بچوں کی تربیت کے حوالے سے جب بات ہوتی ہے تو عموماً والدین پر آکر ختم ہوجاتی ہے‘ جب کہ ان کی تربیت میں دوسرے رشتے داروں کا بھی کچھ نہ کچھ حصہ ہوتا ہے۔ یہ حصہ یہ رشتہ دار غیرشعوری طور پر ادا کرتے ہیں۔ دادا دادی اور نانا نانی کا اپنا ایک کردار ہوتا ہے۔ انھیں ہم ’بزرگ والدین‘کہہ سکتے ہیں۔ یہ تربیت میں اپنے حالات کے لحاظ سے کچھ نہ کچھ کردار ضرور ادا کرتے ہیں‘ لیکن اس کی ضرورت ہے کہ یہ کردار شعوری طور پر ادا کیا جائے اور ’بزرگ والدین‘ اس باب میں اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں کہ اپنے بچوں کی تربیت اور پرورش کے بعد اب انھیں اپنے بچوں کے بچوں کی بھی تربیت میں حصہ لینا ہے۔
ان بنیادی رشتوں کا کیا کردار ہو؟موجودہ طرزِ معاشرت اور ترجیحات کی تبدیلی نے ان کا کردار وقت کے ساتھ ساتھ بہت کچھ کمزور کر دیا ہے۔ ان رجحانات کو ساتھ لے کر چلتے ہوئے ’بزرگ والدین‘ کا کردار متعین کرنے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ اسلامی تہذیب میں یہ رشتے ’شجرسایہ دار‘ کی حیثیت سے مستحکم و مضبوط مقام رکھتے ہیں۔ اسی مقام کی پاس داری ہمارا مطمح نظر ہے۔ بچے جنت کے پھول‘ گھر کی رونق اور زندگی میں رعنائیوں کے پیام بر ہوتے ہیں۔ والدین کے لیے ان کے قہقہے‘ معصوم باتیں‘ سکون اور اطمینان کا باعث بنتے ہیں‘ جب کہ دادا دادی‘ نانا نانی کے لیے ان کا والہانہ تعلق ماضی کی حسین یادوں سے وابستہ رکھنے کا سبب بنتا ہے ؎
اگر کوئی شعیب آئے میسر
شبانی سے کلیمی دو قدم ہے
اس کے مصداق ’مستقبل کے والدین‘ کہلانے والے ان بچوں کو مناسب تربیت اور توجہ مل جائے تو تعمیرملت کا سامان کر کے نئی تاریخ رقم کرتے ہیں۔ بصورتِ دیگر یہی بچے‘ خاندان اور ملک و ملت کے لیے کلنک کا ٹیکہ بن جاتے ہیں۔
آج سے کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے جب فارغ اوقات میں اور بالخصوص شام کے سائے پھیلتے ہی بچے آج کی طرح ٹیلی ویژن‘ کیبل یا انٹرنیٹ سے دل بہلانے کے بجاے دادا دادی‘ نانا نانی کے پاس جمع ہو جاتے اور ان سے پرستان کی پریوں اور کوہ قاف کی حیرت انگیز شہزادیوں کے بارے میں کہانیاں سنا کرتے تھے جن کا اختتام ہمیشہ کسی اخلاقی قدر سے وابستہ ہوتا تھا۔ الف لیلیٰ‘ راجا رانی‘ ٹارزن‘ عمروعیار‘ حاتم طائی کی کہانیاں بچوں کو کچھ نہ کچھ سبق دے کر ہی ختم ہوتیں۔ اسی طرح تاریخِ اسلام کے سچے واقعات‘ صحابہ و صحابیات رضوان اللہ علیہم کی روشن مثالیں دے کر بچوں کو نیک اور صالح فطرت سے قریب تر رکھا جاتا۔ غرض‘ ہر گھر میں اپنی علمی استعداد کے مطابق اور ماحول کے پیش نظر بچوں سے ذہنی‘ قلبی اور جسمانی قرب و تعلق بزرگوں کے ساتھ قائم رہتا تھا۔ دین دار گھرانوں میں نماز‘ چھوٹی سورتیں‘ دعائیں یاد کروانا انھی ’بزرگ والدین‘ کا کام ہوتا تھا۔ لیکن آج یہ سب کچھ ایک خواب بن چکا ہے۔ غربت‘ جہالت‘ بے شمار مصروفیات اور مشینی زندگی نے ہماری معاشرتی اور سماجی زندگی کے حُسن کو گہنا دیا ہے۔ ’بزرگ والدین‘ کی حکیمانہ باتیں اور دادی‘نانی کی لوریاں پس پردہ چلی گئی ہیں۔ ٹی وی‘ انٹرنیٹ اور کیبل کی آمد نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی ہے۔
’بزرگ والدین‘ تنہائی کا شکار ہیں۔ معمولاتِ زندگی سے عملی طور پر معطل ہوجانے کا احساس ان کو نفسیاتی و جسمانی عوارض میں مبتلا کر رہا ہے۔ بچوں کے والدین دن بھر گھر سے باہر رہنے کے بعد تھکے ہارے گھروں کو لوٹتے ہیں تو وہ بھی انٹرنیٹ اور کیبل میں راحت کا سامان تلاش کرتے ہیں‘ یا پھر دیگر سرگرمیاں یا ذمہ داریاں ان کو گھریلو ماحول سے دُور رکھتی ہیں۔ بچوں پہ ہوم ورک‘ ٹیوشن‘ نصابی کتب کا بوجھ اس قدر زیادہ ہوتا ہے کہ وہ گھر کے افراد میں مل جل کر بیٹھنے اور کچھ کہنے سننے کی حسرت دل میں لیے سو جاتے ہیں اور موجودہ دور کا المیہ ایک تلخ حقیقت بن کر سامنے آرہا ہے کہ والدین اور اولاد میں خلیج تیزی سے وسیع ہوتی جارہی ہے۔ (اس میں والدین کا ’بزرگ والدین‘ کے ساتھ اور بچوں کا اپنے والدین کے ساتھ) ترجیحات کے تعین‘ حالات و ماحول اور ذمہ داریوں کے بوجھ کو دیکھا جائے تو والدین کی حالت قابلِ رحم نظر آنے لگتی ہے (قطع نظر اس کے کہ یہ سب کچھ ان کا خودساختہ ہے یا یہ حقیقت میں ذمہ داریوں کا بوجھ ہے)۔ بہرحال ان حالات میں اپنی معاشرتی اور سماجی زندگی کے رکھ رکھائو اور اخلاقی اقدار کی عمارت کو قائم رکھنا ہی ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
’بزرگ والدین‘ (دادا دادی‘ نانا نانی) بننے سے پہلے ایک اہم مرحلہ اور بنیادی رشتہ ’قانونی والدین‘ (ساس‘ سسر) کا ہے۔ قانون ایسی پابندی ہے جسے انسان سزا یا نقصان کے خوف سے نبھاتا ہے یا پھر محبت سے (محبت سے اُسی صورت میں‘ جب کہ انسان کو ہر پہلو سے اُس میں مفاد اور خیرنظرآتا ہو)۔ قانونی رشتے بھی اسی اصول کے تحت جڑے رہتے ہیں ورنہ وہ ٹوٹ جاتے ہیں۔ قانونی (in-law) رشتے کا مغربی تصور انسانوں کو دلی محبت‘ لگائو‘ سمجھوتہ اور ایثار کرنے میں مانع ہے۔ بہت سے الفاظ‘ بہت سے معاملات‘ رشتوں کی چاشنی کا حقیقی حسن غارت کر دیتے ہیں۔ اُردو زبان ان معاملات میں بہت خوب صورت پہلو رکھتی ہے۔ جہاں Grand ‘Uncle ‘ Ant جیسے نامکمل اور بے اثر رشتوں کے بجاے ہر رشتے کی مکمل شخصیت کا ادراک‘ فہم اور قدرومنزلت کا بھرپور اظہار موجود ہے: دادا‘ دادی‘ نانا نانی‘ تایا‘ چچا‘ پھوپھی‘ خالہ‘ ماموں۔ پھر اُس کے ساتھ منجھلے‘ چھوٹے‘ بڑے کا سابقہ لاحقہ رشتے کو مزید پُرتاثیر بنا دیتا ہے۔ اسی طرح سسرالی رشتوں کا تشخص دو خاندانوں کے باہم تعلقات کو نکھار دیتا ہے۔
وَھُوَالَّذِیْ خَلَقَ مِنَ الْمَآئِ بَشَرًا فَجَعَلَہ‘ نَسَبًا وَّصِہْرًاط(الفرقان ۲۵:۵۴)
اور وہی ہے جس نے پانی سے ایک بشر پیدا کیا‘ پھر اس سے نسب اور سسرال کے دو الگ سلسلے چلائے۔
معاشرے میں سسرال (ساس‘ سسر) کے درجے کو پہنچ جانا‘ خصوصاً کسی لڑکی کا ساس بننا ایک انتہائی اہم معاملہ ہے۔ یہ ایک ایسے دور کا آغاز ہے جہاں نفسیات بدل جاتی ہیں‘ توقعات بڑھ جاتی ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاںانسانوں کے اصل روپ‘ اس کی انصاف پسندی‘ باطنی رویے اور اعلیٰ ظرفی کی پہچان ہوتی ہے۔ کسی لڑکی کے سسرال خصوصاً ساس نندوں کا کردار ہی یہ حقیقت متعین کرتا ہے کہ وہ بہو یا بھابی کے ساتھ کس قسم کا سلوک و رویہ رکھ کر اور اُسے کون سا مقام دے کر اپنی آیندہ نسل سے کس قسم کے تعلق کو پروان چڑھانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ وہ کھیتی جہاں سے اپنی فصل حاصل کرنا ہے اس کے ساتھ جذباتی‘ معاشرتی‘ سماجی‘ معاشی روابط کیسے ہیں؟ کیا کچھ لینے کی توقعات وابستہ ہیں اور دینے کے لیے بھی کچھ اخلاقی اقدار مدنظر ہیں یا نہیں؟ گھر کی بہو کو جو ماحول میسر ہے جن خوش گوار یا تلخ حالات کا وہ سامنا کرتی ہے اور جن مختلف طبیعتوں سے اُسے نباہ کرنا پڑتا ہے اور جتنی عزتِ نفس کے ساتھ وہ اپنے بچے کی آبیاری کرتی ہے‘ بچہ ان سب اثرات کو لے کر دنیا میں آتا ہے۔ غرض بہو کو جو عزت‘ محبت‘ شفقت ملنی چاہیے وہ نہ دی جائے تو یہ رویہ اپنی آیندہ نسل پہ سراسر ظلم کرنا ہے۔ یہی وہ شجر ہے جس کی کوکھ سے نام و نسب وابستہ ہے۔ لڑکی کے والدین اور اس کے رشتہ داروں کی ہتک‘ تحقیر اورانھیں کم تر جاننے کا ہندوانہ احساس قابلِ گرفت ہے۔
اسی طرح ہمارے معاشرے میں ’داماد‘ تکبر‘ نخوت‘ نازبرداریاں اٹھوانے والا‘ بیوی کے پیارے رشتوں کو پامال کرنے (الا ماشا اللہ) والی عجیب و غریب شخصیت ہوتی ہے۔ داماد کی حددرجہ اہمیت اور بہو کے بنیادی حقوق کی پامالی‘ یہ افراط و تفریط ہمارے معاشرے میں بہت سے مسائل کی جڑ ہے جس نے بے شمار گھرانوں کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔
مشترک خاندانی نظام ہو تو بیٹوں کی اولاد کے ساتھ روابط کا سلسلہ پہلے روز سے ہی براہِ راست شروع ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ایک شہر میں مگر علیحدہ گھر میں رہنے والی اولاد ___ دوسرے شہر میں مکین یا پھر بیرون ملک مقیم اولاد کے ساتھ ’بزرگ والدین‘ اپنا تعلق اور ذمہ داریاں کیسے نبھائیں‘ یہ ہمارا اصل موضوع ہے۔
اولاد کہیں بھی مقیم ہو‘ دُور‘ بہت دُور یا نزدیک بہرحال دل کے پاس ہمیشہ رہتی ہے اور رہنی بھی چاہیے۔ مگر محبت کا جب تک اظہار نہ ہو وہ ایک ایسی شے ہے جو ملفوف ہو۔ حجم اور قیمت میں کتنی ہی زیادہ ہو جب تک ظاہر نہ ہو‘ کسی کام کی نہیں۔ محبت کو چھپائے رکھنا اپنے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کے ساتھ ظلم ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اظہار محبت کی تلقین کی ہے۔ لیکن آج کے مشینی دور میں‘ والدین اپنے بچوں کو بھرپور شفقت و محبت نہیں دے پاتے۔ دادا دادی اور نانا نانی کے پاس یہ فرصت کتنی مفید ہے کہ وہ اپنے بچوں کو جس انداز سے محبت نہ دے سکے اب وہ اس کمی کو اپنے بچوں کی اولاد کے ساتھ پوری کرسکتے ہیں۔
محبت کے اظہار کے لیے آپ اپنی صوابدید (حالات‘ صحت‘ ماحول‘ فاصلے) کے مطابق تدابیر متعین کرسکتے ہیں اور تعلق بڑھا سکتے ہیں۔
دوسرے شہر میں رہنے والے بچوں کے ساتھ فون کے ذریعے بات کرنا‘ کوئی دلچسپ بات جو بچے کو یاد رہے‘ گاہے بگاہے ان کو خطوط‘ ای میل‘ تصاویر بھیجنا‘ اور اُن سے خصوصی طور پر خط اپنے ہاتھ کی ڈرائنگ‘ تصویر کا تقاضا کرنا‘ باہم دلوں کو قریب رکھنے کا باعث بنے گا۔ بچوں کے ارسال کردہ خطوط اور اشیا کو امانت سمجھ کر محفوظ رکھیں گے تو بڑے ہونے پر یہی چیزیں لازوال اور سچی خوشی کا باعث بنیں گی۔
بچے ننھے ہوں یا نوجوان‘ ان کو بولنے اور اپنا ما فی الضمیربیان کرنے کا پورا موقع دیا جائے۔ انہماک اور توجہ سے بات سننا‘ بچے کی شخصیت پہ مثبت اثرات مرتب کرتا ہے۔ بچوں میں یہ ظرف اور حوصلہ پیدا کیا جائے کہ جب ایک بچہ بات سنا رہا ہو تو دوسرا بچہ اس میں مخل نہ ہو۔
ہر عمر کے بچوں کے ذاتی رجحانات آپ کے علم میں ہونے چاہییں۔ ہر بچہ آپ کو اپنا رازداں ساتھی سمجھے۔ یقین کیجیے اگر آپ اپنے ان معصوم بچوں کے رازداں ساتھی بن گئے‘ ان کے ننھے منے دکھ اور سکھ آپ کے دل میں ارتعاش اور ولولہ پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو یہ پھول مرجھانے سے بچ جائیں گے۔
اپنے بیٹے اور بیٹی کے بچوں سے دلی محبت پیدا کرنے کا ایک کارگر نسخہ یہ ہے کہ ان کے والدین کو اچھے الفاظ سے یاد کریں۔ یہ نہ ہو کہ بچے کوا پنے دکھوں کی داستان (اپنی اولاد کی نافرمانیوں کے قصے) سنانے لگیں۔ ننھے بچوں کے دل میں ان کے والدین کی عزت و توقیر بڑھانا آپ کے لیے ہی نافع ہے۔ خصوصاً بہو اور داماد کے بارے میں۔
بچوں کو ترجیحات کے تعین کا احساس دلانا ایک اہم فریضہ ہے‘ یعنی کس وقت کون سا کام اہم ہے‘ کون سا بچہ کس عمر میں ہے‘ اُس کے لیے کیا اہم ہے۔ اس ضمن میں نماز‘ قرآن‘ اسلامی لٹریچر کی طرف توجہ دلانا‘ ان کی نگرانی کرنا‘ بچوں میں باہم مسابقت کرانا اور انعام دینا جیسے امور اہم ہیں۔ پیارومحبت سے تعلیمی مدارج اور کارکردگی کے بارے میں پوچھنا‘ مشکل میں آسانی تلاش کرکے دینا‘ بچوں کے تعلیمی رجحانات کا اور دیگر مشاغل کا بنظر غائر جائزہ لینا اور ان کے والدین کے ساتھ گفت و شنید کرنا اور مسائل کا حل تلاش کرنا‘ ترجیحات کے تعین میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
کچھ معاملات اور باتیں ایسی بھی ہیں جن سے پرہیز کرنا چاہیے۔
بعض ’بزرگ والدین‘ رشتوں ناطوں کے معاملے میں ایسا رویہ بنا لیتے ہیں جس سے اپنی اولاد اور بچوں کو باغی تو بنایا جا سکتا ہے‘ اپنا حامی نہیں۔ یہ طرزعمل سخت نقصان دہ غیر شرعی اور قابلِ گرفت ہے۔ رشتے ناطے کرنے کی ذمہ داری بہرحال اپنے والدین کی ہی ہوتی ہے۔ اپنی رائے دینا‘اپنے تجربات اور دلائل کی بنا پر کچھ اصرار کرنا آپ کا حق ہے مگر جبر کرنا‘ ضد سے اپنی اہمیت کو کیش کرانا‘ بچوں کی شادیوں میں رخنے ڈالنا‘ خوشی سے شریک نہ ہونا‘ دل میں رنجش رکھنا‘ قطع تعلق کرلینا یا دھمکی دینا سخت معیوب ہے اور ’بزرگ والدین‘ کے شایانِ شان ہرگز نہیں ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے اسوۂ کامل ہیں‘ ہمیشہ اسے پیش نظر رکھیے۔
بچوں کے حوالے سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طرزِعمل انتہائی مشفقانہ تھا۔ سیرت رسولؐ کے مطالعے سے یہ بات روشن ہو کر ہمارے سامنے آتی ہے کہ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم بچوں سے محبت ہی نہیں کرتے تھے بلکہ ان کی عزت و توقیر کا بھی پورا خیال رکھتے تھے۔ ان کی عزت نفس کو پوری اہمیت دیتے تھے۔ ان کے جذبات و احساسات کو پامال نہیں کرتے تھے۔
بحیثیتِ والد‘ اور نانا کے آپؐ کا طرزِعمل ہمارے لیے روشن مثال ہے۔ اپنے دوست احباب کے چھوٹے ننھے بچے‘ راستہ چلتے ہوئے‘ اپنی ازواج مطہرات کے ساتھ آئی ہوئی ان کی اولاد‘ دُور و نزدیک کے قرابت دار بچے‘ اجنبی بچے‘ غرض بچوں سے حضوؐر کی محبت ایسی تھی گویا کہ ان کی اپنی اولاد ہو۔ بچوں کو گود میں بٹھاتے‘ کندھے پہ سوار کرتے‘ نماز میں بچوں کو اٹھا لیتے‘ منہ چومتے‘ غمگین بچوں کا دل بہلاتے‘ بچوں کو تحفہ دیتے‘ غرض اپنی دلی محبت کا اظہار ہر ممکن طریقے سے کرتے‘ اور ساتھ ہی تعلیم و تربیت میں بھی کوئی کمی نہ آنے دیتے۔ بے تکلفی سے باتیں کرتے اور ان کی سنتے تھے۔ حضور اکرم محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جنت میں ایک گھر ہے جسے ’دارالفرح‘ (خوشیوں کا گھر) کہا جاتا ہے۔ اس میں وہ لوگ داخل ہوں گے جو بچوں کو خوش رکھتے ہیں ۔(کنزالعمال)
اس دور میں جب کہ ہر مسلمان غفلت و بے ہوشی کے عالم میں زندگی گزار رہا ہے۔ نابالغ بچوں کی شخصیت ایسی ہے جس کے بارے میں وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ اللہ کی نظر میں ناپسندیدہ نہیں ہیں۔ جب تک بچہ نابالغ ہوتا ہے‘ معصوم ہوتا ہے۔ ان سے اس احساس کے ساتھ ہی رحمت و شفقت کی جائے تو یقینا ہمارے دلوں میں اللہ تعالیٰ سے قرب کا احساس بیدار ہوجائے گا۔ ایک بڑے سے بڑے دین دار آدمی سے بہرحال ایک معصوم بچہ اللہ کی نظر میں زیادہ پیارا ہے۔
بچوں کو خوش رکھنے کے بے شمار طریقے ہیں۔ ہر فرد اپنی استعداد و استطاعت کے مطابق اُن کو خوش رکھ سکتا ہے اور اپنی آیندہ نسل کے دلوں میں اپنی محبت کے نقوش جاگزیں کرکے اپنی عاقبت کا سامان کر سکتا ہے اور اپنے لیے صدقہ جاریہ کا اہتمام کرسکتا ہے۔
رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا (۲۵:۷۴) اے ہمارے رب‘ ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اور ہم کو پرہیزگاروں کاامام بنا۔
اس دعا میں ’متقین کا امام‘ بننے کی خصوصی درخواست سکھائی گئی‘ یعنی وہ نسل جو ہم پیچھے چھوڑ کر جارہے ہیں۔ وہ ’متقین‘ میں سے ہو___ اور ہم بحیثیت ’راعی‘ کے رعیت چھوڑ کر جا رہے ہیں۔
بچوں کو اس بات کا احساس دلانا چاہیے اور ان کی عادت بنانی چاہیے کہ وہ اپنے بزرگوں کے لیے ہمیشہ دعاگو رہیں‘ نیز فوت شدہ بزرگوں کے لیے دعائے مغفرت کرتے رہیں۔ ان کی نیکیوں کو یاد کرنا‘ کروانا اور دعا کرنا ایک اہم نکتہ ہے۔
ہمارے ہاں والدین کے حوالے سے تو بہت لٹریچر موجود ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت کے حوالے سے اپنا فریضہ کس طرح ادا کریں‘ لیکن غور کا مقام یہ ہے کہ خاندان میں ’بزرگ والدین‘ کا کردار وقت کے ساتھ ساتھ کس طرح مضبوط و مستحکم ہونا چاہیے کہ وہ اپنے ’بیاج‘ کو خسارے سے بچاسکیں۔ ایک جوڑے کی اولاد کا دائرہ وقت اور عمر کے ساتھ ساتھ وسیع ہوتا جاتا ہے۔ کل تک جو صرف ماں باپ تھے‘ دادا دادی اور نانا نانی بن جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ زندگی دیتا ہے تو ان کے سہرے کے پھول بھی کھلتے دیکھتے ہیں۔ اس طرح نئے خاندان بھی وسیع ترخاندان بن جاتے ہیں۔ بزرگ والدین کے مؤثر کردار اور خاندان کے استحکام کے پیش نظر ہی یہ تحریر لکھی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ اُمت مسلمہ کے ہر والدین کو اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کی توفیق عطافرمائے۔آمین!