّـنْتَظِرُ ز وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلًا o (الاحزاب ۳۳ :۲۳) ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوںنے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچاکر دکھایا ہے۔ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کرچکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔ انھوں نے اپنے رویے میںکوئی تبدیلی نہیں کی۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ الاخ ابوبدر ان لوگوںمیں سے تھے جو اللہ کو اپنا رب مان لینے کے بعد اس پر جم گئے اور اللہ کی اطاعت‘ اس کے دین کی سربلندی اور اس کی مخلوق کی خدمت میںساری زندگی اور اپنے سارے وسائل صرف کردیے۔ مسلمانوں کا ہرمسئلہ ان کا اپنا مسئلہ تھا‘اور ہر غم ان کا اپنا غم تھا۔ ان کا عالم یہ تھاکہ ؎
خنجر چلے کسی پہ‘ تڑپتے ہیں ہم اسیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
میںنے کسی علاقائی عصبیت کا کوئی پرتو ان کے فکر اور ان کی زندگی میں نہیں دیکھا۔ اسلام اور اُمت مسلمہ ان کی زندگی کا مرکز اور محور تھے اورانھی کی خدمت میں وہ مالکِ حقیقی سے جاملے۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ ان کی نیکیوں اور خدمات کو قبول فرمائے اورانھیں جنت کے اعلیٰ ترین درجات میں جگہ دے۔ ع
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے