نومبر۲۰۰۵

فہرست مضامین

بچوں کی تربیت: بزرگ والدین کا کردار

ڈاکٹر بشری تسنیم | نومبر۲۰۰۵ | اسلامی معاشرت

Responsive image Responsive image

بچوں کی تربیت کے حوالے سے جب بات ہوتی ہے تو عموماً والدین پر آکر ختم ہوجاتی ہے‘ جب کہ ان کی تربیت میں دوسرے رشتے داروں کا بھی کچھ نہ کچھ حصہ ہوتا ہے۔ یہ حصہ یہ رشتہ دار غیرشعوری طور پر ادا کرتے ہیں۔ دادا دادی اور نانا نانی کا اپنا ایک کردار ہوتا ہے۔ انھیں ہم   ’بزرگ والدین‘کہہ سکتے ہیں۔ یہ تربیت میں اپنے حالات کے لحاظ سے کچھ نہ کچھ کردار ضرور    ادا کرتے ہیں‘ لیکن اس کی ضرورت ہے کہ یہ کردار شعوری طور پر ادا کیا جائے اور ’بزرگ والدین‘ اس باب میں اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں کہ اپنے بچوں کی تربیت اور پرورش کے بعد اب انھیں اپنے بچوں کے بچوں کی بھی تربیت میں حصہ لینا ہے۔

ان بنیادی رشتوں کا کیا کردار ہو؟موجودہ طرزِ معاشرت اور ترجیحات کی تبدیلی نے ان کا کردار وقت کے ساتھ ساتھ بہت کچھ کمزور کر دیا ہے۔ ان رجحانات کو ساتھ لے کر چلتے ہوئے ’بزرگ والدین‘ کا کردار متعین کرنے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ اسلامی تہذیب میں یہ رشتے ’شجرسایہ دار‘ کی حیثیت سے مستحکم و مضبوط مقام رکھتے ہیں۔ اسی مقام کی پاس داری ہمارا مطمح نظر ہے۔ بچے جنت کے پھول‘ گھر کی رونق اور زندگی میں رعنائیوں کے پیام بر ہوتے ہیں۔ والدین کے لیے ان کے قہقہے‘ معصوم باتیں‘ سکون اور اطمینان کا باعث بنتے ہیں‘ جب کہ دادا دادی‘ نانا نانی کے لیے ان کا والہانہ تعلق ماضی کی حسین یادوں سے وابستہ رکھنے کا سبب بنتا ہے    ؎

اگر کوئی شعیب آئے میسر

شبانی سے کلیمی دو قدم ہے

اس کے مصداق ’مستقبل کے والدین‘ کہلانے والے ان بچوں کو مناسب تربیت اور توجہ مل جائے تو تعمیرملت کا سامان کر کے نئی تاریخ رقم کرتے ہیں۔ بصورتِ دیگر یہی بچے‘ خاندان اور ملک و ملت کے لیے کلنک کا ٹیکہ بن جاتے ہیں۔

آج سے کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے جب فارغ اوقات میں اور بالخصوص شام کے سائے پھیلتے ہی بچے آج کی طرح ٹیلی ویژن‘ کیبل یا انٹرنیٹ سے دل بہلانے کے بجاے دادا دادی‘   نانا نانی کے پاس جمع ہو جاتے اور ان سے پرستان کی پریوں اور کوہ قاف کی حیرت انگیز شہزادیوں کے بارے میں کہانیاں سنا کرتے تھے جن کا اختتام ہمیشہ کسی اخلاقی قدر سے وابستہ ہوتا تھا۔   الف لیلیٰ‘ راجا رانی‘ ٹارزن‘ عمروعیار‘ حاتم طائی کی کہانیاں بچوں کو کچھ نہ کچھ سبق دے کر ہی ختم ہوتیں۔ اسی طرح تاریخِ اسلام کے سچے واقعات‘ صحابہ و صحابیات رضوان اللہ علیہم کی روشن مثالیں دے کر بچوں کو نیک اور صالح فطرت سے قریب تر رکھا جاتا۔ غرض‘ ہر گھر میں اپنی علمی استعداد کے مطابق اور ماحول کے پیش نظر بچوں سے ذہنی‘ قلبی اور جسمانی قرب و تعلق بزرگوں کے ساتھ قائم رہتا تھا۔ دین دار گھرانوں میں نماز‘ چھوٹی سورتیں‘ دعائیں یاد کروانا انھی ’بزرگ والدین‘ کا کام ہوتا تھا۔ لیکن آج یہ سب کچھ ایک خواب بن چکا ہے۔ غربت‘ جہالت‘ بے شمار مصروفیات اور مشینی زندگی نے ہماری معاشرتی اور سماجی زندگی کے حُسن کو گہنا دیا ہے۔ ’بزرگ والدین‘ کی حکیمانہ باتیں اور دادی‘نانی کی لوریاں پس پردہ چلی گئی ہیں۔ ٹی وی‘ انٹرنیٹ اور کیبل کی آمد نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی ہے۔

’بزرگ والدین‘ تنہائی کا شکار ہیں۔ معمولاتِ زندگی سے عملی طور پر معطل ہوجانے کا احساس ان کو نفسیاتی و جسمانی عوارض میں مبتلا کر رہا ہے۔ بچوں کے والدین دن بھر گھر سے باہر رہنے کے بعد تھکے ہارے گھروں کو لوٹتے ہیں تو وہ بھی انٹرنیٹ اور کیبل میں راحت کا سامان تلاش کرتے ہیں‘ یا پھر دیگر سرگرمیاں یا ذمہ داریاں ان کو گھریلو ماحول سے دُور رکھتی ہیں۔ بچوں پہ   ہوم ورک‘ ٹیوشن‘ نصابی کتب کا بوجھ اس قدر زیادہ ہوتا ہے کہ وہ گھر کے افراد میں مل جل کر بیٹھنے اور کچھ کہنے سننے کی حسرت دل میں لیے سو جاتے ہیں اور موجودہ دور کا المیہ ایک تلخ حقیقت بن کر سامنے آرہا ہے کہ والدین اور اولاد میں خلیج تیزی سے وسیع ہوتی جارہی ہے۔ (اس میں والدین کا ’بزرگ والدین‘ کے ساتھ اور بچوں کا اپنے والدین کے ساتھ) ترجیحات کے تعین‘ حالات و ماحول اور ذمہ داریوں کے بوجھ کو دیکھا جائے تو والدین کی حالت قابلِ رحم نظر آنے لگتی ہے (قطع نظر اس کے کہ یہ سب کچھ ان کا خودساختہ ہے یا یہ حقیقت میں ذمہ داریوں کا بوجھ ہے)۔ بہرحال ان حالات میں اپنی معاشرتی اور سماجی زندگی کے رکھ رکھائو اور اخلاقی اقدار کی عمارت کو قائم رکھنا ہی ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

’بزرگ والدین‘ (دادا دادی‘ نانا نانی) بننے سے پہلے ایک اہم مرحلہ اور بنیادی رشتہ ’قانونی والدین‘ (ساس‘ سسر) کا ہے۔ قانون ایسی پابندی ہے جسے انسان سزا یا نقصان کے خوف سے نبھاتا ہے یا پھر محبت سے (محبت سے اُسی صورت میں‘ جب کہ انسان کو ہر پہلو سے اُس میں مفاد اور خیرنظرآتا ہو)۔ قانونی رشتے بھی اسی اصول کے تحت جڑے رہتے ہیں ورنہ وہ ٹوٹ جاتے ہیں۔ قانونی (in-law) رشتے کا مغربی تصور انسانوں کو دلی محبت‘ لگائو‘ سمجھوتہ اور ایثار کرنے میں مانع ہے۔ بہت سے الفاظ‘ بہت سے معاملات‘ رشتوں کی چاشنی کا حقیقی حسن غارت کر دیتے ہیں۔ اُردو زبان ان معاملات میں بہت خوب صورت پہلو رکھتی ہے۔ جہاں Grand ‘Uncle ‘ Ant جیسے نامکمل اور بے اثر رشتوں کے بجاے ہر رشتے کی مکمل شخصیت کا ادراک‘ فہم اور قدرومنزلت کا بھرپور اظہار موجود ہے: دادا‘ دادی‘ نانا نانی‘ تایا‘ چچا‘ پھوپھی‘ خالہ‘ ماموں۔ پھر اُس کے ساتھ منجھلے‘ چھوٹے‘ بڑے کا سابقہ لاحقہ رشتے کو مزید پُرتاثیر بنا دیتا ہے۔ اسی طرح سسرالی رشتوں کا تشخص دو خاندانوں کے باہم تعلقات کو نکھار دیتا ہے۔

وَھُوَالَّذِیْ خَلَقَ مِنَ الْمَآئِ بَشَرًا فَجَعَلَہ‘ نَسَبًا وَّصِہْرًاط(الفرقان ۲۵:۵۴)

اور وہی ہے جس نے پانی سے ایک بشر پیدا کیا‘ پھر اس سے نسب اور سسرال کے دو الگ سلسلے چلائے۔

معاشرے میں سسرال (ساس‘ سسر) کے درجے کو پہنچ جانا‘ خصوصاً کسی لڑکی کا ساس بننا ایک انتہائی اہم معاملہ ہے۔ یہ ایک ایسے دور کا آغاز ہے جہاں نفسیات بدل جاتی ہیں‘ توقعات بڑھ جاتی ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاںانسانوں کے اصل روپ‘ اس کی انصاف پسندی‘ باطنی رویے اور اعلیٰ ظرفی کی پہچان ہوتی ہے۔ کسی لڑکی کے سسرال خصوصاً ساس نندوں کا کردار ہی یہ حقیقت متعین کرتا ہے کہ وہ بہو یا بھابی کے ساتھ کس قسم کا سلوک و رویہ رکھ کر اور اُسے کون سا مقام دے کر اپنی آیندہ نسل سے کس قسم کے تعلق کو پروان چڑھانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ وہ کھیتی جہاں سے اپنی فصل حاصل کرنا ہے اس کے ساتھ جذباتی‘ معاشرتی‘ سماجی‘ معاشی روابط کیسے ہیں؟ کیا کچھ لینے کی توقعات وابستہ ہیں اور دینے کے لیے بھی کچھ اخلاقی اقدار مدنظر ہیں یا نہیں؟ گھر کی بہو کو جو ماحول میسر ہے جن خوش گوار یا تلخ حالات کا وہ سامنا کرتی ہے اور جن مختلف طبیعتوں سے اُسے نباہ کرنا پڑتا ہے اور جتنی عزتِ نفس کے ساتھ وہ اپنے بچے کی آبیاری کرتی ہے‘ بچہ ان سب اثرات کو لے کر دنیا میں آتا ہے۔ غرض بہو کو جو عزت‘ محبت‘ شفقت ملنی چاہیے وہ نہ دی جائے تو یہ رویہ اپنی آیندہ نسل پہ سراسر ظلم کرنا ہے۔ یہی وہ شجر ہے جس کی کوکھ سے نام و نسب وابستہ ہے۔ لڑکی کے والدین اور اس کے رشتہ داروں کی ہتک‘ تحقیر اورانھیں کم تر جاننے کا ہندوانہ احساس قابلِ گرفت ہے۔

اسی طرح ہمارے معاشرے میں ’داماد‘ تکبر‘ نخوت‘ نازبرداریاں اٹھوانے والا‘ بیوی کے پیارے رشتوں کو پامال کرنے (الا ماشا اللہ) والی عجیب و غریب شخصیت ہوتی ہے۔ داماد کی حددرجہ اہمیت اور بہو کے بنیادی حقوق کی پامالی‘ یہ افراط و تفریط ہمارے معاشرے میں بہت سے مسائل کی جڑ ہے جس نے بے شمار گھرانوں کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔

مشترک خاندانی نظام ہو تو بیٹوں کی اولاد کے ساتھ روابط کا سلسلہ پہلے روز سے ہی    براہِ راست شروع ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ایک شہر میں مگر علیحدہ گھر میں رہنے والی اولاد ___ دوسرے شہر میں مکین یا پھر بیرون ملک مقیم اولاد کے ساتھ ’بزرگ والدین‘ اپنا تعلق اور ذمہ داریاں کیسے نبھائیں‘ یہ ہمارا اصل موضوع ہے۔

اولاد کہیں بھی مقیم ہو‘ دُور‘ بہت دُور یا نزدیک بہرحال دل کے پاس ہمیشہ رہتی ہے اور رہنی بھی چاہیے۔ مگر محبت کا جب تک اظہار نہ ہو وہ ایک ایسی شے ہے جو ملفوف ہو۔ حجم اور قیمت میں کتنی ہی زیادہ ہو جب تک ظاہر نہ ہو‘ کسی کام کی نہیں۔ محبت کو چھپائے رکھنا اپنے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کے ساتھ ظلم ہے۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اظہار محبت کی تلقین کی ہے۔ لیکن آج کے مشینی دور میں‘ والدین اپنے بچوں کو بھرپور شفقت و محبت نہیں دے پاتے۔ دادا دادی اور نانا نانی کے پاس یہ فرصت کتنی مفید ہے کہ وہ اپنے بچوں کو جس انداز سے محبت نہ دے سکے اب وہ اس کمی کو اپنے بچوں کی اولاد کے ساتھ پوری کرسکتے ہیں۔

تربیت کے مختلف اسلوب

محبت کے اظہار کے لیے آپ اپنی صوابدید (حالات‘ صحت‘ ماحول‘ فاصلے) کے مطابق تدابیر متعین کرسکتے ہیں اور تعلق بڑھا سکتے ہیں۔

  • براہِ راست تعلق: اظہارِ محبت اور شفقت کے لیے براہ راست تعلق کی حسبِ ذیل صورتیں ہوسکتی ہیں: اسکول لانا اور لے جانا‘ ہوم ورک میں تھوڑی بہت مدد‘ بچوں کے دوستوں سے دل چسپی‘ اسکول کے معمولات پہ خوش دلی سے بات چیت‘ شام کو ہلکی پھلکی تفریح‘ ہفتہ وار مجلس‘ کارکردگی پہ انعام (چاہے معمولی ہی ہو)‘ بچوں کی باتوں کو توجہ سے سننا‘ حوصلہ افزائی‘ شاباشی دینا___ محبت و شفقت کی بنیاد ہیں۔

دوسرے شہر میں رہنے والے بچوں کے ساتھ فون کے ذریعے بات کرنا‘ کوئی دلچسپ بات جو بچے کو یاد رہے‘ گاہے بگاہے ان کو خطوط‘ ای میل‘ تصاویر بھیجنا‘ اور اُن سے خصوصی طور پر خط اپنے ہاتھ کی ڈرائنگ‘ تصویر کا تقاضا کرنا‘ باہم دلوں کو قریب رکھنے کا باعث بنے گا۔ بچوں کے ارسال کردہ خطوط اور اشیا کو امانت سمجھ کر محفوظ رکھیں گے تو بڑے ہونے پر یہی چیزیں لازوال اور سچی خوشی کا باعث بنیں گی۔

  • تحفے تحائف دینا : یہ ایک عظیم الشان عمل ہے جس سے محبتیں پروان چڑھتی ہیں۔ اگر بچے کو لازمی ضرورت کی چیز خرید کر تحفہ میں دی جائے تو سونے پہ سہاگہ ہے‘ خصوصاً وہ چیز جو بچے کے والدین خرید کر دینے کی استعداد نہ رکھتے ہوں۔ بچوں کے ہاتھ میں رقم دینے کے بجاے اسکول / کالج کی لازمی ضرورت کی چیزخرید کر دینا ان کے اور ان کے والدین کے دلوں میں قدرو منزلت بڑھا دے گی۔
  • مشاغل میں دل چسپی: بچوں کے ساتھ مل کر کچھ تخلیقات عمل میں لائی جائیں۔ اگر آپ ترنم کے ساتھ گاسکتے ہوں‘ دستکاری‘ سلائی یا لکڑی کا کوئی ہنر جانتے ہوں تو اپنے ان پیارے بچوں کو ایسے مشاغل سے روشناس کرایئے۔ اس طرح کے مشاغل میں بچوں کو شریک کرنے سے ان کی شخصیت پر بہت مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ شخصیت کی تعمیر میں آپ کا یہ ہنر یادگار حیثیت اختیار کرجائے گا۔ قریب رہنے والے‘ بیرون شہر یا بیرونِ ملک رہنے والے بچوں سے جب بھی رابطہ ہو‘ ان کے ساتھ ہر ملاقات کو یادگار بنانے کا خصوصی پلان ہونا چاہیے۔ ہفتہ وار‘ ماہانہ‘ ششماہی یا سالانہ‘ جب بھی ملاقات ہو‘ بزرگ والدین کا نقش بچے اپنی عمر کے ساتھ ساتھ مضبوط تر اور حسین تر اور یادگار بناتے جائیں۔
  • ذوق مطالعہ کی حوصلہ افزائی:بچوں کو پڑھ کر سنانا ایک انتہائی دل چسپ عمل ہے۔ اپنے بچپن کی کتابیں ان کو پڑھنے کے لیے دی جائیں یا ان کے والدین کے بچپن میںزیراستعمال رہنے والی کتابوں کو مل کر پڑھنے پڑھانے میں خاص مزہ ہے۔ بچوں کو بھی پڑھنے کی تلقین کی جائے۔ اس سے تلفظ‘ روانی عبارت‘ لہجہ اور تقریر کی مشق ہوگی۔
  • ماضی کی یادیں اور تجربات:بچوں کو اپنے ماضی کی دل چسپ کہانیاں اور واقعات سنائیں‘ اپنے محلے اور شہر کے خاص کرداروں کا اور ماحول کا تذکرہ کریں۔ دور رہنے والے بچوں کو اپنی آواز میں کہانی‘ نظم‘ باہم بچوں کی مجلس‘ بات چیت کو ریکارڈ کر کے بھیجا جائے یا ویڈیو فلم بنا لی جائے۔ اپنے بچپن اور جوانی کے تجربات کی روشنی میں بچوں کی عمر کے مطابق گفت و شنید کی جائے۔ اپنی ناکامیوں اور نقصانات کو واضح کریں کہ ان کی کیا وجوہات تھیں۔ بچوں سے سوال کیا جائے کہ اگر ان کے ساتھ ایسا ہوتا تو وہ کیا کرتے؟ بچوں کی ذہنی استعداد جاننے کا یہ بہترین ذریعہ ہے اور ان کی رہنمائی کرنے کا بھی۔
  • شخصیت کی تعمیر: جب بھی موقع ملے بچوں کی عمر اور ذہنی استعداد کے مطابق ان کے ساتھ کھیلا جائے۔ ان کے بنائے ہوئے گھروں میں مہمان بن کر جایا جائے۔ فٹ بال‘ لوڈو‘ کیرم اور اندرون خانہ کھیلوں میں شریک ہوا جائے۔ بچوں میں ہار جیت کا صحیح تصور پیدا کیا جائے اور اعلیٰ ظرفی اور دوسروں کی کامیابی پہ خوش ہونے کی تربیت کی جائے۔

بچے ننھے ہوں یا نوجوان‘ ان کو بولنے اور اپنا ما فی الضمیربیان کرنے کا پورا موقع دیا جائے۔ انہماک اور توجہ سے بات سننا‘ بچے کی شخصیت پہ مثبت اثرات مرتب کرتا ہے۔ بچوں میں یہ ظرف اور حوصلہ پیدا کیا جائے کہ جب ایک بچہ بات سنا رہا ہو تو دوسرا بچہ اس میں مخل نہ ہو۔

ہر عمر کے بچوں کے ذاتی رجحانات آپ کے علم میں ہونے چاہییں۔ ہر بچہ آپ کو اپنا رازداں ساتھی سمجھے۔ یقین کیجیے اگر آپ اپنے ان معصوم بچوں کے رازداں ساتھی بن گئے‘ ان کے ننھے منے دکھ اور سکھ آپ کے دل میں ارتعاش اور ولولہ پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو یہ پھول مرجھانے سے بچ جائیں گے۔

اپنے بیٹے اور بیٹی کے بچوں سے دلی محبت پیدا کرنے کا ایک کارگر نسخہ یہ ہے کہ ان کے والدین کو اچھے الفاظ سے یاد کریں۔ یہ نہ ہو کہ بچے کوا پنے دکھوں کی داستان (اپنی اولاد کی نافرمانیوں کے قصے) سنانے لگیں۔ ننھے بچوں کے دل میں ان کے والدین کی عزت و توقیر بڑھانا آپ کے لیے ہی نافع ہے۔ خصوصاً بہو اور داماد کے بارے میں۔

بچوں کو ترجیحات کے تعین کا احساس دلانا ایک اہم فریضہ ہے‘ یعنی کس وقت کون سا کام اہم ہے‘ کون سا بچہ کس عمر میں ہے‘ اُس کے لیے کیا اہم ہے۔ اس ضمن میں نماز‘ قرآن‘ اسلامی لٹریچر کی طرف توجہ دلانا‘ ان کی نگرانی کرنا‘ بچوں میں باہم مسابقت کرانا اور انعام دینا جیسے امور اہم ہیں۔ پیارومحبت سے تعلیمی مدارج اور کارکردگی کے بارے میں پوچھنا‘ مشکل میں آسانی تلاش کرکے دینا‘ بچوں کے تعلیمی رجحانات کا اور دیگر مشاغل کا بنظر غائر جائزہ لینا اور ان کے والدین کے ساتھ گفت و شنید کرنا اور مسائل کا حل تلاش کرنا‘ ترجیحات کے تعین میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

  • گہریلو امور میں دل چسپی لینا: اگر والدین اور بچوں میںکوئی تنازعہ ہوجائے‘ (تعلیم‘ روزگار یا شادی کے معاملے میں) تو غیر جانب داری سے حالات کا جائزہ لینا اور بچے کے مؤقف کو ٹھنڈے دل سے سننا اور والدین اور بچوں کے درمیان مفاہمت کی راہ تلاش کر کے دینا ’بزرگ والدین‘ کا فرض ہے۔
  • بچیوں سے خصوصی لگاؤ: لڑکیوں کی تعلیم و تربیت اور ان کو شایستگی اور رکھ رکھائو سکھانا خصوصی توجہ چاہتا ہے۔ بچیوں کے رجحانات کا ان کی عمر کے مطابق خیال رکھا جانا چاہیے۔ بچیوں کی جذباتی عمر ایک مضبوط‘ بااعتماد شخصیت کا سہارا چاہتی ہے۔ لڑکیاں قاہرانہ نظر سے زیادہ محبت و شفقت اور رحمت کی نظر کی طلب گار ہوتی ہیں۔ بزرگوں کا دستِ شفقت ان کی شخصیت کی تکمیل کرتا ہے۔

چند احتیاطیں

کچھ معاملات اور باتیں ایسی بھی ہیں جن سے پرہیز کرنا چاہیے۔

  • کہلانے پلانے میں بے اعتدالی: ’بزرگ والدین‘ کو اپنے بچوں کی نسبت ان کے بچوں کو کھلانے پلانے‘ ہر وقت کچھ نہ کچھ دینے میں لطف آتا ہے۔ لیکن بعض اوقات یہ معاملہ خرابی کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ بچوں کو ان کی عادتیں خراب کرنے میں آپ کا کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے۔ قریب رہنے والے بچے اور دُور رہنے والے بچوں میں یہ فرق بھی ہوتا ہے کہ قریب رہنے والے بچوں کی عادات‘ مزاج‘ گھریلو ماحول اور روز مرہ کے اُتار چڑھائو سے آپ واقف ہوتے ہیں۔ عقل مندی کا تقاضا یہ ہے کہ بچوں کے والدین خصوصاً والدہ نے ان کے کھانے پینے کا جو معمول بنایا ہے اس میں خلل واقع نہ ہو۔ ماں سے بڑھ کر کوئی نہیں جانتا کہ بچے کو کس وقت‘ کتنا اور کیا کھانے کو دیا جائے۔ ضروری نہیں کہ جو چیزیں آپ اپنے بچپن میں کھاتے تھے یا اپنے بچوں کو بے دریغ کھلاتے تھے‘ ان کے لیے بھی مناسب ہوں۔
  • والدین کو بے وقعت کرنا:بچوں کے قلب و نظر میں ان کے والدین کو بے وقعت کرنا ایک اخلاقی گراوٹ ہے۔ خصوصوصاً بہو یا داماد کے بارے میں منفی طرزعمل اختیار کرنا‘ ان کی گستاخیوں یا نافرمانیوں کو بچوں کے سامنے زیربحث لانا‘ یا بچوں کے ذریعے اپنی کسی حق تلفی یا رنجش کا انتقام لینا‘ اپنے پائوں پہ کلہاڑی مارنا ہے۔ بچے ایسے لوگوں کی ہرگز قدر نہیں کرتے جو ان کے والدین کے بارے میں منفی سوچ رکھتے ہوں۔ بہواور داماد کا آپ سے ’صہر‘ کا رشتہ ہے مگر ان کے حوالے سے بچوں کے ساتھ آپ کا ’نسب‘ کا رشتہ ہے۔ اپنے نسب کے بارے میں حددرجہ حساس اور محتاط رویہ اسی صورت ممکن ہے جب آپ ان کے والدین کو عزت و توقیر سے نوازیں گے۔
  • رویے میں فرق: گھروں میں جہاں ایک سے زیادہ بیٹے بیٹیاں موجود ہوتے ہیں‘ ان کے بچوں کے ساتھ بڑوں کا رویہ بھی قابلِ غور ہے۔ جس بیٹے سے ماں باپ خوش ہیں‘ اس کی بیوی بھی پیاری لگتی ہے‘ اور اسی لحاظ سے اُس کے بچے بھی دادا دادی کے دُلارے ہوتے ہیں۔ دوسری طرف بہت سی بہوئوں میں سے کسی سے کسی خاص رشتہ داری یا نسبت یا کوئی اور وجہ بہوئوں کے درمیان تفریق کا باعث بنتی ہے‘ اور پھر بچے بھی خواہ مخواہ خاندانی سیاست کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ رویہ بھی غیرمناسب ہے۔ ساس سسر (خصوصاً ساس کو) گھریلو معاملات میں عقل و دانش کا ثبوت دینا چاہیے۔ اسی طرح دامادوں کے ساتھ یا نواسے نواسیوں کے ساتھ معاملہ ہوتا ہے۔ لگائو اور محبت اپنی جگہ‘ مگر معاملات مبنی برعدل اور یکساں ہونے چاہییں۔
  • بے جا طرف داری: ایک اہم معاملہ جو عموماً گھروں میں بے چینی کا باعث بنتا ہے‘ بیٹی کی اولاد کے سامنے بیٹوں کی اولاد یا اس کے مخالف معاملے میں ترجیح اور افراط و تفریط ہے۔ ماموں‘ پھوپھی یا چچا‘ تایا کے بچوں میں دُوری‘ منافرت‘ بلاوجہ مسابقت، ’شریکے‘ کا احساس پیدا کرنا‘ بزرگوں کے طرزعمل کا شاخسانہ ہوسکتا ہے۔ کسی ایک داماد یا بہو کی بے جا حمایت‘ طرف داری بچوں پر بھی برے اثرات ڈالتی ہے۔
  • توھین آمیز رویہ :عموماً دادی کی طرف سے اس طرح کے جملے ’میرا بیٹا تو بہت اچھا تھا‘ جب سے تمھاری ماں آئی ہے…‘ سن کر بچے ہرگز اپنی دادی سے الفت محسوس نہیں کرسکتے۔ ان سے لازماً اجتناب کیا جائے۔
  • اپنی رائے پر اصرار اور ضد:اگر بچوں کی تربیت کے معاملے میں ’بزرگ والدین‘ کی رائے بچوں کے والدین سے مطابقت نہ رکھتی ہو تو بزرگوں کو زیادہ اعلیٰ ظرفی اور وسعت قلبی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اختلاف کی صورت میں والدین کی خواہشات کے پیش نظر اپنی رائے سے دست بردار ہوجانا چاہیے‘ تاہم اولاد کو بھی ادب و احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے خواہ مخواہ اور بے جا ضد نہ کرنی چاہیے اور درست بات کو تسلیم کرنا چاہیے۔ بعض اوقات بچے کا نام رکھنے سے لے کر جو مخالفت شروع ہوتی ہے تو بچوں کے رشتے کرنے تک برقرار رہتی ہے۔ بچوں کے معاملات میں فیصلہ اور حتمی رائے بہرحال اُن کے والدین کا حق ہے۔

بعض ’بزرگ والدین‘ رشتوں ناطوں کے معاملے میں ایسا رویہ بنا لیتے ہیں جس سے اپنی اولاد اور بچوں کو باغی تو بنایا جا سکتا ہے‘ اپنا حامی نہیں۔ یہ طرزعمل سخت نقصان دہ غیر شرعی اور قابلِ گرفت ہے۔ رشتے ناطے کرنے کی ذمہ داری بہرحال اپنے والدین کی ہی ہوتی ہے۔ اپنی رائے دینا‘اپنے تجربات اور دلائل کی بنا پر کچھ اصرار کرنا آپ کا حق ہے مگر جبر کرنا‘ ضد سے اپنی اہمیت کو کیش کرانا‘ بچوں کی شادیوں میں رخنے ڈالنا‘ خوشی سے شریک نہ ہونا‘ دل میں رنجش رکھنا‘ قطع تعلق کرلینا یا دھمکی دینا سخت معیوب ہے اور ’بزرگ والدین‘ کے شایانِ شان ہرگز نہیں ہے۔

  • منفی طرزِعمل : اگر آپ نے بچوں کے دلوں میں اپنی اہمیت اُجاگر کرنے کے لیے کوئی ایسا قدم اٹھایا کہ جس کام سے بچے کے والدین منع کرتے ہوں اور آپ نے چوری چھپے اُس کو موقع دیا‘ مدد کی‘ پھر چھپانے کے طریقے بتائے تو آپ نے اپنی نظروں میں بھی اور بچوں کی نظروں میں بھی خود کو گرا لیا۔ یہ طرزعمل جتنا بچوں کے لیے نقصان دہ ہے اُس سے کہیں زیادہ آپ کی شخصیت کے لیے باعث وبال ہے۔ ہاں‘ یہ امر قابلِ تعریف ہے کہ آپ اپنے بچوں کو اُس کام میں مدد دیں‘ تعاون کریں جس کو بچے کے والدین مشکل سمجھ کر اُن کو کرنے نہیں دیتے اور آپ اُس کو اپنے تجربے سے کروا لیتے ہیں۔ بچوں میں خود اعتمادی پیدا کرنے کے لیے آپ کیا کیا چھوٹے بڑے کام کرسکتے ہیں‘ اس پہ غور کیا کیجیے۔
  • بچوں کو مشتعل کرنا:بچوں کو ہر وقت دوسروں کے سامنے نظمیں‘ تقریریں وغیرہ سنانے پہ مجبور نہ کریں۔ بچے کی ذہنی اور قلبی کیفیت ہر وقت ایک جیسی نہیں ہوسکتی۔ ہر ملاقات پر ان کو کتابیں سنانے یا ان کو پڑھنے پر مجبور کرنا دل میں تنگی اور انقباض پیدا کرتا ہے۔ ہر وقت ہر کام‘ ہرکھیل‘ہر واقعہ‘ کہانی‘ لطیفہ یا ایک ہی جیسا طرزِعمل (ہر بچے کے ساتھ) مناسب نہیں ہوتا۔ اگر آپ کو بچوں سے قلبی تعلق پیدا کرنا ہے تو جبر سے یہ کام نہیں ہوتا۔ یہ پورے صبروثبات کا متقاضی ہے۔ بچوں کو بلاوجہ قابو میں لانے کی کوشش کرنا ان کو مشتعل کرنا ہے۔
  • بچوں میں امتیاز برتنا :اپنے پوتے پوتیوں‘ نواسے نواسیوں میں کسی ایک سے کبھی ایسی بات نہ کیا کیجیے کہ ’یہ تو سب سے ہوشیار ہے‘ ذہین ہے‘ یہ میرا فرماں بردار ہے‘ یہ تو اپنے باپ کی طرح فرماں بردار ہے اور یہ اپنے باپ یا ماں کی طرح ہمیشہ سے ضدی اور گستاخ ہے‘۔ اپنے ان بچوں کی کامیابیوں پہ یکساں خوشی کا اظہار کیجیے۔ اپنی کسی بیٹی یا بیٹے کی حد درجہ محبت میں آکر ان کے بچوں کے ساتھ ہمیشہ نرم رویہ رکھنا اور کسی دوسری اولاد کے بچوں کے ساتھ معاندانہ رویہ‘ ان کی کامیابیوں اور خوشیوں میں دل کے پورے افراح کے ساتھ شریک نہ ہونا سخت ناانصافی ہے۔ یقین کیجیے اللہ تعالیٰ نے آپ سے اس رعیت کے بارے میں سوال کرنا ہے۔ جذبات‘ احساسات‘ خوشی‘ غمی اور مالی و اخلاقی طور پر سب کے ساتھ انصاف کرنا آپ کے اجر و ثواب کو قائم رکھے گا۔ کسی بچے کو خوب بڑھانا اور کسی کی اہمیت کو گھٹانا اپنے خاندان کی دیواروں میں شگاف ڈالنے کے مترادف ہے۔ اپنے دل کے میلان یا دوسروں کی طرف سے اُکسانے پہ بچوں کی صلاحیتوں کو گھٹانا بڑھانا اپنی عزت و توقیر کم کرنے کے مترادف ہے۔ باہم بچوں میں رقیبانہ اور حاسدانہ جذبات پیدا کرنا ایک بہت بڑا اخلاقی عیب ہے۔
  • بے جا خودنمائی :اپنی جوانی کی غیراخلاقی سرگرمیوں کو فخر سے بچوں کو بتانا حد درجہ حماقت ہے‘ یا پھر اپنے کارناموں کو نمک مرچ لگاکر پیش کرنا کہ بچے جان جائیں کہ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ بچہ فطرت کے قریب ہوتا ہے۔ وہ سچ اور جھوٹ کا ادراک کرلیتا ہے اگرچہ اُس کو اس کے اظہار کا طریقہ نہ آتا ہو۔ ہر بات میں اپنی تعریف کرنا‘اپنے گن گانا‘ ہر وقت دوسروں پہ خود کو ترجیح دینا‘ شیخی بگھارنا‘ درحقیقت اپنی کمزور شخصیت کا اظہار ہے۔
  • ننہیال ددہیال کا فرق رکہنا :لڑکوں کو لڑکیوں پہ ترجیح دینا‘ یا ننھیال /ددھیال والوں کی برائیاں کرنا‘ یا بچوں کا ننھیال/ددھیال والوں سے قلبی تعلق برداشت نہ کرنا‘ لڑکیوں کی پے درپے پیدایش سے دل تنگ ہونا اور ان کے مقابلے میں لڑکے کی آئوبھگت کرنا‘ لڑکیوں کے والد کو بے چارہ‘ بوجھ کے تلے دبا ہوا جیسے احساسات دلانا‘ ایک طرح کا گناہ میں ملوث ہونا ہے۔ لڑکیوں کی پیدایش پہ انقباض محسوس کرنے والوں کی مذمت قرآن پاک میں کی گئی ہے۔
  • خواہ مخواہ کا رعب ڈالنا:بزرگوں کو اپنی بزرگی اور مقام و مرتبے کا احساس دلانے کے لیے رعب ڈالنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔ سلام کروانے کے لیے بچوں پہ سختی کرنا کوئی اعلیٰ اخلاق کی مثال نہیں۔ اعلیٰ اخلاق تو یہ ہے کہ آپ خود بڑھ کر بچوں کو سلام کریں‘ محبت سے‘ پیار سے‘ اور یہی سنت رسول اللہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ بچے آپ کو وہی کچھ لوٹائیں گے جو آپ ان کو پہلے عطا کریں گے۔

حضوؐر کا بچوں سے طرزِ عمل

حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے اسوۂ کامل ہیں‘ ہمیشہ اسے پیش نظر رکھیے۔

بچوں کے حوالے سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طرزِعمل انتہائی مشفقانہ تھا۔ سیرت رسولؐ کے مطالعے سے یہ بات روشن ہو کر ہمارے سامنے آتی ہے کہ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم بچوں سے محبت ہی نہیں کرتے تھے بلکہ ان کی عزت و توقیر کا بھی پورا خیال رکھتے تھے۔ ان کی  عزت نفس کو پوری اہمیت دیتے تھے۔ ان کے جذبات و احساسات کو پامال نہیں کرتے تھے۔

بحیثیتِ والد‘ اور نانا کے آپؐ کا طرزِعمل ہمارے لیے روشن مثال ہے۔ اپنے دوست احباب کے چھوٹے ننھے بچے‘ راستہ چلتے ہوئے‘ اپنی ازواج مطہرات کے ساتھ آئی ہوئی ان کی اولاد‘ دُور و نزدیک کے قرابت دار بچے‘ اجنبی بچے‘ غرض بچوں سے حضوؐر کی محبت ایسی تھی گویا کہ ان کی اپنی اولاد ہو۔ بچوں کو گود میں بٹھاتے‘ کندھے پہ سوار کرتے‘ نماز میں بچوں کو اٹھا لیتے‘      منہ چومتے‘ غمگین بچوں کا دل بہلاتے‘ بچوں کو تحفہ دیتے‘ غرض اپنی دلی محبت کا اظہار ہر ممکن طریقے سے کرتے‘ اور ساتھ ہی تعلیم و تربیت میں بھی کوئی کمی نہ آنے دیتے۔ بے تکلفی سے باتیں کرتے اور ان کی سنتے تھے۔ حضور اکرم محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

جنت میں ایک گھر ہے جسے ’دارالفرح‘ (خوشیوں کا گھر) کہا جاتا ہے۔ اس میں وہ لوگ داخل ہوں گے جو بچوں کو خوش رکھتے ہیں ۔(کنزالعمال)

اس دور میں جب کہ ہر مسلمان غفلت و بے ہوشی کے عالم میں زندگی گزار رہا ہے۔ نابالغ بچوں کی شخصیت ایسی ہے جس کے بارے میں وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ اللہ کی نظر میں ناپسندیدہ نہیں ہیں۔ جب تک بچہ نابالغ ہوتا ہے‘ معصوم ہوتا ہے۔ ان سے اس احساس کے ساتھ ہی رحمت و شفقت کی جائے تو یقینا ہمارے دلوں میں اللہ تعالیٰ سے قرب کا احساس بیدار ہوجائے گا۔ ایک بڑے سے بڑے دین دار آدمی سے بہرحال ایک معصوم بچہ اللہ کی نظر میں زیادہ پیارا ہے۔

بچوں کو خوش رکھنے کے بے شمار طریقے ہیں۔ ہر فرد اپنی استعداد و استطاعت کے مطابق اُن کو خوش رکھ سکتا ہے اور اپنی آیندہ نسل کے دلوں میں اپنی محبت کے نقوش جاگزیں کرکے     اپنی عاقبت کا سامان کر سکتا ہے اور اپنے لیے صدقہ جاریہ کا اہتمام کرسکتا ہے۔

دعا ایک لازمی امر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۂ فرقان میں دعا سکھائی:

رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا (۲۵:۷۴) اے ہمارے رب‘ ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اور ہم کو پرہیزگاروں کاامام بنا۔

اس دعا میں ’متقین کا امام‘ بننے کی خصوصی درخواست سکھائی گئی‘ یعنی وہ نسل جو ہم پیچھے چھوڑ کر جارہے ہیں۔ وہ ’متقین‘ میں سے ہو___ اور ہم بحیثیت ’راعی‘ کے رعیت چھوڑ کر جا رہے ہیں۔

بچوں کو اس بات کا احساس دلانا چاہیے اور ان کی عادت بنانی چاہیے کہ وہ اپنے بزرگوں کے لیے ہمیشہ دعاگو رہیں‘ نیز فوت شدہ بزرگوں کے لیے دعائے مغفرت کرتے رہیں۔ ان کی نیکیوں کو یاد کرنا‘ کروانا اور دعا کرنا ایک اہم نکتہ ہے۔

ہمارے ہاں والدین کے حوالے سے تو بہت لٹریچر موجود ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت کے حوالے سے اپنا فریضہ کس طرح ادا کریں‘ لیکن غور کا مقام یہ ہے کہ خاندان میں ’بزرگ والدین‘ کا کردار وقت کے ساتھ ساتھ کس طرح مضبوط و مستحکم ہونا چاہیے کہ وہ اپنے ’بیاج‘ کو خسارے سے بچاسکیں۔ ایک جوڑے کی اولاد کا دائرہ وقت اور عمر کے ساتھ ساتھ وسیع ہوتا جاتا ہے۔ کل تک جو صرف ماں باپ تھے‘ دادا دادی اور نانا نانی بن جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ زندگی دیتا ہے تو ان کے سہرے کے پھول بھی کھلتے دیکھتے ہیں۔ اس طرح نئے خاندان بھی وسیع ترخاندان بن جاتے ہیں۔ بزرگ والدین کے مؤثر کردار اور خاندان کے استحکام کے پیش نظر ہی یہ تحریر لکھی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ اُمت مسلمہ کے ہر والدین کو اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کی توفیق عطافرمائے۔آمین!