اکتوبر۲۰۰۶

فہرست مضامین

مدیر کے نام

| اکتوبر۲۰۰۶ | مدیر کے نام

Responsive image Responsive image

غزالہ یاسمین ‘راولپنڈی

معرکۂ لبنان نے اسرائیل کے ناقابلِ شکست ہونے کے زعم کو باطل کرکے رکھ دیا‘ اور ایسا اس وجہ سے ممکن ہوا کہ لبنانی عوام دینی جذبے سے سرشار تحریک کے پرچم تلے متحد ہوگئے اور یہ ثابت کردیا کہ قیادت مخلص ہو تو عام لوگ اب بھی دینی قیادت کے پیچھے چلنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ اُمت مسلمہ کے دشمنوں نے فرقہ وارانہ اختلافات کو ہمارے درمیان نفرتوں کی دیواریں کھڑی کرنے کے لیے استعمال کیا اور ہمارے اجتماعی ماحول کو بڑی حد تک خراب کرکے رکھ دیا‘ تاہم لبنان پر اسرائیل کے حملے اور حزب اللہ کی قیادت میں بھرپور مزاحمت نے دشمنوں کی سازشوں کو دفن کردیا۔ آپ نے اپنے قلم کو اُمت کی صفوں میں وحدت کے فروغ کے لیے استعمال کیا۔ اس جذبے کو مزید آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔


ڈاکٹر سید ظاہر شاہ ‘ پشاور

’معرکۂ لبنان- تاریکیوں میں روشنی کی کرن‘ (ستمبر ۲۰۰۶ئ) فکر انگیز اور حوصلہ افزاہے۔ کاش کہ دنیا بھر کے مسلمان اسی راستے پر چلیں خصوصاً مسلم ممالک کے حکمران دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر معاملات کریں کیونکہ یہی عزت اور سرخروئی کا راستہ ہے۔ ’فکری یلغار،ماہیت اور اثرات‘ تقریباً ان تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے جو مغربی فکری یلغار کی زد میں ہیں۔ مصنف نے بجا طور پر کہا ہے کہ نام نہاد لبرل اور پروگریسیو مسلمانوں کے ساتھ اب مؤقر دینی جامعات کے فارغین بھی اس یلغار سے متاثر ہوکر میدان میں اتر آئے ہیں۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ بعض دین دار اور تحریکی گھرانوں کے اندر تک یہ یلغار نفوذ کرگئی ہے۔


شفیق الرحمٰن انجم ‘ قصور

’فکری یلغار ، ماہیت اور اثرات‘ موجودہ دور کا سلگتا ہوا موضوع ہے۔ مصنف نے جامع انداز میں دشمنانِ اسلام کی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف فکری یلغار اور ان کے اثرات کا تجزیہ پیش کیاہے۔ احیاے اسلام کے لیے سرگرم اسلامی تحریکوںکو ان نکات کی روشنی میں ترجیحات کا تعین اور لائحہ عمل وضع کرنا چاہیے۔


ڈاکٹر راشد محمود ‘لاہور

ستمبر کا شمارہ متنوع موضوعات پر مبنی ایک متوازن شمارہ تھا۔ مولانا صدرالدین اصلاحی کی تفسیر تیسیرالقرآن کے مطالعے سے روایتی نقطۂ نظر سے ہٹتے ہوئے بعض اہم نکات پہلی بار سامنے آئے۔


اے ڈی جمیل ‘ جھنگ

’حقیقی اور مصنوعی تقویٰ‘ (ستمبر ۲۰۰۶ئ) کے مطالعے سے حقیقت ِ تقویٰ بخوبی سامنے آجاتی ہے۔ ’داعی کی اہم صفت‘ ہر داعی کے لیے ایک مشعلِ راہ تحریر ہے۔ فاضل مصنف نے مختلف تفاسیر سے استفادہ کیاہے جس سے موضوع کے تمام پہلو یکجا سامنے آجاتے ہیں۔


دانش یار‘لاہور

’تیسیرالقرآن کے کچھ قابلِ ذکر پہلو‘ (ستمبر ۲۰۰۶ئ) میں ص ۳۰ اور۳۱ پر آیات میں اغلاط پریشان کن ہیں۔ ترجمان القرآن میں تو ایسا نہ ہونا چاہیے۔


درست الفاظ یوں ہیں: بَـیِّنٰتٍ ط (ص ۳۰)‘ التَّقْوٰی ز (ص ۳۱)۔ ہم اس پر معذرت خواہ ہیں۔اللہ تعالیٰ     ہماری لغزش کو معاف فرمائے۔

اشفاق احسان ‘کراچی

’روشن خیال اعتدال پسندی‘ (ستمبر ۲۰۰۶ئ) پڑھ کر دل لرز کر رہ گیا۔ سوال پیدا ہوتاہے کہ کیا ہمارا کام بس اتنا ہی رہ گیا ہے کہ اس قسم کے دین کُش اور قوم کُش حالات و تجزیے پڑھیں‘ دیکھیںاور بے بسی کے ساتھ  اپنی روحوں پر داغ لگاکر بیٹھ جائیں؟


محمد حلیم ایڈووکیٹ ‘فتح جنگ (اٹک)

’پاکستان میں انصاف اور عدلیہ‘ (ستمبر ۲۰۰۶ئ) اور ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ قابلِ تحسین اور    عرق ریزی پر مبنی تحریریں ہیں۔راقم پیشہ وکالت سے وابستہ ہے۔ حصولِ انصاف میں جن رکاوٹوں کا ذکر کیا گیا ہے‘ وہ واقعتا عملی دشواریاں ہیں اور ان کے حل کے لیے صحیح سمت میں رہنمائی دی گئی ہے۔ اصل ضرورت تو اقدام کی ہے۔ میں نے یہ مضامین بار ایسوسی ایشن کے چند دیگر وکلا کوسنا کر حق کی دعوت ادا کرنے کافریضہ بھی ادا کیا ہے۔


صابر حسین‘ ہری پور

بلوچستان میں جو کچھ ہوا وہ ایک مہذب طریقہ نہ تھا ‘ بلکہ اس میں بہت سارے بے گناہ لوگ بھی شہید ہوئے۔ یہ سب کچھ قابلِ مذمت تھا لیکن جو شخص شرافت کی زبان ہی نہ سمجھے اور خود اتنا بڑا ظالم ہو کہ نہ تو اس کے فہمسائے اس کے شر سے محفوظ ہوں نہ رشتہ دار‘ اور اس کا ظلم و جبرکوئی ڈھکا چھپا بھی نہ ہو‘ صرف اور صرف اپنی ذاتی خواہشات کی تکمیل کے لیے ہر حکومت کو بلیک میل کرے‘ قومی تنصیبات کو نقصان پہنچائے اور انسانیت پر اتنے    ظلم ڈھائے کہ شیطان بھی پناہ مانگے۔ ایسے شخص کو ایک ہیرو کے طور پر پیش کرنا‘ اور اتنی زیادہ ہمدردی اور بیان بازی کرنا‘ ایک ظالم کو مظلوم بنا دینا‘ پوری شدومد سے اس کی تشہیر کرکے نمازِ جنازہ (غائبانہ) ہرشہر میں ادا کرنا‘ آخر کس لیے؟